جب مایوسی کے عالم میں وہ سب گھر واپس پہنچے تو ’چاچی الجھن‘ دوپہر کا کھانا میز پر لگاچکی تھیں۔
جیسے ہی ان کی نظر گلی کے ایک کونے میں نفاست سے تہہ کردہ کاغذ پر پڑی، ’چاچو کھجلی‘ ایک دم ٹھٹک کر رک گئے۔ انھوں نے پہلے تو کچھ سوچااور پھر اسے اٹھا لیا۔ کھول کر جب دیکھا تو حیرت اور مارے خوشی کے اچھل پڑے۔ یہ دوسو روپے مالیت کا ایک پرائز بانڈ تھا۔ چاچو نے فوراً اِدھر اُدھر دیکھا۔ ساری گلی سنسان پڑی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے جب چاچو دہی لینے یہاں سے گزرے تھے تو یہ پرائز بانڈ ان کو نظر نہیں آیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ابھی ابھی کسی کی جیب سے گرا ہے۔ اب وہ اس کے مالک کو کیسے تلاش کریں اور یہ بانڈ کس کو واپس کریں؟ اسی حوالے سے سوچ بچار میں غرق چاچو گھر واپس پہنچ گئے۔
چاچو کو یوں پریشان دیکھ کر ’چاچی الجھن‘ نے وجہ پوچھی تو چاچو نے خاموشی سے پرائز بانڈ سامنے رکھ دیا: ”یہ کہاں سے لے آئے؟“ چاچی نے حیرانی سے پوچھا۔ جواب میں چاچو نے ساری بات بتا دی۔
”تو پھر جائیں اور جو اس کا مالک ہے، اسے واپس کر دیں۔“ چاچی نے مشورہ دیا۔
”جب علم ہی نہیں کہ یہ ہے کس کا…. تو بھلا کس کو جاکر دوں؟“ چاچوکے دل میں لڈو پھوٹنے لگے اور وہ سوچنے لگے کہ شاید اس بانڈ پر انعام نکل آئے اور ان کے وارے نیارے ہو جائیں۔ چاچو کا جواب سن کر چاچی بڑبڑاتی ہوئیں ناشتہ بنانے میں مصروف ہو گئیں اور چاچو نے اس پرائز بانڈ کو کہیں چھپانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس غرض سے انھیں ایک پرانا رسالہ موزوں جگہ لگی، جو وہ چند ہی دن پہلے ردّی والے سے خریدکر لائے تھے۔ انھوں نے احتیاط سے بانڈ کو رسالے کے اندر رکھا اور پھر اس اسے برتنوں والی الماری کے اوپر رکھ دیا۔
چند دن بعد جب چاچو سبزی لے کر گھر واپس آرہے تھے تو انھیں ایک اخبار والا پرائز بانڈ کی قرعہ اندازی والی فہرست فروخت کرتا نظرا ٓیا۔ انھوں نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ، جھٹ سے وہ فہرست خرید لی۔ گھر پہنچتے ہی سبزی چاچی الجھن کے حوالے کی اور خود تیزی سے باہر کی طرف بھاگے: ”ارے کہاں جا رہے ہیں اتنی جلدی میں؟“ چاچی نے حیرت سے پوچھا تو چاچوفہرست لہراتے ہوئے کہنے لگے: ”یہ دیکھو! پرائز بانڈ کی قرعہ اندازی ہو گئی ہے۔ دیکھ رہا ہوں کہ کہیں ہمارے والے بانڈ پر انعام نکل آیا ہو۔“
”ارے….وہ بانڈ آپ کا کب سے ہو گیا؟ وہ تو گلی کے کنارے پڑا ملا تھا…. ویسے تو آپ کو وہ اٹھانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ زمین سے پڑی چیز نہیں اٹھاتے…. اس لحاظ سے تو انعام بھی آپ کا نہیں ہے۔“ چاچی نے تیزی سے کہا۔
”کوئی بات نہیں۔ اگر انعام نکل بھی آیا تو میں بانڈ کی قیمت کسی غریب کو دے دوں گا مگر انعام تو میرا ہی ہوگا۔“ چاچو نے اپنی طر ف سے ایک بڑی رعایت کا اعلا ن کیا۔ ان کی یہ با ت سن کر چاچی کے چہرے پر ناراضی کے تاثرات ابھرے مگر چاچو سب کچھ نظر انداز کرتے ہوئے سیدھے بچوں کے کمرے میں پہنچ گئے۔ چوں کہ حمزہ، عمیر اور شمائلہ کی گرمیوں کی چھٹیاں ہو چکی تھیں۔ اس لیے اس وقت وہ اپنا ہوم ورک کرنے میں مصروف تھے۔
