” اس نے تلاش تلنے تی بہت توشش تی مگر ناتام رہا، میں تو پہلے ہی تہہ رہا تھا تہ تلاش بے تار ہے۔“
تلاش…. تاکید سے کی جائے یا تنبیہ سے، تقدیر سے کی جائے یا تقصیر سے، ترتیب سے کی جائے یا ترکیب سے، تنقید سے کی جائے یا تعریف سے، تحسین سے کی جائے یا تشویش سے، تقدیم سے کی جائے یا تاخیر سے…. بہرحال تحمل والا کام ہے۔
تلاش…. تتلی کو تازہ شگوفے کی ہو، تاریکی کو تاروں کی ہو، تاج کو جوہر تاب دار کی ہو، تاج وَر کو تابع دار کی ہو، تخت ِطاﺅس کو تخت نشین کی ہویا تعزیر کو کسی تعبیر کی ہو…. ذمہ داری والا کام ہے۔
تلاش…. تجمل کو تصدق کی ہو، تبسم کو تصور کی ہو، توقیر کو توصیف کی ہو، تو فیق کو توحید کی ہو، تمجید کو تمہید کی ہو، تسکین کو تمکین کی ہو یا تحریم کو تکریم کی…. تکان والا کام ہے۔
تلاش نے بڑوں بڑوں کے تخت تنور کر دیے اور بڑے بڑے تخت سے تپائی پر آگئے۔
بقول تلقین بھائی: ”تل ابیب سے تا بخاک تلہ گنگ…. تلاش نے کتنوں کو تلوار کی مار مار دی، کتنوں کو توپوں تک لے گئی، کتنوں کے تلوے چھلنی کروائے، کتنوں کو تلوے چٹوا دیے اور کتنے ہی تلوﺅں سے مل گئے۔“
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ ”تیمور تلنگ“ کے تلووں میں کھجلی ہونے لگی تو وہ تاج و تخت کی تلاش میں ’تل ابیب‘ سے چلا اور ’ترکی‘ سے ہوتا ہوا ’تبوک‘ پہنچا۔ وہاں کسی نے اسے تخت ِجمشید کے بارے میں بتایا، چناں چہ وہ تخت ِجمشید تک جا پہنچا۔ اسے یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ یہ ویسا تخت نہیں ہے جیسے تخت کی اسے تلاش ہے۔ چناں چہ وہاں سے وہ ’تبریز‘ جا پہنچا۔ تبریز میں اسے ایک تارک وطن تُرک نے کسی پُراسرار تابوت کے بارے میں بتایا تو وہ تاج و تخت کی تلاش تَرک کرکے تابوت کی تلاش میں پہلے تہران، پھر ترکمانستان اور پھر تاشقند سے ہوتا ہوا تاجکستان جا پہنچا، تاجکستان سے وہ ’ترمذ‘ پہنچا ہی تھا کہ اسے کسی نے ’تائیوان‘ کی راہ دکھا دی پھر وہاں سے وہ ’تبت‘ گیا۔ تبت میں اسے کسی نے تاریخی تلوار کے بارے میں بتایا۔ اب تیمور تلنگ تاج و تخت کے بعد تابوت کی تلاش بھی چھوڑ کر اس خاص تلوار کی تلاش میں سیدھا تخت بھائی پہنچا۔ تخت بھائی سے وہ تورغر، تیمرگرہ اور تربیلا سے ہوتا ہوا پہلے تونڈی موسیٰ، پھر تونسہ پہنچا۔ تونسہ میںمختصر قیام کے بعد وہ ترنڈہ محمد پناہ چلا گیا۔ ترنڈہ کے کسی تحصیل دار نے اسے تخت ہزارہ پہنچا دیا۔ وہاں اسے کہا گیا کہ تلوار کی تلاش تَرک کردے اور تِلّے والی جوتی اس کے شایان شان ہے۔ بس اب تیمور تلنگ تِلّے والی جوتی کی تلاش میں سیدھا تلہ گنگ پہنچا اور تِلّے والی جوتی پا کر نہال ہوگیا۔ اس کے مشیر تو اسے تلنگانہ اور تامل ناڈو تک لے جانا چاہتے تھے مگر تل ابیب سے چلنے والا یہ بادشاہ تاج و تخت کی تلاش کو تنور میں جھونک کے تِلّے والی جوتی پاکر خوش ہوگیا، اسی وجہ سے تیمور کو ’تیمور تلنگ‘ کہتے ہیں۔
ایک اور بادشاہ کا بھی ’تاریک‘ میں ذکر ملتا ہے، جسے لایعنی تلاش نے وہ قلاش کیا کہ ملکہ تخت پر ترکاریاں لگانے پر مجبور ہوئی تو بادشاہ تاج میں تل ڈال کر چباتا رہتا۔
