شائستہ خالہ نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں اور لحاف سے منہ نکال کر جھانکا۔” آئے ہائے! آج تو بچوں کو نانی کے گھر سے واپس لانا تھا۔“ انہوں نے جماہی لیتے ہوئے سوچا۔
”اے سنئےے جی!“ انہوں نے اپنے شوہر کو آواز دی۔
”ہوں!“ ان کے ڈھیلے ڈھالے شوہر نے پلنگ پر پیر پسارتے ہوئے کہا۔
”ذرا جاکر بچوں کو نانی کے گھر سے لے آئیے۔“ خالہ نے فرمائش کی۔
”ایں؟ اونہوں بھئی! کل لے آئیں گے۔“ ان کے شوہر نے منہ بنا کر کروٹ بدل لی ۔
”ارے مگر پہلے ہی ایک ہفتہ گزر چکا ہے اور….“شائستہ خالہ نے کچھ کہنا چاہا ۔
”ارے بھئی بچے کون سا کرائے پر گئے ہیں کہ واپسی میں دیر ہو جانے پر جرمانہ ہوجائے گا۔“ خالو نے بھنا کر کہا۔
”ہوں! یہ تو ہے….“ شائستہ خالہ دھیمے سے بولےں۔ پھر آہستہ سے اٹھیں اور چپلیں گھسیٹتی کمرے سے باہر نکل گئیں۔ ان کے شوہر نے کمبل منہ پر ڈال کر دوبارہ سونے کی کوشش شروع کر دی۔

٭….٭

شائستہ خالہ پورے خاندان میں آہستہ خالہ اور ان کے شوہر خاور صاحب ڈھیلے خالو کے نام سے مشہور تھے۔ وجہ یہ تھی کہ شائستہ خالہ بے حد سست اور آہستہ آہستہ کام کرنے والی تھیں اور ان کے میاں انتہائی کاہل انسان تھے۔ دونوں کام کرنے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔ دونوں اپنی کاہلی اور سستی کو سلیقہ اور نفاست کا نام دیتے تھے۔ مگر حقیقت ان کے گھر کے حال سے ظاہر تھی۔ ان کے بچے خاندان میں سب سے زیادہ گندے رہنے والے بچوں میں شمار ہوتے تھے۔ کیونکہ آہستہ خالہ بچوں کو نہلانے کے بجائے ان کے منہ پر پائوڈر اور کریم لگا کر انہیں صاف ستھری شخصیت بنانے کی کوشش کرتیں۔ مگر کاغذی پھولوں سے خوشبو کہاں آسکتی ہے؟ ان بچوں کے قریب سے گزرنے والا ہر فرد بتا سکتا تھا کہ پچھلے ایک ہفتے میں بچوں نے کیا کیا کھایا ہے؟ سب سے چھوٹی بچی کی فراکوں کو دھونا وہ گناہ سمجھتی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ بھلا اتنی چھوٹی بچی کپڑوں کو کیا گند اکر سکتی ہے؟ حالانکہ بچی اپنی توفیق کے مطابق دودھ، پانی اور تھوک گراتی رہتی تھی۔ کچھ قیمتی فراکوں کو الٹیاں جذب کرنے کا موقع بھی ملا مگر آہستہ خالہ کے اصول اپنی جگہ اٹل تھے۔
یہ سارے بچے صرف سردیوں میں کچھ صاف ستھرے نظر آتے تھے کیونکہ آہستہ خالہ سب بچوں کو گندے کپڑوں کے اوپر بڑے بڑے سوئیٹر پہنا دیتی تھیں۔ یہ اونی کپڑے بچوں کو یکم دسمبر سے پہنا دیئے جاتے اور فروری میں اتارے جاتے۔ اب روز روز کون پہنائے اور اتارے؟ ڈھیلے خالو آہستہ خالہ کے اس سلیقے پر جھوم جھوم اٹھتے لیکن لیٹے لیٹے۔ انہیں جھومنے کے لیے بھی اٹھنا گوارا نہیں تھا۔
