’بچوں کا اسلام ‘ کے مدیر کے قالم سے قارئین ِساتھی کے لیے ایک سفر کا دلچسپ تذکرہ
پہلا ٹکڑا
۹۲جون بروز جمعرات عید کا چوتھا دن اور ہمارے سفر کا پہلا دن!
آج گھر میں چہل پہل معمول سے زیادہ تھی۔ ہمارے پندرہ روزہ سفر کی تیاری زوروں پر تھی۔ ہم نے بیگ تیار کر کے ایک طائرانہ نظر اس فہرست پر ڈالی جو ضروری سامان کی بنائی گئی تھی۔ سب کچھ ہی تھا، بس لذتِ دہن کا سامان رکھا جانا باقی تھا۔
اِدھر کام میں بظاہر مصروف بیگم کی آنکھیں ہماری جدائی کے تصور سے بار بار بھیگ رہی تھیں…. چور نظروں سے ہم یہ سب تماشا دیکھ رہے تھے مگر ظاہر یہی کر رہے تھے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ پچھلے بیس دنوں سے جاری ایموشنلی بلیک میلنگ اب آخری دن آ کر صرف چپکے چپکے آنسو بہانے تک ہی رہ گئی تھی۔
ہمیں بیگم پر ترس تو بہت آیا مگر چوں کہ عزمِ مصمم کر چکے تھے…. سو ان زنانہ ہتھکنڈوں سے بے نیاز کاندھے اُچکاے، سفری بیگ اٹھائے، ٹرین کے وقت سے سوا گھنٹہ قبل ہی گھر سے نکل پڑے۔
پہلے چند منٹ کے لیے دفتر جانا تھا۔ اگرچہ پیشگی دو ہفتوں کا کام کرنے کے بعد ہی سفر پر نکلنے کی ہمت کر سکے تھے مگر جاتے جاتے بھی چند دفتری کاموں میں ایسے اُلجھے کہ جب آن لائن ٹیکسی والے کو کال کی تو قراقرم ایکسپریس کے روانہ ہونے میں صرف چالیس منٹ رہ گئے تھے…. یعنی تین بج کر بیس منٹ ہو چلے تھے۔
ادھر ٹیکسی والے بھائی ہمارے مقام پر پہنچنے کے بجاے ہماری گلی کے گرد گاڑی کو گویا طواف کرا رہے تھے…. ہمارے پیٹ میں گھبراہٹ سے اینٹھن سی ہونے لگی۔ اتنی مشکل سے تو قراقرم میں برتھ ملی تھی۔ ٹرین نکل جاتی تو پیسے تو ضائع ہوتے ہی، پھر اتنا لمبا سفرکوچ میں ہی کرنا پڑتا!
آخر ڈرائیور صاحب ٹھیک جگہ پہنچ ہی گئے۔ ہم سیٹ پر بعد میں بیٹھے، کینٹ اسٹیشن گاڑی اُڑانے کی پہلے استدعا کر بیٹھے۔ اس نے ہمیں حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا:”بھائی جی کینٹ یہاں بغل میں تو ہے نہیں…. راستہ بھی بہت جام ہوتا ہے، خیر کوشش کرتے ہیں۔“
یہ کہہ کر اس نے ایکسیلیٹر پر پاو¿ں رکھ دیا۔ ابھی گاڑی نے رفتار پکڑی ہی تھی کہ گھر سے کال آ گئی۔
”ارے کہاں ہیں آپ…. کھانے کے ٹفن تو یہیں چبوترے پر بھول گئے ہیں۔ بچوں کے ہاتھ بھیج رہی ہوں۔“
”رکیے ….“ہم چِلّا اُٹھے۔
ایک جھٹکے سے گاڑی رک گئی۔
”ایک منٹ بھائی….ابھی آیا!“
ہم گاڑی سے تیزی سے اُتر ے۔ ہم سب کچھ چھوڑ سکتے تھے۔ حتیٰ کہ قراقرم ایکسپریس کو بھی مگر اتنی محبت سے بنائے گئے قیمے پراٹھے ہرگز نہیں چھوڑ سکتے تھے۔
دیکھا تو سدیس اور ساریہ دوڑے چلے آ رہے تھے۔ ان سے ٹفن لیا، ایک بار پھر الوداع کہا اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گاڑی ہوا سے باتیں کرنے لگی۔
برسات ہو رہی تھی۔ کالی گھٹائیں اطراف سے جھوم جھوم کر اس طرح اُمڈی چلی آ رہی تھیں کہ دوپہر کے وقت مغرب کا سا گمان ہو رہا تھا۔ یکایک موسم اتنا خوب صورت ہو گیا تھاکہ دل بے ایمان ہونے لگا۔
”چھوڑو اتنی افراتفری میں جانے کا کیا فائدہ …. دو چار دن بعد گرین لائن میں سیٹ مل رہی ہے، اسی میں عزت اور سکون سے چلے جائیں گے۔“
ہم نے سر جھٹکا۔ اب یہ ممکن نہیں تھا۔ دور کہیں کوئی ہمارا انتظار کر رہا تھا!