کمرے میں پہنچتے ہی چاچو نے فہرست اور ایک کاغذ پر لکھا پرائز بانڈ کا نمبر حمزہ کے سامنے رکھ دیا۔ حمزہ نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا تو چاچو بے نیازی سے کہنے لگے: ”ذرا دیکھو تو سہی…. کہیں انعام تو نہیں نکل آیا؟“
حمزہ کے ساتھ ساتھ شمائلہ اور عمیر بھی فہرست میں گھس گئے۔ اچانک عمیر نے خوشی سے ایک زور دار نعرہ لگایا: ”مبارک ہو چاچو….! آپ کا پہلا انعام نکلا ہے۔“
”کیا….؟“ چاچو کے چہرے پر بے یقینی کے تاثرات تھے۔
”ہاں…. اور وہ بھی پورے دس لاکھ روپے کا۔“ شمائلہ نے جواب دیا تو چاچو گویا بے ہوش ہوتے ہوتے بچے۔
”چاچو!…. بانڈ کہاں ہے؟“ عمیر نے پوچھا تو چاچو ایک دم ہوش میں آگئے اور پھر کوئی جواب دیے بغیر تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگے۔ وہاں پہنچ کر فوراً برتنوں والی الماری کے اوپر ہاتھ مارا جہاں وہ رسالہ رکھا تھا، جس کے اندر ان کا قیمتی پرائز بانڈ محفوظ تھا۔ چاچو نے پہلے اِدھر اُدھر ہاتھ مار اپھر اسٹول پر چڑھ کر الماری کے اوپر جھانکا مگر یہ دیکھ کر ان کے پاﺅں تلے سے زمین نکل گئی کہ رسالہ وہاں سے غائب ہو چکا تھا۔ چاچو نے پورا کمرہ چھان مارا۔ہر چیز الٹ پلٹ کر دی۔ چارپائی کے نیچے، بستر کے اندر، برتنوں کے پیچھے غرض ہر جگہ تلاش کر لیا مگر رسالہ تو گدھے کے سر سے سینگ کی طرح کہیں اُڑنچھو ہو چکا تھا۔
کافی دیر تلاش کے بعد چاچو آگ بگولا ہوتے ہوئے فوراً چاچی الجھن کے پاس جا پہنچے۔ ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑتے دیکھ کر چاچی نے پوچھا: ”کیا ہوا…. کیوں بوکھلائے پھر رہے ہیں؟“
اس وقت چاچی ہنڈیا پکا رہی تھیں اور کھانا پکانے والی ڈوئی ان کے ہاتھ میں تھی۔ ڈوئی کو ہلتے دیکھ کر چاچو نے فوراً اپنے غصے پر قابو پایا اور دھیرے سے پوچھنے لگے: ”الماری کے اوپر ایک رسالہ پڑا تھا، وہ کہا ں ہے؟“
”وہ…. وہ تو کافی دن سے وہاں بے کار پڑا تھا۔ آج صبح ’چُھٹّن ردّی والا‘ آیا تو وہ رسالہ میں نے اس کے ہاتھ بیچ دیا۔“ چاچی نے معصومیت سے بتایا تو چاچو کاجی چاہا کہ اپنا سر پیٹ لیں۔ وہ سمجھ گئے کہ پرائز بانڈ بھی رسالہ کے ساتھ ہی گیا۔حمزہ ، عمیر اور شمائلہ نے جب یہ بات سنی تو وہ بھی پریشان ہوگئے۔ اب ان کے سامنے مشن ”پرائز بانڈ کی تلاش“ آن کھڑا ہو اتھا۔ مختصر سی مشاورت کے بعد فوراً ایک فیصلہ کیا گیا اور سب چُھٹّن ردّی والے کے پیچھے لپکے۔ اندازے کے مطابق اسے ابھی انھی گلیوں میں کہیں ہونا چاہیے تھا اور ہو ابھی یہی…. تھوڑی ہی دیر بعد چُھٹّن انھیں ایک گلی میں آوازیں لگاتا نظر آیا۔ چاچو نے فوراً اسے جا دبوچا: ”جلدی سے وہ رسالہ نکال جو تو تھوڑی دیر پہلے ہمارے گھرسے خرید کر لایا ہے۔“
”وہ رسالہ تو اب میرے پاس نہیں ہے۔“ چُھٹّن بمشکل اپنی گردن چھڑاتے ہوئے مِنمِنایا۔
”تو پھر کہاں ہے؟ تو ہی تو لے کر گیا تھا۔“ چاچو زور سے دھاڑے۔
