بتائو ذرا بارہ، چودہ گھنٹے کی نیند جو کہ ہماری صحت کے لیے نہایت مفید ہے
ہماری شامت آئی تو نیند نے ہمارے پائوں جکڑ لیے (یعنی آنکھیں اور دماغ) حادثہ یہ ہوا کہ بروز دوشنبہ مبارک ہمارا ریاضی کا پرچہ شریف طے پایا تھا۔ اس سے ماقبل پرچہ طبیعت نے ہماری طبیعت پر کچھ اچھے اثرات مرتب نہ کیے تھے۔ لائحہ عمل یہ تھا کہ آج ہی طبعیات کے پرچے سے فارغ ہوئے ہیں تو کیوں نا ابھی تھوڑی دیر باجماعت ہو کر گیند بلے سے شغل کیا جائے لہٰذا تھوڑی دیر (تین چار گھنٹے) تک اس انگریزی کھیل سے شغل فرمایا۔ اس کے بعد دماغ نے خیال ظاہر کیا کہ ابھی تو تم اعضا کو چست رکھنے کی خاطر اُچھل کود کررہے تھے ہمیں بھی تقویت پہنچانے کے لیے کچھ کیا؟ انصاف کی خاطر کچھ وقت غیر تدریسی کتابوں کا مطالعہ فرما کر دماغ کو تقویت بہم پہنچائی۔
رات کے کھانے سے فراغت حاصل کرنے کے بعد طے یہ پایا کہ رات کے کھانے کے بعد فوراً بیٹھ جانا یوں بھی پیٹ اور دماغ کے لیے کچھ صحیح نہیں اور صحت و تندرستی کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ اصول پسند تو ہم شروع ہی سے واقع ہوئے ہیں لہٰذا ’جان ہے تو جہان ہے‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اچھی صحت برقرار رکھنے کے لیے ایک آدھ نہیں ڈیڑھ گھنٹہ چہل قدمی کی۔ اب جو گھڑی کی شکل دیکھی تو معلوم پڑا یہ تو بارہ بجا رہی ہے۔ اب بھی اپنے اندر چستی محسوس نہ کی جو ریاضی کے پرچے کے لیے درکار ہوتی ہے اور نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے تو سوچا کہ کیا فائدہ ایسی پڑھائی کا کہ پڑھیں بھی اور فائدہ بھی کچھ نہ ہو خیال آیا کہ چستی کا حاصل نہ ہونا اسی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے جو دماغ کو تقویت پہنچانے کے دھوکے میں اپچھلے دس پندرہ گھنٹوں سے جاری ہے۔ اب آئندہ کا لائحہ عمل یہ طے ہوا کہ صبح تڑکے والی نہاری اور خاں صاحب کے پراٹھوں کے بعد ریاضی کے عظیم مقصد کی یاد دہانی کی جائے گی کیوں کہ صبح ہی صبح دماغ بالکل صاف اور ہر قسم کے جھمیلوں سے خالی ہوتا ہے لہٰذا صبح کے وقت پڑھائی یقینا بہترین ہوگی اور پرچے کی تیاری بھی خوب ہوجائے گی ایسے ہی دل کو تسلیاں دیتے ہوئے نجانے کب آنکھ لگی کہ صبح ہونے کا پتا ہی نہیں چلا۔ یوں محسوس ہوا کہ گزشتہ رات کا دورانیہ کچھ سکڑ گیا ہے اور سورج نے بھی کچھ جلدی مچائی ہے کہ جب پڑھنے کی ٹھانی ہے تو ہمارے ساتھ دعا کررہا ہے۔ خیر بادل نخواستہ بستر کو خیر باد کہہ کر غسل خانے کی طرف عازم سفر ہوئے، وضو کیا اور فجر کی نماز قصداً گھر پر ادا کی جس کے پیچھے یہ مقصد کار فرما تھا کہ ابھی جلدی سوجاتے ہیں چھٹی کا ہی تو دن ہے آٹھ بجنے سے پانچ منٹ قبل اُٹھیں گے اور پانچ منٹ میں تازہ دم ہو کر تیار ہوجائیں گے اور آٹھ بجے سے پڑھائی کا جو دھواں دار سلسلہ ان شاء اللہ شروع ہوگا وہ نماز ظہر پر ہی ختم ہوگا۔ پوری تیاری کے ساتھ بستر پر دراز ہوئے۔ گزشتہ شب کو مطالعہ کیا گیا۔ پطرس کا مضمون یاد آیا تو سوچا کسی لالہ بھائی جی کو نیند توڑ علاج کے طور پر مقرر کردیں لیکن سوچا کہ ہمیں بھی کسی خدائی فوج دار کی طرح آٹھ بجے سے قبل ہی اُٹھا دیا تو حسین نیند کا جمیل تسلسل ٹوٹ کر رہ جائے گا اور اب ہم پطرس کے دور میں تھوڑا ہی ہیں۔ زمانہ بدل گیا ہے (اگرچہ پڑھائی میں دلچسپی کی کیفیت کا زمانے کے بدلنے سے کوئی تعلق نہیں) لہٰذا ایسے ساتھی کا انتخاب کیا جو وقت کا پابند بھی ہے اور سواے آواز نکالنے کے کچھ نہیں کر سکتا۔ یعنی موبائل کو پوری طرح تیار کردیا کہ آٹھ بجے سے پانچ منٹ قبل ہمیں جگانا ہے۔ آواز پوری طرح سے بڑھا دی۔ موبائل کو پلٹ کر تکیے پر رکھ دیا کیوں کہ موبائل کا اسپیکر پشت پر ہوتا ہے اس کا رُخ تکیے کی طرف نہ ہو اور حتی الامکان اپنے کان کے نزدیک رکھ دیا تاکہ موبائل کے اسپیکر کے حلق سے برآمد ہونے والی آواز پوری طرح ہمارے دماغ کے خلیوں کو بیدار کرنے میں کامیاب ہوسکے۔
اس کے علاوہ خدمت خلق کے جذبے کے تحت خدمت خلق کے لیے ایک کام یہ کیا کہ ہمارے برادران جو کہ محوِ استراحت ہیں ان کی نیندوں میں خلل واقع نہ ہو یہ سب حفاظتی اقدامات فرما کر ہم مطمئن ہو کر سوگئے۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ آنکھ کھلنے پر احساس ہوا دل دھک دھک کررہا ہے۔ کچھ دیر بعد احساس ہوا دِل تو دھڑ دھڑ کر رہا ہے، سورج کی تیز شعاعوں نے احساس کی تصدیق کی کہ جیسے ہی گھڑی پر نظر ڈالی تو دل کی دھڑکن مزید بے ترتیب ہوگئی۔ یہاں تو جیسے مت ہی ماری گئی تھی گھڑی تو جس طرح کل رات بارہ بجا رہی تھی اسی طرح ابھی دوپہر کے بارہ بجا رہی تھی۔ گھڑی پر غصہ آنے لگا کہ اس کو بارہ بجانے کے سوا کوئی اور کام نہیں، کبھی دن کے بارہ تو کبھی رات کے بارہ۔ گھڑی کا رنگ پکڑتے ہی ہمارا چہرہ بھی بارہ بجانے لگا۔
’خیر جو ہوا سو ہوا‘
’ماضی میں بھول جائو‘
’نئے چراغ وفا جلائو‘
کی کوشش کی۔ دن تو ویسے ہی روشن تھا کوئی چراغ جلانے کی ضرورت پیش نہیں آئی البتہ پچھلے چند گھنٹوں میں گزرنے والا ماضی ہم نے یکایک فراموش کر دیا۔ سوچا کہ اُٹھ کر تو ترتیب بنانی ہی ہے کیوں نہ لیٹے لیٹے ہی ترتیب بنا ڈالیں کہ پڑھائی کی چال کیا ہونی چاہیے۔ یہ مشکل کام تھا سمجھ نہیں آیا تو اسے اپنے اُٹھنے تک موقوف کردیا۔ خیال آیا کہ لیٹے لیٹے چشم تصور میں شامل امتحان نصاب پر ایک جمالیاتی نظر ڈالی جائے لیکن دماغ نے اس سے بھی انکار کردیا۔ اب دماغ پر بھی غصہ آیا کہ رات تک تو ہم سے بڑے مطالبے کر رہا تھا اور اب ہماری ذرا سی بھی مدد نہیں کررہا۔
