امی جس روز اسپتال سے گھر آئیں، اپنے ساتھ ایک بہت ہی چھوٹی سی، بالکل گڑیا جیسی مُنی بھی ساتھ لے کر آئیں۔ عمار اور نبیل دونوں دوڑے دوڑے آئے۔ مگر امی کے ساتھ اِن محترمہ کو لیٹا ہوا دیکھ کر اُنھیں بہت غصہ آیا۔ عمار نے پوچھا: ”امی یہ کون ہے؟“
”منی ہے!“ امی نے پیار سے منی صاحبہ کے نرم نرم گالوں پر اُنگلیاں پھیرتے ہوئے جواب دیا تو نبیل صاحب کو بھی اِن مُنی صاحبہ سے امی کا اتنا زیادہ لاڈ پیار دیکھ کر غصہ آگیا۔ اُنھوں نے اپنی ننھی منی بھنویں سکیڑ کر پوچھا: ”کیا آپ نے اِسے بازار سے خریدا ہے؟“
امی ہنس پڑیں۔ کہنے لگیں: ”نہیں بھئی بازار سے نہیں خریدا۔“
”تو کیا اسپتال میں اِس قسم کی مُنیاں بانٹی جاتی ہیں؟“
اب تو امی کا قہقہہ نکل گیا۔ اُنھوں نے بتایا: ”یہ چھوٹی سی گڑیا تو اﷲ میاں نے تمھارے پاس بھیجی ہے۔“
مگر عمار صاحب کو یہ ”پیں پیں“ کرکے روتی ہوئی گڑیا ایک آنکھ نہ بھائی۔ اُنھوں نے مزید اطمینان کے لیے اپنا سوال پھر دہرایا: ”امی! یہ ہے کون؟“
”بھئی تمھاری بہن ہے!“ امی نے کہا۔
”بہن کیوں ہے؟“ عمار نے جھنجلا کر پوچھا۔
”بہن یوں ہے کہ یہ تمھیں ”بھائی جان“ کہا کرے گی۔“ امی نے پیار سے کہا۔
”اچھا؟ تو اِس سے کہیں کہ مجھے بھائی جان کہے۔“ عمار نے کہا۔
”ابھی نہیں کہہ سکتی نا…. جب بڑی ہوگی تب کہے گی۔“ امی نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”امی! یہ کب بڑی ہوگی؟“ عمار نے منھ بسور کر کہا۔
”جب تمھاری عمر کی ہوجائے گی۔“ امی نے دوبارہ پیار سے جواب دیا۔
”امی یہ مجھے کیا کہے گی؟“
اب نبیل صاحب نے بھی بڑے شوق سے پوچھاتو امی نے بتایا: ”یہ تمھیں چھوٹے بھائی جان کہا کرے گی۔“
”آہا…. کتنا مزہ آئے گا!“ نبیل نے خوش ہوکر تالیاں بجائیں۔ مگر عمار کو نبیل کی یہ خوشی بالکل اچھی نہیں لگی۔ عمار صاحب نے نبیل کو ایک تھپڑ جڑ دیا۔ پھر کہا:
”تُم تو بالکل بے وقوف ہو!“
سب نے ایک ساتھ عمار کو ڈانٹا۔ ابو نے، امی نے، یہاں تک دادی نے بھی جوکبھی ڈانٹتی ہی نہیں تھیں۔ ابو نے تو یہ بھی کہا: ”دماغ خراب ہوگیا ہے تُمھارا۔“
مگر عمار صاحب کا دماغ خراب نہیں ہوا تھا۔ اُن کا دماغ خوب کام کر رہا تھا۔ اُنھیں خوب اچھی طرح یاد تھا کہ جب یہ حضرت یعنی نبیل صاحب اسپتال سے امی کی گود میں تشریف لائے تھے، تو اُس دِن بھی عمار کو اِسی قسم کی باتیں بتائی گئی تھیں: ”یہ مُنا ہے۔“
”اِسے اﷲ میاں نے تمھارے پاس بھیجا ہے۔“
”یہ تمھار ابھائی ہے۔“
وغیرہ وغیرہ….لیکن تھوڑی ہی دیر میں عمار میاں کو احساس ہوگیا تھا کہ اِن ”منے میاں“ کو کچھ زیادہ ہی لفٹ مل رہی ہے۔ جو بھی آتا ہے بس انھی کے لیے کھلونے، روپئے پیسے اور مٹھائی وغیرہ لے کر آتا ہے۔ ابو، چچا، ماموں، خالہ، پھپھو سبھی عمار سے زیادہ ”منے میاں“ ہی کو گود میں لیے لیے پھرنے لگے ہیں۔ عمار کو اپنی ”ویلیو“ کم ہوجانے کا کئی روز تک صدمہ رہا۔ کئی بار اُنھوں نے مختلف انداز سے اس کا اظہار بھی کیا۔ مثلاً چچاجان سے پوچھا: ”چچو! اب آپ مجھ کو گود میںکیوں نہیں لیتے؟“