”وہ ردّی تو میں نے تھوڑی دیر پہلے بڑے کباڑ خانے میں بیچ دی۔“ چُھٹّن نے کسمساتے ہوئے بتایا۔
بڑے کباڑ خانے کا نام سنتے ہی چاچو نے اس کی گردن چھوڑی اور خود کباڑ خانے کی طرف بھاگے۔ وہاں پہنچتے ہی انھوں نے کباڑیے سے اس کے متعلق دریافت کیا جو آج چُھٹّن فروخت کر کے گیا تھا:
”تم کیوں پوچھ رہے ہو….؟“ کباڑیے نے مشکوک نظروں سے چاچو کو گھورا۔
”اس میں کچھ کتابیں …. مم…. مم…. میرا مطلب ہے، میرا ایک رسالہ تھا۔ گھر والوں نے غلطی سے فروخت کر دیا۔ اب وہ مجھے واپس چاہیے۔“ چاچو نے ہکلاتے ہوئے بتایا۔
کباڑیا ایک بار پھر ان کو گھورتے ہوئے کہنے لگا: ”جو ردّی چُھٹّن دے کر گیا تھا، اس میں کچھ کتابیں تو تھیں مگر وہ اتوار بازار میں پرانی کتابیں بیچنے والا ایک شخص ابھی ابھی خرید کر لے گیا ہے۔“
چاچو کا دل پہلے سے بھی زیادہ زور زور سے دھڑکنے لگا۔ چاچو کی حالت دیکھ کر بچوں کے چہرے پر باوجود پریشانی کے، مسکراہٹ ابھرنے لگی۔ چاچو کا حوصلہ اب جواب دینے لگاتھا۔ چاچو نے جلدی جلدی کباڑیے سے اس پرانی کتابوں والے کا پتا معلوم کیا اور اس کے گھر کا رُخ کرلیا۔ وہ ہر قیمت پر تہیہ کر چکے تھے کہ آج یہ رسالہ ڈھونڈ کر ہی چھوڑنا ہے۔ پرائز بانڈ کی تلاش میں چاچو کے اندر کا جیمز بانڈ بے دار ہوچکا تھا۔
بڑی مشکل سے تلاش کرتے ہوئے وہ اس پرانی کتابوں والے کے گھر پہنچ ہی گئے۔ حمزہ نے آگے بڑھ کر دروازے پر دستک دی تو ایک مُنحنی نما شخص نے دروازہ کھولا اور سوالیہ نظر وں سے ان کی طرف دیکھنے لگا: ”کیا تم ہی پرانی کتابیں بیچتے ہو؟“ چاچو نے پوچھا۔
”تمھیں کون سی کتاب چاہیے؟“ اس شخص نے جواب دینے کی بجاے الٹا سوال کردیا۔
” ابھی کچھ دیر پہلے کباڑ خانے سے تم جو کتابیں خرید کر لائے ہو، ان میں ایک رسالہ بھی تھا۔ وہ ہمیں واپس چاہیے۔ “عمیر نے جواب دیا۔
”وہ تمھیں کیوں چاہیے؟“ اس نے مشکوک نگاہوں سے ان سب کو باری باری گھورا۔
”دراصل ہماری چاچی نے اس ردّی والے کو غلطی سے وہ رسالہ بیچ دیا تھا۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ تم ہمیں لوٹا دو۔“ وہ کچھ دیر خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا پھر کچھ دیر اپنا سر کھجانے کے بعد گویا ہوا:
”تمھارے آنے سے چند لمحے پہلے ہی ایک بابا جی وہ رسالہ خرید کر لے گئے ہیں۔ ان کو بھی رسالہ پڑھنے کا بہت شوق ہے۔“
یہ بات سنتے ہی گویا ایک بار پھر ان کے سروں پر بم پھوٹ گیا ہو۔ چاچو کا غصہ تو ساتویں آسمان پر پہنچ گیا تھا۔ پرائز بانڈ سے نکلنے والا انعام ان کے دماغی پردے میں آگے آگے دوڑ رہا تھا اور وہ اس کے پیچھے ہلکان ہو رہے تھے:
”وہ بابا جی کدھر گئے ہیں؟“ چاچو نے غصہ ضبط کرتے ہوئے پوچھا تو اس نے گلی کی طرف اشارہ کردیا۔ ا س کا اشارہ دیکھتے ہی چاچو نے بچوں سمیت اسی سمت دوڑ لگادی۔ تھوڑا آگے جاکر وہ گلی دائیں جانب مڑ جاتی تھی۔ جونہی وہ اس جانب مڑے، انھوں نے دیکھا کہ ایک بزرگ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ان کے آگے آگے جارہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں ایک رسالہ تھا جس کے سرورق کو وہ بغور دیکھ رہے تھے۔ بابا جی کے ہاتھ میں رسالہ دیکھتے ہی چاچو کھجلی اور بچوں کے قدموں کو جیسے پر لگ گئے ہوں۔ وہ تقریباً اُڑتے ہوئے ان کے پاس پہنچ گئے۔ ان کی امید کی کرن اب سورج میں بدل چکی تھی۔ چاچو اور بچوں کو اپنے گرد دیکھ کر بابا جی ایک دم بوکھلا گئے اور ان سب کو ڈاکو سمجھ کر اپنی چھڑی کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے چِلّائے۔ ”بچاﺅ…. بچاﺅ“
ان کی چیخ پکار سن کر چاچو ایک دم پریشان ہو گئے اور فوراً باباجی کے کان میں کہا: ”باباجی! ہم تو صرف آپ سے ملنے آئے ہیں۔“
”کیا چاہیے تمھیں مجھ کمزور بوڑھے سے؟“ باباجی نے تیز لہجے میں پوچھا۔
”ہمیں صرف یہ رسالہ چاہیے جو اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے۔“ عمیر نے جلدی سے کہا۔
”کیا عجیب زمانہ آگیا ہے۔ یعنی اب لوگ موبائل فون اور نقدی لوٹنے کے ساتھ ساتھ کتابیں بھی لوٹنے لگے ہیں؟“ بابا جی عمیر کی بات سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔ جواب میںچاچو نے انھیں ڈائجسٹ کی پوری رام کتھا سنا دی مگر پرائز بانڈ کا ذکر گول کرگئے۔ اسے سنتے ہوئے بابا جی کے چہرے پر نرمی اور رحم دلی کے تاثرات ابھرنے لگے۔ وہ کہنے لگے: ”مگر میں نے تو یہ رسالہ پورے پچیس روپے میں خریدا ہے۔“
”ہم آپ کو اس کے پچاس روپے ادا کریں گے۔ بس آپ یہ ہمیں دے دیں۔“ حمزہ نے پیش کش کی۔ باباجی نے پہلے ایک لمحہ سوچا پھرکہا: ”ٹھیک ہے۔ یہ تم لے لو مگر میں اس کے پورے سوروپے وصول کروں گا۔“
ان کی بات سنتے ہی چاچو نے ایک لمحہ دیر نہ لگائی اور سو روپے نکال کر بابا جی کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے اپنا ڈائجسٹ ان کے ہاتھ سے اُچک لیا۔
سو روپے ملتے ہی بابا جی نے ان کا شکر یہ ادا کیا اورآگے چل پڑے۔ بابا جی کے وہاں سے جانے کے بعد انھوں نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر چاچو بے تابی سے اس کے صفحات الٹنے لگے۔ انھوں اب اپنے پرائزبانڈ کی تلاش تھی جس کی خاطر انھوں نے اتنی مشقت جھیلی تھی۔ چاچو نے سارے صفحات الٹ کر دیکھ لیے مگر پرائز بانڈ کہیں نہ ملا۔ ایک بار پھر پریشانی کے آثار چاچو کے چہرے پر ابھرنے لگے۔
”بانڈ کہاں ہے چاچو؟“ حمزہ نے پریشانی سے پوچھا۔ چاچو نے جواب دینے کی بجاے رسالہ اس کی طرف بڑھا دیا جسے شمائلہ نے اُچک کر احتیاط سے کھنگالنے لگی۔ پرائز بانڈ کہیں نہیں تھا۔
”لگتا ہے یہ پرائز بانڈ بابا جی نے نکال لیا ہے۔ اسی لیے وہ اتنی آسانی سے یہ رسالہ ہمیں تھما کر چلتے بنے۔“ عمیر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
اس کی بات سنتے ہی چاچو اچھل پڑے اور اس طرف بھاگے جس طرف بابا جی گئے تھے۔ گلی آگے جا کر ایک دفعہ پھر مڑ جاتی تھی۔ ساری گلی اچھی طرح چھان ماری مگر بابا جی تو کہیں غائب ہوچکے تھے۔ اتنی سی دیر میں وہ نہ جانے کہیں چلے گئے تھے، مگر انھیں اس بات کی ذرا برابر فکر نہیں تھی کہ باباجی کہاں گئے ہیں۔ انھیں صرف یہ پریشانی تھی کہ ان کے ساتھ وہ بانڈ بھی چلا گیا ہے۔
