مقام: پاگل خانہ
ہال میں بہت سے پاگل موجود ہیں۔ ان میں کم پاگل، زیادہ پاگل اور نیم پاگل سب شامل ہیں۔ کوئی سر کھجا رہا ہے ، کوئی ہاتھ نچا رہا ہے، کوئی سر کے بل کھڑا ہوا ہے۔ طرح طرح کے لباس ہیں۔ کوئی نیکر پہنے ہوئے ہے اور کوئی لنگی۔ کسی کی پتلون کا ایک پائینچہ غائب ہے اور کسی کی ایک آستین نہیں۔ کچھ پاگل لباس سے بے نیاز ہیں۔ سامنے اسٹیج پر ایک قطار میں گا¶ تکیے ہیں۔ شیروانی میں ملبوس صدر صاحب براجمان ہیں۔ سر پر تر کی ٹوپی ہے۔ وہ اپنی ٹوپی کا پھندنا مسلسل گول گول گھما رہے ہیں۔ ان کی دائیں طرف تین اور بائیں طرف تین شعراءصاحبان بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک نشست سیکریٹری کی ہے۔
سیکریٹری: حضرات آج ہم مشاعرہ منعقد کررہے ہیں۔ یہ غیر طرحی مشاعرہ ہے۔ اس میں غزل بھی پڑھی جا سکتی ہے اور نظم بھی۔ شعراءصاحبان جس بحر میں چاہیں، اپنا کلام پیش کرسکتے ہیں۔ اب مشاعرے کا آغاز ہوتا ہے۔
حاضر ہیں سب سے پہلے بادام شاہ مداری
کھولیں گے اس جگہ وہ اشعار کی پٹاری
بادام شاہ مداری:
میرے ٹخنوں میں دردِ جگر ہوگیا
دونوں گھٹنوں پہ غم کا اثر ہو گیا
کوئی بادل نہیں اور بارش ہوئی
چھاتہ رکھ کر بھی میں تر بتر ہو گیا
میں نے پالا تھا بلا بہت ناز سے
پھول کر اب وہ شیر ببر ہو گیا
دیکھو انڈے پہ ہاتھی کھڑا ہو گیا
پہلے ڈرپوک تھا اب نڈر ہو گیا
اپنے بیٹے سے پٹتے ہیں کلو میاں
اب جواں ان کا نور نظر ہوگیا
بحث و تکرار سے باز آتے نہیں
جب بھی ان سے ملا، درد سر ہو گیا
چینی ملتی نہیں ہے، کہاں جا¶ں میں؟
چلتے چلتے ہی لمبا سفر ہو گیا
جب بھی دشمن نے للکارا اس قوم کو
ہر مسلمان سینہ سپر ہو گیا
(واہ واہ کی آوازیں)
سیکریٹری :
ڈھولک بجانے والے شہزاد آرہے ہیں
دامن میں وہ غزل کی سوغات لارہے ہیں
شہزاد:
بھینس کے انڈوں کو تل کر ہم مزے سے کھائیں گے
دودھ کا دریا پہاڑوں سے بہا کر لائیں گے
فاعلا تن فاعلا تن فاعلاتن فاعلن
بحر اچھی ہے اسی مےں شعر ڈھلتے جائیں گے
موسم سرما میں ہم نے آم کھائے ہیں بہت
موسم گرما میں ہم امرود لا کر کھائیں گے
جو امیر انسان ہیں، ان کو خوشی ملتی نہیں
ان کے ہونٹوں پر تبسم ایک دن ہم لائیں گے
بھوک ہمارے پیٹ میں ہے، تم ہمارے سامنے
یعنی تھوڑی دیر میں تم کو ہڑپ کرجائیں گے
ہم سمندر پر چلائیں گے ٹرینیں اور بسیں
خشک میدانوں میں اپنی کشتیاں دوڑائیں گے
سردیوں کی چاندنی نے جسم کو جھلسا دیا
گرمیوں کی دھوپ سے ہم خوب ٹھنڈک پائیں گے
چار دن کی چاندنی ہے، پھر اندھیری رات ہے
ہم اندھیری رات میں تارے زمیں پر لائیں گے
دے کے ایذائیں اگر تم مار ڈالو گے ہمیں
بھوت بن کر ہم تمہارے سامنے آجائیں گے