ان سب اثرات کو زیادتی نیند پر محمول کیا کہ ذرا تازہ دم ہولیں پھر یقینا سب کام ہوجائیں گے۔ ہاتھ منھ دھونے کے بعد تھوڑی سی مشق کی اور دماغ کو تازہ کرنے کے لیے تازہ اخبار کا مطالعہ شروع کیا لیکن یہ کیا…اس میں تو باسی باسی خبریں موجود تھیں۔ پہلے ہی صفحے پر ایک خبر ہمیں منھ چڑا رہی تھی جس نے ہمارا سارا جی خراب کردیا۔ خبر ملاحظہ ہو:’ جناب زیادہ سونے سے دماغ کی خطرناک بیماریاں ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔‘ ایک خوف کی لہرنے ہمیں جھرجھری لینے پر مجبور کیا لیکن فوراً اس خبر کو نظر انداز کردیا کہ بتائو ’صرف بارہ، چودہ گھنٹے کی نیند جو کہ ہماری صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔ اس کی اہمیت بھی بھلا کوئی جھٹلا سکتا ہے۔ مغرب چاہے کتنی تحقیقات کرلے اس کی حیثیت بہرحال اپنی جگہ مسلم ہے۔ یہ بے وقوف قسم کے سائنسدان خود بھی یقینا نیند کے لیے ترستے ہیں لہٰذا ایسی احمقانہ باتوں سے خواہ مخواہ ہمیں پریشان کررہے ہیں۔ (اگر کسرت یا مشق کو آدھ گھنٹے سے بڑھا کر ایک گھنٹہ یا ایک سے بڑھا کر ڈیڑھ گھنٹہ کیا جائے تو یقینا اس کے صحت افزا اثرات جسم پر مرتب ہوں گے) بالکل اسی طرح اگر نیند کو ’اُن‘ کے مختص کیے گئے آٹھ گھنٹوں سے بڑھا کر بارہ پندرہ گھنٹے کردیا جائے تو یقینا یہ دماغ کے لیے نہایت مفید ثابت ہوگا اور بھلا اس میں قباحت ہی کیا ہے… خیر سوچا اب اخبار کا مطالعہ بھی فضول ہے کہ دماغ کو تازہ دم کرنے کے بجاے گھما کر رکھ دیا۔ ان باتوں کو فراموش کرکے اب جو فکر ہوئی تو کھانے کی کہ چھٹی کا دن ہے جلدی ناشتہ ملنے کا امکان دور دور تک نہیں لہٰذا جذبۂ خودی کے تحت اشیاے خورونوش کی تلاش شروع ہوئی۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے فرج پر دن کی روشنی میں شب خون مارا۔ اس دھاوے میں صرف رات کے حلوے کے سوا کچھ ہاتھ نہ لگا۔ سو اسی سے شغل کیا کچھ بِسکٹ ہاتھ لگے ان کو غنیمت جان کر زاد ِراہ سمجھ کر رکھ لیا۔
پیٹ پوجا کرکے جب پڑھائی کا آغاز کیا تو ایسا محسوس ہوا کہ افریقا کے کسی گھنے جنگل میں آکھڑے ہوئے ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ کالج والوں کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا کہ ایک طرف تو ہمیں شیکسپئر اور لانگ فیلو جیسا انگریزی دان اور غالبؔ اور میرؔ جیسا اُردو دان بنانے کی کوششیں ہیں تو دوسری طرف آئن اسٹائن جیسا سائنس دان اور فیثا غورث جیسا ریاضی دان بنانے کے عزائم ہیں۔ کیسے نالائق لوگ ہیں کہ ریاضی جیسے دقیق پرچے کی تیاری کے لیے صرف ایک دن…افسوس صد افسوس ان کی ذہنیت پر کہ جس ریاضی اور الجبرے کی تشکیل میں فیثا غورث، ارشمیدس الخوار زمی وغیرہ …وغیرہ جیسے ریاضی دانوں نے اپنی پوری زندگیاں صرف کردیںجس کے لیے ہمیں صرف ایک دن دیا گیا۔
آپ ہی خود انصاف کے ساتھ بتائیں کہ ایک دن میں ریاضی کی تیاری کیسے ممکن ہے؟ (جبکہ پہلے سے بھی نہ کی گئی ہو)
نوٹ: ’’ان سب باتوں کا اپنی پڑھائی پر اطلاق آپ کی تعلیم کے لیے مضر ہے۔ نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔‘‘
(وزارت زیر تعلیم)
٭…٭
اس تحریر کے مشکل الفاظ
دوشنبہ: پیر کا دن، سوموار
محنتِ شاقہ: شاقہ بمعی، سخت (سخت محنت)