ابوسے سوال کیا: ”ابو آپ دفتر سے آتے ہی منے کو گود میں کیوں اُٹھا لیتے ہیں؟“
امی سے گلہ کیا: ”امی اب آپ مجھے اپنے ساتھ کیوں نہیں سُلاتیں؟“
دادی سے شکوہ کیا: ”دادی! آپ تو ہر وقت بس منے ہی کو لیے بیٹھی رہتی ہیں۔“
ہر مرتبہ اُنھیں اسی قسم کے جوابات ملتے کہ:
”منا چھوٹا ہے نا!“
”بیٹا! اب آپ بڑے ہوگئے ہیں۔ منے کے بڑے بھائی ہیں آپ۔“
”یہ آپ کا چھوٹا بھائی ہے نا!“
”آپ کو بھی تو سب گود میں لیتے ہیں۔ آپ کو بھی تو سب پیار کرتے ہیں۔“
وغیرہ وغیرہ….ہاں اتنا ضرور تھا کہ اِس قسم کے سوالات کے فوراً بعد عمار کو ڈھیروں پیار ملتا۔ انھیں دیر تک گو دمیں اُٹھایا جاتا۔ لیکن اب تمام بڑوں کے پیار کے واحد حق دار عمار میاں نہیں رہ گئے تھے۔ اِس حق میں ”منا“ بھی شریک ہوگیا تھا۔
ارے لو…. ہم یہ بتانا تو بھول ہی گئے کہ…. ایک بڑی حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ جب نبیل صاحب کے خوش ہونے پر عمار میاں نے اُنھیں ایک تھپڑ رسید کرکے اُنھیں ”بے وقوف“ قرار دیا تو نبیل صاحب ذرا بھی نہیں روئے۔ اس کے بجاے کچھ دیر بعد اُنھوں نے اکیلے میں عمار سے پوچھا: ”بھائی جان! میں بالکل بے وقوف کیوں ہوں؟“
تو عمار صاحب نے اُنھیں بزرگانہ انداز سے سمجھایا:
”جب سارے لوگ اِن منی صاحبہ کے لیے کھلونے، مٹھائی اورپیسے ویسے لے کر آئیں گے، تب پتا چلے گا بچُّو!“
اور سچ مچ پتاچل گیا۔ لوگ مبارک باد دینے کے لیے آنے لگے: ”مبارک ہو بھئی…. اﷲ کی رحمت گھر میں آگئی ہے!“
آنے والے مٹھائی اور کھلونے وغیرہ بھی ساتھ لائے۔ اگرچہ ابو اور چچا نے اِس موقع پر کچھ کھلونے عمار اور نبیل کو بھی دِلائے مگر اِن چند کھلونوں سے اِن دونوں کو ویسی خوشی نہیں ہوئی، جیسی پہلے ہوتی تھی۔
شاید دوسرے یا تیسرے دِن عمار اور نبیل کو معلوم ہوا کہ اب اِن مُنی صاحبہ کو ”شمامہ“ کہہ کر پکارا جایا کرے گا۔
”لوجی! اب تو یہ منی صاحبہ ”شمامہ“ ہوگئی ہیں۔ اب یہ یہیں رہا کریں گی۔“
عمار نے اپنے سابقہ تجربے کی روشنی میں نبیل کو بتایا تو نبیل نے فکر مند ہوکر پوچھا: ”یہ سوئیں گی کہاں؟“
”امی کے ساتھ ۔ اورکہاں؟“ عمار نے بڑے اعتماد اور یقین سے جواب دیا۔ پھر ہوا بھی یہی۔ شمامہ صاحبہ وہیں مستقل رہنے بھی لگیں اور امی کے ساتھ سونے بھی لگیں۔
رفتہ رفتہ عمار اور نبیل دونوں نے حالات سے سمجھوتا کرلیا۔ ہوتے ہوتے دونوں نے شمامہ صاحبہ کو ”بہن“ کی حیثیت سے تسلیم بھی کر لیا۔ بلکہ اب تو اِن دونوں کو بہن پر پیار بھی آنے لگا تھا۔ بعض اوقات تو دونوں مل کر اُسے گود میں اُٹھانے کی کوشش بھی کرتے۔ کسی بڑے کی نظر پڑ جاتی تووہ ”ہائیں ہائیں“ کرتا دوڑ پڑتا۔
پھر ہوا یوں کہ شمامہ بھی بڑی ہوگئی۔ عمار اور نبیل اور بھی بڑے ہوچکے تھے اور اِسکول جانے لگے تھے۔ کچھ عرصے بعد شمامہ کا داخلہ بھی اِسکول میں ہوگیا۔ اب تو حالات بہت بدل چکے تھے مگر کبھی کبھی عمار اور نبیل کی شمامہ سے ”پرانی دشمنی“ نئے رنگ میں اُبھر آتی:
”لڑکیاں تو بالکل بے کار ہوتی ہیں۔ کسی کام کی بھی نہیں۔ تُم بھی بالکل بے کار ہو۔ تُم تولڑکی ہو!“