ٹریفک جام سے بچنے کے لیے صدر کا قریبی راستہ چھوڑ کر شاہراہ فیصل کو چنا گیا…. گاڑی سڑک پر بڑی سبک رفتاری سے گویا تیر رہی تھی مگر ہماری نظر گھڑی پر جمی ہوئی تھی جس کی سوئیاں گاڑی سے زیادہ تیزی سے چار کے ہندسے کی طرف دوڑی چلی جا رہی تھیں۔ اب دل کو یقین ہونے لگا تھا کہ ہماری گاڑی چھوٹ ہی جائے گی۔
اور وہی ہوا…. ہم کینٹ اسٹیشن سے پانچ دس منٹ کی دوری پر تھے کہ آخر کار چار بج گئے اور ہمارے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑگئے۔
”اب کچھ نہیں ہو سکتا۔“
ہم نے زیرلب کہا۔ کیوں کہ نان اسٹاپ گاڑیاں عموما ًاپنے وقت پر چل پڑتی ہیں۔ گاڑی کینٹ کے گیٹ پر پہنچی تو ہم نے بے دلی سے بیگ سنبھالا اور اُتر گئے۔
ایک قلی سے پوچھا تو اس کے جملے نے بدن میں بجلی سی بھر دی۔”قراقرم پلیٹ فارم پر ہے….“
ہم نے بھاری بھرکم بیگ کے ساتھ دوڑ لگا دی۔ سامنے ہی گاڑی پورے طمطراق سے کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر پھولی ہوئی سانسوں میں ڈھیر سارا اطمینان اتر آیا۔
اپنا ڈبہ ڈھونڈا اور اپنی مطلوبہ برتھ تک جا پہنچے۔ ہمارے حصے میں مختلف عمر کی چار خواتین اور ایک صاحب موجود تھے، ساتھ دو تین بچے بھی شور مچا رہے تھے۔ پانچوں بڑوں نے ہماری ڈاڑھی اور حلیے کو بغور دیکھا اور ان کے چہروں پر الگ الگ تاثرات نقش ہو گئے۔
شاید ہمارا ہی انتظار ہورہا تھا کہ پندرہ منٹ لیٹ ہوئی گاڑی ہمارے بیٹھتے ہی سیٹی مارتے ہوئے چل پڑی۔ ہم نے اطمینان سے سر سیٹ سے ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں اور سکون کا گہرا سانس لیا۔
اگلے دس پندرہ منٹ میں ہی ہم پرمگر ایک بھیانک انکشاف ہوکر سارا سکون غارت ہو چکا تھا….
”یااللہ خیر!“ ہم نے سر پکڑ لیا۔
٭….٭
سفر کی وہ ایک رات!
بیگ سیٹ کے نیچے رکھ کر بیٹھنے اور ٹرین کے آہستہ آہستہ رینگنے سے فراٹے مارنے تک بمشکل پندرہ منٹ لگے ہوں گے کہ ہمیں یہ احساس ہو چکا تھا کہ ہم بدقسمتی سے بہت بُری طرح پھنس چکے ہیں…. ایک ایسے شکنجے میں جس میں سولہ سترہ گھنٹے پھنسے رہنے سے بہت بہتر یہ تھا کہ ہماری ٹرین چھوٹ جاتی اور ہم بس میں رُلتے ہوئے جاتے….
یہ شکنجہ تھا چار مختلف النسل مگر مشترکة العادة عورتوں کا جانا مانا شکنجہ ….جی ہاں ان کی گاڑی سے زیادہ تیزی سے فر فر چلتی زبانوں کا شکنجہ….
