کیا آپ نے اسلام آباد کی لیک ویو پارک کے بارے میں سنا ہے جہاں سیکڑوں پرندے اور جانور موجود ہیں،

جنھیں دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔ میرا نام کعب ہے… اور یہ کہانی شروع ہوتی ہے لیک ویو پارک سے… ارے نہیں ٹھہریے یہ کہانی اس وقت شروع ہوئی جب اسکول کی بس تیار کھڑی تھی، سب بچے بس میں بیٹھنے لگے تھے، اچانک مجھے خیال آیا کہ میں اپنا پسندیدہ قلم کلاس میں بھول آیا ہوں جو میرے چچا آسٹریلیا سے میرے لیے لائے تھے۔
میں بھاگتا ہوا اسکول گیا اور قلم اٹھا کر واپس لوٹ آیا جو اتفاق سے میری ڈیسک میں اب تک نیچے گرا ہوا تھا۔ لیکن یہ کیا… بس آہستہ آہستہ چلنے لگی تھی۔ میں چِلّاتا ہوا بھاگا۔ ’’رُکو میرے لیے۔‘‘
یہ تو اچھا ہوا کہ مسفرہ اور عینی نے مجھے کھڑکی سے دیکھ لیا اور شور مچا کر بس رکوادی۔

میں ہانپتا ہوا بس میں بیٹھا اور زور سے سانس لینے لگا۔ سب مجھے ہی دیکھ رہے تھے۔ مسفرہ مجھ سے ایک سال بڑی تھی اور اسے میری زیادہ فکر تھی، کیوں کہ وہ میری بہن تھی۔ ہم لیک ویو پارک پہنچ چکے تھے۔ ہماری مس شازیہ نے ہمیں چند ہدایات دیں اور پھر ہم مختلف چیزوں کو دیکھنے لگے۔ سارہ کو پہاڑی بکرے بہت اچھے لگتے تھے۔ وہ اُنھیں دیکھنے لگی۔ عینی ایک پونی (گھوڑے) کے ساتھ شرارتیں کررہی تھی۔
پھر مس ہمیں توتوں والے حصے میں لے گئیں اور بتایا کہ توتوں کی ۳۷۲ سے زائد اقسام دریافت ہوچکی ہیں

اور اس کی زیادہ تعداد امریکا اور آسٹریلیا کے جنگلات میں پائی جاتی ہے۔ توتے کو ایک بے وفا پرندہ بھی کہا جاتا ہے۔ توتے خوراک میں بیج، نٹ، درختوں کے پھل اور پودوں کے کئی حصے شوق سے کھاتے ہیں۔ یہ پھلوں کے دشمن ہیں لیکن کھاتے کم اور گراتے زیادہ ہیں۔
ہم نے زیادہ تر ہرے رنگ کا توتا دیکھا تھا۔ یہاں تو اُف… ہر رنگ اور ہر قسم کے توتے تھے۔ مسفرہ نے کہا کہ اسے نیلا توتا بہت پسند ہے۔

 

نیلا توتا بھی ہوا میں اوپر نیچے قلابازیاں کھا کر شرارتیں کررہا تھا۔ مسفرہ توتوں کے حوالے سے معلومات ایک ڈائری میں لکھتی جارہی تھی۔
یہاں بے حد عجیب و غریب اور انتہائی خوب صورت پرندے تھے۔ جنھیں دیکھ کر آنکھیں ہٹانے کا دل نہیں کرتا تھا۔ پھر ہم نے ایک جگہ، ڈھیر سارے سارس دیکھے۔ وہ درختوں پر اِدھر اُدھر بیٹھے نجانے کیا سوچ رہے تھے۔ سارسوں کی ایک نئی قسم بھی دیکھی۔ یہ سرمئی سے تھے اور سر پر ان کے تاج تھا۔
آہا مزہ تو تب آیا جب مسفرہ نے اپنا کیمرہ نکالا اور ایک البٹراس کے بچے کی تصویر کھینچنے لگی۔ پہلے تو اس نے کچھ نہیں کہا لیکن جب اس کے ابو جائزہ لینے آئے کہ یہ بچے کہیں میرے بچے کو نقصان تو نہیں پہنچارہے۔ ابو کو دیکھ کر البٹراس کے بچے نے اچانک جھپٹا مار کر کیمرے پر چونچ مارنی چاہی۔
مس نے بتایا کہ البٹراس کی دو درجن اقسام دنیا میں موجود ہیں۔

