انو میاں کی عادت نے ان کے سب دوست چھین لیے تھے
اَنّو کے ابو کا سر غصے سے پھٹنے کو تھا۔ ان کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کریں تو کیا کریں؟
اَنّو نے آج پھر ایک ایسی بات جو راز تھی، اپنے ایک دوست کو بڑے آرام سے بتلا دی تھی۔
وہ تو بھلا ہو احمد کا جس نے آکر بتادیا، ورنہ تو غازی صاحب کو لینے کے دینے پڑگئے ہوتے۔ نوکری بھی جاتی اورساتھ اچھی خاصی بدنامی مفت میںہاتھ آتی۔
یوں تو غازی صاحب کے دو بیٹے تھے مگر اُنھیں پسند بڑا بیٹا ہی تھا۔ چھوٹے انو سے تو اُنھیں، اب خوف آنے لگا تھا۔ اِدھر گھر میںکوئی بات ہوئی۔ اُدھر وہ بات عام ہوئی۔ کئی دفعہ اُنھیں دوستوں کے سامنے شرمندگی اُٹھانا پڑی تھی۔
اس دن تو حد ہوگئی، جب ہمساے اکرم صاحب کی بیوی نے ان کے دروازے پر آکر خوب بُرا بھلا کہا۔ بات ہی ایسی تھی۔ اتفاق سے غازی صاحب کی بیوی نے کہہ دیا تھا: ’’ارے دیکھنا! ہمارے پڑوسی اکرم صاحب اور ان کی بیوی کی جوڑی بالکل گلی ڈنڈا لگتی ہے۔ ایک لمبا تڑنگا اور ایک چھوٹا سا۔ بس اسی بات کو اَنّو نے گلی میں کھیلتے ہوئے سنا ڈالا۔ پہلے تو سارے لڑکے خوب ہنسے۔ پھر کسی نے پوچھا: ’’یار انو! تم تو اتنے ذہین نہیں ہو یہ جملہ کس نے کہا ہے؟‘‘
اَنّو نے جھٹ سے بتا دیا۔ ’’میری امی نے اور کس نے!‘‘
اب یہ تو مشہور ہے ہی نا کہ اُدھر بات منھ سے نکلی، اِدھر کوٹھوں چڑھی۔
یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ اکرم صاحب کی بیوی کو بھی کسی نے جا بتایا، پھر وہ دن اور آج کا دن، دونوں گھروں میں بول چال ، لین دین سب بند پڑا ہے۔ اسی رات غازی صاحب نے کوئی دسویں بار سمجھایا کہ بیٹے باز آجائو۔ کوئی تھوڑی بہت عقل قسم کی چیز اگر تمھارے پاس ہے تو اسے استعمال کرنے سے تمھارا کیا نقصان ہوجائے گا۔ اس غریب کو تو پڑے پڑے ہی زنگ لگ جائے گا۔
پہلے انو نے سر ہلا دیا۔مگر پھر فوراً بولا:’’ابو جی، میں کو ن سا غلط بات کہہ دیتا ہوں۔ سچ بات ہی تو کہتا ہوں۔ یہی میری عقل بھی کہتی ہے۔‘‘
اب غازی صاحب کا تو پارہ چڑھ گیا اور اُنھوں نے انو غریب کو دو چار ہاتھ بھی جڑ دیے۔ اگر غصے میں نہ آتے تو سمجھا دیتے کہ بیٹے قول اختری ہے ’’سنی ہوئی اچھی باتوں کی جگہ حافظہ ہوتی ہے ،اور جو کام کی بات نہ ہو اسے بھلا دینا ہی بہتر ہے۔ اﷲ اﷲ خیر سلا‘‘ ورنہ سمجھانے کے لیے ایک دوسرا قول کہہ دیتے کہ’’ میاں پیٹ میں کھانے کے علاوہ اہم باتوں کو بھی ہضم کیا کرو۔ یہ عقل کی ہی نہیں اچھے ہاضمے کی بھی علامت ہوتی ہے۔‘‘ مگر نہ تو غازی صاحب یہ کہہ سکتے تھے کہ اس قدر غصے میںتو کوئی بھلا آدمی بھلی بات سوچ ہی نہیں سکتاتو کہہ کیسے سکتا ہے؟ ایسے میں غصے کی زبان کو انو کیسے سمجھ سکتا تھا۔ وہ بھی اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور تھا۔
