میں نے سوچا اگر اب وہ دوبارہ آئے تو میں اپنے گلگ میں جمع کیے ہوئے سارے پیسے انھیں دے دوں گی
’’یااللہ… یہ کرفیو کب ختم ہوگا اور ہم اپنے گھروں سے باہر کب نکل سکیں گے؟‘‘ سلیمہ نے کھڑکی کے پردے کو ہلکا سا ہٹا کر باہر وادی میں جھانکا۔
چہار طرف سناٹے کا راج تھا۔ انسان تو انسان کوئی جانور بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ سواے ان وردی والے درندوں کے جنھیں وہ انسان تو کیا… جانور بھی ماننے کو تیار نہ ہوتی تھی اور کیسے ہوتی…؟
ابھی کچھ دن پہلے ہی کی تو بات تھی، جب بابا کو گھر واپس آنے میں دیر ہوگئی تھی۔ طرح طرح کے وسوسوں سے ان کا دِل دہل رہا تھا۔
سلیمہ کو کتوں سے بہت ڈر لگتا تھا۔ جب بابا کا کتا ’موتی‘ گھر کے دروازے پر آکر بھونکنے لگتا تھا۔ اس لیے بابا نے ’موتی‘ کا داخلہ گھر کے اندر بند کر کھا تھا۔ وہ بابا کے ساتھ اکثر پہاڑ پر اُن کی چکی پر جایا کرتا تھا، جہاں سے وادی کے لوگ آٹا خریدتے اور اپنا گیہوں اور اناج پسوانے لایا کرتے تھے۔
سلیمہ اس دن حیران تھی کہ آخر وہ کیوں اتنا بھونک رہا ہے؟ بڑے بھیا تو یونیورسٹی میں پڑھتے اور ہوسٹل میں رہتے تھے، ایک احمد ہی بچتا تھا۔ اس سے بڑے محمد کو وہی درندے اپنے گھر سے جدا کر چکے تھے۔
اُف…! یہ بات بھی کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے۔ خیر امی جان کو بتا کر وہ احمد کو ساتھ لیے نکلی تو موتی نے آگے آگے دوڑنا شروع کر دیا۔ وہ جلد ہی بابا کے قریب پہنچ گئے جو ایک درخت کے نیچے بے سدھ لیٹے ہوئے تھے۔ سلیمہ نے بھاگ کر اُن کے ماتھے پر ہاتھ رکھا، پیشانی تپ رہی تھی۔
’’بابا… بابا آنکھیں کھولیں۔‘‘ احمد نے کہا۔
وہ دونوں اب ان کے ہاتھ مل رہے تھے۔ بابا نے آنکھیں کھول کر اُنھیں دیکھا اور مسکرا دیے۔ بڑی مشکل سے وہ گھر تک پہنچے لیکن اس دن کے بعد سے سلیمہ نے ’موتی‘ سے ڈرنا چھوڑ دیا تھا۔
٭…٭
بابا پہاڑوں پر کس کے پاس جایا کرتے تھے؟ یہ تو انھوں نے کبھی نہیں بتایا لیکن ایک رات اُن کے کچھ دوست ان سے ملنے آئے تھے۔ دوست تو ویسے بھی آتے تھے اور سلیمہ ان میں سے اکثر کو پہچانتی بھی تھی۔ گلی میں رہنے والے شیر خان چاچا، اسلم چاچا وغیرہ، ان سے بابا کی بڑی گہری دوستی تھی۔ وہ اکثر باہر والے کمرے میں بیٹھک لگا کر اپنے پرانے قصے یاد کرتے، قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے کبھی سیاست، کبھی آزادی… تو کبھی کشمیر کے پاکستان یا ہندستان سے الحاق ہونے کے بعد کے نتائج پر بحث کرتے اور اس وقت صرف یہی نہیں بلکہ محلے کے کئی بزرگ بھی شامل ہوتے تھے۔ لیکن یہ دوست تو بالکل الگ قسم کے تھے… ان کے آ نے کے بعد بابا نے سارے دروازے اور کھڑکیاں بند کروا دیں اور سب کو منع کر دیا کہ کوئی باہر نہ جھانکے۔ امی جان نے دو تین با ر ان کو گرم پانی دیا اور پھر بابا گھر میں رکھا ہوا فرسٹ ایڈبکس بھی اندر ہی لے گئے تھے۔
