جہلم کا علاقہ اپنے جری و بہادر جوانوں، سر سبز کھیتوں اور معدنیات کی وجہ سے پورے پاکستان میں شہرت رکھتا ہے، جہلم کے شہر پنڈداد خان سے تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر کھیوڑہ نام کا ایک قصبہ آباد ہے جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی نمک کی کان کی وجہ سے پاکستان بلکہ دنیا بھر میں جانا پہچانا جاتا ہے۔ (واضح رہے کہ دنیا کی سب سے بڑی نمک کی کان پولینڈ میں واقع ہے) اس طرح یہ نہ صرف پاکستان بلکہ ایشیاءاور عالم اسلام کی بھی سب سے بڑی نمک کی کان ہے۔ ویسے تو اﷲ تعالیٰ نے قدرتی نمک کے سلسلے میں وطن عزیز کو بہت نوازا ہے، جٹہ بہادر خیل، کالا باغ، نری پنوس ، کرک اور مالین وغیرہ سے بھی کافی نمک حاصل کیا جاتا ہے لیکن ان سب جگہوں سے نکالے جانے والے نمک کو ایک پلڑے میں رکھیں اور کھیوڑہ کے نمک کو دوسرے پلڑے میں رکھیں تو کھیوڑہ ان سب پر بھاری ہے، کھیوڑہ کی یہ منفرد کان کوہستان نمک کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔ ماہرین کے مطابق کھیوڑہ سے نمک نکالنے کی ابتداءحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے ۷۲۳ سال قبل شروع ہوئی تھی۔ تاریخ دانوں کا یہ ایک محتاط اندازہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی پہلے نمک نکالا جا تا ہو۔ اتنی صدیاں گزرنے کے باوجود قدرت کا یہ خزانہ ختم ہونے کو نہیں آتا۔ پچھلے سال تقریباً تیس لاکھ ٹن نمک یہاں سے نکالا گیا۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں ہزاروں سال پہلے سے لے کر آج تک بنی نوع انسان نے یہاں سے حاصل ہونے والے نمک سے کتنا فائدہ اٹھایا ہوگا۔ اس عظےم الشان کان کی چھ منزلیں ہیں یعنی ایک کے اوپر دوسری، دوسری کے اوپر تیسری کان ہے لیکن یہاں تمام منزلوں کو ایک ہی کان کہا جاتا ہے۔ بعض مقامات پر یہ منزلیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل بھی گئی ہیں۔ ایسے مقامات پر کان کی اونچائی بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ اگر ان تمام منزلوں کو ایک سیدھ میں کر دیا جائے تو کان کی کل لمبائی ۲۹ میل یا ۸۴۱ کلومیٹر بنتی ہے۔

khewra-1
نمک نکالنے کے لیے پہلے کان کے اندر مطلوبہ جگہ کی نشاندہی کی جاتی ہے پھر وہاں سے نمک نکالا جاتا ہے۔ اوپر ، نیچے ، دائیں اور بائیں ہر سمت سے نمک نکالا جاتا ہے اس طرح وہاں ایک کمرہ سا بن جاتا ہے اور پھر کافی مدت تک وہاں سے نمک نکالا جاتا ہے۔ ساتھ ساتھ پہاڑ سے پانی رس رس کر جمع ہوتا رہتا ہے۔ آخر کار پانی اس قدر زیادہ ہوجاتا ہے کہ کام بند کرنا پڑتا ہے کیونکہ اب وہ جگہ کمرے سے تبدیل ہو کر تالاب کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ان تالابوں کا رقبہ اتنا ہوتا ہے کہ ان میں کشتیاں بھی چلائی جا سکتی ہیں بلکہ بڑے سے بڑا پیراکی کا مقابلہ بھی منعقد کیا جا سکتا ہے لیکن یہ پانی اتنا نمکین ہوتا ہے کہ اس میں تیرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ کچھ عرصہ قبل ایک بڑے تالاب میں خوبصورت کشتیاں چلائی گئی تھیں لیکن نمکین پانی کا نمک ان کی لکڑی کو چاٹ گیا جس کے باعث یہ کوشش کامیاب ثابت نہیں ہو سکی، اس قسم کے بڑے بڑے تالاب کان کے اندر پچاس کے لگ بھگ ہیں جبکہ کمروں کا تو شمار ہی ممکن نہیں۔ کان کے اندر ہوا کی آمدو رفت کے لیے روشن دان بنائے گئے ہیں۔ بالکل ہمارے گھروں کے روشن دانوں کی طرح۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ روشن دان بہت لمبے ہوتے ہیں۔ کان کے اندر خلاف توقع موسم غیر معمولی حد تک نہایت خوش گوار ہوتا ہے اور بیرونی موسم کے مطابق اس میں زبردست تبدیلی آتی ہے یعنی سردیوں میں یہ کان گرم جبکہ گرمیوں میں سرد ہوجاتی ہے۔ ہمارے ایک ناواقف دوست نے گرمیوں میں وہاں کا ماحول سرد پایا تو فرمایا کہ کان کے اندر ایئرکنڈیشنر لگانے پر سرکاری خرچہ تو بہت آتاہوگا؟ پہلے پہل کان کے اندر کوئلے کے انجن والی ٹرین چلتی تھی جس کے دھوئیں سے کان کی اندرونی دیواریں سیاہ پڑ گئی تھیں اور ساتھ ہی کان میں اس کا دھواں بھی بھر جاتا تھا جس کے باعث اس ٹرین کو بند کرکے بجلی سے چلنے والی ٹرین سروس شروع کی گئی جو کامیابی سے جاری ہے اور اس کی وجہ سے کان کے ماحول کو آلودہ دھوئیں سے بھی نجات مل گئی ۔

khewra-2
نمک بارود کے دھماکوں کے ذریعے توڑاجاتا ہے پھر محنت کش کان کن بڑے بڑے ٹکڑوں کو چھوٹا کرکے چھوٹی ریل کے ڈبوں میں بھر دیتے ہیں۔ پھر ٹرین وہ نمک باہر پہنچا دیتی ہے۔ ریلوے اسٹیشن سے نمک بڑی ریل کے ذریعے ملک کے کونے کونے میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ کان سے نمک، پاکستان معدنی ترقیاتی کارپوریشن کے زیر نگرانی نکالاجاتا ہے، کان میں کئی معدنی انجینئروں کے علاوہ درجنوں تکنیک کار اور سینکڑوں ہنر مند کان کن دن رات خدمت میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔ یہاں کم و بیش دو ہزار کان کن ملازم ہیں جن کی بدولت یہاں سے روزانہ ہزاروں ٹن نمک نکالا جاتا ہے۔یہاں سیر کی غرض سے آنے والے لوگوں کی دلچسپی کے لیے باقاعدہ ایک سیرگاہ بھی بنائی گئی ہے جو ہے تو کان کا حصہ لیکن اس کے دیکھنے کے بعد باقی کان دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ یہاں روزانہ سینکڑوں ملکی اور غیر ملکی سیاح سیر کرنے آتے ہیں۔ پہلی مرتبہ جو کان کے اندر جاتا ہے اسے یقین نہیں آتا کہ پاکستان میں بھی ایسی حیرت انگیز اور بہترین جگہ موجود ہے۔ اس سیرگاہ کا سب سے اہم اور خوبصورت مقام مسجد ہے جو نمک سے بنائی گئی ہے۔ قدرتی نمک کو کاٹ کر اس کی اینٹیں بنائی گئی ہےں۔ کان کے اندر سفید، کالا، سرخ، ہلکا سرخ، گلابی مائل رنگ کا نمک پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی رنگوں کا نمک کبھی کبھار نکل آتا ہے۔ مسجد کی دیوار میں بجلی کے بلب بھی لگائے گئے ہیں کہ جب ان کو روشن کیا جاتا ہے تو یہ منظر قابل دید ہوتا ہے۔ سیرگاہ میں مختلف جگہوں کے نام بڑے شہروں کے اہم مقامات سے تشبیہہ دے کر رکھے گئے ہیں۔ تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اور اہم مقامات کی کوئی ایک نہ ایک چیز مشترک ہے۔ مثال کے طور پر مسجد سے کچھ فاصلے پر چاندنی چوک ہے۔ اس جگہ تین راستے آپس میں ملتے ہیں، اس جگہ کی اہم خصوصیت نمک کی وہ پٹیاں ہیں جو مختلف رنگوں میں موجود ہیں۔ اس جگہ کان میں جتنی رنگوں کا نمک ملتا ہے وہ قدرتی طور پر یہاں پٹیوں کی صورت میں موجود ہے۔

khewra-4
