’ یہ لگا چھکا۔“ میں نے نعرہ لگایا۔
گیند ہوا کے دوش پر اڑتی ہوئی باؤنڈری لائن پار کر گئی۔ آج کھیلنے میں ہمیں خصوصی طور پر خیال رکھنا پڑ رہا تھا۔ اشرف صاحب کی گاڑی آج سڑک پر ہی پارک ہوئی تھی۔ مجھے خود پر تو اعتماد تھا مگر میں طاہر کی طرف سے ڈر رہا تھا کہ کہیں وہ کوئی ایسا شارٹ نہ مار دے۔ جس کی وجہ سے ہمیں کوئی مشکل اٹھانی پڑے۔
دل ہی دل میں آج ہم سب اشرف صاحب کو خوب کوس رہے تھے کہ انہیں یہ ہی جگہ ملی تھی گاڑی کھڑی کرنے کے لیے۔ اسی پریشانی میں مجھ سے صحیح کھیلا بھی نہ گیا۔
ظہر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا۔ میچ کو وہیں روک کر ہم نے اپنے قدم مسجد کی طرف بڑھا دیئے۔ نماز کے بعد ہم واپس گھر کی جانب ہو لیے۔ ہمیں کچھ شور سا محسوس ہوا۔ خدا خیر کرے۔ گلی میں پہنچتے ہی میں ٹھٹھک کر رک گیا۔ میرے دوسرے ساتھی جو کہ میرے ساتھ کرکٹ کھیل رہے تھے اب اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔
یہ ان ہی شیطانوں کا کام ہے۔ کوئی اور جگہ نہیں ملی ہے انہےں کرکٹ کھیلنے کے لیے ۔ یہاں گلی میں ہی آکر کھیلیں گے۔ اشرف صاحب ہاتھ نچا نچا کر مجمع سے مخاطب تھے۔
طاہر بھی پیچھے سے آکر ٹپک پڑا۔ اشرف صاحب کے تیور دیکھ کر پہلے تو اس نے حیرت کا اظہار کیا۔
”یار ہوا کیا ہے اور تمہیں کیا ہوا؟ “ طاہر نے جب مجھے جھنجھوڑا تو گویا میں ہوش میں آگیا۔
”ہاں…. ہاں…. نہیں…. “ میں گڑبڑا کر بولا۔
” یہ کیا ہاں ہاں…. نہیں نہیں لگا رکھی ہے۔“ وہ اشرف صاحب کی گاڑی کے شیشے کو دیکھو ۔“ میں نے کہا۔
” کیا ہوا شیشہ کو؟ …. نہیں یہ کیا ہوا؟ یہ کس نے کیا؟“ ٹوٹے ہوئے شیشہ کو دیکھ کر طاہر کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ اب تک کسی کی بھی نظر ہم پر نہیں پڑی تھی اور ویسے بھی ہم ذرا اوٹ میں تھے۔
اشرف صاحب تو یقینا ہم پر ہی شک کریں گے…. میں تو نو دو گیارہ ہی ہو جاؤں تو بہتر ہے۔ “ اس سے پہلے کہ طاہر بھاگتا ۔ میں نے اس کا کالر مضبوطی سے پکڑ لیا۔
” طاہر بھاگنے کی کوشش فضول ہے بغیر سامنا کیے۔ جان چھڑانا ممکن نہیں ۔ ویسے بھی یہ ہماری شرارت نہیں ہے۔ پھر ہم کیوں ڈریں؟“
”تم اکیلے چلے جاؤ۔بڑے بہادر بنتے ہو ناں تم…. “ طاہر نے کہا۔ میں کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ اشرف صاحب نے ہماری جھلک دیکھ لی۔
”ہاں بھئی ہاں لڑکو! اب چھپ کر دیکھ رہے ہو۔ باہر آؤ…. “اشرف صاحب نے ہماری طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
ہم نے اسی میں عافیت جانی کہ باہر نکل آئیں۔
”ڈریں ہمارے دشمن…. ہم تو آہی رہے تھے۔ “ طاہر نے باآواز بلند کہا تاکہ سب سن لیں۔
”تم لوگ گاڑی کا شیشہ توڑ کر بھاگے ہو آج تمہاری خیر نہیں ہے۔ “قدوائی صاحب کو تو ویسے بھی ہر معاملے میں بولنے کی عادت تھی۔
”ہیلو انکل! ہم کہےں نہیں بھاگے بلکہ…. “ طاہر نے نجانے کس خیال کے تحت بات ادھوری چھوڑی ۔
”’بلکہ …. کیا بلکہ …. کیسا بلکہ….“ سب ایک آواز میں بولے۔
”نماز کے لیے گئے تھے۔“ میں نے طاہر کا مطلب سمجھتے ہوئے خود ہی بتا دیا تھا۔ وہ کوئی بھی کام کرتا تو کسی کو نہ بتاتا۔
