سرورق پر بلا عنوان کہانی کا عنوان تجویز کرنے والے انعام پا چکے ہوں گے۔ ہمیں سوجھتا تو ہم بھی مقابلے میں کود پڑتے۔ میاں بلاقی کا کارنامہ بقلم جاوید بسام دلچسپ ہے۔ ’’دل پر دستک‘‘ اور ’’السلام علیکم‘‘ حسب معمول پُر اثر تحریریں ہیں۔ دل پہ دستک میں ایک جملہ ’’مینار پاکستان لاہور میں جمع ہو کر…‘‘ اس سے ایسا لگ رہا ہے، جیسے سب مینار پاکستان میں جمع ہو گئے تھے۔ حالانکہ اس وقت مینار کا وجود ہی نہیں تھا۔ ساتھیوں کے لیے وضاحت ضروری تھی کہ یہ ہزاروں مسلمان منٹو پارک میں جمع ہوئے تھے۔ جہاں قیام پاکستان کے بعد مینار تعمیر کیا گیا۔
’’کلیم چغتائی‘‘ سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے واقعات لے کر آئے ہیں۔ انھیں جب بھی پڑھو، ایمان تازہ ہوتا ہے۔ ’’فریدہ گوہر‘‘ قائداعظم، فاطمہ جناح اور دینا جناح کے بارے میں بہت دلچسپ تحریر لائی ہیں۔ بہتر تھا کہ ان شخصیات کا ایک تعارف بھی شائع کیا جاتا۔ جو واقف نہیں کہ دینا جناح کون تھی۔ وہ ضرور الجھن میں پڑیں گے۔ محمد علی جناح کے حوالے سے یہ واقعات یقیناً مصدقہ ہوں گے۔ تاہم ۹ سالہ بچے کی والد کے دفتر میں بیٹھ کر کاروبار کے رموز سیکھنا عجیب لگتا ہے۔ ’’تھوڑی سی پس و پیش‘‘ میں ’’تھوڑے سے‘‘ ہونا چاہیے۔ ’’مدرستہ الاسلام، انجمن الاسلام‘‘ کا املا غلط ہے۔
’’نیند اور نشونما‘‘ (صفحہ:۲۲) کو ’’نشوونما‘‘ لکھنا چاہیے۔ کیوں کہ نشو و نما دو الفاظ ہیں اور نما کے نون پر زبر ہے کہ یہ ’نمو‘ سے ہے۔ حکیم خان حکیم کی پر حکمت نظم ’’گڑیا رانی‘‘ میں یہ لفظ سمجھ میں نہیں آیا ’’طوطلی۔‘‘ یہ کیا اور کس زبان کا لفظ ہے؟ کیا حکیم خان نے کبھی لفظ ’’توتلی‘‘ نہیں پڑھا؟ ’’لکڑی کا صندوق‘‘ بھی اچھی کہانی ہے۔ ابن آس محمد کا دلچسپ ناول ’’چالاک‘‘ ختم ہوا، اگلے ناول کا انتظار رہے گا۔ مستقل سلسلے سب ہی اچھے ہیں۔ تیزی سے آگے بڑھتے ہیں۔ رمضان کریم میں عیب جوئی کرنا اور بھی برا ہے۔ حماد ظہیر کا ۲۰۲۵ء کا پاکستان پڑھ کر صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’اے کاش۔‘‘ اپنے وطن کے بارے میں خواہش تو سبھی کی یہی ہوگی، جس کی نقشہ کشی حماد ظہیر نے کی ہے۔ یہ ڈراما حماد نے ۲۰۱۵ء میں لکھا تھا۔ ۵ سال بعد بھی مؤرخ قدم قدم پر اُچھلتا ہے۔ لیکن حماد کے مؤرخ کی طرح نہیں۔ حالات میں خرابی بڑھی ہے اور اس کی ذمے داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ نوجوان ساتھی حال اور مستقبل سنوار سکتے ہیں۔
داکٹر میمونہ حمزہ کی ’’انتہائی احترام کے ساتھ‘‘ سبق آموز ہے اور یقین ہے کہ ساتھی کے قارئین اپنے بڑوں کے احترام میں اضافہ کریں گے۔ حیرت انگیز طور پر اس شمارے میں غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں یا ہماری نظر کمزور ہوگئی۔ چین کی لوک کہانی کا ترجمہ احمد عدنان طارق لے کر آئے ہیں۔ ’’چاند کا اژدھا‘‘ خاص بچوں کی دلچسپی کی چیز ہے۔ لیکن ہم نے بھی دلچسپی سے پڑھا۔ ’’سب سے بہترین‘‘ (صفحہ: ۸۶) یہ غلطی اب شاید پختہ ہوگئی ہے۔ کئی بار سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ’’بہترین‘‘ کے ساتھ ’’سب سے‘‘ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بہترین کا مطلب ہی سب سے بہتر ہے۔
مریم صدیقی ’’خطرناک بیماری‘‘ لے کر حاضر ہوئی ہیں۔ یہ کوئی کورونا وائرس نہیں بلکہ بعض بچوں میں دوسروں کو نیچا دکھانے کی بیماری ہے، جو کسی وائرس سے زیادہ خطرناک ہے۔ مسابقت اور مقابلہ بہت اچھی چیز ہے۔ لیکن یہ مثبت فکر کے ساتھ ہونا چاہیے۔ باقی باتیں تو مریم صدیقی نے خود ہی سمجھا دی ہیں۔ آپ کی تخلیق کی ساری تحریریں دلچسپ ہیں۔ سیدہ عائشہ خلیق الرحمن کی تحریر میں پختگی آگئی ہے۔ ’’میں بھی چل لیتی ہوں‘‘ (صفحہ:۱۰۰) کی جگہ ’’میں بھی چلتی ہوں‘‘ مناسب تھا۔ مذکورہ جملے سے تو لگتا ہے کہ پہلے چل نہیں پاتی تھی۔ اب چل لیتی ہے۔ ’’مدّرسہ درس دے رہی تھی!‘‘ ’’دے رہی تھیں لکھنا چاہیے۔‘‘ ’’درس خصوصی طور پر اسی کے لیے ہی۔‘‘ اس جملے میں ’’اسی‘‘ کی جگہ ’’اس‘‘ لکھنا چاہیے اور اگر ’اسی‘ لکھا ہے تو پھر ’ہی‘ نہیں آئے گا۔ حضرت فاطمہ کے لیے ’’عنہ‘‘ کے بجاے ’’عنہا‘‘ لکھیں کہ عنہ مذکر کے لیے استعمال ہوتا ہے یعنی صحابی کے لیے۔ باقی سب ٹھیک ہے۔
جاوید حسین نے بھی اپنی والدہ کے لیے ’’پریشان ہوگئی اور کہنے لگی‘‘ لکھا ہے۔ کیا وہ واقعی اپنی والدہ سے ایسے ہی کلام کرتے ہیں۔ رومیصاء عبدالوہاب نے ’’مسکرانے کی وجہ‘‘ خوب تلاش کی، خوش رہیں۔ نظمیں بھی اچھی ہیں تاہم انعامی نظم میں ’’جذبہ مخلصی‘‘ کچھ نامانوس لگا۔ جذبہ اخلاص اور خلوص تو صحیح ہے۔ لیکن مخلصی عام طور پر نجات کے معنوں میں آتا ہے۔ باقی تبصرے مراسلہ نگاروں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ خط رے میں میراب لالچ کو مونث بنانے سے باز نہیں آئے۔
٭…٭