بچوں کے اسکول جانے کی عمر ہو چکی تھی مگر کاہلی کے اصول کے تحت یہ کام ابھی ٹالا جا رہا تھا۔ خاندان والوں کے پوچھنے پر یہی جواب دیا جاتا کہ ہم بچوں کو اتنی جلدی اسکول بھیجنے کے قائل نہیں۔ بچوں کی معصومیت ختم ہوجاتی ہے اور خاندان والے خالہ کے بچوں میں وہ معصومیت ڈھونڈتے رہ جاتے جس کے ختم ہونے کا خوف خالہ کو کھائے جارہا تھا۔
ڈھیلے خالو کی کچھ خاندانی جائیدادیں تھےں جن میں سے اکثر وہ اپنے ڈھیلے پن کی وجہ سے گنوا چکے تھے۔ باقی ماندہ کرائے کی صورت میں آنے والی رقم سے گھر کا خرچ چلتا تھا۔ گھر میں چونکہ آہستہ خالہ جیسی بیوی موجود تھیں اس لیے خرچ بھی کم ہی کم ہوتا تھا۔ آہستہ خالہ ایک دفعہ کھانا پکاتیں اور کئی وقتوں تک گھر والوں کو کھلاتیں۔ بار بار کھانا پکانا ان کے نزدیک کسی مصیبت سے کم نہ تھا۔ پکانے کے لیے وہ عموماً دال یا شوربے کا انتخاب کرتیں جس میں پانی کی سپلائی برقرار رکھ کر وہ کئی وقتوں تک یہ کھانا چلا لیتی تھیں۔ ان کا نظریہ تھا کہ بھنے ہوئے کھانوں میں غذائیت ضائع ہوجاتی ہے لہٰذا آہستہ خالہ کے پکائے ہوئے پتلے شوربہ اور دال سے ساری غذائیت بہتی ہوئی ان کے بچوں اور شوہر کے حلق سے نیچے اتر جاتی تھی مگر اس غذائیت سے جو توانائی پیدا ہوتی تھی وہ کبھی ظاہر نہیں ہوئی۔
آہستہ خالہ نے اپنے بچوں کے لیے بچپن میں جو کپڑے سینے شروع کیے تھے وہ اب سل کر تیار ہوئے تھے لہٰذا بچوں کو کسی نہ کسی طرح ان کپڑوں میں سمو دیا گیا تھا۔ بچے ان کپڑوں میں اکڑے اکڑے رہتے تھے کیونکہ کپڑے چھوٹے تھے اور بچے بڑے۔ جہاں جہاں سے کپڑوں کی سلائی احتجاجاً کھل گئی تھی اور بچوں کاوجود کپڑوں کی سرحدوں سے باہر نکل رہا تھا ۔ وہاں وہاں سیفٹی پن لگا کر حفاظتی بند باندھے گئے تھے۔ اب ان کپڑوں میں اتنی سیفٹی پن لگ چکی تھیں کہ بقول خاندان والوں کے ”بچوں میں ایک مقناطیسی کشش پیدا ہوچکی تھی“ اگر یہ بچے کسی مقناطیس کے پاس سے گزر جاتے تو ضرور چپک جاتے۔
رہے ڈھیلے خالو تو ان کو نہ اب بڑا ہونا تھا نہ چھوٹا لہٰذا وہ اپنے شادی اور ولیمے کے کپڑوں میں باآسانی گزارہ کررہے تھے ۔ ان کا زیادہ وقت بستر پر گزرتا تھا لہٰذا جوتوں کا استعمال بھی کم ہی ہوتا۔ وہ زیادہ نہانے دھونے کے بھی سخت خلاف تھے خصوصاً سردیوں میں ۔ اس لیے صبح کے وقت (وہ لوگ جس وقت بھی سو کر اٹھتے تھے اسے صبح ہی کہتے تھے) ایک تولیہ بھگو کر ڈھیلے خالو اور بچوں کا منہ پونچھ دیا جاتا تھا۔ گھر میں صابن کا خرچ نہ ہونے کے برابر تھا اور ڈھیلے خالو آہستہ خالہ کی اس کفایت شعاری پر دل و جان سے فدا تھے۔