روز ہوتے ہیں دھماکے، یہ دھماکستان ہے
ہم دھماکہ باز لوگوں کو مٹاتے جائیں گے
(واہ واہ کی آوازیں)
سیکریٹری:
پیروں پہ گھنگرو باندھے وہ آرہے ہیں جنگلی
آکر بجائیں گے وہ اپنی غزل کی ڈفلی
جنگلی:
ہاتھوں کا وہ کمال دکھا کر چلے گئے
بوری میں ایک مرغ چھپا کر چلے گئے
اک ڈگڈگی تھی ہاتھ میں ، بندر بھی ساتھ تھا
بندر کو اس گلی میں نچا کر چلے گئے
باتوں کے فن میں ان کی مہارت ہے لاجواب
رائی کا وہ پہاڑ بنا کر چلے گئے
برباد میرا وقت کیا یوں ہی بیٹھ کر
وہ پان کھانے آئے تھے، کھا کر چلے گئے
کپڑے مرے خراب کیے چھینک مار کر
بتیس دانت مجھ کو دکھا کر چلے گئے
بس دو منٹ کے واسطے مجھ سے لیا قلم
مٹھی میں اپنی اس کو دبا کر چلے گئے
مہمان بن کے آئے تھے دو روز کے لیے
دو ماہ بعد ہاتھ ہلا کر چلے گئے
ان کو پسند آئی مری قیمتی گھڑی
اس پر بری نگاہ لگا کر چلے گئے
ایک آواز:
اشعار کا خزانہ لٹا کر چلے گئے
محفل کو یادگار بنا کر چلے گئے
دوسری آواز:
ان پاگلوں کے دل کو لبھا کر چلے گئے
جاتے ہوئے زبان چڑا کر چلے گئے
تیسری آواز:
لائی غزل کسی کی، سنا کر چلے گئے
ہم سب کو بے وقوف بنا کر چلے گئے
سیکریٹری:
طرہ لگائے سر پر قندیل آرہے ہیں
ہاتھوں میں شاعری کی زنبیل لارہے ہیں
قندیل:
نہیں ٹلتے ہیں جو مہمان ان کو کیسے ٹرخائیں؟
جواب آسان ہے، ہر روز گھر میں دال پکوائیں
مٹائیں جھریاں کیسے جو آجاتی ہیں چہرے پر؟
چلا¶ استری منہ پر تو فوراً دور ہوجائیں
اگر نایاب ہو روٹی تو بھوکے لوگ کیا کھائیں؟
جواب آسان ہے وہ کیک بسکٹ گلگلے کھائیں
لگا کر کوٹ پر کس پھول کو دفتر میں ہم جائیں؟
لگائیں پھول گوبھی کا، پکا کر پھر اسے کھائیں
بچیں گی مچھلیاں کیسے، لگے جب آگ پانی میں؟
جواب آسان ہے، اڑ کر درختوں پر پہنچ جائیں
(واہ واہ کی آوازیں)
سیکریٹری:
تشریف لا رہے ہیں عبدالرشید جلوہ
سب کو کھلائیں گے وہ اپنی غزل کا حلوہ
عبدالرشید جلوہ:
گھر میں آئی ہے غریبی اور اب جاتی نہیں
بادلوں کی ٹولیاں بھی نوٹ برساتی نہیں
جس زمانے میں زمیں پر بادشاہت تھی مری
اس کی یادیں میرے دل سے اب کبھی جاتی نہیں
گھنٹوں گپ شپ مار کر ہوتی ہے ان کی واپسی
میرے دل کو دوستوں کی یہ ادا بھاتی نہیں
ایک انگلش مین نے مجھ سے کہا ”ہو آر یو؟“
کہہ دیا میں نے کہ ” مجھ کو فارسی آتی نہیں“
لاٹری کھلتی نہیں ہے کوئی میرے نام کی
کوئی خوش خبری یہاں بادِ صبا لاتی نہیں
”کائیں کائیں“ کی صدا سے کان میرے پک گئے
اب سریلا گیت بلبل صحن میں گاتی نہیں
ایک آواز:
ایک شاعر سے لکھائی پیسے دے کر یہ غزل
ورنہ اس کے باپ کو بھی شاعری آتی نہیں
چند آوازیں: شیم…. شیم …. شیم!!