عمار صاحب اظہارِ راے کرتے تو شمامہ جواب میں اپنا مخصوص تکیہ¿ کلام دہراتی: ”جی نہیں!“
پھر لڑکیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کرتی:
”لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ کام کرتی ہیں، جناب صاحب! …. سارے گھر کاکام کرتی ہیں۔“
”بس گھر کے کام کرتی ہیں نا؟“ اب نبیل صاحب بھی اُسے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے بولے: ”لڑکے تو باہر کے بہت سارے کام کرتے ہیں۔ دفترکے کام کرتے ہیں۔ بڑے بڑے افسر بنتے ہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ، فوجی….“
”لڑکیاں بھی یہ سب بنتی ہیں۔“ شمامہ نے بات کاٹ کر کہا: ”اور لڑکیاں تو لیڈی ڈاکٹر اور اِسکول کی مس بھی بنتی ہیں جو لڑکے کبھی بن ہی نہیں سکتے…. اب بولو بچُّو!“
”بس بس…. رہنے دو….اﷲ میاں نے لڑکوں ہی کو بڑے بڑے کاموںکے لیے بنایا ہے۔ لڑکیوں کو تو چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے بنایا ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی تو لڑکے ہی تھے جو بڑے ہوکر نبی ہوئے۔ بھلا کوئی لڑکی بھی بڑی ہوکر نبی بنی؟“ عمار صاحب ایک نئی دلیل لاتے اور شمامہ لاجواب ہوکر روہانسی ہوجاتی۔ اب نبیل صاحب بھی گویا ہوئے: ”اِسی لیے تو لڑکوں کے پیدا ہونے پر لوگ زیادہ خوشیاں مناتے ہیں۔ لڈو بانٹتے ہیں۔ لڑکیوں کے پیدا ہونے پر تو جلیبیاں بانٹی جاتی ہیں۔“
”ایسے کام جاہل لوگ کرتے ہیں۔“
شمامہ غصے میں جواب دیتی تو عمار صاحب کہتے: ”بھئی لڑکے تو بڑے ہو کر امی ابو کے کام آتے ہیں۔ اُنھیں کماکر کھلاتے ہیں۔ لڑکیاں کس کام آتی ہیں؟ وہ تو اُلٹا شادی کے وقت جہیز لے کر چلی جاتی ہیں۔“
اب تو شمامہ رو ہی پڑی۔ وہ سوچنے لگتی…. کیا سچ مُچ اﷲمیاں نے لڑکیوں کو ”بے کار“ بنایا ہے؟ کیا لڑکیاں اِس قابل نہیں تھیں کہ اﷲ میاں انھیں نبی بناتے؟ آخر اُسے کیوں بات بات پر اپنے بھائیوں سے یہ طعنے سننے پڑتے ہیں کہ: ”تُم تو ہو ہی بے کار…. تُم تو لڑکی ہو!“
یہ سوچتے سوچتے ایک دفعہ وہ تکیہ پر مُنھ رکھ کر رونے لگی۔ اتنے میں ابو آگئے اور کہا:
”کیا ہوا میری لاڈلی کو؟“
ابو نے پیار سے پوچھا تو شمامہ نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہا: ”ابو! کیا میں آپ کی لاڈلی ہوں؟“
شمامہ نے روتے ہوئے پوچھا تو ابو ہنس پڑے۔ اُسے پیار کرتے ہوئے کہا: ”لو! بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ میری بیٹی تو سب سے زیادہ میری لاڈلی ہے۔“
”مگر ابو…. بھائی جان اور چھوٹے بھائی تو کہتے ہیں کہ لڑکیاں بالکل بے کار ہوتی ہیں۔ لڑکیوں کے پیدا ہونے پر ماں باپ خوش نہیں ہوتے۔ اﷲ میاں نے بڑے بڑے کاموں کے لیے لڑکوں ہی کو بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تُم تو ہو ہی بے کار….تُم تو لڑکی ہو!….ابو! اﷲ میاں نے لڑکیوں کو نبی کیوں نہیں بنایا؟“
شمامہ نے ایک سانس میں اتنی ساری باتیں کہہ ڈالیں کہ ابو بالکل خاموش ہوگئے۔ شمامہ کوایسا محسوس ہوا کہ جیسے یہ ساری باتیں بالکل صحیح ہیں۔ جب ہی تو ابو بھی چپ ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد ابونے کہا:
”جاو¿ تم مُنھ دھو کر میرے پاس آو¿۔“
شمامہ مُنھ دھو کر واپس آئی تو نبیل اور عمار بھی بلائے جاچکے تھے۔ ابو کہنے لگے: ”مکہ کے مشرک جو ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلّم کے دُشمن تھے، وہ لڑکیوں کو حقیر سمجھتے تھے۔ جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے لڑکیوں کو بہت عزت دی۔ دیکھو! ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلّم کی تو بیٹیاں ہی بیٹیاں تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم اپنی بیٹیوں سے بہت پیار فرماتے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلّم کے ایک فرمان کا مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ جوشخص بیٹیوں کی اچھی پرورش کرے گا، اُن سے پیار کرے گا، وہ جنت میں میرے ساتھ ساتھ ہی داخل ہوگا۔ یعنی بیٹی ہی کی وجہ سے مجھے جنت میں جگہ بھی مل سکتی ہے۔“
شمامہ کو یہ سن کر بہت خوشی ہوئی۔ اُس کا سر اِس بات پر فخر سے اُونچا ہوگیا کہ اُس کے ابو اُس کی پرورش کرنے کی وجہ سے جنت میں جگہ پاسکیں گے۔ ابو کہہ رہے تھے:
”اﷲ میاں نے لڑکیوں کو نبی نہیں بنایا۔ مگر دُنیا کے سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام کو چھوڑ کر، جو دنیا کے سب سے پہلے انسان بھی ہیں، ہر نبی کی امی ضرور تھیں اور لڑکیاں ہی بڑی ہوکر امی بنتی ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابو نہیں تھے، مگر امی تو اُن کی بھی تھیں۔ اﷲ میاں نے لڑکوں کو تو عام کاموں کے لیے بنایا ہے مگر لڑکیوں کو ایک بہت بڑے اور بہت خاص کام کے لیے بنایا ہے۔ وہ کام یہ ہے کہ جب وہ بڑی ہو کر امی بنیں تو لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کی بہت اچھی پرورش کریں، بہت اچھی تربیت کریں۔ لڑکے اگر بڑے ہوکر دفتروں اور کارخانوں میں کام کر تے ہیں، کاغذ، لوہے، پلاسٹک یا شیشے وغیرہ کی چیزیں بناتے ہیں تولڑکیاں بڑی ہوکر امی بنتی ہیں۔ دُنیا میںنئے نئے آنے والے منوں اور مُنیوں کو انسان بناتی ہیں۔ اچھا انسان۔ وہ معمولی، معمولی چیزیں نہیں بناتیں۔ قوم بناتی ہیں۔ بھئی تم خود دیکھ لو تمھاری امی تم سے کتنی محبت کرتی ہیں۔ کتنا پیار کرتی ہیں۔ آخروہ بھی تو کبھی لڑکی ہی تھیں۔ اﷲ میاں نے ماں کا مرتبہ بھی باپ سے زیادہ رکھا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ لڑکیوں کی عزت اﷲ میاں کے ہاں لڑکوں سے زیادہ ہے۔“
یہ کہہ کر ابو نے عمار اور نبیل کے کان پکڑے اور کہا:
”اگر تم لوگ اپنی بہن کو حقیر سمجھو گے، اُس کی عزت نہیں کروگے، اُس سے پیار نہیں کروگے تو تم اچھے مسلمان نہیں کہے جاو¿ گے۔“
ابو کی یہ باتیں سُن کر شمامہ بھی شیر بلکہ شیرنی ہوگئی۔ دونوں بھائیوں کو للکار کر بولی:
”اب بولیں…. کیا میں بالکل بے کار ہوں؟“
دونوں بھائیوں نے شرمندگی سے سر جھکایا اور مری ہوئی آواز میں جواب دیا: ”نہیں…. تُم تو لڑکی ہو!“
٭….٭