کلاس میں اس کی دوستی صرف ایک ہی لڑکے سے تھی اور وہ تھا عثمان، ویسے تو سبھی حیران ہوتے تھے کہ یہ جوڑی کیسے چل رہی ہے۔ کیوں کہ انو کی دوستی کسی کے ساتھ پچھلے سات آٹھ برسوں میںکبھی ایک دو ماہ سے زیادہ چلی ہی نہیں تھی ۔ اِدھر دوستی ہوئی اُدھر خوب گھل مل کے باتیں ہونا شروع ہوئیں۔ اِدھر انو اپنے گھر کی، پچھلے دوستوں کی ساری اچھی بُری باتیں مزے لے لے کر سناتا اور پھر کچھ دنوں بعد دوست کم از کم گالم گلوچ ورنہ ہاتھا پائی کے بعد ہمیشہ کے لیے اس سے کٹی کر لیتا: ’’میاں تم بھی کیسے دوست ہو۔ ذرا کسی بات کا راز نہیں رکھ سکتے۔ ڈھنڈورچی کی طرح ساری باتیں اِدھر اُدھرکر دیتے ہو۔‘‘
عثمان کا معاملہ ان سب سے مختلف تھا ۔ اوّل تو وہ تھا بہت ہی کم گو اور جب بولتا بھی تھا تو بہت نپا تلا اور موقع محل کی مناسبت سے۔ وہ بچوں کی مختلف کہانیوں، کتابوں اور رسائل پر تبصرہ کرتا اور انو مزے لے لے کر سنتارہتا۔ اب بھلا عثمان کیوں ناراض ہوتا۔ کیوںکہ کہانیاں اور کتابیں تو خوشبو ہوتی ہیں، جہاں چاہیں ان کا ذکر لے جائیں۔ فیض ہی پہنچائیں گی۔ روشنی ہی دکھائیںگی مگر انو میاں کوجب جب یہ روشنی تھوڑی پڑ جاتی تو لگے ہاتھ سنی سنائی ساری باتیں بھی کر دیتے۔ اس روز غازی صاحب چھڑی سنبھالے انوکا انتظار کر رہے تھے کہ آئے تو ذرا اس کی خبر لیتا ہوں۔ جب عثمان میاں ٹہلتے ٹہلتے اِدھر سے گزرے۔ اُنھوں نے سوچا، چلو ذرا انو سے ہی ملتا جاتا ہوں۔ بس دروازے پردستک دینے کی دیر تھی کہ غازی صاحب جھٹ سے برآمد ہوئے، ہاتھ میں لمبی چھڑی… وہ تو شکر ہوا کہ اُنھوں نے عثمان میاں کا حیرت سے پُر چہرہ دیکھ لیا، ورنہ تو عثمان میاں کو اپنی نئی جوتی چھوڑ کر بھاگنا پڑتا۔ ا ب نہ تو عثمان سے پوچھا گیا اور نہ ہی غازی صاحب بتا پائے کہ اصل معاملہ کیا ہے ۔ دونوںایک دوسرے کی طرف حیرت انگیز نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
آخر عثمان میاں ہی بول پڑے:’’وہ جی! انو سے ملنا تھا!‘‘
’’اچھا تو تم بھی اس نالائق کے دوست ہو۔آج ذرا گھر آ تو جائے۔ پہلے تو اس سے میںملوں گا پھر کچھ بچ گیا تو تم بھی مل لینا۔‘‘
عثمان میاںکاماتھا ٹھنکا، پوچھا: ’’انکل اگر آپ ناراض نہ ہوں تو پوچھ سکتا ہوں کہ آپ اتنے غصے میں کیوں ہیں؟‘‘
غازی صاحب نے اس معصوم بچے کو یہ عقل کی بات پوچھتے دیکھا تو ذرا ٹھنڈے پڑ گئے۔ بولے: ’’میاں کیا بتائوں ہمارے گھر کے لیے یہ انو ایک سزا بنا ہوا ہے۔ روزانہ کوئی نہ کوئی نیا گل کھلاتا ہے ۔ آج اس نے یہ حرکت کی کہ ہمارے محکمے کے افسر اعلا کے آنے پر ہم نے جو پلاننگ کی تھی، اس کی ساری تفصیل ہمارے ہی دفتر کے ایک بدمعاش اور بددیانت کارکن کے بیٹے کو بتا دی۔ معاف کرنا بیٹے! معذرت! میں غصے میں یہ لفظ بول گیا۔ اصل میں بات ہی کچھ ایسی تھی۔ ہم نے چھاپے کا پروگرام بنایا تھا۔ وہ سارا منصوبہ لیک آئوٹ ہوگیا۔ اب اگر ہم اعلیٰ افسر کو لے جاتے اور وہاں کچھ نہ ملتا تو کتنی رسوائی ہوتی۔ غلط اطلاع دینے پر غصے میں آکر وہ مجھے ہی نہیں میری ٹیم کو بھی نوکری سے نکال سکتے تھے۔آج تو میں اسے سزا دیے بغیرچھوڑوں گا نہیں۔ روز روز کے تماشے سے تنگ آگیا ہوں۔ اس ناخلف نے جگہ جگہ پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔کئی بار سمجھانے کے باوجود سنبھلنے اور اپنی بُری عادت کو بدلنے پر تیار نہیں۔‘‘