ہماری بات کو مبالغہ نہ سمجھا جائے تو یقین مانیے، گاڑی ابھی کراچی کی حدود میں ہی ہو گی، شایداسٹیل مل تک بھی نہ پہنچی ہو گی کہ ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی ان خواتین کے نہ صرف کراچی کے علاقوں کا علم ہو چکا تھا بلکہ جہاں وہ جا رہی تھیں، ان شہروں کے، ان علاقوں کے، ان رشتوں کے نام ،اسی طرح وہ کیوں جا رہی ہیں؟ ….کتنے برسوں بعد جا رہی ہیں؟…. اور حتیٰ کہ ان کے بچوں کی تعداد، عادات اور بہوﺅں کی حرکتیں تک ہمیں ذہن نشین ہو چکی تھیں۔
ہم نے چکراتے ہوئے سر کے ساتھ دور بیٹھے دوسرے صاحب کو دیکھا مگر انہیں شاید کوئی مسئلہ نہیں تھا بلکہ وہ توکچھ مسرور سے دکھائی دے رہے تھے، شاید اس لیے کہ ان کی بیگم ان کی جان چھوڑکر باقی عورتوں کے ساتھ بیٹھی زبان کے خوب جوہر دکھا رہی تھیں….ہم نے قراقرم میں سفر کرتے اس’اندرون محلہ لاہور‘سے جان چھڑاتے ہوئے مغرب کے فوراً بعد اوپر اپنی برتھ پر جانے کا فیصلہ کر لیا۔
نماز مغرب کے بعد اوپر جانے لگے تو ادھیڑ عمر( لاہور کا تنہا سفر کرنے والی )خاتون بول اٹھیں:”ارے بھئی اتنی جلدی سونے جا رہے ہو ….“ پھر ہمارے جواب کا انتظار کیے بغیر دوسری خاتون سے ہنس کر بولیں۔ ”بھئی ہمیں تو ٹرین میں نیند نہیں آتی، ہم تو ڈھائی تین بجے تک خوب باتیں کریں گے…. کیوں شبو؟“
”ہاں ہاں آنٹی!آپ سے مل کر، باتیں کر کے تو بہت مزہ آرہا ہے۔“
فیصل آباد جانے والی خاتون نے بڑے مزے سے کہا تو ہم لاحول پڑھتے ہوئے تیزی سے اوپر چڑھ گئے۔
ہمیں سب سے زیادہ حیرت ان آنٹی پر ہو رہی تھی جو عمر میں سب سے بڑی ہونے کے باوجود سب سے زیادہ بول رہی تھیں…. ان کی لٹکتی دہری ٹھوڑی کو دیکھ کر ہمیں سائنس کے اس نظریے کی صداقت پر شبہ ہو چلا تھا کہ چربی ورزش سے گھل جاتی ہے!
اوپر بھی گرچہ آوازیں صاف آ رہی تھیں مگر ان کی شدت کم تھی۔تھوڑی دیر بعد اوپر برتھ پر ہی سر جھکاے جھکاے ہم نے بڑی مشکل سے قیمہ پراٹھا اور کریلے کا اچار نوش جاں کیا…. اللہ کا شکر اور بیگم کا شکریہ زیر لب ادا کیا اور رومال کو خوب اچھی طرح سر، کان کے گرد لپیٹ کر لیٹ گئے۔
نہیں معلوم کہ جلتے کڑھتے کس وقت ہماری آنکھ لگی تھی کہ پھر وہ روہڑی اسٹیشن پر اسٹال والوں کے مخصوص آوازے اور پتیلوں پر چمچ مارنے کی آوازیں تھیں…. جن سے ہماری آنکھ کھلی۔
ڈبے میں خلاف توقع کافی سکون تھا۔نیچے اُترے تو دیکھا…. نئے دور کی ماڈرن ساس صاحبہ بھاپ اُڑاتی چاے کی چسکیاں لیتے ہوئے خلا میں کہیں گھور رہی تھیں…. شاید اپنے درخشاں ماضی میں بے چاری گم تھیں کہ جب گھر پر صرف ان کی حکمرانی ہوا کرتی تھی۔ باقی دونوں فیملی شاید اسٹیشن پر اُتر کر ٹہل رہی تھیں۔ ہم بھی گاڑی سے اُترے اوراِدھر اُدھر ٹہل کر ہاتھ پاو¿ں سیدھے کرنے لگے۔
کسی بڑے اسٹیشن پر کوئی مسافر گاڑی آ کر رکتی ہے تو وہاں کچھ دیر کے لیے گویا بے جان اشیا بھی جی اُٹھتی ہیں۔ ایک زبردست ہلچل اور گہماگہمی منظر پر چھا جاتی ہے…. ریلوے اسٹیشن کا ایک مخصوص منظر نامہ،ایک مخصوص شور اور ایک مخصوص مہک ہوا کرتی ہے….