چاندنی چوک سے آگے مال روڈ واقع ہے۔ یہاں کان بہت کشادہ ہے اور دو ٹرک ایک دوسرے کو باآسانی پارکرسکتے ہیں۔ مال روڈ پر چلتے ہوئے اوپر چھت کی جانب نظر دوڑائی جائے تو انتہائی خوبصورت سفید سفید تتلیاں چھت پر لٹکتی ہوئی نظر آتی ہیں، انہیں Stayregtiteکہا جاتا ہے۔ ان تتلیوں سے لپ لپ کرتا ہوا نمکین پانی گرتا رہتا ہے۔ مشہور شاعر احسان دانش مرحوم نے پانی کے ان قطروں کو ”اشک نمک“ کہا ہے۔ انہی اشکوں کی وجہ سے نیچے نمک کے ڈھیر لگ جاتے ہیں یعنی اشکوں کے ڈھیر…. وہاں گھومتے ہوئے لگتا ہے کہ ہم رات کے وقت مری کی مشہورزمانہ مال روڈ پر چہل قدمی کررہے ہیں۔ بارش ہو رہی ہے اور سڑک پر روئی کی طرح برف کے چھوٹے بڑے ڈھیر پڑے ہیں۔ مقامی طور پر ان ڈھیروں کو ”لڈو پیڑے“ کہا جاتا ہے لیکن دراصل تو یہ نمک ہی ہے ۔ یہیں راولپنڈی کا مشہور موتی بازار بھی ہے جہاں بکتا تو کچھ بھی نہیں لیکن دیواروں پر موتی ضرور جڑے ہوئے ہیں۔ یہ موتی نمک سے بن جاتے ہیں۔ جب پانی رستا ہے تو اپنے لیے چھوٹے چھوٹے راستے بنا لیتا ہے۔ ان راستوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی جگہیں رہ جاتی ہیں۔ ان میں اور موتیوں میں کوئی فرق نہیں نظر آتا۔ موتی بازار سے کچھ فاصلے پر ”پل صراط“ ہے جو ایک بہت بڑے تالاب پر بنا ہوا ہے جو دو کمروں کو آپس میں ملاتا ہے۔ نمک کے اس پل کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا کوئی سہارا نہیں، جیسے ایک تالاب پر لکڑی آکر گر جائے لیکن عجیب بات ہے کہ سالہا سال سے زیر استعمال رہنے کے باوجود اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اس جگہ پر چلتے یا بولتے ہوئے غیر معمولی طورپر آواز میں گونج پیدا ہوتی ہے۔ پل صراط پار کرتے ہی ہم ”شیش محل“ پہنچ جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک بہت بڑا تالاب ہے لیکن اس کی دیواریں شیشے جیسے شفاف نمک سے بنی ہوئی ہیں۔ پانی نے شیش محل کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ اس میں قدرتی طور پر نمک کا بنا ہوا ایک بت بھی ہے جسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دربار میں بڑی شان وشوکت سے بادشاہ سلامت جلوہ افروز ہیں۔ سب سے بڑے کمرے کو اسمبلی ہال یا شوٹنگ ہال کا نام دیا گیا ہے۔ ویسے تو ایسے لاتعداد غار کان کے اندر موجود ہیں جن میں پہلے کام کیا گیا پھر جب آگے نمک ختم ہو گیا تو کام چھوڑ دیا گیا لیکن پریم گلی کی شہرت ایک بڑی لکڑی کی وجہ سے ہے جو پہاڑ کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ماہرین کے اندازے کے مطابق یہ لکڑی لاکھوں سال سے یہیں دبی ہوئی ہے اور حیرت انگیز طور پر اسے نمک سے کوئی نقصان نہیں پہنچا اور جلانے کی کوشش پر اس میں سے ربڑ جیسی بو نکلی، اگر اس پر مزید تحقیق کی جائے توبہت سی ناقابل یقین باتیں سامنے آئیں گی جس سے دنیا حیران و پریشان رہ جائے گی۔

khewra-5
جب تک اس انوکھی سیرگاہ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا جائے ، اس کی خوبصورتی کا احساس نہیں ہوتا۔ ان مقامات کے علاوہ اور بھی بہت سی جگہیں اس کان میں موجود ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس کان میں کم از کم ایک ارب ٹن نمک موجود ہے اور آئندہ ہزاروں سال تک نمک کا ذخیرہ ختم نہیں ہوگا۔ یہاں سے نکالا ہوا نمک نہ صرف ملکی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ باہر کے ممالک میں بھی اس کی بہت مانگ ہے۔ خاص کر بھارت میں تو پہاڑی نمک موجود ہی نہیں۔ وہاں سمندری نمک استعمال کیا جاتا ہے۔ بہرحال قدرت کی طرف سے ہمیں یہ خوبصورت ، لاجواب اور بے مثال تحفہ دیا گیا ہے۔
٭….٭