عثمان میاں سوچ میںپڑگئے۔ پھر اُنھیں یاد آیا۔ کہنے لگے:’’انکل ! مجھے ایک دو دن دیں۔ میں اپنے بڑے بھائی سے بات کروںگا۔ وہ بڑے سمجھ دار ہیں۔ کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈ نکالیںگے۔ انسانوںکی نفسیات ان کا خاص شعبہ ہے۔‘‘
٭…٭
اب جناب رات کو عثمان میاں نے مجھ سے ذکر کیا کہ ان کے دوست انومیاں پیٹ کے بہت ہلکے ہیں۔
میں نے جواب دیا: ’’ میاں انھیں کہو دوچار کلو کے باٹ باندھ لیں۔ پیٹ کے بھاری ہوجائیںگے ۔یہ نہیں کر سکتے تو کلو دو کلو پھل کھائیں، کچھ نہ کچھ پیٹ پر فرق پڑ ہی جائے گا۔‘‘
عثمان نے میری باتوں پر کچھ خوشی کا اظہار نہیں کیا اور کہا: ’’بھائی میاں! اﷲ کی قسم اب کے اس کے ابو اسے بہت ماریں گے اور مجھے تو لگتا ہے کہ وہ اکثر مار کھاتا ہوگا۔ آپ کو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا۔ اسے اس بیماری سے نجات دلانے کے لیے۔‘‘
بس میں نے بھی جوش میں آکر کہا: ’’ٹھیک ہے کل اسے اپنے ساتھ لے آئو۔ ہم بھی اسے دیکھیں گے۔ اُمید تو یہی ہے کہ اﷲ جی نے چاہا تو مابدولت کچھ نہ کچھ مثبت نتائج نکال ہی لیںگے۔‘‘
کہنے کو تو ہم نے کہہ دیا مگر پریشانی یہ تھی کہ کریں تو کیا کریں؟ پھر اتفاقاً ایک طریقہ سوجھ ہی گیا ۔ طریقہ تھا بڑے مزے کا مگر ساتھ میں خوف بھی تھا کہ اگر تیر نشانے پر نہ بیٹھا تو انو میاں ہماری سمجھ داری کی بھی ایسی مشہوری کریں گے کہ کہیں منھ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑیں گے۔
اگلے روز صبح ہی صبح ایک کمہار کے پاس گیا اور اس سے تین پتلے بنوائے۔ بالکل ایک جیسے برابراور یکساں ۔ میرا خیال تھا، دونوں سے فرق پوچھوں گا کہ ان میں کون سا اچھا ہے اور کون سا بُرا۔
بس یہیں ایک راز کی بات بھی تھی۔بتا دیا تو ٹھیک ورنہ، ورنہ کا مسئلہ تھا کہ خود سے بتائوں گا تو معلوم نہیں ان کو سمجھ میں بھی آئے گی یا نہیں۔
خیر اﷲ کا نام لے کر شام کو ان کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ حسب توقع شام کو دونوں آ پہنچے ۔ انو میاں کو میں نے بڑے غور سے دیکھا ۔ بڑے سیدھے سادے خوب صورت اور بظاہر بھولے بھالے نظر آ رہے تھے ۔ کپڑے بھی اچھے پہنے ہوئے تھے۔ ورنہ میں تو سوچ رہا تھا کہ اگر انو میاں بالکل ہی گھامڑ قسم کے نکلے تو ساری اسکیم فیل ہوجائے گی۔
