بچوں کا ذوقِ مطالعہ بلند کرنے میں ماہ نامہ ”ساتھی“ کا حصہ
احمد حاطب صدیقی
پاکستانی بچوں میں غیر نصابی اور ہم نصابی مطالعے کا ذوق پروان چڑھانے میں سب سے اہم کردار بچوں کے رسائل نے ادا کیا ہے۔۷۴۹۱ءسے اب تک بہت کثیر تعداد میں بچوں کے رسائل جاری ہو چکے ہیں۔جو رسائل جاری نہ رہ سکے اُن کی تعداد بھی کثیر ہے۔ ابتدا میں جن رسائل نے مقبولیت حاصل کی اوران میں سے جو رسائل اپنی زندگی برقرار رکھنے میں کامیاب ہو سکے، اُن میں سے بیشتر کی پشت پر طباعتی، اشاعتی یا تجارتی ادارے تھے۔ ان میں سے بعض اب بھی اپنی زندگی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں ان میں سے چند رسائل کا ذکر بطورِ مثال کرنا ضروری ہے۔ ماہ نامہ ”نونہال“ کراچی کی اشاعت کے اخراجات ہمدرد فاو¿نڈیشن برداشت کرتی ہے۔ ماہ نامہ ”تعلیم و تربیت“ لاہور کی پشت پر ایک بڑا طباعتی و اشاعتی و تجارتی ادارہ ،فیروز سنز لمیٹڈ ہے۔ ماہ نامہ ”پھول“ لاہور کو نوائے وقت پبلی کیشنز کی سرپرستی حاصل ہے۔ بچوں کا ایک نہایت مقبول رسالہ ماہ نامہ ”آنکھ مچولی“ کراچی بھی ایک معروف تجارتی ادارے احمد فوڈ انڈسٹریز نے جاری کیا تھا، مگر ادارے کی تجارتی ترجیحات میں یہ رسالہ شامل نہ تھا، سو بند ہو گیا۔
مذکورہ بالا رسائل، بچوں کے لیے جاری کیے جانے والے اُن بہت سے رسائل میں شامل ہیں، جنھوں نے بچوں کے ادب کو فروغ دینے میں اور بچوں کے اندر تعمیری ادب تخلیق کرنے کا شوق پروان چڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ ان رسائل نے بچوں میںغیر نصابی اور ہم نصابی مطالعے کا ذوق و شوق بڑھانے میں بھی خاطرخواہ حصہ لیا۔ مگر ان میں سے اکثر رسائل یکسانیت کا شکار ہو گئے اور زمانے کی تبدیلی کے ساتھ بچوں کی بدلتی ہوئی دلچسپیوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ نہ کر سکے۔
اس وقت بچوں کے مطالعاتی ذوق کی رہنمائی اور قیادت جس رسالے کے ہاتھ میں ہے، وہ ماہ نامہ ”ساتھی“ کراچی ہے۔ یہ رسالہ گزشتہ چالیس برسوں سے مسلسل اور متواتر شایع ہو رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس رسالے کی پشت پر کوئی طباعتی، اشاعتی یا تجارتی ادارہ نہیں ہے۔ یہ رسالہ خود طالب علموں نے جاری کیا اور آج بھی اس کی مجلسِ ادارت طالب علموں ہی کے ہاتھ میں ہے۔
اگست ۷۷۹۱ءمیں یہ رسالہ ماہ نامہ ”پیامی“ کے نام سے جاری کیا گیا۔ اس کے مدیر جناب کلیم چغتائی تھے، جو اُس وقت جامعہ کراچی کے طالب علم تھے۔ چغتائی صاحب بعد میں نہ صرف بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنے والے ایک نامور قلم کار کی حیثیت سے معروف ہوئے بلکہ انھوں نے بہت بڑے بڑے ادبی رسائل کی بھی ادارت کی۔ اُن کی متعدد گراں قدر علمی و تحقیقی تصانیف منظر عام پر آئیں۔ آج کل وہ ایک بین الاقوامی تحقیقی جریدے کے مدیر ہیں۔ جس وقت کلیم چغتائی صاحب نے ”پیامی“ کی ادارت کا ذمہ لیا تھا، اُس وقت رسالے کی ضخامت ۶۱ صفحات تھی اور قیمت صرف بیس پیسے۔جنوری ۸۷۹۱ءمیں اس رسالے کی مقبولیت دیکھ کر صفحات کی تعداد ۴۲ کردی گئی۔