کافی تلاش کے بعد چاچو کھجلی اور تینوں بچوں نے ہمّت ہار دی۔ باباجی کے ساتھ ہی وہ پرائز بانڈ اور اس کا انعام بھی ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ وہ اپنا آخری سُراغ بھی کھو چکے تھے۔ جب مایوسی کے عالم میں وہ سب گھر واپس پہنچے تو ’چاچی الجھن‘ دوپہر کا کھانا میز پر لگاچکی تھیں۔ صفدر صاحب بھی کھانے کے لیے دفتر سے گھر واپس پہنچ چکے تھے اور اس وقت وہ سب لوگ میز پر بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کی لٹکی ہوئی شکلیں دیکھتے ہی صفدر صاحب نے چاچو کھجلی سے پوچھا : ”کیا بات ہے چاچو…. خیریت ہے تو ہے ناں…. اتنی دیر سے کہاں تھے؟“ چاچو خاموشی سے ایک کرسی پر ڈھے سے گئے۔ گلاس میں پانی ڈال کر اس کا ایک گھونٹ بھرا اور مرے مرے لہجے میں ان کو رسالے کی تلاش کی ساری کتھا سنا دی۔ جب انھوں نے پرائز بانڈ کا ذکر کیا تو چاچی الجھن ایک دم چونک پڑیں:
”ارے تم لوگ اس بانڈ کے پیچھے خوار ہورہے تھے جب کہ میں سمجھی یہ سب بھاگ دوڑ رسالے کی محبت میں کی جارہی ہے۔ ویسے بھی میں کوئی پاگل تھوڑی ہوں۔ چُھٹّن ردّی والے کو ڈائجسٹ دیتے ہوئے اس کود یکھ لیا تھا اور وہ پرائز بانڈ نکال کر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔“
چاچی کی بات سنتے ہی چاچو اتنی تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھے کہ کرسی الٹتے الٹتے بچی: ”کہاں ہے وہ پرائز بانڈ؟“
”صفدر صاحب کے پاس….“ چاچی نے اطمینان سے کہا۔
چاچو نے جلدی سے صفدر صاحب کی طرف دیکھا تو انھوں نے اپنی قمیص کی جیب سے پرائز بانڈ نکال کر میز پر رکھا اور چاچو سے پوچھنے لگے۔
” کیا یہی پرائز بانڈ تھا؟“
چاچو نے جلدی جلدی اثبات میں سر ہلا دیا۔ ان کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کا پرائز بانڈ مل گیا ہے: ”ہاں! اسی پر انعام نکلا ہے۔“
”مگر اس کا تو کوئی فائدہ نہیں چاچو…. آپ کو انعام نہیں مل سکتا۔“ صفدر صاحب نے پرائز بانڈ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیوں….؟“ اس بار چاچو کے ساتھ ساتھ باقی سارے لوگ بھی حیرت کے مارے ایک ساتھ چِلّا اٹھے۔
”اس لیے کہ….“ صفدر صاحب کچھ دیر کو رکے، پھر بتانے لگے: ”اس لیے کہ…. یہ پرائز بانڈ اصلی نہیں ہے۔“ پھر وہ اس کے درمیان اُنگلی رکھتے ہوئے کچھ دکھانے لگے: ”دیکھو…. یہ ایک نہیں دو پرائز بانڈہیں جو شاید درمیان سے پھٹ گئے تھے۔ کسی نے نہایت مہارت سے پرائز بانڈ کا ایک حصہ دوسرے پرائز بانڈ کے دوسرے حصے سے اس طرح جوڑا ہے کہ اس کو ایک نظر میں پہچاننا مشکل ہے۔ اس کے ایک طرف لکھا ہوا نمبر دوسری طرف لکھے ہوئے نمبر سے مختلف ہے۔ چاچو نے صرف ایک نمبر نوٹ کیا، دوسرے نمبر کو نہیں دیکھا۔“
سب لوگ حیرت سے اس دوغلے پرائز بانڈ کو دیکھ رہے تھے اور ’چاچو کھجلی‘ ،مایوسی کے عالم میں کرسی پر نیم دراز ہوکر آنکھیں موندے اپنے پیٹ کو زور زور سے کھجلائے چلے جارہے تھے۔ ان کا مشن ’پرائز بانڈ کی تلاش‘ ایک جعل ساز کی مہارت پر ختم ہوچکا تھا۔
٭….٭