خالہ خالو رشتہ داروں کے یہاں آنے جانے اور تقریبات میں شرکت کو وقت اور توانائی کا زیاں سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہی توانائی کسی اور کام پر صرف کی جا سکتی ہے۔ مثلاً سونے اور دوبارہ سونے پر۔ یہ دونوں صرف اپنی شادی پر گئے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے کسی اور شادی میں جانا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ کہےں آنے جانے کے لیے بستروں سے اٹھنا پڑتا ہے اور یہ بات دونوں کو سخت ناگوار گزرتی تھی۔ ہاں اگر کوئی ان کے بستروں کے قریب آکر تقریب کر لیتا تو اور بات تھی مگر آج تک ایسی کوئی تقریب ہوئی نہیں تھی۔
بستر ان کے گھر کی واحد چیز تھی جو سب سے زیادہ استعمال ہوتی تھی۔ سونے کے علاوہ کھانے پینے اور ٹی وی دیکھنے کے لیے بھی یہی بستر کام آتا۔ ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول ڈھیلے خالو کے تکیئے کے نیچے رکھا رہتا تھا۔ ان تکیوں کا قصہ بھی عجیب تھا۔ جب بھی یہ تکئے کثرت استعمال سے پچک جاتے، آہستہ خالہ بجائے نئے تکیئے بنوانے کے دو پرانے تکئے جوڑ کر ایک غلاف کے اندر ڈال دیتیں۔ اس طرح رفتہ رفتہ ان کے بستر پر تکیوں کا پہاڑ کھڑا ہو چکا تھا اور دور سے دیکھنے والوں کو یہ معلوم ہوتا تھا جیسے ڈھیلے خالو مائونٹ ایورسٹ پر سر رکھ کر سو رہے ہوں۔

٭….٭

آج کل خالہ خالو ایک نئی مشکل میں گرفتار تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ آہستہ خالہ کے رشتے کے بھانجے بھانجی جو بیرون ملک تعلیم کے سلسلے میں مقیم تھے، اپنے بھائی کی شادی میں پاکستان آئے ہوئے تھے اور اب وہ خالہ سے ملنے کے لیے آنا چاہ رہے تھے۔ خالہ خالو شادی میں تو نہیں گئے تھے مگر ان لوگوں نے شادی کا کھانا بھجوا کر ان کے دل جیت لیے تھے کیونکہ اس کھانے کی مدد سے کئی دنوں تک ان کی غذائی کمی پوری ہوتی رہی تھی۔ ان خدمات کے پیش نظر انہےں گھر آنے سے منع بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
چنانچہ اس وقت بھانجا فہد اور بھانجی علینہ ان کے گھر براجمان تھے۔ ڈھیلے خالو نے مجبوراً دل پر پتھر رکھ کر انہیں کھانے کی پیش کش کی۔ بھانجے نے اس تاریخی پیش کش کو فوراً قبول کر لیا۔ اب پچھلے دو گھنٹے سے وہ دونوں ڈھیلے خالو کے بستر کے قریب بیٹھے پہلو بدل رہے تھے کیونکہ آہستہ خالہ ڈھیلے خالو کی جانب سے سگنل ملنے پر اٹھ کر جا چکی تھیں اور پچھلے دو گھنٹوں سے لاپتہ تھیں۔
”ارے بھئی علینہ! جا کر دیکھو خالہ کیا کررہی ہیں؟ ان سے کہو زیادہ اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس جو کچھ گھر میں پکا ہے، ہم وہی کھا لیں گے۔“ فہد نے انتظار کی طویل گھڑیوں سے تنگ آکر کہا۔
”ارے میاں ! گھر میں کچھ نہیں پکا۔ میرا مطلب ہے کہ تمہاری خالہ پلائو قورمہ کھلائے بغیر تمہیں نہیں جانے دیں گی ۔“ڈھیلے خالو نے پہلے بے دھیانی میں پھر سنبھل کر کہا۔
”سنئے جی ذرا ادارک ، لہسن اور دہی تو لا دیجئے۔“ خالہ بے دلی سے چلتی ہوئی نمودار ہوئیں۔