چوں کہ ماہ نامہ ”پیامی“ طالب علموں نے جاری کیا تھا اور صرف طالب علموں ہی میں قیمتاً تقسیم کیا جاتا تھا، چناں چہ طالب علموں کی اُس مجلس نے جو رسالے کی اشاعت کا اہتمام کرتی تھی ،غالباً ابتدائی مرحلے میں سرکاری طور پر ڈیکلریشن حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی ہوگی۔لیکن اُسی زمانے میں اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کے زیر اہتمام کراچی ہی سے ”پیامی“ کے نام سے ایک رسالہ جاری کر دیا گیا، لہٰذا اِن طالب علموں کو مئی ۸۷۹۱ءاپنے رسالے کا نام تبدیل کر کے ماہ نامہ ”ساتھی“ رکھنا پڑا اوربعد میں اس کا باقاعدہ ڈیکلریشن بھی لے لیا گیا۔
گزشتہ چالیس برسوں میں ماہ نامہ ”ساتھی“ کراچی نے بتدریج بہت سے ارتقائی مراحل طے کیے ہیں۔ اب یہ رسالہ چار رنگوں میں اور آرٹ پیپر کی شمولیت کے ساتھ نہایت پرکشش و دیدہ زیب تصاویر اور توضیحی خاکوں کے ساتھ شایع ہو تاہے۔ ستمبر ۸۷۹۱ءکے ”امتحان نمبر“ سے شروع کرکے مئی ۶۱۰۲ءکے ”ابونمبر“ تک اس رسالے کے ۵۳ خاص نمبر شایع ہو چکے ہیں۔ چالیس سال مکمل ہونے پرنومبر ۷۱۰۲ءمیں شایع ہونے والا ”چالیس سالہ نمبر“ اس کا چھتیسواں خاص نمبر ہے۔
ماہ نامہ ”ساتھی “ کراچی کی ایک منفرد سرگرمی یہ ہے کہ اس رسالے نے ”بزمِ ساتھی“ کے نام سے اپنے قارئین کی ایک انجمن بھی بنارکھی ہے جو شہر کے تقریباً تمام محلوں میں عملاً موجود ہے۔ ماہ نامہ ”ساتھی“ کو یہ شرف حاصل ہے کہ اپنی اِس تنظیمی صلاحیت کی بدولت صرف چند گھنٹوں کے نوٹس پر یہ رسالہ ایسے سیکڑوں بچوں کو کسی جگہ جمع کر سکتا ہے، جو ذوقِ مطالعہ کے حامل ہوتےہیں اور بچوں کے ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔
رسالے کی اس انجمن کے تحت سال کے دوران میں مختلف سرگرمیوں کا انعقاد ہوتا ہے، جن میں بچوں کے اندر تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھانے والے مقابلے بھی ہوتے ہیں اور مختلف تربیتی کیمپس، ورکشاپس اور سیمنیار بھی ہوتے ہیں۔ بچوں کے لیے لکھنے والوں کی تربیت کی غرض سے بھی اس قسم کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ رسالہ عملاً ایک اکیڈمی کا درجہ بھی حاصل کر چکاہے۔
ذوقِ مطالعہ رکھنے والے بچوں میں بے پناہ مقبولیت اور بچوں کامنظم اور پُر ہجوم اجتماع منعقد کر لینے کی اپنی تنظیمی صلاحیت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ رسالہ ہر سال ایسی تقاریب بھی منعقد کرتا ہے، جن میں بچوں کے لیے لکھنے والوں کی ملاقات اُن کے اپنے قاری بچوں سے کروائی جاتی ہے۔ بچے جن لوگوں کی لکھی ہوئی کہانیاں، نظمیں اور مضامین پڑھتے ہیں، اُن سے مل کر خوشی اور مسرت ہی نہیں، ایک اعزاز بھی محسوس کرتے ہیں۔ جب کہ بچوں کے تاثرات محسوس کرکے اور اپنی تحریروں کے متعلق اُن کے احساسات معلوم کرکے، بچوں کے لیے لکھنے والے بھی احساسِ فخر اور خوشی سے سرشار ہو جاتے ہیں۔
انھی تقاریب میں بچوں کے لیے لکھنے والے نئے اور پرانے ادیبوں کو ایوارڈز اور نشاناتِ اعزاز و سپاس بھی دیے جاتے ہیں۔ اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہر سال بچوں کے لیے ایک مشاعرہ بھی منعقد کیا جاتا ہے، جس میں بچوں کے لیے شاعری کرنے والے نئے اور پرانے شاعر اپنی اُس شاعری سے بچوں کو محظوظ کرتے ہیں، جو صرف بچوں کے لیے کی گئی ہے۔اس سلسلے کا پہلا ”ساتھی رائٹرز ایوارڈ“مارچ ۰۹۹۱ءمیں منعقد کیا گیا تھا۔ اپریل۷۱۰۲ءتکچودہ عدد ”ساتھی رائٹرز ایوارڈ“ منعقد ہو چکے ہیں۔
