پڑھیے ایک دل چسپ محاورہ کہانی
دفتر کا بابو صبح سویرے اٹھتا تھا۔ فجر کی نماز پڑھ کر ناشتہ کرتا۔ پھر سڑک ناپتا ہوا دفتر پہنچ جاتا۔ وہ وقت کا پابند تھا۔ ہر کام ذمہ داری سے کرتا تھا۔ لیکن کم تنخواہ کی وجہ سے بے چارہ اکثر پریشان رہتا۔ وہ امیر بننے کے لیے کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتا اور خیالی پلاﺅ پکاتا رہتا کہ قیمتی کپڑے، مہنگی گاڑی اور ایک بڑا سا گھر اس کا اپنا ہوتا۔
وہ اخبار میں چھپے معمے حل کرتا اور سوچتا کہ ’اس دفعہ معمہ حل کرکے وہ ضرور امیر کبیر آدمی بن جائے گا۔‘
پورا مہینہ خیالی پلاﺅ پکاتے ہوئے آرام سے گزر جاتا لیکن جب انعام نہ پاتا تو اسے اپنا دفتر بہت برا لگتا۔ بھلا دن رات فائلوں پر سر جھکا کر قلم چلانا بھی کیا زندگی ہے….؟
افسردگی کی وجہ سے اسے غلط کام کرنے پر اپنے افسر کی جھڑکیاں بھی سننی پڑتیں۔ آخر وہ بھی اپنا غصہ غریب چپڑاسی پرنکال کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتا۔ ادھر چپڑاسی گھر جا کر اپنی بیوی کو ڈانٹ ڈپٹ کرتا اور دوسرے روز چپڑاسی دفتر کے بابو سے ناراض رہتا۔
کم تنخواہ میں زیادہ کام کرنے سے چڑچڑی طبیعت کا مالک دفتر کا بابو اپنے پھٹے جوتے پر نظر ڈالتے ہی چپڑاسی پر جھنجھلا جاتا ہے۔
آخر ایک دن چپڑاسی چڑ جاتا اور کہتا ہے: ”صاحب….! آپ ضرورت سے زیادہ غصہ کرتے ہیں اسی لیے میں بھی گھر جا کر اپنی بیوی سے لڑتا ہوں۔“
بابو نے حیرت سے پوچھا: ”تم ایسا کیوں کرتے ہو؟“
”ظاہر ہے مجھے بھی غصہ آتا ہے اور ہم سب کمزور پر ہی غصہ اُتارتے ہیں۔“ چپڑاسی نے کہا تو بابو شرمندہ ہوگیا۔
چپڑاسی بولا: ”صاحب آپ دولت چاہتے ہیں، اسی لیے اخبار کے انعامات پانا چاہتے ہیں لیکن دولت تو قسمت سے ملتی ہے۔ جس دن آپ نے اللہ کا شکر کرنا سیکھ لیا۔ دولت مند ہوجائیں گے۔“
چپڑاسی کی بات دفتر کے بابو کے دل پر لگی۔ اس روز اس نے نماز پڑھ کر خدا کا شکر ادا کیا کہ اللہ اسے رزق تو دیتا ہے۔ پھر اس نے برکت کی بھی دُعا کی۔
بابو خوشی خوشی دفتر جاتا ہے اور چپڑاسی اس کا حال چال پوچھ کر اچھی سی چاے پیش کرتا ہے۔
فرض شناسی اور بہترین ذمہ داریاں ادا کرنے پر نئی حکومت نے سرکاری ملازموں کی تنخواہ بڑھا دی ہے۔ اب دفتر کا بابو بہت خوش ہے۔
٭….٭