تیمور اور تِلّے والی جوتی سے ’تغلق‘ صاحب یاد آگئے۔ تغلق صاحب تِلّے والی جوتی کے اتنے شوقین ہیں کہ ان کی جوتی میں تَلا ہو نہ ہو تِلّا ضرور ہونا چاہیے۔
’تغلق صاحب تے بڑے لڑتے تاشف….‘ معاف کیجیے گا…. تغلق صاحب کے بڑے لڑکے کاشف کی بھی سنیے۔ کاشف دراصل تھوڑا توتلا ہے۔ اس کا ’ک‘ کی جگہ بھی ’ت‘ نکلتا ہے۔
ایک مرتبہ کہنے لگا: ”میرا دوست ہے نا تمال…. اس تا تیتر اُڑ گیا۔ اس نے تلاش تلنے تی بہت توشش تی مگر ناتام رہا، میں تو پہلے ہی تہہ رہا تھا تہ تلاش بے تار ہے۔“
ایک دن کاشف تجوری میں تانک جھانک کر رہا تھا کہ اس کی والدہ کی آواز آئی: ”یہ تجوری میں جو تم تتلیاں تلاش کر رہے ہو…. میں دیکھ رہی ہوں اور ابھی تمھاری تکفین و تدفین کا انتظام کرتی ہیں۔“
اس کے بعد کاشف کے تلووں سے وہ پسینہ بہا کہ پوچھیے مت…. موصوف ایک دن ترکاریوں کی دکان پرگئے اور تازہ ترکاریوں کی تلاش میں چھابڑے کو تہ و بالا کردیا۔ بس پھر پہلے ترکاری فروش سے تُوتکار ہوئی…. پھر تو تڑاق…. پھر ترکاریاں تتر بتر ہوئیں…. بالآخر ترازو چل کے رہا اور دونوں نے ترکاریوں کی طرح ایک دوسرے کی تُلائی کی۔
تغلق صاحب کو تریّوں اور ترکاریوں میں خاص طور پر تڑکا لگی تریّاں بہت پسند ہیں۔ وہ بھی تِل لگی تنوری یا تافتان کے ساتھ…. جنھیں وہ تشتری کے بجاے تشت یا تغاری میں کھانا پسند کرتے ہیں۔ تیتر اور تلور کے گوشت کے علاوہ انھیں تَلی ہوئی تِلّی اور پینے میں تمباکو پسند ہے، سر پر تارے میرے کا تیل بھی لگاتے ہیں…. تمباکو اور تارے میرے سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کڑوی چیزوں کا بھی ذوق رکھتے ہیں…. اپنی بیگم’ تہمینہ‘ کی تلخ ترش باتیں بھی مسکرا کے سنتے ہیں…. فرماتے ہیں کہ…. ”نہ ہم توپ تفنگ والے ہیں نہ یہ بے چاری تیر و تلوار والی ہیں، تُو تُو میں میں سے ہی کام چلا لیتے ہیں۔“
اب تغلق صاحب کے بڑے بیٹے ’تاثیر‘ کی سن لیجیے جن کے بارے میں ان کی تائی کا فرمان ہے کہ تاثیر کوکچھ تلاش کرنے کا کہو تو اسے تاپ چڑھتا ہے۔ موصوف ایک دن تربوز والے کی تلاش میں نکلے تو سامنے سے (پورے محلے کے) تایا تنویر تربوزوں سے بھرا ٹھیلا لیے آرہے تھے۔ چوں کہ تاثیر کے تایا تنویر سے اچھے تعلقات تھے، اسی لیے تایا نے ایک تگڑا تربوز اسے تھما دیا۔
تربوز ہاتھ میںلیے تاثیر نے تایا سے کہا: ”تایا آپ کو تو معلوم ہے کہ اس موسم میں تربوز کتنی تسکین دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تربوز کے معاملے میں، میں توحید کے بجاے تثلیث کا قائل ہوں۔ ایک سے کیا ہوگا تایا….؟“
تایا آگے بڑھے، وہ ایک تربوز بھی اس کے ہاتھ سے جھپٹا اور یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے: ”تم جیسے پیٹ کے کافروں کو میں تربوز دینا تو کیا بیچنا بھی پسندنہیں کرتا۔“
اس کے بعد تاثیر میاں:
”تربوز کی تلاش میں ہم گرمی کے ماروں سے
وہ تائے ٹکرائے ہیں جو تائے بھی نہ تھے۔“
