صاحبزادے شاہ میر دونوں ہاتھوں میں تھیلے اُٹھائے گھر میں داخل ہوئے۔ تھیلوں میں سبزی، انڈے ڈبل روٹی اور گوشت تھا۔ انھوں نے جیسے ہی جالی کا دروازہ کھولا تو صحن کے کونے میں گملوں کے پیچھے چھپی ہوئی بلی ان کے ساتھ ہی اندر داخل ہوگئی…. اور ایسے دبے پاﺅں داخل ہوئی کہ شامی بھائی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پائی لیکن سامنے بیٹھی دادی نے دیکھ لیا۔
”شامی بیٹا! دیکھو…. ’شکارن‘ اندر آگئی ہے…. اسے باہر نکالو….“ دادی جان نے شاہ میر بھائی کو آواز لگائی اور وہ انھیں ’شاہ میر‘ کے بجاے ’شامی‘ کہہ کر پکارتی تھیں۔
بلی نے جونہی سنا تو اپنے کان ہلا کر دادی کو غور سے دیکھا اور سوچا کہ شاید یہ کوئی میرا نیا نام ہے۔
دادی مجھے روز کسی نئے نام سے پکارتی تھیں۔ شکارن سے پہلے بھوری، موٹی اور اس سے پہلے مانو، گھنی، چپکی اور نجانے اس سے پہلے کون سا تھا میں تو بھول بھی گئی ہوں۔
”ویسے یہ نام مجھے پسند آیا…. شکارن….“ بھوری بلی نے منھ ہی منھ میں دہرایا۔
دادی نے جیسے ہی آواز لگائی تو میں شاہ میر اور دادی دونوں کی نظر بچا کر صوفے کے نیچے سے ہوتی ہوئی فریج کے پیچھے جا کر چھپ کر بیٹھ گئی۔ اب مجھے یہاں اس وقت تک بیٹھ کر انتظار کرنا تھا جب تک کوئی مزیدار کھانے کی چیز نہیں مل جاتی۔
کھانے کے لیے مجھے انتظار کرنا پڑتا تھا کبھی تھوڑی تو کبھی زیادہ دیر تک…. لیکن آج تو انتظار بالکل نہیں تھا کیوں کہ شاہ میر بھائی میرے ساتھ ہی میرا کھانا لے کر اندر آئے ہیں۔ میں نے تھیلے کی طرف دیکھا اور خوشی سے چہک کر کہا: ”واہ وا…. کیسا تازہ اور مزے کا گوشت لگ رہا ہے۔“
چوں کہ دادی مجھے دیکھ چکی تھیں اور شاہ میر کو بھی ہوشیار کرچکی تھیں، سو انھوں نے وہ تھیلا میز پر رکھا نہ باورچی خانے میں بلکہ سیدھا فریج کھولا اور گوشت کا تھیلا اندر رکھ دیا۔
مجھے بہت مایوسی ہوئی….
”ایک تو میں اس الماری سے بڑی تنگ ہوں، ہر مزے کی چیز اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے اور میں اسے کھول بھی نہیں سکتی ہوں۔“ بلی نے منھ ہی منھ میں بڑبڑایا۔
٭….٭
گوشت فریج میں رکھ دیا گیا تو دادی مطمئن ہو کر بیٹھ گئیں اور پھر سے آلو پیاز کاٹنے لگیں۔
فریج کے پیچھے چھپ کر میں تنگ آچکی تھی۔ اچانک میری ناک میں کسی مزیدار چیز کی بُو آئی۔
یہ موٹا سا چوہا تھا جو باورچی خانے میں کچھ کھانے آیا تھا۔ میں تاک لگا کر بیٹھ گئی کہ یہ واپس تو آئے گا…. نا اور پھر کچھ ہی دیر میں چوہا روٹی کا ٹکڑا منھ میں دبائے باورچی خانے سے دبے پاﺅں باہر نکلا لیکن کوئی دیکھے نہ دیکھے میں تو پہلے ہی اُسے دیکھ چکی تھی لہٰذا چپکے سے آگے بڑھی اور جست لگا کر اسے دبوچ لیا۔
موٹے چوہے کے دانتوں میں ابھی تک روٹی کا ٹکڑا تھا جب کہ وہ میرے دانتوں کے شکنجے میں تھا۔ اسے لے کر میں کچھ دیر وہیں بیٹھ گئی کہ ذرا اس کا دم نکل جائے تو پھر اطمینان سے تناول کروں تاکہ اس کے بھاگ نکلنے کا کوئی امکان نہ ہو۔
میری اس کار روائی پر دادی کی نظر پڑچکی تھی۔ انھوں نے نجانے کس نظر سے مجھے دیکھا…. خوشی سے یا غصہ سے….؟ میری تو بالکل سمجھ نہیں آیا…. پھر انھوں نے اُٹھ کر جالی کا دروازہ کھولا اور باہر کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے اپنے شکار کے ساتھ باہر کا رُخ کیا، لیکن جب ایک دفعہ رُک کر میں نے پلٹ کر دادی کی طرف دیکھا تو اُن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
شاید وہ یہ سوچ رہی تھیں کہ میں نے اس بلی کا ”شکارن“ نام ٹھیک ہی رکھا ہے۔
٭….٭