ماہ نامہ ”ساتھی“ میں شایع ہونے والے مستقل سلسلوں میں سے ایک نہایت منفرد، معلوماتی، تربیتی اور اصلاحی سلسلہ ”اُردو زباں ہماری“کے عنوان سے ہر ماہ شاملِ اشاعت ہوتا ہے۔ مشہور مزاح نگار اور ماہرِ زبان و بیان محترم اطہر ہاشمی کا یہ خاص مضمون پڑھنے والے بچوں ہی کی نہیں، لکھنے والے نوجوانوں کی بھی لسانی تربیت کے لیے ایک نہایت مفید سلسلہ ہے۔ اس مضمون میں بہت دلچسپ اور شگفتہ انداز سے تحریروں میں پائی جانے والی اُن غلطیوں اور خامیوں کی نشان دہی کی جاتی ہے، جو اُردو قواعد و انشا سے عدم واقفیت کے سبب ظہور میں آتی ہیں۔ اس مضمون سے بچوں کو نہ صرف درست املا سے آگاہی ہوتی ہے، بلکہ یکساں الفاظ کے مختلف معانی اور مختلف مفاہیم کے لیے یکساں الفاظ سے بھی شناسائی ہو جاتی ہے۔ غلط العام اور غلط العوام کا فرق معلوم ہوتا ہے۔ الفاظ کی تذکیر و تانیث کا علم حاصل ہوتا ہے۔ جملوں کی ساخت اور بندش میں تقدیم و تاخیر کی ترتیبآسان الفاظ میں بتا کر گویا فصاحت اور بلاغت کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ بچوںکے لیے لکھے جانے والے یہ مضامین بڑی عمر کے لکھنے والوںکی اصلاح و تربیت کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔ خود راقم الحروف نے بھی ان مضامین سے رہنمائی حاصل کی ہے۔
ماہ نامہ ”ساتھی“میں شایع ہونے والی تحریریں رنگارنگ اور متنوع ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ رسالہ مختلف عمروں اور متفرق ذوق رکھنے والے بچوںمیں یکساں مقبول ہے۔ بچوں ہی میں نہیں یہ رسالہ بچیوں میں بھی بے حد مقبولیت رکھتا ہے، کیوں کہ اس رسالے میں بچیوں کی دلچسپی کی چیزیں بھی بطورِ خاص شامل کی جاتی ہیں۔ اُمورِ خانہ داری سے متعلق مزے دار مضامین ہی نہیں، کہانیاں اور خاکے بھی شایع کیے جاتے ہیں۔ تاریخی اور سائنسی کہانیوں سمیت ہر تعلیمی موضوع پر اثرانگیز کہانیاں اور ڈرامے شامل اشاعت ہوتے ہیں۔سائنسی تجربات اور فنی معلومات پر مضامین الگ سے دیے جاتے ہیں۔ دیگر مضامین میں قرآن و حدیث، سیرت النبی، سیرتِ صحابہؓ، بزرگوں کے واقعات، اسلامی تاریخ، عمومی و عالمی تاریخ، شکاریات، سراغ رسانی، جانوروں سے متعلق معلومات، اور تاریخی عمارات ، جن میں عالم اسلام کی شاہکار مساجد سے متعلق معلومات بھی شامل ہیں، ماہ نامہ ”ساتھی“ کے خاص موضوعات ہیں۔ ان معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ماہ نامہ ”ساتھی“ اپنے قاری بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے نہ صرف صحت مندانہ مقابلے منعقد کرواتا رہتا ہے، بلکہ ہر ماہ قاری بچوں کی تخلیقات کا ایک گوشہ بھی شامل کرتا ہے۔ پُر مزاح کہانیاں، پُر مزاح مضامین اور معیاری لطائف بھی ماہ نامہ ”ساتھی“ کا امتیاز ہیں۔ ”ساتھی“ والوں کا کہنا ہے کہ وہ لطائف کا انتخاب بہت احتیاط سے کرتے ہیں اور ایسے لطائف شایع کرنے سے گریز کرتے ہیں، جن میں اساتذہ، والدین یا علماے کرام کا مذاق اُڑایا گیا ہو یا جن کے مطالعے سے بچوں میں منفی رجحانات پیدا ہو سکتے ہوں۔
مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی بچوںمیں مثبت اور معیاری مطالعے کا اعلیٰ ذوق پیدا کرنے، اِسے فروغ دینے اور مطالعے کے شوق کو پروان چڑھانے میں ماہ نامہ ”ساتھی“ کراچی نے گزشتہ چالیس برسوں میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