تاثیر کے بارے میں ان کی والدہ فرماتی ہیں کہ ”نرا تماش بین ہے ہر وقت یا تو خود تماشا لگانے یا کسی تماشا کرنے والے کی تلاش میں رہتا ہے۔“
بات تلاش کی ہو رہی ہے اور تایا تنویر کا ذکر آیا تو ہمیں تایا تابش یاد آگئے جن کے” اقوال تلاش زریں“ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مندرجہ ذیل چیزوں میں سے آپ کوئی چیز تلاش کرنا چاہیں گے تو کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ترچھے منھ کی تقریر سے، توتلے کی تدریس سے، تلخ آدمی کی تلقین سے، تخریب کار کی تعمیر سے، تفصیل کار کی تلخیص سے، ترمیم شدہ تحریر سے، تقدس میں تشہیر سے اور تعاقب میں تاخیر سے…. اور بقول تایا تابش کے، ان امور میں کچھ تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے ترپال پر تُرپائی کی جائے یا تانبے کی تار پر تصویر بنائی جائے۔
بات تلاش کی ہو اور تحسین صاحب یاد نہ آئیں…. ممکن ہی نہیں…. انھوں نے ”تلاشوائیے“ کے نام سے ایک ادارہ کھولا ہے۔ جس کسی کی بھی کوئی چیز، گھر، دکان یا دفتر میں گم ہوگئی ہو، وہ مناسب معاوضہ دے کر ان کے ادارے کے تربیت یافتہ ”تلاشویّوں“ سے تلاش کروا سکتے ہیں۔
تنویر صاحب! کے تلاشویّے مقررہ جگہ کی ایسی تابڑ توڑ تلاشی لیتے ہیں کہ اگرچہ تیرہ چیزیں مزید تباہ ہو بھی جائیں مگر گم شدہ چیز ضرور مل کر رہتی ہے…. باقی سارا گھر تہس نہس ہوجائے…. ایسا تو ہوتا ہے ایسے کاموں میں….
اب ذکر ہوجائے تلاش کے حوالے سے کچھ کتابوں کا…. اس سلسلے میں پہلی کتاب تحسین تلنگانوی کی ”تابوت کی تلاش“ ہے۔ دراصل یہ ایک ناول ہے۔ جس کے دوچار جملے ملاحظہ فرمائیے:
”تسلیم نے تابوت کی تلاش میں تربت پر ابھی تیشہ چلایا ہی تھا کہ تابوت سے آواز آئی:
”تم تلاش کے دھنی، تن دہی سے تباہی کو تلاش کرتے پھرتے ہو۔ یہ پکڑو تیرتھ ترپان کو…. تمھارا تن من دھن تباہ ہو…. اور خدا تمھیں تن تنہا کرے۔“
اور ساتھ ہی ایک بڑا سا توبڑا ان کی طرف اچھال دیا گیا، جس میں تباہی کا بھوتنا ’تیرتھ ترپان‘ موجود تھا، جو بعد میں تین تربوز، تیرہ تیتر، تئیس تلور، تینتیس تولہ تُلسی، تینتالیس تولہ تل، ترپن تولہ تخم تربوز، تریسٹھ ترنج، تہتر تلیر، تراسی تولہ تمباکو اور ترانوے تولے تُوڑی لے کر مان گیا اور تباہی کا تمغہ تسلیم کو تھما گیا…. جو تباہی تیرتھ ترپان نے پھیلانی تھی، اب وہ تسلیم پھیلاتا پھرتا ہے…. “
دوسری کتاب تائب تمیمی کی ”تذکرہ ¿ تلاش“ ہے۔
اس کا ایک اقتباس دیکھیے:
”تلاش چار حروف کا مجموعہ ہے۔ تلاش میں سے ’ت‘ کو نکال دیا جائے تو نری ’لاش‘ بچتی ہے یعنی اب آپ کی تلاش کسی کام کی نہیں رہی ،دفنا دیجیے۔ تلاش میں سے ’ل‘ کو نکال دیا جائے تو ’تاش‘ بچتا ہے جس کا یہ مطلب ہوا کہ آپ کسی کام کے نہیں ہیں اور نہ آپ کوئی ڈھنگ کی چیز تلاش کرسکتے ہیں لہٰذا بیٹھ کر تاش کھیلیے۔ اِن ہی چار حروف میں سے ’ا‘ کو نکال دیا جائے تو ’تلش‘ بچتا ہے جو کم دورانیے کی تلاش کو کہتے ہیں یعنی آپ کوئی چیز تلاش کرنے لگے اور وہ تھوڑی ہی دیر میں مل گئی تو یہ تلش ہوگئی، اسی طرح تلاش کا دورانیہ جتنا لمبا ہوگا اتنے الف لگتے چلے جائیں گے اور اگر ان چار حروف میں سے ’ش‘ کو نکال دیا جائے تو جوتی کا ’تَلّا‘ بچے گا، جس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، ہر شخص اتنی عقل تو رکھتا ہے کہ بغیر ’ش‘ کی تلاش کا راز سمجھ سکے۔“
