بے تکلف

پنجاب کے مشہور قانون دان جودھری شہاب الدین، علامہ اقبال کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ ان کا رنگ بہت کالا اور ڈیل ڈول بہت زیادہ تھا۔ ایک روز وہ سیاہ سوٹ پہنے ہوئے اور سیاہ ٹائی لگائے کورٹ پہنے آئے تو اقبال نے انھیں سر تا پا دیکھ کر کہا:
”ارے جودھری صاحب! آج آپ ننگے ہی چلے آئے۔“
مرسلہ: قمر عباس، کراچی

٭….٭

غلط فہمی

ایک انگریز خاتون جو خاصا ادبی ذوق رکھتی تھیں، کنہیا لال پور سے متعارف ہوئیں، تو اُن کے نحیف و نزار جسم کو دیکھ کر کہنے لگیں:
” کپور صاحب! آپ سوئی کی طرح پتلے ہیں۔“
کپور صاحب نے مسکراتے ہوئے نہایت انکساری سے کہا:
”آپ کو غلط فہمی ہوئی، محترمہ! بعض سوئیاں مجھ سے بھی موٹی ہوتی ہیں۔“
مرسلہ: محمد حامد،کراچی

٭….٭

ماہ ِفروری

گورکھپور میں نئے سال کے سلسلے میں مشاعرہ تھا۔ عمر قریشی نے نظامت فرماتے ہوئے کہا کہ کیسا حسن اتفاق ہے کہ نئے سال کی خوشی میں مشاعرہ ہے اور شاعر بھی کُل ۲۱ ہیں۔ گویا ہر مہینے کے حساب سے ایک شاعر ہے ۔ ایک ایک کر کے سب شعرا کو بُلانا شروع کیا ۔سب سے پہلے نذ یر بنارسی مائک پر آئے تو سامعین میں سے کسی نے زور سے آواز لگائی کہ ابھی سے فروری کے مہینے کو کیوں بُلا لیا۔ (نذیر بنارسی کا قد بہت چھوٹا تھا)
مرسلہ: واصف لودھی، کراچی

٭….٭

 

مصافحہ

اعجازصدیقی جب حیدرآباد تشریف لے گئے تو بہت سے ادیب اور شاعر ان سے ملنے کے لیے آنے لگے۔ رشید الدین صاحب بھی ملاقات کے لیے آئے۔ اعجاز صاحب اُنھیں ان کی تحریروں کی وجہ سے جانتے تھے لیکن تعارف پہلی دفعہ ہورہا تھا۔ مصافحہ کرنے کے بعد بولے: ”آپ تو اچھے خاصے موٹے ہیں پھر اتنا باریک کیوں لکھتے ہیں۔“
مرسلہ: گل ناز، پشاور

٭….٭

علی گڑھ

علی گڑھ یونیورسٹی کے آل انڈیا مشاعرے میں لکھنﺅ سے ایک ہیئر کٹنگ سیلون کے مالک جناب حفیظ سلیمانی اسٹیج پر آئے اور کہا غزل کی ردیف ”بھی ہے“ مد نظر رہے ،مطلع عرض ہے:” محبت دُکھ بھی ہے آرام بھی ہے“
ایک طالب علم نے آواز لگائی : ”یہی شاعر یہی حجام بھی ہے“
مرسلہ: مریم سرفراز، سیالکوٹ

٭….٭

معترض

پنڈت ہری چند اختر کسی مشاعرے میں غزل پڑھ رہے تھے ۔
سامعین میں سے اچانک ایک حضرت اُٹھ کر ان کے ایک مصرع پر اعتراض کرتے ہوئے کہنے لگے : ”اختر صاحب ! دوسرے مصرعے میں الف گر گیا ہے۔ “
”تو پکڑ کر کھڑا کر دیجیے۔“ اختر صاحب کے اس جواب کو سُن کر معترض الف کو کھڑا کرنے کے بجاے خفیف ہوکر خود ہی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔مرسلہ: حنا بانو، صادق آباد