یہ اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ سمندر میں گزارتے ہیں۔ البٹراس ویسے تو قدرتی موت بھی مرتے ہیں لیکن اس کے علاوہ یہ سگریٹ، لائٹر اور دیگر ناکارہ پلاسٹک کھانے سے بھی مرتے ہیں جو یہ سمندر کے کنارے سے نگل لیتے ہیں۔ بعض البٹراس سورج کی تپش کی تاب نہ لاکر ہلاک ہوجاتے ہیں۔
ہم مختلف جگہ گھومتے گھامتے رہے۔ مسفرہ کا بس چلتا تو آج وہ ایک لاکھ… بلکہ نہیں ایک ہزار لاکھ تصویریں کھینچ لیتی۔

سردی تو پہلے ہی زیادہ تھی۔ سب گرم کپڑے اور جیکٹ پہن کر آئے تھے۔ اچانک بارش بھی شروع ہوگئی۔ سب نے اپنے سر بھی ڈھانپ لیے۔ مسفرہ کو کچھ لکھنا تھا لیکن لکھے تو کیسے، بارش ہورہی تھی۔ لکھنا مشکل تھا لیکن مسفرہ کو کون سمجھاتا، اس نے چھتری مجھے پکڑا کر کہا کہ حالتِ رکوع میں چلے جائو اور پھر کمر پر ڈائری لکھ کر سارس کے بارے میں معلومات لکھنے لگی۔
ایک چیز میں ہمیں تو بہت مزہ آیا۔ وہ تھا ایڈونچر کھیل میں حصہ لینا اور کِلے سے مختلف شکلیں بنانا…

ریحان کا چشمہ بھی ٹوٹ گیا تھا جسے عینی نے جوڑا تو ریحان بہت خوش ہوا کیوں کہ بغیر عینک کے اسے بالکل نظر نہیں آتا تھا۔


گھومتے گھومتے ہم وہاں سے نکل آئے جہاں اُلّو بولتے تھے یعنی یہ جگہ اُلّوئوں کے رہنے کی تھی۔ ہمیں اُلّوئوں کا رکھوالا بھی ملا جو اُلّوئوں کو ہاتھ میں آرام سے ایسے بٹھالیتا تھا جیسے وہ سچ مچ کا اُلّو نہ ہو، پلاسٹک کا ہو۔ اس نے بتایا کہ اُلّوئوں کی ۲۰۰ کے قریب اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہ ایک گوشت خور جانور ہے اور کھانے میں چوہے اور چوزے پسند کرتا ہے۔اُلّو وہ جانور ہے جو رات کو جاگتا ہے اور دن کو سوتا ہے۔ اسے پرندوں کی دنیا کا فلسفی بھی کہا جاتا ہے۔ اس سیر کے دوران ریحان کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو ہمیشہ یاد رہے گا۔
ریحان کو نجانے کیا سوجھی، وہ ایک درخت پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ابھی تھوڑا سا ہی چڑھا تھا کہ دھڑام سے نیچے گر پڑا اور نیچے گرا بھی تو کس چیز پر بھلا… کوڑے کی

ٹرالی پر… صفائی والے نے ریحان کو دیکھا تو دوڑا آیا… ریحان کو محفوظ دیکھ کر اس نے ریحان سے کہا : لگتا ہے تمھیں بھی ٹرالی میں بیٹھ کر سیر کرنی ہے۔ آئو… تمھیں سیر کروادوں۔‘‘
جب ریحان سیر کرنے لگا تو سب کو پتا چل گیا اور سبھی دوڑے دوڑے ریحان کو دیکھنے آئے۔ اس طرح ہنستے گاتے ہماری یہ یادگار سیر مکمل ہوئی۔
کیا اس سیر میں ہماری طرح آپ کو بھی مزہ آیا؟

٭…٭

عاقب جاویدAuthor posts

Avatar for عاقب جاوید

مدیر ماہنامہ ساتھی