٭…٭
’’امی جان! اندر کون آیا ہے؟‘‘ سلیمہ کو تجسس ہو رہا تھا۔
’’مہمان ہیں۔‘‘ امی جان نے کھانا پکاتے ہوئے مختصر جواب دیا۔
’’کہاں سے آئے ہیں؟‘‘ سلیمہ نے دوبارہ پوچھا۔
’’پتا نہیں…‘‘ امی جان نے چولھے کی آنچ دھیمی کرتے ہوئے کہا۔
’’ابو…! مرہم اور دوائیں کیوں لے کر گئے ہیں، کوئی بیمار ہے کیا؟‘‘ سلیمہ نے ایک اور سوال پوچھ لیا۔
’’پتا نہیں…‘‘ امی نے پھر مختصر جواب دیا۔
’’لیکن ابو بہت خوش لگ رہے ہیں… ہے نا امی؟‘‘ امی کو مصروف دیکھ کر سلیمہ نے پھر بات سے بات نکالی۔
’’ہاں…‘‘ اس بار امی کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اسی وقت بابا کسی کام سے اندر آئے۔
’’بابا یہ کون مہمان ہیں؟‘‘ سلیمہ نے پوچھا۔
’’بیٹا! یہ میرے دوست ہیں۔‘‘ انھوں نے اسے ٹالا۔
’’لیکن یہ کون سے والے دوست ہیں؟ کیا یہ مجاہد ہیں؟‘‘ سلیمہ نے پوچھا۔
بابا نے چونک کر اُسے دیکھا
’’ہاں بیٹا! یہ وہ مجاہد ہیں، جو ہماری آزادی کے لیے اپنا تن من دھن قربان کررہے ہیں۔ ان میں کئی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آزاد وطن کی فضا چھوڑ کر صرف مسلمان بھائی ہونے کے ناتے ہماری مدد کے لیے یہاں موجود ہیں۔‘‘ بابا نے اسے نرمی سے سمجھایا۔
’’مجاہد تو بہت اچھے ہوتے ہیں۔ یہ بھارتی فوجی صرف ان ہی سے تو ڈرتے ہیں۔ میں تو ہر نماز میں یہ دُعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری وادی کو اس قابض فوج سے آزاد کروا دے تاکہ ہم بھی سکون سے رہ سکیں۔‘‘ سلیمہ نے جوش بھرے انداز میں کہا۔
وہ یہ سن کر بہت خوش تھی کہ اس کے گھر میں مجاہدین مہمان آئے ہوئے ہیں۔ ان مہمانوں کو شاید بہت جلدی بھی تھی… کیوں کہ وہ جلد ہی ان کے گھر سے روانہ ہوگئے تھے۔
٭…٭
صبح وہ اسکول جاتے ہوئے بہت خوش تھی لیکن اسکول پہنچ کر وہ ذرا اُداس سی ہوگئی کیوں کہ اس کی سہیلی شمائلہ آج غیر حاضر تھی۔ شمائلہ اس کی جماعت میں ہی پڑھتی تھی اور دونوں ایک ہی ڈیسک پر بیٹھا کرتی تھیں۔
’’آج کا سارا دن بہت بور گزرا۔‘‘ واپسی پر سلیمہ سوچ رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ وہ شمائلہ کی خیریت دریافت کرتی چلے کہ وہ آج کیوں نہیں آئی لیکن پھر اُسے خیال آیا کہ امی نے بغیر پوچھے کہیں بھی جانے سے سختی سے منع کیا ہے۔ یہ خیال آتے ہی اُس نے اپنے گھر کی طرف جانے والے راستے پر قدموں کی رفتار تیز کر دی۔
ــ’’امی آج شمائلہ نہیں آئی تھی… شاید اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ میں کچھ دیر کے لیے اُس کے گھر چلی جائوں…؟‘‘ سلیمہ نے کھانے کے بعد امی سے شمائلہ کے گھر جانے کی اجازت طلب کی۔