اب یہ نماز وغیرہ کا بہانہ نہیں چلے گا۔ پورا محلہ گواہ ہے یہاں پر تم لوگ ہی کرکٹ کھیل رہے تھے اور یہ شیشہ بھی گیند سے ٹوٹا ہے۔ “اشرف صاحب تپ کر بولے۔ ”پورے چھ ہزار روپے کا خرچہ ہے۔ یا تو خرچہ دو یا پھر میرا شیشہ لگوا دو۔ وگرنہ…. “اشرف صاحب بات ادھوری چھوڑ کر خاموش ہوئے تو میں نے بھڑک کر کہا۔
”وگرنہ کیا کرلیں گے آپ کہہ جو دیا یہ شیشہ ہم نے نہیں توڑا ہے۔ ہمارے نماز پڑھنے جانے کے دوران کسی نے یہ شرارت کی ہے۔ “
” کس نے کی ہے؟“ اشرف صاحب نے کہا۔
”ہمیں کیا معلوم؟ “ جواب طاہر کا تھا۔
تم لوگ مجھے ٹوپیاں پہنانا بند کرو۔ نقصان بھرتے ہو یا شام کو تمہارے والدین کام سے آئیں گے تو ان کو تمہاری شکایت لگاؤں۔ “اشرف صاحب جھلا گئے تھے۔
شکایت لگانے کی دھمکی پر ہمارے اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔
ہم دونوں کا ماتھے پر پسینہ آچکا تھا۔ ہمیں ہر حال میں سزا ملنی تھی۔ اشرف صاحب کے ساتھ پورا محلہ تھا۔ جب کہ ہماری آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز تھی۔
٭….٭
اب پورا محلہ ہمیں لعنت ملامت کررہا تھا۔ میرے تو طاہر سے بھی زیادہ پسینے چھوٹ رہے تھے۔ اچانک نجانے طاہر کس خیال کے تحت پاس کی عمارت میں گھس گیا۔ اس عمارت میں پچاس کے قریب فلیٹ تھے۔
تھوڑی دیر بعد اس کی واپسی ہوئی۔ لوگوں کی نگاہیں اسی پر مرکوز تھیں۔
”ادھر آؤ۔“ طاہر نے اشارہ سے مجھے بلایا۔
”کیا ہوا؟“
”شیشہ کا پتہ چل گیا ہے کہ کس نے توڑا ہے؟“ طاہر مسکراتے ہوئے بولا۔
” کس نے….؟“ میں نے بے تابی سے پوچھا ”اور تمہیں کیسے پتہ چلا؟“
”رحیم بابا تمہیں پتہ ہے ہر وقت چھت پر ہوتے ہیں اور نظریں ان کی گلی میں۔ میں نے جب انہیں مسئلہ بتایا اور پوچھا کہ ۵۳:۱ یا اس سے آگے پیچھے گلی میں کوئی آیا تھا تو اس نے بتایا کہ ایک لڑکا اس گلی میں منڈلا رہا تھا۔ جس نے لال رنگ کی شرٹ پہنچی ہوئی تھی۔“
میں نے اپنا ہاتھ ماتھے پر مارتے ہوئے کہا۔
”بدھو آدمی اس سے ہمیں کیا پتہ چلے گا کہ مجرم کون ہے؟“
شیشہ کا پتہ چل گیا تھا کہ کس نے توڑا تھا لیکن ……..!!
”بات تو پوری سنو۔ اس نے چشمے بھی پہنے ہوئے تھے اور چشموں میں ایک باریک سی زنجیر بھی لگی ہوئی تھی جو کہ چشمے کو نیچے گرنے سے روکتی ہے۔“
” اوہ…. “ میں حیرت سے چلا اٹھا۔
”ہاں چور وہی ہے جو تم سوچ رہے ہو۔ یہ حرکت عامر کی ہی ہے۔ اس طرح کے چشمے اس محلے میں ہی نہیں بلکہ پورے ظفر ٹاؤن میں وہی پہنتا ہے۔“
”اور اسے ہمارے ساتھ خدا واسطے کا بیر ہے ، وہ ہمیشہ ہمیں پھنسانے کی ترکیبیں کرتا رہتا ہے۔ “
میں محلے والوں کی طرف مڑا جو ہمیں یوں کھسر پھسر کرتے دیکھ کر شدید بے چینی محسوس کررہے تھے۔
”مجرم کا پتہ چلا گیا ہے۔ میرے ساتھ چلے آؤ۔“ میں نے بلند آواز سے اعلان کیا تو وہ سب ہماری طرف ٹوٹ پڑے۔
” کون ہے؟“
”کہاں ہے؟“
” یہ ہمیں بیوقوف بنا رہے ہیں۔“
” ان کی باتوں میں نہ آنا۔“
اس قسم کی آوازوں پر ہم نے قطعاً کان نہ دھرے اور یہ کہہ کر عامر کے گھر کی جانب قدم بڑھا دیئے۔
جس کو اپنے نقصان کی فکر ہے۔ وہ چلاآئے، بعد میں ہم ذمہ دار نہ ہوں گے۔ ہمیں امید تھی کہ اور کوئی آئے نہ آئے اشرف صاحب ضرور آئیں گے۔“
مگر ان کے ساتھ مزید دس، بارہ افراد بھی تھے۔ میرے تو پیر ہی زمین پر نہےں ٹک رہے تھے۔ آج تو اس عامر کے بچے سے سارے اگلے پچھلے بدلے چکا کے رہوں گا۔میں نے مٹھیاں بھنچتے ہوئے سوچا۔