اگر ایک طرف اسٹال والوں کے بلاوے، اشارے، مسافروںکے نخرے، مطالبے۔ مختلف شہروں کی سوغات اور ثقافت کے نام پر گھٹیااور ردّی مال سے بھری دُکانیں اورہمہ قسم گداگروں کی بھیڑ اور فریادیں، اسٹیشن کا مخصوص منظرنامہ ترتیب دیتی ہیں تو دوسری طرف گندے فرش اور دیواروں سے اُٹھتی پان کی پیک کی بدبو، سستے مسالوں کی گھٹیا خوشبو سے مل کر اسٹیشن کی ایک مخصوص کراہت انگیز مہک کو تخلیق کرتی ہے۔
مسافر بھی عموماً عمر اور جنس کے اعتبار سے مختلف گروہ میں تقسیم نظر آتے ہیں…. نمازیوں کا جلدی جلدی وضو بنا کے پلیٹ فارم پر ہی جلدی جلدی دو رکعت اس طرح پڑھنا کہ دھیان ربّ کے بجاے ٹرین پر جما رہے اور بزرگوں کا ٹرین کی کھڑکی سے جھانکتے ہوئے چھوٹوں کو چیخ چیخ کر ہدایات دینا وغیرہ
ہم چوں کہ اکیلے بھی تھے اور شرمیلے بھی…. سو اس تمام ہلچل سے دور ایک بنچ پہ بیٹھ کر بڑے مزے سے روہڑی اسٹیشن کے ان تمام مناظر سے فلسفے کشید کرتے رہے…. گاہے ٹرین کی چھت پر لمبے لمبے پائپوں سے پانی بھرنے والے کارکنوں پر بھی نظر ڈال لیتے کہ جب تک وہ اوپر نظر آ رہے ہیں، ٹرین کی طرف سے اطمینان رہتا ہے کہ وہ چلنے والی نہیں….
آخر پانی بھرا گیا اور ٹرین کی سیٹی بجی، مدہم پڑتی آوازیں یکایک دوبارہ شور میں بدل گئیں۔ دوڑتے بھاگتے قدم تیزی سے اپنے اپنے ڈبوں کے پائیدانوں پر جمنے لگے…. ہم بھی اُٹھ گئے تھے، اپنے ڈبے پر چڑھے اور دروازے سے گزر کر نامحرموں سے دامن بچاتے ہوئے اپنی سیٹ پر پہنچے تو ایک بار پھر زنانہ چوپال سجی دیکھ کر سارے موڈ کی ایسی کی تیسی ہو گئی۔
” پتا نہیں کون سی مخلوق ہیں بھئی یہ….“
غصے سے بدبدا تے ہوئے ہم تیزی سے برتھ پر چڑھے اور پہلے کی طرح رومال لپیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔
نیچے خواتین اپنی محدود ترین دنیا کے لامحدود مسائل ڈسکس کر رہی تھیں…. اُدھر سفر کے پہلے دن کی چند ہی گھڑیاں باقی رہ گئی تھیں…. کچھ ہی دیر میں تاریخ بدل جاتی اور ایک نیا انجانا دن اپنے جلو میں بہت ساری نت نئی کہانیاں لیے آ چکتا….
قراقرم رات کی اندھیریوں میں کسی کالی ناگن کی طرح بل کھاتے ہوئے تیزی سے اپنی منزل کی طرف دوڑی چلی جا رہی تھی…. اس کے ایک ترتیب سے ہونے والے ہچکولوں نے ہمیں جلد ہی تھپک کر خوابوں کی دنیا میں پہنچا دیا….
اُس رنگین دنیا میں، جہاں نہ ہم اکیلے تھے اور نہ ہی شرمیلے….!
٭….٭
فیصل آباد میں ڈیڑھ گھنٹہ اور ایک شوخ سے ملنا!
30جون سفر کا دوسرا دن!