٭….٭

چندہ

حفیظ جالندھری شیخ عبدالقادر کی صدارت میں انجمن ِ حمایت ِ اسلام کے لیے چندہ جمع کرنے کی غرض سے اپنی نظم سُنا رہے تھے ۔
”مرے شیخ ہیں شیخ عبدالقادر
ہوا ان کی جانب سے فرماں یہ صادر
نہیں چاہتے ہم سخن کے نوادر
ہے مطلوب ہم کو نہ گریہ نہ خندہ
سُنا نظم ایسی ملے جس سے چندہ“
جلسے کے اختتام پر منتظم نے بتایا کہ آج کے جلسے میں پونے تین سو روپے چندہ جمع ہوا ہے۔
حفیظ جالندھری نے مسکراتے ہوئے کہا۔” سب ہماری نظم کا اعجاز ہے جناب !“
”لیکن حضور….! “ منتظم نے بہت متانت سے بتایا۔
”دو سو روپے ایک ایسے شخص نے دیے ہیں جو’ بہرہ‘ ہے۔“
مرسلہ: محمد خان، سوات

٭….٭

بحث

دودوست مرزا غالب کے ایک شعر پر بحث کررہے تھے۔ تھوڑی دیر تک جب بات نہیں بنی تو پہلا دوست بولا: ”چلو چھوڑو، جب میں جنت میں جاﺅں گا تو غالب سے پوچھ لوں گا۔“
”اگر غالب جنت میں نہیں گئے تو؟“ دوسرے دوست نے پوچھا۔
”تو پھر تم پوچھ لینا۔ “پہلے دوست نے جواب دیا۔
مرسلہ: کنول جاوید،اسلام آباد

٭….٭

چاک

اورئنٹل کالج لاہور میں انور مسعود فارسی کے طالبعلم تھے ان کی کلاس کے پروفیسر وزیر الحسن عابدی نے ایک دفعہ چپڑاسی کو چاک لانے کو کہا۔ چپڑاسی نے بہت سے چاک جھولی میں ڈالے اور لے کر حاضر ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا۔ انور مسعود شرارتی لہجے میں بولے :
“سر! دامنِ صد چاک ، اسی کو کہتے ہیں۔ ”
مرسلہ: یحییٰ خان، اسلام آباد

٭….٭

بھوں بھوں

ایک مشاعرے کی نظامت کے فرائض بشیر بدر صاحب انجام دے رہے تھے۔ شاعر کو داد دی جارہی تھی۔ واہ….وا! کے ساتھ مجمع سے کسی شریر لڑکے نے کتوں کی طرح ’بھوں بھوں‘ کر کے داد دی تو بشیر بدر نے کہا: ”ہر شخص کو اپنی مادری زبان میں داد دینے کا حق حاصل ہے۔“
مرسلہ: محمد اسد، راولپنڈی

٭….٭

تبصرہ

اُردو کے ایک مشہور مصنف نے اُردو تحقیق کے موضوع پر ایک کتاب لکھی اور تبصرے کے لیے ”ہماری زبان“ کے د فتر میں بھجوائی۔ کتاب میں دقیق الفاظ استعمال کرنے سے کتاب اتنی مشکل ہوگئی تھی کہ عام طالب علم کے لیے اس کا سمجھنا مشکل تھا۔ کچھ عرصے تک جب تبصرہ شائع نہیں ہوا تو مصنف نے تقاضا کیا…. اس پر خلیق انجم نے جواب دیا: ”بھئی ! میں کیا کروں موجودہ صورت میں یہ کتاب میری سمجھ میں نہیں آتی لہٰذا اس کا اُردو ترجمہ کردیں تو بصد شوق تبصرہ کروں گا۔“
مرسلہ: فائز خان، کراچی

