چچا کنجوس کے گھر کی عید کا نقشہ ہی نرالا تھا۔ ہر گھر کی طرح عید تو ان کے گھر بھی آتی تھی مگر کچھ اس ڈھنگ سے کہ سب دنگ رہ جاتے تھے۔ حالانکہ چچا کنجوس کی دکانیں ٹھیک ٹھاک چل رہی تھیں اور معقول آمدنی ہوتی تھی۔ مگر کنجوسی نے ان کی زندگیوں میں سب سے بڑی جگہ گھیری ہوئی تھی۔ عید کے موقع پر کنجوس گھرانے کی پریشانی مزید بڑھ جاتی۔
رمضان میں پڑوسیوں کے گھر سے آنے والے افطار سے جو بچت کی جاتی وہ عید کے دن مٹی میں ملتی نظر آتی۔ چچا کنجوس کے کپڑے ان کے لمبے چوڑے بیٹے کو گھٹنوں سے نیچے پاجامے اور اٹنگے کرتے میں ملبوس کر دیتے تو خود چچا کا مسئلہ اپنی جگہ تھا کہ ان کے والد حیات نہ تھے اور حیات نہ ہونے کی وجہ سے ان کے کپڑے دستیاب نہ تھے۔ ٹرنک میں رکھی چمکیلی شیروانی جوان کی کئی سال پرانی شادی کی یادگار تھی۔ کافی عیب چھپا لیتی تھی۔
چچی خاموش جو کنجوسی بھی خاموشی سے کرتی تھیں۔ اپنے شادی کے غرارے کو سنبھال کر رکھنے میں کیڑوں سے نہ جیت سکی تھیں۔ اور یوں عید کے دن ان کے کپڑوں
کا مسئلہ بھی گھمبیر ہوجاتا۔ پھر کنجوسوں کی ایک عدد بہو بھی تھی۔ جو کنجوس ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں خاصا وقت لے رہی تھی۔ اس نے ساس کی سلمیٰ ستارے سے لپی پتی ہزار سالہ پرانی ساڑھی پہننے سے انکار کر دیا۔ جس پر بہو کوبے نقط سنانے کا کام بھی چچا کنجوس نے کیا۔ کیونکہ چچی خاموش، صرف خاموش رہنے کا کام کرسکتی تھیں۔
پھر چچا کنجوس کے دو عدد پوتوں کا مسئلہ تھا۔ جن کے کپڑے ان کی دادی نے ان کے باپ کے بچپن کے کپڑے دے کر پوری کر دی۔ یہ اور بات تھی کہ جدید دور کے یہ بچے ان مغلیہ طرز کے کپڑوں میں بہادر شاہ ظفر کی روحےں لگ رہے تھے۔ چونکہ کنجوسی کی وجہ سے بچوں کو نہلانے
دھلانے کا رواج بھی کم ہی کم تھا لہٰذا چہروں سے بھی وہ ٹمٹماتا چراغ دکھائی دے رہے تھے۔
کپڑوں کا مسئلہ حل ہوا تو آگے آتاتھا مہمان نوازی کا مرحلہ۔ عید پر آنے والے مہمانوں سے جتنا بھی خشک سلوک کیا جائے مگر کچھ نہ کچھ کھلانا پلانا تو لازم تھا ہی۔ ایسے میں کنجوس چچا کی جان پہ بن آتی تھی۔ مگر خاموش چچی زندہ باد۔ کہ وہ ہر قدم پر اپنے میاں کی کنجوسی کو سہارا دیتی تھیں۔اور کہیں بھی کنجوسی کا معیار گرنے نہیں دیتی تھیں۔
عید پر بھی وہ سویاں بنانے کی مہنگی روایت کو ترک کر چکی تھیں اور آنے والے مہمانوں کی تواضع ایک انوکھی ڈش سے کرتی تھیں جی ہاں کنجوس چچی سال بھر سے وہ انوکھی میٹھی ڈش تیار کرنے میں جتی رہتی تھیں جو انہیں عید پر مہمانوں کو کھلانی ہوتی تھی۔ یعنی سال بھر محلے پڑوس اور رشتے داروں سے موصول ہونے والی مختلف مواقع کی مٹھائیاں ، نذر نیاز کے حلوے، زردے اور کھیر۔ ان سب کو وہ فرج کے قبرستان میں دفناتی رہتیں اور پوتوں کو مارپیٹ کرا ن چیزوں سے دور رکھتیں۔فرج پر تالے کے ساتھ خود بھی پہرا دیتیں۔ پھر عید کی صبح صبح چچی بیگم ان تمام چیزوں کو جو سال بھر فرج میں دفن رہنے کے باعث اپنی رنگت، قومیت اور ذائقہ کھو چکی ہوتی تھیں، ایک بڑے پتیلے میں انڈیل کر چمچہ بھر گھی ڈال کر یوں گھونٹیں جیسے آنے والے مہمانوں کا گلا گھونٹ رہی ہوں۔ جب ملغوبہ ایک خوفناک سیاہ رنگ اختیار کر جاتا تو مہمانوں کے آگے فخریہ پیش کیا جاتا۔ جسے کھانا تو درکنار، دیکھنا بھی دل گردے کا کام تھا۔