وہ چڑیوں کی چہچہاہٹ تھی، جس سے ہماری آنکھ کھلی تھی۔
”ہائیں یہ بھلا ٹرین میں چڑیاں کہاں سے آ گئیں؟“
غنودگی بھرے ذہن نے حیرت سے سوچا۔نیچے جھانکا تو دونوں معصوم چڑیوں سے بچے کھڑکی سے چپکے ہوئے اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک باہر نکالے خوب زوروشور سے نجانے آپس میں باتیں کر رہے تھے یا اُلجھ رہے تھے۔ہم نے گھبرا کر انہیں ٹوکا:
”ارے ارے بھئی…. کھڑکی سے ہاتھ تو اندر کرو۔“
دونوں یکایک چپ ہو گئے اور گردن اٹھا کر ہمیں دیکھنے لگے۔ ہماری آواز سے ان کے ابا جان کی بھی آنکھ کھل گئی۔ اُنھوں نے بھی لیٹے لیٹے بچوں کو جھڑکا۔
ہم نے اپنے’ سروقد‘ اور مسافروں کے سوئے ہوئے ہونے کا فائدہ اُٹھایا اور سیڑھی سے اُترنے کے بجاے بازوو¿ں کے بل اُچک کر برتھ کے درمیان ہی چھلانک لگا دی۔ کھڑکی سے باہر جھانکا تو صبح کے دھندلکے نور میں تیزی سے پیچھے کو بھاگتے درخت اور سرسبز کھیت آنکھوں کو بہت ہی بھلے لگے۔
”شاید سات بجے ہیں۔ “ہم نے اندازہ لگایا اور صابن لیے واش روم کی راہ پکڑی۔
واپس آئے تو چاے والا آواز لگا رہا تھا۔ اسے چاے کا آرڈر دیا۔ بچوں کے ابا جان بھی چاے منگوا چکے تھے۔ چاروں خواتین البتہ پچھلی رات کی زبردست جبڑانہ مشقت کے بعد اب لمبی تان کر سو رہی تھیں …. بے شک ان کی زبانوں کا بھی پورا حق تھا کہ ان کو آرام دیا جائے۔
چاے آئی تو کل سے یہ پہلا موقع تھا جب ہم دونوں حضرات نے چاے پیتے ہوئے کچھ گفتگو کی…. دو چار جملوں کے بعد بات کرنے کو کچھ رہ ہی نہیں گیا، بس ایک دوسرے کی منزل کا علم ہو گیا، وہ بچوں کی چھٹیوں پر اُنھیں اپنے آبائی گاو¿ں تھاکوٹ لے جا رہے تھے اور ہم واہ کینٹ…. اس مقصد کے لیے ہم دونوں کو ہی راولپنڈی کے ۶۲نمبر اسٹاپ پر جانا تھا…. اسی وقت ٹکٹ چیکر آگیا۔ ٹکٹ دکھایا تو وہ زیر لب مسکرا دیا۔ ہم سمجھ گئے کہ وہ ٹکٹ پر درج ہماری چار سو بیسی دیکھ کر مسکرایا ہو گا،کیوں کہ اتفاق سے ہمارا کراچی سے فیصل آباد تک کا کرایہ کم نہ زیادہ پورا ۰۲۴ روپے بنا تھا۔ اس نے ٹکٹ پر جرنلسٹ ڈسکاﺅنٹ دیکھ کر ریلوے کارڈ بھی طلب کیا، دیکھا اور آگے بڑھ گیا۔
بدمزہ چاے ختم ہوئی تو ٹرین میں زندگی آہستہ آہستہ جاگنے لگی تھی۔ مسافر واش روم کے باہر جمع ہونے لگے۔ معلوم یہ ہوا تھا کہ نو سوا نو بجے تک ہم فیصل آباد پہنچ جائیں گے۔ موبائل دیکھا تو خوش قسمتی سے سگنل پورے آ رہے تھے۔ فیس بک اوپن کی تو جناب سعود عثمانی صاحب کے کالم کا نوٹیفیکشن آیا ہوا تھا۔ ترکی کے دولما باشی سراے سے متعلق وہ حیران کن کالم اسی وقت پڑھا اور ایک اضمحلال سا رگ وپے پہ طاری ہو گیا۔ سلطنت عثمانیہ کے دور ِزوال میں، محض اپنی جھوٹی شان جتانے اور زوال پذیر دبدبے کو چھپانے کے لیے غیر ملکی قرضے سے ۵۳ٹن سونے کی مالیت (تقریباً ڈھائی ارب ڈالرز)سے بنایا گیا یورپین طرز کا یہ محل، جس کی صرف چھت پر ۴۱ٹن خالص سونا لٹکایا گیا تھا، عبرت کا ایک نمونہ ہی تھا۔
