۔ نوجوان طلبہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ امت مسلمہ کے بہتر مستقبل کے لیے کوششیں کریں اور اپنے مظلوم بھائیوں، بہنوں کا سہارا بنیں

وولر جھیل کے کنارے ایک گاﺅں ”زدری منس“ میں 1929ءکو ایک بچہ کی پیدائش ہوئی۔ جس کا نام کشمیری بزرگ سید علی ہمدانی کی مناسبت سے سید علی گیلانی رکھا گیا۔ نوجوانی ہی میں علامہ اقبالؒ کی شاعری اور مولانا مودودیؒ کے لٹریچر سے متاثر ہوئے۔ اسی دوران ڈوگرہ راج کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ 1989ءتک ہر الیکشن میں کامیاب ہوتے رہے اور کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے لیے سرگرداں رہے۔ اس کے بعد بھارت کی مخالفانہ پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کل حریت کانفرنس کے نام سے ایک وسیع اتحاد قائم کیا، جس کے آپ اب تک چیئرمین ہیں۔ کئی بار گرفتار ہوئے اور قاتلانہ حملوں کے باوجود آپ کے موقف میں ذرا بھر لغزش نہ آئی۔ ان سے براہ راست انٹرویو کا اعزاز چند ایک ہی کو نصیب ہوا ہے۔ جس میں اب ماہنامہ ”ساتھی“ کی شمولیت یقینا بڑے فخر کی بات ہے۔

سید علی گیلانی کا یہ انٹرویو ادارہ ساتھی کے خاص شمارے ”عالم اسلام نمبر“ میں شائع ہوا تھا۔ جسے ساتھی کے قارئین کے لیے دوبارہ شامل اشاعت کیا ہے۔

نمائندہ ساتھی: اپنے بچپن کے بارے میں کچھ بتائیے کہ کیسا گزرا؟
سید علی گیلانی: (ہنستے ہوئے) بچپن جیسا سب کا گزرتا ہے، ہمارا بھی ویسا ہی گزرا ہے! بچپن کے بارے میں کوئی زیادہ اختلاف نہیں ہوا کرتا۔ بچے بچپن میں کھیل کود کرتے ہیں، ہم بھی کیا کرتے تھے۔ بچے بچپن میں ایک دوسرے کے ساتھ نوک جھونک کرتے ہیں، ہم بھی کیا کرتے تھے۔

نمائندہ ساتھی: اچھا! بچپن کا کوئی ایسا واقعہ جو یاد رہ گیا ہو؟
سید علی گیلانی: (ذہن پر زور ڈالتے ہوئے) ہاں! جس بستی میں، میں نے جنم لیا، اس کے دائیں طرف، بائیں طرف اور پیچھے پہاڑ ہیں۔ عقب کی جانب جو پہاڑ ہیں ان میں زیرہ بہت پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے گاﺅں اور اس پہاڑ کے درمیان ایک نہر بہتی ہے، جس کا نام نہر زنگیر ہے۔ اس پہاڑ اور گاﺅں کو ملانے کے لیے اس کے اوپر ایک پل بنایا گیا۔ تو یہی کوئی نو یا دس سال کی عمر میں، میں اپنے دوستوں کے ساتھ پہاڑ پر زیرہ لینے گیا۔ واپسی پر میرے ہاتھ میں زیرہ کی گڈی تھی اور ہم پُل کے اوپر سے جارہے تھے کہ اچانک میں نہر میں گر پڑا۔ عین اسی وقت نہر کے قلی پُل پر سے گزر رہے تھے۔ ان میں سے ایک قلی ”محمد سبحان ڈار“ نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ، نہر میں چھلانگ لگا دی اور بحفاظت مجھے باہر نکال لایا۔ جب سے لے کر اب تک جتنے بھی مشکل مراحل آئے ہیں۔ اللہ رب العالمین نے میری حفاظت کی ہے اور ان شاءاللہ آیندہ بھی کرے گا۔

نمائندہ ساتھی: اس کی کوئی مثال دیں گے۔
سید علی گیلانی: جی ہاں! اکتوبر ۶۹۹۱ءمیں، میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ سرینگر میں ایک گھر میں رہائش پذیر تھا۔ ایک رات ہم پر راکٹ کا زبردست حملہ کیا گیا۔ حملہ اس قدر شدید تھا کہ اس کی آواز سے پورا سرینگر گونج اٹھا۔ پورا شہر اس حملے سے جاگ اُٹھا تھا لیکن ہم لوگ اپنے کمرے میں مزے سے سوئے ہوئے تھے۔ شاید یہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت تھی، چونکہ میں دل کا مریض ہوں اگر یہ آواز سن لیتا تو اس سے دل کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ بھارتی فوج نے بجلی بھی بند کر دی تھی۔ ہم لوگ اٹھے تو سارا کمرہ کھڑکی کے ٹوٹے شیشوں سے بھر چکا تھا۔ ایسے میں ہم اندھیرے میں ان شیشوں پر سے گزر گئے لیکن کوئی خراش تک نہ آئی۔ اب تک مجھ پر ایک درجن سے زائد قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر بار میری حفاظت کی ہے۔

