پاکستان کے مایہ ناز فرزند عزیز بھٹی شہید ”نشانِ حیدر“ جس پر پاکستانی عوام بے انتہا فخر کرتی ہے، پاکستان کو ایسے ہی نڈر اور بے باک مجاہدوں کی ضرورت ہے اور شاید انہیں شہیدوں کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے پاکستان کو سلامت رکھا ہوا ہے۔ ہر ۶ ستمبر میجر عزیز بھٹی کی یاد دلاتی ہے اور ان کے گراں قدر کارنامے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
۶ستمبرمیجر عزیز بھٹی فجر سے پہلے بیدار ہوئے۔ نہا کر نماز پڑھی ۔نماز کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کی، ناشتہ کرنے کے بعد ان کے گھر کے آگے ایک جیپ آکر رکی۔ حوالدار نے میجر عزیز بھٹی کا پوچھا ۔ میجر عزیز بھٹی کمرے سے نکل آئے اور حکم سن کر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ سب گھر والوں سے آخری بار ملاقات کی بچوں کو پیار کیا اور روانہ ہو گئے۔ گھر میں ان کا یہ آخری دن تھا۔ میجر عزیز بھٹی اے اے کمپنی کو سب سیکٹر برکی میں اپنی پوسٹ سنبھالنے کا حکم ملا تھا۔ لاہور سے تیرہویں میل پر ساڑھے تین بجے صبح اے کمپنی کے جوانوں کو ہڈیارہ کی طرف سے رینجرز کی ایک جیپ بڑی تیزی سے آتی ہوئی ملی تھی۔ اس میں بیٹھے ہوئے جوانوں نے دشمن کے حملے کی خبر دی اور کہا ہڈیارہ پر دشمن نے قبضہ کر لیا ہے ۔ اس وقت میجر عزیز بھٹی نہیں پہنچے تھے۔ صبح ساڑھے سات بجے میجر عزیز بھٹی کی جیپ پہنچی تو انہوں نے دیگرے تینوں پلاٹونوں کو مختصر الفاظ میں خطاب کیا۔ مورچے کھودنے والے جوانوں کے کام کی تعریف کی اور سب جوانوں کی ہمت بڑھائی اور پھر دوربین سے دشمن کی نقل و حرکت کا جائزہ لینے لگے۔ دشمن بہت جلد لاہور پہنچنے کے لیے بے تاب تھا۔ انہوں نے پہلے فائر کا حکم دیا ۔ بھارتی سپاہیوں پر گولے یوں گرے کہ دشمن کی پوری کمپنی سے بمشکل چند آدمی بچ سکے۔ باقی سب وہیں بھسم ہو گئے۔ دشمن نے اپنے بچائو کی تدبیریں شروع کر دیں کیوں کہ پاکستانی توپوں کے گولے ٹھیک ٹھیک نشانے پر پڑ رہے تھے اور دشمنوں کی صفوں میں ابتری پھیلتی جا رہی تھی۔ میجر عزیز حکمت سے دشمن کا منہ توڑ جواب دیتے رہے اور دشمن سمجھ رہا تھا کہ ان کے پاس بہت زیادہ نفری اور ساز و سامان ہے۔ میجر صاحب چائے کے شوقین تھے اور صرف چائے پی کر تازہ دم ہوتے رہے۔ مشرقی افق پر سپیدہ سحر نمودار ہورہا تھا۔ عزیز بھٹی نے پانی منگوایا ، آنکھوں پر چھینٹے مارے ،وضو کیا اور خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو گئے۔ سرا ٹھایا تو آنکھوں سے تشکر کے آنسو موتی بن کر ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔
۷ ستمبر نماز سے فارغ ہونے کے بعد دوربین کے ذریعے دشمن کا جائزہ لینے لگے تھوڑا شبہ ہوا کہ دشمن تیزی سے جمع ہو رہے ہیں۔ انہوں نے بھی توپ خانے کو حرکت میں آنے کا حکم دیا ۔ دشمن کا ایک سیکشن وہیں جل کر راکھ ہو گیا ۔ بارود اتنا زیادہ تھا کہ گھنٹوں آگ جلتی رہی ۔ کچھ فاصلے پر ٹینک نظر آئے ان پر بھی گولہ باری کرائی گئی۔ دوپہر میں حوالدار کھانا لے کر آیا انہوں نے نہیں کھایا اور کہا کہ پہلے باقی سب کو کھلائو اور پھر چیک کیا کہ سب کھانا کھا رہے ہیں۔ اس کے بعد حوالدار سے کہا میری روٹیاں تھیلے میں رکھ دو۔ حوالدار نے تھیلا کھولا تو پہلے کی روٹیاں جوں کی توں رکھی ہوئی تھیں۔ اس نے وہ نکال کر تازہ روٹیاں لپیٹ دیں۔ شام میں میجر صاحب نے چائے بنوائی اور وہیں روٹیاں نکالیں اور چائے میں ڈبو ڈبو کر کھانے لگے اور فرمایا یہ روٹیاں بسکٹ اور کیک سے زیادہ مزیدار ہیں اور کھاتے ہوئے بھی نظریں دوربین سے دیکھ رہی تھیں۔
۸ ستمبر دشمن نے صبح نو بجے چھنک ونڈی کی طرف سے بھرپور حملہ کیا۔ میجر صاحب نے ایئربرسٹ توپ اور فیلڈ گنوں کے فائر سے دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا ۔ تھوڑی دیر بعد برکہ کلاں کی طرف سے دشمن کی ایک کمپنی نے پیش قدمی کی جس کا بھرپور جواب دیا گیا۔ حد سے زیادہ جانی نقصان اٹھانے کے باوجود دشمن تازہ کمک لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتا رہا۔ گولہ باری رکی تو دیکھا کہ ایک بھی جوان کو خراش تک نہیں آئی۔
تھوڑی دیر بعد کمانڈنگ آفیسر کا فون آگیا اور کہا کہ آپ تین دن سے اس محاذ پر ہیں اور تین دن سے آپ نے نہ کھایا ہے اور نہ ہی آرام کیا ہے آپ واپس آجائیں آپ کی جگہ کسی دوسری کی ڈیوٹی لگا دیں گے۔ میجر صاحب نے کہا کہ اس وقت میری یہاں بہت ضرورت ہے آپ مجھے یہیں رہنے دیں میں بالکل صحیح ہوں مجھے کسی آرام کی ضرورت نہیں ہے۔
۹ ستمبر دشمن اب برکی کی اس چوکی کو ہر قیمت پر ختم کرنا چاہتا تھا ۔ دوربین سے دیکھا تو ٹرک تیزی سے آتے اور واپس چلے جاتے ۔ سمجھ گئے یہاں بارود جمع ہو رہا ہے اور پھر ایک قافلہ آیا جس میں تیرہ گاڑیاں تھیں۔ میجر صاحب نے فائر کا حکم دیا۔ پورے کا پورا کانوائے جل کر شعلوں میں تبدیل ہو گیا۔ اس کے بعد تھوڑا سکون کا سانس لیا۔ حجام کو بلوا کر حجامت بنوائی اور پھر والد صاحب کو خط لکھا ، چائے پی اور روٹی کے چند لقمے کھائے۔
۰۱ ستمبر میجر شفقت بلوچ اور کیپٹن محمد ارشد میجر عزیز بھٹی سے ملنے بالا خانے پر آئے وہ برکی کے محاذ پر ان کے جنگی کارناموں کی تفصیل جاننا چاہتے تھے۔ میجر بھٹی نے دشمن کے پے در پے حملوں اور اپنی دفاعی تدابیر کے چند واقعات مختصراً بیان کیے۔ میجر بلوچ اور کیپٹن راشد نے دیکھا کہ سو گھنٹے مسلسل ڈیوٹی دینے کے باوجود عزیز بھٹی مستعدد اور چاق و چوبند ہیں۔ ان پر تھکن کے آثار نہ تھے حالانکہ موٹی نشیلی آنکھیں سوج کر سرخ ہو چکےں تھیں۔ ان کے جانے کے بعد شمن کے چھ ٹینک آتے دکھائی دیئے۔ فائر کروایا تو پانچ تباہ ہو گئے اور ایک بچ نکلا۔ میجر بھٹی شیر دل دوربینوں سے دشمن کا جائزہ لینے لگے۔ تھوڑی دیر بعد دشمن نے زبردست گولہ باری شروع کر دی۔ میجر صاحب نے کہا کہ سب نیچے چلے جائیں۔ دھوئیں کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ لیکن خود اوپر ہی رہے۔ ایک گولہ آکر قریب ہی میں پھٹا لیکن بال بال بچ گئے۔ نیچے آئے اور کہا کہ ڈٹ کر مقابلہ کرو، ان شاءاﷲ ہم انہیں مار بھگائیں گے۔ صوبیدار عالم زیب نے کہا کہ آپ اکیلے ہیں ہم بھی اوپر آجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا اوپر نہیں آئو بلکہ آہستہ آہستہ فائر کرتے ہوئے نہر کے کنارے شکستہ پل تک پہنچو وہاں دوسرے جوان مدد کے لیے موجود ہیں۔ حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے تھے۔ دشمن کے ایک بریگیڈ نے کرنل جوشی کی کمان میں ایک ٹینک بٹالین اور بھاری توپ خانے کے ساتھ حملہ کیا ۔ جے ہند کے نعروں کی آواز بھی آرہی تھی۔ دشمن کی فوج شمالی کھجور ایریا میں بھی پھیل چکی تھی۔ اب آمنے سامنے مقابلہ تھا۔ میجر بھٹی نے دو میڈیم بیٹری اور دو فیلڈ بیٹری سے فائر کروایا۔ گولے نشانے پر لگے اور دشمن کی لاشیں میدان میں تڑپ رہی تھیں اور بہت سے ٹینک تباہ ہوئے ۔ اس حملے میں کرنل جوشی بھی ہلاک ہوا۔ حکمت اور تدبیر سے کام لیتے ہوئے عزیز بھٹی پل کی جانب روانہ ہوئے۔ دشمن کے ٹینک چونگی کے پاس پیش قدمی کررہے تھے۔ نشانہ لینے کے بعد چند بیکار ہوئے باقی آڑکے لیے پیچھے بھاگے یہاں جوانوں کے پاس اسلحہ ختم ہو چکا تھا اور تازہ کمک بھی نہیں پہنچ رہی تھی۔ دوسرے جوان کشتی پر جا رہے تھے اور میجر عزیز بھٹی اسٹین گن لیے زخمیوں کی حفاظت کر رہے تھے۔ دوسری بار کشتی آئی تو آخری آدمی جس نے کشتی میں قدم رکھا وہ میجر عزیز بھٹی تھے۔ دوسرے کنارے پہنچ کر انہوں نے حکم دیا کہ کشتی ڈبو دو تاکہ دشمن کے کام نہ آسکے۔
۱۱ ستمبر پٹری کے اوپر سے دشمن کا جائزہ لینے لگے۔ صوبیدار غلام محمد نے کہا آپ نیچے آجائیں آپ دشمن کی زد میں ہیں، کہنے لگے اوپر خطرہ زیادہ ہے لیکن میں مجبور ہوں ۔اس سے زیادہ اونچی جگہ کوئی اور نہیں جہاں سے دشمن کا مشاہدہ کر سکوں۔ اس وطن عزیز کا تحفظ ہر طرح مقدم رکھوں گا ۔ اگر جان بھی اس راہ میں کام آجائے تو اس سے بڑھ کر خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے۔ کہنے لگے مجھے اپنے بیٹے ذوالفقار کی بات کئی دفعہ یاد آتی ہے ۔ ایک دن کہنے لگا ”ابا جان خوب بہادری سے لڑنا بزدلی نہ دکھانا۔“اتنے میں انہیں اطلاع دی گئی کہ ایک میٹنگ میں شرکت کرنی ہے۔ ۰۲۱ گھنٹے تاریخی کردار ادا کرنے والا مجاہد پورے عزم و استقلال کے ساتھ جیپ سے اترا اور تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ساتھی افسروں کی جانب بڑھا ۔ سب نے میجر بھٹی کو گلے لگایا اور عظیم الشان کارناموں پر مبارکباد دی۔ میجر صاحب اپنے محاذ پر دوبارہ جانے کے لیے بے چین تھے لیکن معلوم ہوا کہ کوئی میٹنگ نہیں ہے بلکہ کمانڈنگ آفیسر آرام پہنچانا چاہتے ہیں۔ کرنل قریشی نے کہا کہ آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ دوسرا آفیسر بھیج رہا ہوں یہ سن کر میجر صاحب کا چہرہ شدت سے سرخ ہو گیا اور پھر کہنے لگے یہ وقت میرے آرام کا نہیں ہے اگر مجھے محاذ سے بلا لیا جائے گا تو یہ میرے لیے روحانی عذاب ہوگا۔ میرے اعصاب بڑے مضبوط ہیں مجھے کوئی تکان محسوس نہیں ہوتی۔ پچھلے مورچوں میں جانے سے بہتر جام شہادت نوش کرنا پسند کروں گا۔ کرنل قریشی نے اجازت دے دی۔
۲۱ ستمبر سیڑھی سے نیچے اترے ، وضو کیا ، نماز پڑھی۔ گرم پانی سے منہ ہاتھ دھویا ۔ بالوں میں کنگھی کی یہ ان کی آخری صبح تھی۔ اچانک غلام محمد سے کہا۔ آپ کو پامسٹری میں مہارت ہے ذرا دیکھ کر بتائیں کہ میری قسمت میں شہادت بھی ہے یا نہیں۔ سر آپ کی قسمت میں شہادت ہے تو لیکن عمر کے کس حصے میں معلوم نہیں۔ میجر بھٹی کی زندگی کا سورج آخری بار طلوع ہو چکا تھا۔ وہ نہر کی پٹڑی پر آئے اور دوربین سے مشاہدہ کرنے لگے۔ دشمن کی طرف سے فائر آرہا تھا۔ حوالدار نے کہا نیچے آجائیں ۔ اوپر خطرہ ہے۔ کہنے لگے نیچے سے مشاہدہ نہیں ہو سکتا۔ دو ٹینک دشمن کی طرف سے آئے اور حملہ کردیا ۔ میجر صاحب نے فائر کروایا تو دونوں تباہ ہو گئے۔ خوش ہو کر کہا : ”ویل ڈن“ یہ الفاظ ادا ہو ہی رہے تھے کہ سامنے سے گولہ آیا اینٹوں کے اس ڈھیر پر گرا جو مورچوں سے نکال کر وہاں جمع کی گئی تھیں۔ میجر عزیز بھٹی اس جگہ سے بمشکل چند فٹ کے فاصلے پر کھڑے تھے پٹڑی پر گرد وغبار اٹھا۔ ساتھی یہ سمجھے کہ میجر صاحب شہید ہو گئے۔ وہ بھاگے مگر میجر صاحب کو خراش تک نہ آئی۔ ساتھیوں نے کہا آپ واپس جا کر پوزیشن سنبھالیں یہ گولہ میرے لیے نہیں آیا تھا ۔ ابھی وہ گولہ بارود کے کارخانے میں تیار نہیں ہوا۔
صبح کے ساڑھے نو بج رہے تھے۔ مشیت میجر بھٹی کے ان الفاظ پر مسکرا رہی تھی۔ دوربین لے کر مشاہدہ کرنے ہی والے تھے کہ اسی لمحے ٹھوس فولاد کا ایک گولہ ان کا سینہ چیرتا ہوا دائیں پھیپھڑے سے پار ہو گیا۔ وہ منہ کے بل زمین پر گرے۔ حوالدار میجر فیض علی اور سپاہی امان خان دوڑ کر ان کے پاس پہنچے تو فرض شناسی اور شجاعت کا پیکر قربانی و ایثار کا مجسمہ اور عسکری تاریخ کا عظیم ہیرو اپنے فرض سے سبکدوش ہو کر جنت الفردوس کی طرف محو پرواز تھا۔
٭….٭….٭