’’اچھا چلی جائو لیکن جلدی آنا۔‘‘ امی نے اُسے ہدایت کی اور اُسے چھوڑنے دروازے تک آئیں۔
سلیمہ نے فوراً شمائلہ کے گھر کا رُخ کیا۔ اُسے معلوم تھا کہ جب تک وہ شمائلہ کے دروازے تک نہیں پہنچ جائے گی، امی اُسے دروازے کی اوٹ سے دیکھتی رہیں گی۔
٭…٭
’’خالہ جان شمائلہ کہاں ہے؟‘‘ دروازہ کھلتے ہی اُس نے شمائلہ کی امی سے پوچھا۔
’’ارے… نہ سلام نہ دعا؟‘‘ انھوں نے مسکرا کر کہا۔
’’اوہ! معاف کیجیے گا۔ السلام علیکم! خالہ جان! ویسے شمائلہ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا…؟ آج وہ اسکول کیوں نہیں آئی؟‘‘ سلیمہ نے کئی سوال ایک ہی سانس میں کر ڈالے۔
’’ارے بھئی… سانس تو لو… وعلیکم السلام! اندر ہے تمھاری سہیلی… اُسی سے پوچھو۔‘‘ انھوں نے ہنستے ہوئے اسے اندر کا راستہ دکھایا۔
شمائلہ اندر بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔ اُس نے سلیمہ کو دیکھ کر اُٹھنے کی کوشش کی۔
’’لیٹی رہو… تمھاری طبیعت خراب ہے۔‘‘ سلیمہ نے اس کے چہرے سے ہی اندازہ لگا لیا۔
’’تمھیں پتا ہے آج میرا دن تمھارے بغیر بہت بے کار گزرا …‘‘ سلیمہ نے منھ بسور کر شکایت کی۔
’’ہاں مجھے بہت شدید بخار ہے اس لیے نہیں آ سکی تھی۔‘‘ شمائلہ نے عذر پیش کیا۔
’’پتا ہے… مجھے تمھیں ایک بہت اچھی بات بتانی تھی۔‘‘ سلیمہ نے شمائلہ کی طرف جھک کر ذرا راز داری سے کہا۔
’’اچھا… وہ کیا ؟‘‘ اُس نے پوچھا۔
’’تمھیں پتا ہے کل ہمارے گھر کون مہمان آئے تھے؟ ’مجاہدین…‘ اصلی مجاہد جو ہماری وادی کشمیر کی آزادی کے لیے جہد و جہد کر رہے ہیں۔ میں نے سوچا اگر وہ اب دوبارہ آئے تو میں اپنے گلک میں جمع کیے ہوئے سارے پیسے اُنھیں دے دوں گی تاکہ میں بھی جہاد میں حصہ ڈال سکوں۔‘‘ سلیمہ پُرجوش ہو چکی تھی۔
’’واہ…! یہ تو بہت اچھی بات ہے لیکن وہ مجاہدین دوبارہ کب آئیں گے؟‘‘ شمائلہ نے بستر پہ لیٹے لیٹے پوچھا۔
شمائلہ کے ابو قدیر انکل کی آواز سن کر وہ بوکھلا گئی۔
’’السلام علیکم انکل…‘‘ یہ تو اسے نظر ہی نہیں آئے تھے۔
’’وعلیکم السلام… جیتی رہو… تمھارے بابا نے کچھ بتایا کہ وہ مجاہدین دوبارہ کب آئیں گے؟‘‘ انھوں نے سلیمہ سے پوچھا۔
’’نہیں… یہ تو مجھے نہیں معلوم…‘‘ سلیمہ نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
ــ’’اچھا… چلو اب جب وہ آئیں تو مجھے بتانا۔ میں بھی اُن کی کچھ مدد کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن خیال رہے کہ اپنے بابا کو مت بتانا۔ ورنہ ہوسکتا ہے وہ تمھیں یہاں نہ آنے دیں۔ یہ دیکھو میں شمائلہ کے لیے بہت ساری کہانیوں کی کتابیں اور کھلونے لے کر آیا ہوں۔ ان میں سے اگر کوئی تمھیں پسند ہو تو لے سکتی ہو۔‘‘ انھوں نے کمرے میں موجود میز کی طرف اشارہ کیا۔