عامر کی گلی آچکی تھی۔ اس سے پہلے کہ ہم اس کے گھر کے پاس پہنچتے، طاہر رک گیا۔ پیچھے آنے والا قافلہ بھی رک گیا تھا۔
” کیا ہوا؟ رک کیوں گئے؟ “ ہم نے طاہر کے کان میں سرگوشی کی۔
” نہیں میں ایسا نہےں کروں گا۔ “ طاہر نے ایسے کہا جیسے وہ ہپناٹائز ہوا ہو۔
”اب آگے بھی بڑھو۔ “قدوائی صاحب طنزیہ انداز سے بولے۔
” مجھے معلوم تھا یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے۔ “ منیر صاحب نے لقمہ دیا۔ جبکہ میں طاہر کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
”انکل! گاڑی کا شیشہ میں نے توڑا ہے۔ اس کا جرمانہ ادا کرنے کے لیے میں تیار ہوں۔ “ طاہر نے کہا تو میری چیخ نکل گئی۔
”یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو؟“
” مجھے پہلے ہی شک تھا یہ سب ڈرامہ بازی ہو رہی ہے۔ شیشہ تم میں سے ہی کسی نے توڑا ہے اور اب اس شک کو تم نے دس لوگوں کے سامنے یقین میں بدل دیا۔“
اشرف صاحب نجانے اور کیا کیا کہہ رہے تھے مگر وہ پیسے جو کہ اس نے سائیکل خریدنے کے لیے جمع کر رکھے تھے۔ اشرف صاحب کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔
دو دن تک تو میں بالکل بھی طاہر سے نہ بولا۔ مگر جب تیسرے دن وہ مجھے منانے آیا تو مجبوراً مجھے اس سے ہاتھ ملانا ہی پڑا۔ کیوں کہ ہمارے نبی نے تین دن سے زیادہ ناراض ہونے منع فرمایا ہے۔ میں تمہاری جانب ہاتھ بڑھا¶ں گا مگر ایک شرط پر کہ تم مجھے بتاؤ کہ تم نے یہ الزام اپنے سر کیوں لیا؟ حالانکہ تم بے قصور تھے۔“
اسکول کے ہاف ٹائم میں ہماری یہ ملاقات ہو رہی تھی اور عامر بھی ہماری ہی کلاس میں پڑھتا تھا۔ گزشتہ دو دن سے وہ بھی بہت کھلا کھلا تھا۔ ہمیں یوں ناراض دیکھ کر وہ بغلیں بجا رہا تھا۔
میری بات سن کر طاہر نے ایک ٹھنڈی آہ بھر ی اور کہا ” مجھے معلوم تھا اس کے علاوہ تم میری جان بخشی نہیں کرو گے لیکن تم بھی یہ بات کسی کو نہیں بتاؤ گے۔ حتیٰ کہ عامر کو بھی۔ وعدہ کرو۔“
مجبوراً مجھے وعدہ کرنا پڑا۔ ”تمہیں تو معلوم ہے عامر کے والد کتنے سخت مزاج ہیں انہیں اگر عامر کی اس حرکت کا پتہ چلتا تو وہ عامر کی ہڈی پسلی ایک کردیتے۔ دوسری بات اچانک اس وقت میرے ذہن میں یہ آئی کہ عامر کے والد ایک معمولی مزدور ہیں وہ چھ ہزار بھلا کہاں سے لائیں گے۔ مہینہ کی آخری تاریخوں میں ان کے گھر میں خود فاقے چلتے ہیں۔ بس میرے دوست یہ بات سوچ کر میرے قدم آگے نہیں بڑھ سکے۔“
منظر کا پس منظر سن کر میری آنکھوں میں سچ مچ آنسو آگئے۔ ”میرے دوست تم واقعی عظیم ہو۔ میں تمہاری عظمت کو سلام کرتا ہوں۔ میرے ہاتھ خود بخود اوپر اٹھتا چلا گیا۔
٭….٭
اسی شام کو میں طاہر کے گھر میں بیٹھا اس سے گپ شپ کر رہا تھا کہ دروازے کی گھنٹی کی آواز آئی۔
طاہر نے جا کر دروازہ کھولا ۔ جب کافی دیر بعد اس کی واپسی نہ ہوئی تو مجھے حیرت ہوئی اور میں اس کی تلاش میں دروازہ تک آیا۔
منظر کافی حیران کن تھا۔ طاہر اور عامر گلے لگ رہے ہیں۔ عامر کی آنکھوں میں باقاعدہ آنسو تھے۔
” مجھے معاف کر دو میرے دوست میں سخت غلطی پر تھا۔“ جب کہ پاس ہی اشرف صاحب ایک نئی نویلی سائیکل لیے کھڑے تھے۔
” مجھے معاف کرنا بیٹے میں تمہیں سمجھ نہیں پایا۔ “ طاہر کی نظر مجھ پر پڑی تو اس کی آنکھوں میں شکوہ تھا۔