”ایں وہ کیوں؟ بھئی کسی اور دن منگا لینا۔“ خالو نے سستی سے انگڑائی لی۔
”قورمہ پکانا ہے۔“ خالہ نے منہ لٹکا کر کہا۔
”ایں اچھا! میاں فہد، تم بیٹھو میں ابھی آتا ہوں۔“ خالو نے بستر سے ٹیک آف کرتے ہوئے کہا۔ خالہ دوبارہ اندر چلی گئیں اور دونوں بہن بھائی منہ بنا کر ٹی وی دیکھنے لگے۔ خدا خدا کرکے سودا سلف آیا تو بھائی نے بہن کو خالہ کی مدد کے لیے اندر دھکیلا کہ ان کا ہاتھ بٹائو۔ بہن تھوڑی دیر میں واپس آگئی۔
”کیا ہوا؟“ فہد نے پوچھا۔ خالہ اس وقت کرسی پر بیٹھی ٹانگیں ہلا رہی ہیں۔ اس کام میں میں کیا مدد کر سکتی ہوں بھلا؟
”اوہ ! مگر کیوں؟ یہ ٹانگیں ہلانے کا کون سا وقت ہے؟“ بھانجے نے چڑ کر پوچھا۔
”مجھے کیا معلوم؟ ان کے گھر میں اسی وقت ٹانگیں ہلائی جاتی ہوں گی۔“ بہن نے بھنا کر جواب دیا۔
”بھئی بچوں! تمہاری خالہ نے فریز کیا ہوا گوشت پگھلنے کے لیے پانی میں ڈالا ہوا ہے۔ بس ادھر گوشت پگھلا اور ادھر قورمہ کی دیگ چڑھی۔“ ڈھیلے خالو نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے خوشخبری سنائی۔
”اتنی دیر میں تو ہمارا گوشت پگھل جائے گا خالو!“بھانجے نے پہلو بدل کر دل میں سوچا۔
”اور ہاں بیٹی! اگر تم بور ہو رہی ہو تو جا کر اپنی خالہ کا ہاتھ بٹائو۔ دراصل کئی دنوں سے ماسی نہیں آئی۔ گندے برتنوں کا ایک ڈھیر جمع ہو چکا ہے۔ ہم لوگ تو خیر پتیلیوں کے ڈھکنوں پر کھانا کھا لیتے ہیں مگر تم لوگ تو پلیٹوں میں کھائو گے ناں؟“ ڈھیلے خالو جماہی لے کر بولے اور بستر پر ڈھے گئے۔ بھانجی منہ بنا کر اندر چلی گئی۔
تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ نمودار ہوئی۔ ڈھیلے خالو آنکھیں موندے پڑے تھے۔
”میرے خیال میں ہمیں چلنا چاہیے۔“ بہن نے بھائی سے سرگوشی کی۔
”کیوں کیا برتن بہت گندے ہیں؟“ بھانجے نے بوکھلا کر پوچھا۔
”اوہ ہو! وہ تو میں نے دھو دیئے مگر کھانا ملنے کی فی الحال کوئی امید نظر نہیں آتی۔“ بہن نے کہا۔
” مگر کیوں؟“ بھائی نے بلبلا کر پوچھا۔
”آہستہ خالہ اس وقت پیاز کا ایک ڈھیر سامنے رکھ کر بلیڈ سے کاٹ رہی ہیں اور اس کام میں ابھی تقریباً دو گھنٹے لگیں گے۔“ بہن نے حقائق سے پردہ اٹھایا۔
” بلیڈ سے؟ مگر کیوں؟ کیا ان کے گھر میں چاقو چھری نہیں ہے۔“ بھانجا حیران ہو کر بولا۔
”اوہو بھئی! میرا مطلب ہے کہ وہ چھری سے ہی کاٹ رہی ہیں مگر رفتار ایسی ہے جیسے بلیڈ سے کاٹ رہی ہوں۔ کم از کم دو گھنٹے میں تو یہ پیاز کٹے گی پھر مسالہ بھونا جائے گا۔“ بہن نے انکشاف کیا۔
” کہیں پتیلی میں چمچہ بھی سوئی کی طرح نہ چلاتی رہیں۔“
” میرا خیال ہے تم ٹھیک کہتی ہو۔ ہمیں اجازت لینا ہی پڑے گی۔“ بھانجے نے آہستہ سے کہا اور کھڑا ہوتا ہوا بولا۔
”اچھا خالو جان! ہم چلتے ہیں ہمےں کہیں اور بھی جانا ہے۔“
