ایک روز ایک فوجی لڑائی کے میدان سے چھٹی لے کر اپنے گھر واپس جا رہا تھا ۔ راستے میں وہ ایک گاٰئوں کے قریب سے گزرا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ سپاہی بھوکا تھا۔ وہ گائوں کے سرے پر ایک مکان کے سامنے گیا اور کچھ کھانے کے لیے مانگا۔ گھر والوں نے کہا کہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ لہٰذا وہ سپاہی آگے بڑھ گیا۔
وہ دوسرے گھر پر ٹھہرا اور وہی سوال کیا۔ یہاں بھی گھر والوں نے وہی جواب کہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر ذرا ٹھہر کر آئو تو شاید کچھ انتظام ہوجائے۔
تب سپاہی نے سوال کیا ”تمہارے پاس ہنڈیا تو ضرور ہوگی؟“
گھر والوں نے کہا ”بے شک ہمارے پاس ہنڈیا تو موجود ہے۔“
پھر اس نے معلوم کیا ”تمہارے پاس پانی بھی ہو گا؟“
” ہاں پانی جتنا چاہو لے لو۔“ اسے جواب ملا۔
سپاہی بولا ” ہنڈیا کو پانی سے بھرو اور چولہے پر چڑھا دو۔ہمارے پاس شوربہ تیار کرنے کا پتھر موجود ہے۔ ابھی کام بن جائے گا۔“
” کیا کہا؟“ ان میں سے ایک شخص نے تعجب سے پوچھا۔ ”شوربہ بنانے کا پتھر ! وہ کیا چیز ہے؟“
”بس ایک خاص قسم کا پتھر ہے، جسے پانی مےں ابالنے سے مزے دار شوربہ تیار ہوجاتا ہے۔“
وہ سب لوگ اس عجیب چیز کو دیکھنے کے لیے جمع ہو گئے۔ گھر کی مالکہ نے ایک بڑی ہنڈیا کو پانی سے بھرا، آگ سلگائی اور دیگچی چولھے پر چڑھا دی۔ سپاہی نے اپنے تھیلے میں سے ایک پتھر نکالا۔ وہ معمولی قسم کا پتھر تھا، جیسے اکثر سڑکوں پر ادھر ادھر لڑھکتے نظر آتے ہیں۔ وہ پتھر اس نے ہنڈیا میں ڈال دیا اور کہا ” بس اب اسے ابلنے دو۔ پھر دیکھو کہ کیا بنتا ہے۔ لہٰذا وہ سب چولہے کے آس پاس بیٹھ گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کب پانی گرم ہو کر ابلنے لگتا ہے۔
سپاہی نے دریافت کیا کہ تمہارے پاس نمک تو ضر ور ہوگا۔ مٹھی بھر نمک اس میں ڈال دو۔ “ عورت نے کہا۔ ” بہت اچھا۔“اور یہ کہہ کر وہ نمک کا ڈبہ اٹھا لائی۔ سپاہی نے خو د ہی ایک مٹھی بھر کر نمک پانی میں ڈال دیا۔ پھر سب لوگ انتظار کرنے لگے۔ پھر سپاہی نے کہا ” اگر چند گاجریں ہوں تو شوربے کا ذائقہ اچھا ہوجائے گا۔“
”ہاں۔“ عورت بولی۔ ” گاجریں تو ہمارے کھیت میں اگتی ہیں۔“
اور یہ کہہ کر اس نے چند گاجریں ٹوکری میں سے نکال لیں۔ سپاہی نے ترکاریوں سے بھری ہوئی ٹوکری دیکھ لی تھی۔ پانی میں گاجریں ڈال دینے کے بعد سپاہی نے اپنی بہادری کے قصے بیان کرنے شروع کیے اور ایک دم رک کر پوچھا۔ ” تمہارے پاس آلو بھی تو ہوں گے؟“
گھر کی مالکہ بولی ” ہاں آلو بھی ہیں۔“
”تو پھر اس میں ڈال دو۔ شوربہ ذرا گاڑھا ہوجائے گا۔“
بوڑھی عورت نے آلو بھی ہنڈیا میں ڈال دیئے۔ سپاہی نے کہا ” اگر ذائقے کو زیادہ لطیف بنانا چاہو تو پیاز بھی کتر کر ملا دو۔“
کسان نے اپنے چھوٹے لڑکے سے کہا ”منے، ذرا پڑوسی کے گھر جائو اور تھوڑی سی پیاز مانگ لائو۔ وہ بھی کبھی کبھی ہمارے گھر سے لے لیتے ہیں۔“
بچہ بھاگ کر پڑوسی کے گھر گیا اور پیاز مانگ لایا۔ پس انہوں نے پیاز بھی کتر کر پانی میں ڈال دی۔