اپنے کمرے میں لے جا کر اُنھیں بٹھایا اور کہا کہ’’ ایک دیکھنے ، سوچنے اور پھر سمجھنے والا سوال ہے مگر باتصویر ہے۔ جو سمجھ جائے گا اور صحیح جواب بتلائے گا،اُسے اس کی توقع سے بڑھ کر شاباش بھی ملے گی اور نقد انعام بھی دوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے تینوں پُتلے نکالے اور میز پر رکھ دیے۔
’’جی ہاں! تو سوال یہ ہے کہ ان تینوں میںکون سا سب سے اچھا ہے اور سب سے بُرا کون سا ہے؟‘‘
پہلے انو میاں نے تینوں کو دیکھا، ہلایا، اُلٹا پلٹا کیا اور کہنے لگے: ’’اس کی ناک ذرا ٹیڑھی ہے۔‘‘
میری ہنسی نکل گئی۔اسکیم فوت ہوتی ہوئی نظر آ رہی تھی مگرہلکی سی آس ابھی باقی تھی۔
پھر میاں جی نے دوسرے کے بارے میں کہا: ’’اس غریب کے کان میں سوراخ ہے ، ہو نہ ہو، کان کے درد سے بے حال رہا ہوگا۔ تیسرے کا ذرا پیٹ پھولا ہوا ہے۔ بظاہرتو قبض کی شکایت لگتی ہے۔‘‘
اب باری عثمان کی تھی۔ وہ بڑی توجہ سے پتلوں کو دیکھ رہا تھا اور میرے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا ، دوسرا جا رہا تھا ، یا الٰہی اب تو میری سمجھ اور ذہانت کے قصے بدنامی کی طرح عام ہونے ہی والے ہیں۔ اس ’’مشہوری‘‘ کو کیسے سنبھالوں گا؟ جو بدنامی بن کر پھیلے گی اور اختر ہی نہیں اختری کی بھی خاک اُڑے گی ، مگر کیا دیکھتا ہوں کہ عثمان میاں تینوں پتلوں کے کانوں میں باری باری پھونکیں مار رہے ہیں۔
میری نہ صرف اپنی جان میںجان آئی بلکہ اُمید کی جان بھی بچتی نظر آئی۔
عثمان میاں نے مسکراتے ہوئے میری طرف اور پھر انو میاں کی طرف دیکھااور ایک پتلے کو اٹھا کر مجھے تھمادیا۔اور بولے:’’یہ رہا اوّل اور یہ رہا دوم اور تیسرے والا تو دوکوڑی کا بھی نہیں۔‘‘
اس سے پہلے کہ میںکچھ پوچھتا، انو میاں بولے: ’’واہ بھئی وا، وہ دو کوڑی والا تو ان دونوں سے صاف ستھرا ہے۔‘‘
’’بات تو انو تمھاری ٹھیک ہے مگر ظاہری خوب صورتی سے زیادہ اہم ان کی اصل اور اندرونی خوبیاں ہیں۔‘‘ عثمان نے اعتماد سے جواب دیا۔
’’جی بھیا ! انعام تیار رکھیں اور سنیں۔ ‘‘ عثمان کہتا چلا گیا۔
’’یہ جو اوّل پتلا ہے نا! اس کے کان میں سوراخ ہے۔ جب میں نے پھونک ماری تو ہوا باہر نہیں نکلی ، غالباً بلکہ یقینا پیٹ میں گئی اور محفوظ ہوگئی۔
دوسرے پتلے کے کان میں پھونک ماری تو دوسری طرف کان سے نکل گئی اور تیسرے پتلے کے کان میں پھونک ماری تو منھ سے نکل گئی۔‘‘
’’تو!‘‘حیرت سے انو میاں نے پوچھا۔ ’’اس سے بھلا کیا نتیجہ نکلا؟‘‘
’’بھئی! صبر کرو ! بتاتا ہوں، بتاتا ہوں۔‘‘ عثمان مسکرایا۔
’’اوّل آنے والے پتلے کی خوبی یہ ہے کہ اس سے جو بھی راز کی بات کی جائے وہ اسے ہضم کر لیتا ہے۔ اسے دوبارہ منھ سے کبھی نہیں نکالتا۔
دوسرے کی یہ خوبی تو نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ وہ اسے کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔ فائدہ نہیں تو نقصان بھی نہیں، مگر تیسرا تو بالکل ہی کسی کام کا نہیں۔ ادھر اس نے کوئی بات سنی، اُدھر منھ سے نشر کر ڈالی، نہ کسی کا کوئی راز رکھ سکتا ہے اور نہ کوئی بات ہضم کر سکتا ہے۔‘‘