سیکریٹری:
آخر میں آرہے ہیں گل شیر خان اودھم
آکر گرائیں گے وہ اشعار کا ایٹم بم
گل شیر خان اودھم:
حکمرانوں کو دیا ہے پاگلوں نے یہ پیام
”تم سے ہو سکتا نہیں ہے مملکت کا انتظام“
لوگ پتھر مارتے ہیں پاگلوں کو صبح و شام
کر دیا ہے ظالموں نے ان کا جینا بھی حرام
ساری دنیا نے ستایا پاگلوں کو روز و شب
ایک دن مظلوم لیں گے ظالموں سے انتقام
ملک ہے کنگال لیکن حاکموں کو دیکھئے
پرتکلف دعوتوں کا کررہے ہیں اہتمام
مست اپنے حال میں ہیں سارے پاگل رات دن
جو حکومت کررہے ہیں ، وہ ہیں یو ایس کے غلام
پاگلوں کے کام میں ہیں خوبیاں ہی خوبیاں
ختم کردیں گے زمیں سے ظلم کا سارا نظام
جو غریب انسان ہیں، مرغ مسلم کھائیں گے
تھام لیں گے سارے پاگل جب حکومت کی لگام
وقت سے پہلے مکمل کام ہوتے جائیں گے
تیز رفتاری کے باعث ملک ہو گا تیز گام
چار جانب ابتری ہے، ہر طرف دنگا فساد
پاگلوں کے دم سے ہوگا امن عالم کا قیام
دور کردیں گے اندھیرا، روز روشن لائیں گے
لوگ پھر کرنے لگیں گے پاگلوں کا احترام
(سبحان اﷲ …. واہ واہ کی آوازیں)
ایک آواز:
سارے پاگل خوش ہوئے ہیں آپ کی اس نظم سے
آپ کو عزت ملے گی، آپ ہوں گے نیک نام
دوسری آواز:
آپ کے اشعار سے پیدا ہوا ہے حوصلہ
اب ہمارے ہاتھ میں تلوار ہوگی بے نیام
تیسری آواز:
گلو بھائی آپ ہی حق دار ہیں انعام کے
آپ کے اعزاز میں ہوگا ڈنر کا اہتمام
سیکریٹری:
نصف درجن شاعروں کا سن لیا سب نے کلام
صدر صاحب ہیں ہمارے محترم عبدالسلام
اپنے خطبے سے ہمیں ممنون وہ فرمائیں گے
پھر ہماری آج کی محفل کا ہو گا اختتام
اب میں صدر صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ ہمیں خطبہ صدارت سے نوازیں۔
صدر مشاعرہ:عزیز ساتھیو! آپ نے مجھے مشاعرے کا صدر بنایا ہے ۔ صدر بننا میرے لیے نہ تو نئی بات ہے اور نہ بڑی بات۔ میں کئی بار جلسوں کا صدر بن چکا ہوں ۔ میری صدارت میں تمام جلسے کامیاب رہے اور آئندہ بھی کامیاب ہوتے رہےں گے۔ تالیاں بجائیے۔
(تالیاں بجتی ہیں)
آپ نے میرے گلے میں باسی پھولوں کا جو ہار ڈالا ہے، اس سے میری عزت کم نہیں ہوئی۔ مرجھائے ہوئے پھول بھی پھول کہلاتے ہیں بلکہ وہ تازہ پھولوں سے بہتر ہیں کیوں کہ مشہور بات ہے ”اولڈ از گولڈ“ ۔ تالیاں بجائیے۔
(تالیاں بجتی ہیں)
حضرات! اردو زبان میں بے شمار شعراءنے طبع آزمائی کی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں ان شاعروں کی بہت عزت ہے۔ ان کی عزت، عظمت اور شہرت دیکھ کر گدھوں کے دلوں میں بھی شاعری کرنے کا شوق سمایا اور انہوں نے شاعری کے میدان میں اپنے قدم رکھ دیئے۔ جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے۔
شاعری چارہ سمجھ کر سب گدھے چرنے لگے
شاعری آتی نہیں اور شاعری کرنے لگے
گدھاز …. اوہ معاف کیجئے۔ حضرات!
شاعری کے میدان میں جب گدھے آسکتے ہیں۔ تو کیا ہم پاگل لوگ نہیں آسکتے؟ کیا ہم گدھوں سے بھی گئے گزرے ہیں؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ ہمارا درجہ گدھوں سے کسی طرح کم نہیں۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ہم نے آج مشاعرہ منعقد کیا ہے اور میری صدارت میں یہ مشاعرہ نہایت کامیاب رہا۔ تالیاں بجائیے۔
(تالیاں بجائی جاتی ہیں)
ان کلمات کے ساتھ میں اعلان کرتا ہوں کہ مشاعرہ ختم ہوا۔ آپ سب کی چھٹی ہوئی لہٰذا آپ لوگ ابا¶ٹ ٹرن ہو کر اپنے اپنے کمروں کی طرف اچھلتے ، کودتے ، چہچہاتے اور ہنہناتے ہوئے چلے جائیے۔
(ایک منٹ بعد) ارے تم اب تک گئے نہیں۔ کیا مٹھائی کا انتظار کررہے ہو؟ یہاں کوئی مٹھائی ملنے والی نہیں۔ فوراً چلے جا¶۔ جاتے ہو یا ماروں جوتا۔
٭….٭….٭