’’کتنے اچھے ہیں قدیر انکل…‘‘ سلیمہ کا دل خوشی سے جھومنے لگا۔
امی نے اسے زیادہ دیر وہاں رُکنے سے منع کیا تھا لہٰذا وہ کچھ دیر بعد اپنے گھر کے لیے روانہ ہوگئی۔ البتہ واپسی پر اس کے ہاتھ میں دو خوبصورت کتابیں اور ایک چھوٹی سی گڑیا دبی ہوئی تھی جو قدیر انکل نے دی تھی۔
٭…٭
’’بابا… یہ کتابیں اور گڑیا مجھے شمائلہ نے دی ہیں۔‘‘ شام کے وقت اُس نے خوشی خوشی چیزیں اپنی امی اور بابا کو دکھاتے ہوئے کہا: ’’لیکن پتا ہے کیا… شمائلہ کا تو شاید یہ سب مجھے دینے کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا لیکن قدیر انکل نے زبردستی اُس سے دلوا دیں اور کہا کہ میں تمھیں اور لا دوں گا، وہ بہت اچھے ہیں۔‘‘
’’اچھا…‘‘ بابا بے دھیانی سے اُس کی بات سن رہے تھے۔ اس وقت ان کے موبائل پر کال آنے لگی تو وہ اُٹھ کر باہر کی طرف چلے گئے۔
’’اوہو… ابھی تو مجھے بابا سے بہت ساری باتیں کرنی تھیں۔‘‘ سلیمہ نے زیر لب کہا۔
’’چلو سلیمہ! اب اپنا ہوم ورک کرلو۔‘‘ امی نے اُس سے کہا۔
ابھی وہ بابا سے بہت سی باتیں کرنا چاہتی تھی لیکن ہوم ورک بھی ضروری تھا وہ جلدی سے اپنا بستہ اُٹھا لائی۔
٭…٭
اُس کی آنکھ کھلی تو امی کمرے میں نہیں تھیں۔ وہ اُنھیں دیکھتی باورچی خانے تک آئی۔ جہاں ایک چولھے پر پانی گرم ہو رہا تھا اور دوسرے پر امی کھانا پکا رہی تھیں۔
اُس نے بیٹھک کے دروازے کی جھری میں سے جھانکا: ’’ارے واہ…! یہ تو مجاہدین ہیں۔‘‘
اُسے اپنے گلک کے پیسے اُنھیں دینے تھے۔ اس کے ساتھ ہی اُسے کسی سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا۔ اُس نے جلدی سے پیروں میں جوتے اٹکائے اور گرم کپڑے کی فرن پہنی اور آہستہ سے دروازہ کھولا اور شمائلہ کے گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔
’’خالہ جان! کیا قدیر انکل ہیں…؟‘‘ شمائلہ کی امی کے دروازہ کھولنے پر اس نے پوچھا۔
’’نہیں… خیریت؟‘‘ انھوں نے حیرت کا اظہار کیا۔
’’مجھے اُنھیں ایک بات بتانی ہے۔‘‘ سلیمہ مسکرائی۔
’’وہ تو نہیں ہیں… مجھے بتا دو۔‘‘ انھوں نے کہا۔
’’میرے گھر نا… مجاہدین آئے ہوئے ہیں۔ انکل نے کہا تھا، جب وہ آئیں تو مجھے بتانا۔ مجھے اُن کی مدد کرنی ہے… آپ انھیں بتا دیجیے گا۔‘‘ سلیمہ نے انھیں رازدارانہ لہجے میں بتایا۔
’’اچھا…! تم اندر تو آئو۔‘‘ اُنھوں نے اُسے بلایا۔
’’نہیں مجھے ابھی اپنے گلک سے پیسے نکالنے ہیں۔ بعد میں آئوں گی۔‘‘ سلیمہ نے کہتے ہوئے دوڑ لگا دی۔
’’کہاں گئی تھیں…؟‘‘ بابا اُسے دروازے پر ہی مل گئے تھے۔ ان کے پیچھے ہی پریشان چہرہ لیے امی کھڑی تھیں۔
’’بابا میں شمائلہ کے گھر گئی تھی… قدیر انکل کو بتانے…‘‘
’’یہ کیا کِیا تم نے…‘‘ بابا اُس کی بات کاٹ کر کمرے کی طرف دوڑے۔