پھر کچھ لطیفے سنائے گئے اور انتظار کا وقت گزرتا محسوس نہیں ہوا۔ سپاہی نے بڑی حسرت سے کہا ”لڑائی کے میدان میں کرم کلا نہیں ملتا۔ اپنے وطن سے روانہ ہونے کے بعد سے اب تک میں نے کرم کلے کی شکل بھی نہیں دیکھی ہے۔“
”ارے منے۔“ گھر کی مالکہ نے اپنے لڑکے سے کہا ” بھاگ کر کھیت میں جائو، دوچارا بھی باقی ہےں، ایک کرم کلا لے آئو۔“
”بس اب زیادہ دیر نہیں لگے گی۔“ سپاہی نے اطمینان دلایا۔ اور واقعی ہنڈیا میں سے خوب بھاپ اٹھنے لگی تھی۔
عین اس وقت کسان کا بڑا بیٹا شکار سے واپس آیا۔ وہ ایک خرگوش مار کر ساتھ لایا تھا۔ سپاہی نے خوش ہو کر کہا ”واہ کیا کہنے۔ یہ تو سونے پر سہاگے کا کام دے گا۔ بہت اچھے موقع پر آیا ہے۔“
نوجوان شکاری نے ہنڈیا کی طرف دیکھ کر ناک کو حرکت دی اور سر کھجا کر کہا ” معلوم ہوتا ہے کہ مزیدار شوربہ تیار ہو رہا ہے۔ “
” ہاں۔“ اس کی ماں نے فوراً اسے آگاہ کیا۔ ” اس سپاہی کے پاس ایک عجیب و غریب پتھر تھا۔ ہم اسے ابال کر شوربہ بنا رہے ہیں۔ تم اچھے موقع پر آئے۔ ایک پیالہ تم بھی پی لو گے۔“
اس دوران میں جلدی جلدی خرگوش کی کھال اتار کر اور اس کے ٹکڑے کرکے ہنڈیا میں اسے بھی ڈال دیا گیا۔ کچھ دیر بعد ہنڈیا سنسنانے لگی اور پھر تیزی سے بھاپ نکلنے لگی اور جب شکاری لڑکا اپنے کپڑے بدل کر اور ہاتھ منہ دھو کر آیا تو شوربہ تیار ہو گیا تھا۔ سارے گھر میں اس کی خوشبو پھیل رہی تھی۔
وہ سب گھر والوں کے لیے کافی تھا کیونکہ ہنڈیا اوپر تک بھری ہوئی تھی۔ سپاہی، کسان ، اس کی بیوی، بڑا لڑکا ، بڑی لڑکی، چھوٹا لڑکا اور چھوٹی لڑکی۔ سب پیالے بھر کر بیٹھ گئے۔ سب سے پہلے کسان نے شوربے کی چسکی لی۔ اس نے خوش ہو کر کہا ” بہت خوب ہے۔ ایسا شوربہ تو ہم نے زندگی بھر نہیں پیا۔“
بیوی نے ایک گھونٹ پی کر ہاں میں ہاں ملائی اور کہا ” یہ عجیب قسم کا پتھر ہے۔ شوربہ کتنا مزیدار ہو گیا ہے۔ ہم اس کا ذائقہ کبھی نہیں بھولیں گے۔“
سپاہی بولا ” اور کمال کی بات یہ ہے کہ یہ کبھی گھل کر ختم نہیں ہوتا۔ آج والی ترکیب پر جب بھی عمل کیا جائے، اتنا ہی خوش ذائقہ شوربہ تیار ہو سکتا ہے۔“
اپنا حصہ ختم کرلینے کے بعد سپاہی نے رخصت چاہی اور خدا حافظ کہتے ہوئے اس نے شوربے کا پتھر گھر کی مالکہ ہی کو تحفہ کے طور پر دے دیا اور کہا کہ یہ تمہاری مہمان نوازی کا صلہ ہے۔ اسے اپنے پاس رکھو، اور جب چاہو اسی ترکیب سے شوربہ تیار کر لو۔“
کسان، اس کی بیوی اور سب بچے فراخ دل سپاہی کا شکریہ ادا کرنے لگے۔ وہ مہمان نوازی کا کوئی معاوضہ لینا نہیں چاہتے تھے لیکن سپاہی نے انہیں مجبور کر دیا اور انہوں نے ایک نعمت سمجھ کر پتھر کو حفاظت سے رکھ لیا۔
تازم دم ہو کر سپاہی نے اپنی راہ لی۔ خوش قسمتی سے تھوڑے سے فاصلے پر سڑک پر ویسا ہی ایک اور پتھر پڑا ہوا مل گیا۔ اس نے اٹھا کر اپنے جھولی میں رکھ لیا شاید گھر پہنچنے سے پہلے کسی اور گائوں میں وہ کام آجائے اور اس کی بدولت مزیدار شوربہ نصیب ہوجائے۔
٭….٭