ویسے تمیمی صاحب کی تو کہاوتیں بھی اپنی ہیں، مثلاً: تلاش نہ جانے جنگل چوڑا…. تیر نہ تُکا، تلاش کر مکا…. لاش کو تلاش نہیں…. اندھے کو گونگے کی تلاش…. آبیل مجھے تلاش…. تلاش لاکھ کی ہوگئی خاک کی…. تو گدھی کمہار کی تجھے تلاش سے کام؟
ویسے تمیمی صاحب ماہر تلاشیات ہیں، تو انھوں نے لفظ تلاش سے دو نئے الفاظ نکالے ہیں۔
لکھتے ہیں: ”جس چیز کو تلاش کیا جا رہا ہو وہ ’متلوش‘ کہلائے گی اور جب تلاش کر لی جائے گی تو ’تلاشیدہ‘ ہوجائے گی۔“
تیسری کتاب تابندہ تاشفین کی ”تاروں کی تلاش“ ہے، جس میں وہ ایک خوب صورت نصیحت لکھتی ہیں:
”تلاش تاریک رات میں ہو یا تاروں کی چھاﺅں میں، تلوے زمین پر ٹکا کر کی جائے یعنی تکبر کے بجاے تدبر سے کی جائے تو ضائع نہیں ہوتی، بصورت دیگر تلاش میں تلوے گھِس لو، یا تلوے چھلنی کروا لو، کسی کنارے نہیں لگتی۔“
چوتھی اور آخری کتاب تہذیب تمیزی کا شعری مجموعہ ”تمھاری تلاش“ ہے، جس میں سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
کریں گے کیا جو تلاش میں ہو گئے ناکام
کہ ہمیں تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
٭….٭
ہم تلاش بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
تم گم بھی کرتے ہو تو چرچا نہیں ہوتا
٭….٭
اس سادگی پہ کون مر نہ جائے اے خدا
کہتے ہیں کہ تلاشتا ہوں پر ڈھونڈتا نہیں
٭….٭
ایک مدت سے ہمارے پاس تو آیا بھی نہیں
اور ہم نے تلاشا ہو تجھے، ایسا بھی نہیں
٭….٭
کس کس کو بتائیں گے تلاشی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو بتانے کے لیے آ
٭….٭
کوئی تلاش بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
٭….٭
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملا
جہاں تلاش کیا، وہاں نہیں ملا
اوہ ہاں ایک بات تو لکھنا بھول گیا۔ پچھلے دنوں ایک تنبورچی مکان تلاش کرتا کرتا پڑوس میں آ کراے دار ہوا۔ اس کے گھر سے کبھی تان کی آواز آتی تو کبھی تال کی، کبھی تالیاں پیٹنے کی تو کبھی ترانہ گانے کی، ظالم کبھی تنبورہ اُٹھا لیتا تو کبھی تان پورہ…. تایا تسلیم تو ویسے ہی تتے توے پر بیٹھے رہتے ہیں…. تاک تول کر تالا پھینکا…. وہ تان سے تو گیا جان سے بھی گیا…. تلاش جاری ہے…. اپنے تک رکھیے گا۔
٭….٭
اس تحریر کے نئے الفاظ
تقصیر :کوتاہی، خطا، قصور، بھول
تقدیم: پیش قدمی، بر تری، فوقیت، ترجیح دینا
تازہ شگوفہ: تازہ کلی تاب دار: روشن، چمک دار
تاج ور: بادشاہ، صاحب تاج تپائی: تین پایوں کی چوکی
تخت ِطاﺅس: شاہ جہاں بادشاہ کا تخت جس پر ایک جڑاﺅ مور پر پھیلائے کھڑا تھا تعزیر: سزا، تنبیہ، سرزنش
تنور: روٹی اور شیرمال بنانے کی بھٹی