”ایں! واہ بھئی واہ! یہ کیا بات ہوئی؟ تمہاری خالہ اتنی محنت سے قورمہ پکا رہی ہیں اور تم لوگوں سے صبر نہیں ہوتا۔ آخر یہ بے صبری کیا ہے؟ تم لوگ چھ بجے آئے تھے اور اب کیا بجا ہے؟ صرف دس! میں کہتا ہوں اتنی جلدی کیا ہے تم لوگوں کو؟“ ڈھیلے خالو نے آنکھیں کھول کر انہیں جھڑکا۔ مگر وہ دونوں جانے کا تہیہ کر چکے تھے اس لیے الٹے سیدھے بہانے بنا کر بھاگ لیے۔

٭….٭

”واہ بھانجے واہ! اس دن کے بعد سے آج ایک مہینے کے بعد شکل دکھائی ہے۔“ ڈھیلے خالو نے طنز سے ان کا استقبال کیا۔
”بس خالو جان! کل ہم لوگوں کی واپسی ہے۔ اس لیے خدا حافظ کہنے کے لیے آئے ہیں۔“ فہد نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”اچھا! پھر تو تم لوگ آج کھانا کھائے بغیر نہیں جا سکتے۔“ خالہ نے اپنے عزم کا اظہار کیا۔
”ارے نہیں خالہ! ہماری فلائٹ مس ہوجائے گی۔“ بھانجی نے گھبرا کر کہا۔
”ارے کیا کہتی ہو لڑکی؟ ابھی تو تم بتا رہی تھیں کہ کل واپس جانا ہے۔“ ڈھیلے خالو نے جھڑکا۔
”ہاں ہاں اس لیے تو کہہ رہے ہیں کہ آج آپ کے یہاں کھانا نہےں کھا سکتے۔ کیونکہ کل ہمیں ایئرپورٹ پہنچنا ہے۔“ بھانجی نے وضاحت کی۔
”ارے بیٹھو تو سہی! آج میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گی۔“ خالہ نے سخت لہجہ میں اصرار کیا۔
”ہاں ہاں ابھی تمہاری خالہ فٹا فٹ کھانا لگا دیں گی۔“ خالو نے یقین دلایا۔
”فٹافٹ یعنی دو تین دن میں؟“ بھانجی نے بھنا کر سوچا مگر خالہ کچن کی طرف روانہ ہو چکی تھیں۔
”اوہ گویا آج پھر چھ گھنٹہ انتظار ! دونوں کرسیوں پر ڈھے گئے۔ مگر اس وقت ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب صرف دو گھنٹے کے بعد خالو نے کھانا لگنے کا اعلان کیا۔
” لو بچو! آج مزے اڑائو۔“ خالو نے میز کی طرف اشارہ کیا جہاں بھاپ اڑاتا گرما گرم قورمہ ڈش میں سجا ہوا تھا۔
” ارے خالہ! صرف دو گھنٹے میں قورمہ تیار کر لیا آپ نے؟“ بھانجی نے جوپچھلی ملاقات میں ان کے کام کی رفتار دیکھ چکی تھی، حیران ہو کر بولی۔
”ارے تیار تو پچھلے مہینے ہی ہو گیا تھا تم لوگوں کے جانے کے کچھ دیر بعد ۔ آج یہ دو گھنٹے تو صرف گرم کرنے میں لگے ہیں اور یہ بھی کوئی زیادہ وقت نہیں۔ آخر اتنے دنوں سے فریزر میں جما ہوا تھا۔“ آہستہ خالہ نے فخر سے مسکرا کر کہا۔
”کیا؟“ دونوں بہن بھائی چلا اٹھے۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر بھانجے نے کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
”خالہ آج تو ہم جلدی میں ہیں۔ یہ قورمہ فریزر میں رکھ دیجئے، ہم اگلے سال پاکستان آئیں گے تو کھا لیں گے۔“ آہستہ خالہ اور ڈھیلے خالو کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

٭….٭