یہ سن کر سچی بات یہ ہے کہ میرا ڈھیروں خون بڑھ گیا ۔ میں نے عثمان کو کھینچ کر سینے سے لگایا۔ خوب پیار کیا اور پورا ایک سو روپیہ انعام دیا۔
انو میاںتو سوچ میں پڑ گئے تھے اور عثمان چاے لینے اندر چلا گیا ۔ جب واپس آیا تو چاے پیتے ہوئے میں نے پوچھا: ’’عثمان ان خوبیوں کا تمھیں کیسے پتہ چلا!‘‘
کہنے لگے: ’’بھیا! آپ خود ہی تو مجھے کتابیں، کہانیاں پڑھنے کو دیا کرتے ہیں ، وہیںکسی جگہ میں نے ایک واقعہ پڑھا تھا۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ ا ب کی بار انو میاں نے چاے کا کپ میز پر رکھ دیا اور بڑے اشتیاق سے پوچھا۔
مجھے یوں لگا یہ پہیلی اور اس کا حل اس کے دل کو بھاگیا ہے۔
عثمان میاں بولے:’’سچی بات تو یہ ہے کہ پہلے میں خود پریشان ہوگیا تھا ۔پھر بس اﷲتعالیٰ کی طرف سے ہی مجھے حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بچپن کی بات یاد آگئی۔ بات یوں تھی کہ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ پیارے رسول حضرت محمد صلی اﷲ علیہ والہ وسلم تشریف لائے اور اُنھیں سلام کیا۔ پھر اپنی کسی ضرورت سے حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ایک کام کے لیے بھیجا۔ وہاں انھیں وقت زیادہ لگ گیا ۔ کام مکمل کر کے جب اپنی ماں کے پاس پہنچے تو ماں نے پوچھا۔
’’بیٹا اتنی دیر کہاں رہے؟‘‘
بتایا کہ پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی ضرورت سے بھیجا تھا۔
بولیں:’’کیا ضرورت تھی؟‘‘
جواب دیا’’اماں وہ تو ایک بھید ہے۔‘‘
ان کی ماں نے کہا:’’دیکھو بیٹے! پیارے رسول صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کا بھید کبھی کسی کو نہ بتانا۔‘‘
بس جب سے میں نے یہ واقعہ پڑھا تھا تب سے سمجھتا تھا کہ بھید کا چھپانا اور محفوظ رکھنا بہت قیمتی بات ہے اور بھید کھول دینا دوکوڑی کی بات ہے۔ یہی بات مجھے یاد آگئی اور میری مشکل آسان ہوگئی۔‘‘
انو میاں چاے پیتے پیتے کھڑے ہوگئے، تیسرے والے پتلے کو اٹھایا، پلٹایا اور پھر اچانک بولے۔
’’کیا میں اس جیسا ہوں۔‘‘
ہم دونوں میں سے کوئی نہ بولا تو وہ خود سے ہی بڑبڑاے۔
’’کیا میں واقعی ایسا ہوں۔ دوکوڑی سے بھی کم قیمت کا۔ کاش اپنی بُری عادت کی قیمت کا بھید میں پہلے پا لیتا تو اس پتلے جیسا تو نہ ہوتا۔‘‘
٭…٭
عثمان میاں سے پچھلے دنوں سنا ہے کہ انو میاں اب بہت بدل گئے ہیں، اور ان کے ابو نے لمبی سی چھڑی کہیں دور پھینک دی ہے۔جو اُنھوں نے انو کی پٹائی کے لیے رکھی تھی۔
٭…٭
اس تحریر کے مشکل الفاظ
منھ سے نکلی کوٹھوں چڑھی: بات منھ سے نکلتے ہی مشہور ہوجاتی ہے۔
ڈھنڈورچی: منادی کرنے والا ؍ ڈھنڈورا پیٹنے والا
ناخلف: نالائق ؍ والدین کی اطاعت نہ کرنے والا
گھامڑ: احمق ؍ سادہ لوح ؍ پھوہڑ
اسکیم: منصوبہ؍ چال ؍ سازش