امی کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، انھوں نے سلیمہ کو سینے سے لگا لیا تھا۔
’’کیا ہوا امی…؟ امی میں اپنا گلک توڑ کر مجاہدین انکل کو دے دوں؟‘‘ سلیمہ نے پوچھا۔
’’بیٹا! آپ قدیر انکل کو کیوں بتانے گئی تھیں؟‘‘ امی نے سلیمہ کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔
’’امی! وہ اچھے انکل…‘‘ سلیمہ کہنے ہی لگی تھی کہ اُس کی امی نے بات کاٹتے ہوئے کہا: ’’بیٹا! وہ اچھے انکل نہیں ہیں۔ اب غور سے سنو…‘‘
’’ان کے گھر کا سازو سامان اور بدلتے حالات دیکھ کر آپ کے بابا کو شبہ تھا کہ وہ کچھ غلط کام کر رہے ہیں۔ لیکن وہ غلط کام کیا ہے…؟ یہ سمجھنے سے قاصر تھے اور پھر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ میر جعفر کے قبیلے میں شامل ہوچکے ہیں۔ جن کا کام اپنوں ہی کے خلاف سازشیں کرنا اور انھیں نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔
میری بات کان کھول کر سنو…! اب چاہے کوئی کتنا ہی پوچھے آپ کو مجاہدین کے بارے میں ہر گز نہیں بتانا ہے کسی کو بھی نہیں… آپ کو اپنے بھائی ’محمد‘ کی شہادت یاد ہے نا…؟ ہمیں اپنی وادی کو ان درندوں سے آزاد کروانا ہے اور اسلام کا پرچم لہرانا ہے۔ چاہے اس کے لیے ہمیں اپنی جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔‘‘
اس نے ہمیشہ مسکرانے والی امی کو بہت کم اتنا سنجیدہ دیکھا تھا۔ ان کا چہرہ سفید ہو رہا تھا۔ بابا بھی اُن کی آخری بات سن چکے تھے۔
ـ’’ہاں بیٹا… ہماری جان آزادی سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اگر ہمارے گھر بھارتی فوجی گھس آئیں اور آپ کے سامنے آپ کے بابا کو بھی مار دیں تو تب بھی آپ کو ثابت قدم رہنا ہے۔‘‘ سلیمہ کے بابا نے جذباتی ہوکر کہا۔
سلیمہ بابا کی بات سن کر پریشان سی نظر آنے لگی تھی۔
’’آپ کو میں نے ایک حدیث سنائی تھی، یاد ہے نا… کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شہید کو قتل سے اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی کہ تمھیں چیونٹی کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ (ابن ماجہ، باب الجھاد: ۲۸۰۲)
سلیمہ نے اُلجھی ہوئی نظروں سے بابا کو دیکھا… اسے اب احساس ہو رہا تھا کہ انجانے میں اُس سے کس قدر سنگین غلطی ہوگئی ہے۔
’’اپنی امی اور بھائی کا خیال رکھنا۔‘‘ بابا نے سلیمہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے ہدایت کی۔
’’کیا میری غلطی کی سزا بابا کو بھگتنی ہوگی…؟‘‘ اس نے کرب سے سوچا۔
اِدھر امی کا چہرہ بالکل سفید ہوچکا تھا۔ لگتا تھا جیسے اُن کے جسم کا سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو۔