تل ابیب: اسرائیل (مقبوضہ فلسطین )کا مرکزی شہر
تلہ گنگ: پنجاب کے شہر چکوال کی تحصیل
تلوے چھلنی ہونا: بہت چلنے سے تلوﺅں کا زخمی ہونا
تلووں سے مَلنا ©: روندنا، پامال کرنا
تلووں میں کھجلی ہونا ©: آرام سے نہ بیٹھ پانا، سفر کرنا
تبوک: مدینہ سے چودہ منزل دُور ایک مقام
تخت جمشید: ایران کے ہخا منشی بادشاہوں کا دارالسلطنت جو شیراز سے چالیس میل شمال مشرق کی جانب ہے۔
تبریز: ایران کا ایک شہر تاشقند: ازبکستان کا شہر
تارک وطن: اپنا وطن چھوڑنے والا، پردیسی
تہران: ایران کا دارالحکومت ترمذ: ازبکستان کا ایک شہر
ترکمانستان: وسط ایشیا کا ایک ملک
تاجکستان: وسط ایشیا کا ایک ملک
تائیوان: چین کے ساتھ واقع ایک ملک
تبت: ایک خطہ جو پہلے آزاد تھا مگر اب چین کا حصہ ہے
تخت بھائی: پشاور سے اَسّی کلومیٹر دُور بدھا تہذیب کی باقیات پر مشتمل ایک مقام
تورغر: خیبر پختونخوا کا ایک ضلع جو پہلے کالا ڈھاکہ کہلاتا تھا
تیمر گرہ: پاکستان کے ضلع دیر زیریں کا صدر مقام
تربیلا: راولپنڈی سے اسی کلومیٹر دُور مقام جہاں تربیلا ڈیم واقع ہے تحصیل دار: تحصیل کی سطح کا ایک عہدہ
تونڈی موسیٰ: پنجاب کے شہر گجرانوالہ کا ایک قصبہ
تونسہ: پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان کی تحصیل
ترنڈہ محمد پناہ: پنجاب کے شہر رحیم یار خان کا ایک گاﺅں
تخت ہزارہ: پنجاب کے شہر سرگودھا کا ایک قصبہ مشہور لوک داستان کے ایک کردار’ رانجھا‘ کا گاﺅں
تِلّا: سنہرا دھاگا تلور: ایک قسم کا پرندہ
تلنگانہ: بھارت کی ریاست آندھرا پردیش سے ملحق علاقہ
تامل ناڈو: بھارت کا ایک صوبہ جہاں تامل زبان بولی جاتی ہے تُو تکار: بد زبانی تشت: پرات، تھال
قلاش: غریب، کنگال ترئی: ایک قسم کی ترکاری
چھابڑا: ٹوکرا تہ و بالا: نیچے اوپر، الٹ پلٹ
تُلائی: تولنے کا کام تشتری: چھوٹی رکابی،پلیٹ
تغاری: کونڈا، تعمیر میں استعمال ہونے والا گارے مٹی کا برتن
تِلّی: معدے کے عقب میں جسم کا ایک اندرونی عنصر
تارا میرا: ایک قسم کا پودا جس کا تیل کڑوا ہوتا ہے
تفنگ :ایک لمبی نالی جس میں سے پھونک کے ذریعے تیر پھینکے جائیں تاپ: بخار توحید: ایک ماننا
تثلیث: تین ماننا تخریب کار: خراب کرنے والا
تلخیص: خلاصہ کرنا ترمیم: تبدیل، اصلاح
ترپال: وہ ٹاٹ جس سے پانی نہ گزرے
تُرپائی: باریک سلائی تربت: قبر، مزار
تیشہ: بڑھیّوں کا ایک اوزار تُکا: وہ تیر جس میں بھال نہ ہو
دھنی: وہ شخص جو کسی بات کے پیچھے لگ جائے
تن دہی: سخت کام کو جی لگا کر کرنا
توبڑا: وہ تھیلا جس میں گھوڑے کو کھانا کھلاتے ہیں
تخم: بیج، گٹھلی ترنج: چکوترا، ایک قسم کا بڑا نیبو
تلیر: ایک قسم کا چھوٹا پرندہ تُوڑی: گندم یا چاول کی گھاس
تاروں کی چھاﺅں: پچھلی رات تان پورا: موسیقی کا ایک آلہ
تلوے زمین پر ٹکنا: ایک جگہ جم کر بیٹھنا
تلوے گھِس جانا: بہت سفر کرنا، بہت پھرنا
تنبورچی: تنبورا بجانے والا تان: گانے کے سُر
تال: گانے بجانے کا وزن تنبورا: موسیقی کا ایک آلہ
تتے توے پر بیٹھنا: غصے میں آگ بگولا ہونا
٭….٭