٭….٭

آدمی

فقیر سید وحید الدین کے ایک عزیز کو کتے پالنے کا بے حد شوق تھا، ایک روز وہ لوگ کتوں کے ہمراہ علامہ اقبال سے ملنے چلے آئے، یہ لوگ تو اُتر کر اندر جابیٹھے اور کتے موٹر کار ہی میں رہے، اتنے میں علامہ کی ننھی بچی منیرہ بھاگتے ہوئے آئی اور باپ سے کہنے لگی:
”ابا ابا موٹر میں کتے آئے ہیں۔“
علامہ نے احباب کی طرف دیکھا اور کہا:
” نہیں بیٹا!یہ تو آدمی ہیں۔“
مرسلہ: حاکم سعید، سکھر

٭….٭

جھنڈا

سالک صاحب نے بڑی نکتہ رس طبیعت پائی تھی…. ایک بار پنڈت ہری چند اختر سے فرمانے لگے: ” پنڈت جی! آپ کا نام کیا ہوا مسلم لیگ کا جھنڈا ہوگیا۔“
پنڈت جی پوچھنے ہی والے تھے کہ سالک صاحب نے سلسلہ¿ کلام جاری رکھتے ہوئے وضاحت کی، ” دیکھیے نا…. یہ جھنڈے کا رنگ ہے۔ سبز یعنی ”ہری“ اور اس پر چاند اور تارے کا نشان یعنی ”ہری چند اختر“
مرسلہ: محمد توصیف، بدین

٭….٭

فرق

ایک زمانے میں عبدالمجید سالک کی مولانا تاجور سے شکر رنجی ہوگئی۔ ایک محفل میں ادیب شاعر جمع تھے۔ کسی نے سالک سے پوچھا۔ تاجور اور تاجدار میں کیا فرق ہے؟
سالک نے جواب دیا: ”وہی جو جانور اور جاندار میں ہے۔“
مرسلہ: رابعہ زاہد، کراچی

٭….٭

بے تکلف

پنجاب کے مشہور قانون دان جودھری شہاب الدین، علامہ اقبال کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ ان کا رنگ بہت کالا اور ڈیل ڈول بہت زیادہ تھا۔ ایک روز وہ سیاہ سوٹ پہنے ہوئے اور سیاہ ٹائی لگائے کورٹ میں آئے تو اقبال نے انھیں سر تا پا دیکھ کر کہا:
”ارے جودھری صاحب! آج آپ ننگے ہی چلے آئے۔“
مرسلہ:

٭….٭
Domestic Touch

آل انڈیا ریڈیو کی بلڈنگ میں باقر مہدی کچھ دوستوں کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے کہ رفعت سروش بھی تشریف لے آئے اور باقر مہدی سے ادب کے بارے میں گفتگو ہونے لگی۔ رفعت سروش نے محسوس کیا کہ باقر مہدی کا کچھ کچھ رویہ جارحانہ ہو رہا ہے تو موضوع بدلنے کے لیے پوچھا: ”سناﺅ ….بھابی کیسی ہیں؟“
اس پر باقر مہدی نے کہا: ”ارے ادب کو Domestic Touchکیوں دے رہے ہو۔“
مرسلہ:

٭….٭

حسرت کا پتا

اعجاز حسین شاہ ڈی ایس پی کسی سلسلے میں چراغ حسن حسرت سے ملنا چاہتے تھے۔ ٹیلی فون پر حسرت صاحب سے پوچھا۔
”کہاں ہے آپ کا مکان؟“
حسرت صاحب نے پتا بتایا: ”قلعہ گوجر سنگھ کے چوک سے دو راستے نکلتے ہیں۔ ایک نکلسن روڈ کو، دوسرا میکلو روڈ سے زمین دار اخبار کے دفتر کو جاتا ہے۔ ادھر ڈاکٹر ریاض علی شاہ کے مکان سے ہٹ کر سامنے ڈاکٹر کوگل چند نارنگ کی کوٹھی ہے۔ اس کے پہلو میں راشد بندی کا دفتر ہے، سمجھے….؟“
”تو شاہ صاحب! وہاں چلے آئیے، یہ بندہ اس بندی کے اوپر رہتا ہے۔
مرسلہ: شارخ خان، کراچی

٭….٭