’’آپ کو کچھ نہیں ہوگا بابا…‘‘ اُس نے بابا کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھام لیا تو بابا نے آگے بڑھ کر سلیمہ کی پیشانی پر بوسہ لے لیا۔
٭…٭
’’یہ کرفیو پھر لگ گیا۔ یقینا کئی دن پھر اسکول کی چھٹی…‘‘ سلیمہ نے کوفت سے سوچا۔
’’یا اللہ کب یہ کرفیو ختم ہوگا اور کب ہم اپنے گھروں سے بے خوف نکل سکیں گے۔‘‘ اُس نے کھڑکی کے پردے سے باہر جھانکتے ہوئے سوچا۔
بھارتی فوجی وادی میں اعلان کرتے، جس کے گھر چاہتے تلاشی کے بہانے گھس جاتے تھے۔ ان سب کے علاوہ امی ابو کی باتیں سن کر اُس کا ذہن سوچ رہا تھا کہ کیا قدیر انکل گندے ہیں؟ کیا وہ مجاہدین کی مدد کرنے کے بجاے بھارتی فوج کی مدد کرتے ہیں؟ کیا وہ ہمارے گھر آنے والے مجاہدین کی خبر بھارتی فوج تک پہنچاتے ہیں؟
سلیمہ کا سر مختلف سوالات سوچ سوچ کر دکھ رہا تھا کہ اچانک ہی دروازے پر زور دار دستک ہوئی۔
’’شش… شاید فوجی…‘‘ وہ بھاگ کر امی کے پاس گئی۔
بابا نے دروازہ کھولا۔ چھہ سات فوجی دھڑ دھڑ کرتے اندر گھستے چلے آئے۔ ایک فوجی نے سب کو ایک جگہ جمع کرکے بندوق تان لی جب کہ باقی سارے گھر میں پھیل گئے اور ساتھ ساتھ وہ گالیاں بھی بکتے جارہے تھے۔ کبھی بابا کا گریبان پکڑ کر کھینچتے اور لاتیں مارتے ہوئے پوچھتے: ’’کہاں ہیں آتنگ وادی…؟ کہاں چھپایا ہے انھیں…؟ سیدھی طرح بتا…‘‘
وہ مار پیٹ کے مختلف حربے استعمال کر رہے تھے۔ ایک فوجی جو شاید میجر تھا، اُس نے اپنی جیب سے ایک تیز دھار خنجر نکالا اور میز پر رکھا ہوا سیب اچھال کر اُس کے دو ٹکڑے کر دئیے۔
’’میرا خیال ہے کہ بچے بھی سیب کی طرح نرم ہوتے ہیں… آرام سے ٹکڑے ہوجائیں گے۔‘‘ اُس نے قہقہہ لگایا۔
میجر کی بات سن کر امی جان کے ہاتھوں کی گرفت سلیمہ پر مضبوط ہوگئی۔
’’یہاں کوئی آتنگ وادی نہیں ہے۔‘‘ بابا نے کہا۔
بابا نے واقعی میں سچ کہا تھا۔ جنھیں وہ ’آتنگ وادی‘ کہتے ہیں۔ وہ ’مجاہد‘ تو کب کے جاچکے تھے۔
شاید وہ مجاہدین کئی دن سے اُس کالی بھیڑ کی تلاش میں تھے، جو ان کی خبر دشمن تک پہنچاتا تھا۔ وہ اس کا قلع قمع کرنے آج ہی جا پہنچے اور جیسے ہی اسے رنگے ہاتھوں پکڑا تو اُسے جہنم واصل کرنے میں دیر نہ لگائی۔
دیکھتے ہی دیکھتے ایک غلیظ اور بدبو دار روح آسمان کی جانب شرمندگی سے بڑھ رہی تھی، جس کے چہرے پر تکلیف کے آثار تھے جو شاید اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُس کے ساتھ رہنے تھے۔
٭…٭
اس تحریر کے مشکل الفاظ
ابتدائی طبی امداد: کسی حادثے کی صورت میں مریض کو معالج تک پہنچانے سے پہلے فوری علاج تاکہ تکلیف نہ بڑھے
جِھری: شگاف، سوراخ ؍ کرب: اضطراب، بے چینی
میر جعفر: نواب سراج الدولہ کی افواج کا سپہ سالار جس نے نواب سے غداری کی تھی، مجازاً غدار