نمائندہ ساتھی: پچھلے دنوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہونے والی گستاخی کس چیز کی طرف اشارہ ہے؟
سید علی گیلانی: ڈنمارک اور دیگر یورپی ممالک جس طرح ہمارے پیارے نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی اقوام اسلام سے شدید نفرت کرتی ہیں اور ان اقوام میں اسلام کے خلاف تعصب کا لاوا پک رہا ہے۔

نمائندہ ساتھی: اس حوالے سے امت مسلمہ کے کردار پر آپ کیا کہتے ہیں؟
سید علی گیلانی: اس معاملے پر پوری اُمت مسلمہ نے جس طرح امت واحدہ ہونے کا ثبوت دیا ہے اور اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے، یہ ہمارے لیے زندگی کی علامت ہے۔ خاص طور سے آپ نوجوان بچوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اب بھی اسلام پر مرمٹنے کے لیے تیار ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت ان کے دل سے نہ ایمان نکال سکتی ہے اور نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت۔ اسی چیز کی ہمیں پرورش کرنی ہے، اس کی حفاظت کرنی ہے۔

نمائندہ ساتھی: آپ کے والد کس مزاج کے تھے؟
سید علی گیلانی: اللہ تعالیٰ والد محترم کی مغفرت فرمائے…. آمین۔ وہ بہت سخت مزاج تھے۔ لیکن ایک چیز جو اُن میں نمایاں تھی کہ وہ بچوں کی تعلیم میں بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ اس کے باوجود کہ وہ خود پڑھے ہوئے نہ تھے، وہ خود مفلسی میں زندگی گزارتے لیکن ہماری تعلیم کے لیے وہ تمام اخراجات پورے کرتے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔

نمائندہ ساتھی: بچپن میں آپ کون سا کھیل کھیلا کرتے تھے؟
سید علی گیلانی: آپ کو حیرت ہوگی کہ مجھے کھیل کا بہت کم شوق رہا ہے۔ میں صرف پڑھنے سے دلچسپی رکھتا تھا۔ جس میں کبھی کبھار سستی بھی کر جاتا تھا۔ اسی شوق کی وجہ سے میں 21 سال استاد بھی رہا ہوں۔

نمائندہ ساتھی(کریدتے ہوئے): پھر بھی کوئی تو کھیل کھیلتے ہوں گے۔
سید علی گیلانی: ہاں! کبھی کبھار کبڈی اور گلی ڈنڈا کھیلا کرتا تھا لیکن کھیل سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی۔
(بالآخر ہم نے گیلانی صاحب کو کھیلنے پر مجبور کر ہی دیا)

نمائندہ ساتھی: کشمیر کے اسکولوں میں کس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے؟
سید علی گیلانی: سرکاری اسکولوں میں تو ہندستان کا نصاب چلتا ہے لیکن مسلمانوں کے تحت چلنے والے اسکولوں میں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کو اسلامی معلومات اور ماڈرن ٹیکنالوجی دونوں سے آگاہی دی جائے، کیوں کہ اسلام صرف پوجا پاٹ یا عبادت کا دین نہیں بلکہ اسلام ایک مکمل نظام زندگی رکھتا ہے۔

نمائندہ ساتھی: آج کل کی صورت حال میں نوجوانوں کا کیا کردار ہونا چاہیے؟
سید علی گیلانی: نوجوان طلبہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی تعلیمی زندگی پر خصوصی توجہ دے کر اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ وہ دین کا کام کرسکیں۔ امت مسلمہ کے بہتر مستقبل کے لیے کوششیں کرسکیں اور اپنے مظلوم بھائیوں، بہنوں کا سہارا بن سکیں۔

نمائندہ ساتھی: ساتھی کے قارئین کے لیے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے۔
سید علی گیلانی: (ساتھی رسالہ ہاتھ میں اُٹھاتے ہوئے) ساتھی کا نام تو بڑا ہی پیارا نام ہے۔ ہمیں ساتھی رہنا چاہیے دین کی خدمت میں، ساتھی رہنا چاہیے برائی کو ختم کرنے اور نیکی پھیلانے میں، ساتھی رہنا ہے اُمت مسلمہ کے اتحاد کے لیے، ساتھی بننا چاہیے عصبیت مٹانے میں اور ساتھی ہونا چاہیے کھیل کود کے ساتھ ساتھ پڑھائی میں بھی۔

نمائندہ ساتھی: ساتھی رسالہ کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے؟
سید علی گیلانی: اگر ایک رسالہ نیکی کے کاموں میں ساتھی کی تلاش کے لیے مدد کرے تو ہماری دلی ہمدردیاں اس کے ساتھ ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اس رسالے کو اللہ تعالیٰ پاکستان کی نئی نسل کی رہنمائی کے لیے اہم کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
آئیے ہم بھی دعا کریں کہ مقبوضہ کشمیر جلد از جلد بھارتی قبضے سے آزاد ہو اور ہمیں گیلانی صاحب سے انٹرویو کے لیے سعودی عرب نہ جانا پڑے۔ آمین۔

انٹرویو: رفیع الدین
مرتب: بلال حنیف

٭….٭