یہ ڈش دو طرفہ وار کرتی تھی یعنی ایک جانب عید کی میٹھی سوغات کا بھرم رکھتی تھی تو دوسری طرف یہ کارنامہ انجام دیتی تھی کہ جو مہمان ایک بار عید کی یہ سوغات کھا کے جاتا تو اگلی عید پر کبھی بھولے سے بھی ان کے گھر کا رخ نہ کرتا۔
عید کے ساتھ عیدی کی روایت بھی جڑی ہے۔حالانکہ کنجوس چچا لین دین کی روایتوں سے سخت نفرت کرتے تھے مگر دنیا کا بھرم بھی رکھنا تھا اور کنجوسی پر بھی آنچ نہ آنے دینا تھا۔ لہٰذا انہوں نے ایک عمدہ حل نکالا تھا کہ چمڑی بھی نہ جائے اور دمڑی بھی۔ لہٰذا انہوں نے ”لفافہ کلچر“ نکالا تھا۔ یعنی سب کو لفافوں میں عیدی دیتے تھے۔ پہلے پہل لوگوں نے یہ سمجھا کہ چچا لفافے میں نوٹ رکھنا بھول گئے۔ لیکن یہ بھول ہر سال ہونے لگی تو لوگوں کو سمجھ آیا کہ یہ بھول نہیں کنجوسی تھی۔
چچا نہ صرف خود کنجوسی کے چیمپئن تھے بلکہ ایک ایسی حیرت انگیز فیملی کے سربراہ تھے جو ان ہی کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی یعنی کنجوسی کے کسی بھی مشن میں انہیں گھر والوں سے مخالفت نہیں مول لینی پڑتی تھی۔ اس بار عید کو مزید سستا اور رنگین بنانے کے لیے خاموش چچی نے جو تجویز پیش کی اس پر چچا صاحب جھوم جھوم اٹھے۔ ملکہ کنجوس کی ترکیب یہ تھی کہ عید کے دن گھر پر تالا ڈال کے چچا کے بڑے بھائی کے گھر تین دن گزارے جائیں۔ اس طرح گھر آنے والوں پر جو دنیا دکھاوے کا چائے پانی ہوتا ہے، اس کا خرچہ بھی بچے گا۔
یوں سارے گھر والے، آثار قدیمہ کے ملبوسات میں خراماں خراماں چچا کے بڑے بھائی کے گھر چل دیئے۔ چچی بہت خوش تھیں کہ کنجوسی کا ایسا سائنٹفک طریقہ سوچا تھا جس کا جواب نہ تھا۔
” ارے میں کہتی ہوں! نجم کے ابا، ذرا حساب تو لگانا۔ آپ کے سینکڑوں بھانجے بھتیجوں کے چائے پانی سے جان چھڑا کے ہم نے کتنے پیسے بچا لیے؟“ چچا خوشی سے پھول کر بولے۔ بھئی بیگم داد دیتا ہوں تمہارے دماغ کی۔ عید مبارک کے بہانے آنے والے کتنے ہی مہمانوں کی تواضع سے جان بچا لی ہم نے۔ تم بھی تو میٹھا بنانے سے باز نہیں آتی تھیں۔ “
” ارے کیا کروں؟ دنیا والوں کا منہ تو دیکھنا پڑتا تھا۔“ چچی اٹھلائیں۔ حالانکہ وہ نام نہاد میٹھا کھا کے دنیا والوں کا منہ سیاہ پڑجاتا تھا۔ کاش انہوں نے منہ دیکھ ہی لیا ہوتا۔
بچت کی سرخوشی کے عالم میں تین دن نہایت شاندار گزرے۔ نہ صرف مہمانوں کا بلکہ تین دن کا گھر والوں کا راشن بھی بچا تھا۔ یوں چچا نے اس عید کو سب سے بہترین عید قرار دیا اور اس کامیابی کا سہرا خاموش چچی کے سر باندھا گیا۔
لیکن تایا جی کے گھر سے واپسی پر ایک شدید جھٹکا کنجوس گھرانے کا منتظر تھا۔ نیچے کی دونوں دکانیں اور اوپر کا گھر کھلا پڑا تھا۔ سارا سامان غائب تھا۔ کوئی ستم ظریف ڈاکو گھر خالی دیکھ کر، ان کی کنجوسی کی پرواہ کیے بغیر گھر لوٹ کے چلتے بنے تھے اور یوں کنجوس گھرانے کو اب کی عید سب سے مہنگی پڑی۔
٭….٭