اگلے ڈیڑھ دو گھنٹے پھر ہم ماضی میں کھوئے، اپنے تئیں خود کو بڑا مفکر اور مصلح سمجھتے ہوئے مسلمانوں کے زوال کے علت و اسباب پر غور فرماتے رہے…. مگر پھر معدے میں شروع ہونے والی چوہوں کی دوڑ نے جلد ہی ہمیں ماضی سے حال میں لا پٹخا، اب ہمارے سر سے مسلم اُمّہ کا غم اُتر کر اپنے پیٹ بھرنے کا غم سوار ہوا۔
بارہ گھنٹے سے اوپر ہو گئے تھے، ہم نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ آس پاس دیکھا تو سب ہی کچھ نہ کچھ کھا پی رہے تھے۔ دل کو سمجھایا کہ فیصل آباد قریب ہی ہے، سو بس وہیں اُتر کر کچھ کھائیں گے۔
فیصل آباد واقعی قریب ہی تھا…. کچھ ہی دیر میں ٹرین فیصل آباد کی حدود میں داخل ہو گئی تھی۔ نو بج کر دس منٹ پر گاڑی اسٹیشن پہنچ گئی۔ ہمارے کیبن سے لاہور جانے والی آنٹی کے علاوہ سب ہی کو اُترنا تھا۔ رسمی سی باہمی سلام دعا ہوئی اور ہم سب اپنے اپنے بیگ سنبھالے پلیٹ فارم پر اُتر گئے۔
بلال پاشا (بچوں کے ادیب) پہلے ہی بتا چکے تھے کہ اسٹیشن کے بالکل سامنے ہی ڈائیو کا اڈہ ہے، وہاں سے راولپنڈی ۶۲نمبر اسٹاپ کے لیے کوچ میں بیٹھیے گا۔
باہر نکل کر ایک مقامی مرد سے اڈے کی بابت استفسار کیا اور سڑک پار کر کے اڈے پر پہنچ گئے۔ یہ ڈائیو کا اڈہ تونہیں، اسکائی وے کا اڈہ تھا۔ گاڑیاں بہرحال اچھی لگ رہی تھیں۔ معلوم ہوا کہ پنڈی کے لیے پونے گیارہ بجے والی کوچ میں سیٹ موجود ہے۔ وقت دیکھا تو پورا ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا ۔ٹکٹ لیا اور ناشتے کی تلاش میں بیگ اٹھائے اڈے سے باہر آ گئے۔
برابر میں ہی چناب ریسٹورنٹ کے بورڈ پر نظر پڑی تو اسی میں جا بیٹھے۔۰۸روپے میں ایک چمڑے جیسی تیل میں چپڑی چیز کے چند لقمے چاے کے ساتھ بمشکل حلق سے اُتارے اور باقی اسی طرح پلیٹ میں چھوڑ دیا اور دل کو تسلی دی کہ ناشتہ کر لیا ہے…. دل تو بہت بگڑا ہوا مگر مسافر بھلا کیا نخرہ دکھائے…. سو صبر شکر کرتے ہوئے باہر آئے اور انتظارگاہ میں بیٹھ کر وقت گزارنے لگے۔
بیٹھے بیٹھے اچانک شرارت سوجھی تو ایک قدیم فیصل آبادی دوست کو چھیڑنے کے واسطے ایک چند سطری شرارتی پوسٹ کربیٹھے۔ شاید یہی پوسٹ دیکھی ہو گی کہ کچھ ہی دیر میں تصورسمیع (مدیر سوشل میڈیا ڈائجسٹ)کا چنیوٹ سے فون آ گیا۔ اس نے ’الداعی الی الخیر‘ مولانا طاہر ریاض کو فون کھڑکا دیا تھا اور بتا رہا تھا کہ وہ آ رہا ہے۔
ہمیں کچھ اچھا نہیں لگا۔ رابطہ ہی کرنا ہوتا تو خود کرتے کہ لائل پور میں الحمدللہ محبین بے شمار رکھتے تھے، مگر صرف ایک گھنٹے کے لیے کسی کو تنگ کرنا بہت نامناسب بات تھی…. خیر ہماری گاڑی کے وقت میں ابھی تیس منٹ باقی تھے۔ پندرہ بیس منٹ مزید گزرے ہوں گے کہ طاہر کا فون آگیا۔ وہ پہنچ گیا تھا۔ ہم متلاشی نگاہوں سے کسی صحت مند باتوند مولوی کو تاک رہے تھے کہ قریب سے ہی ایک باریک آواز آئی:”فیصل بھائی!“
دیکھا تو ہماری ہی طرح سلم اسمارٹ سا ایک بندہ مسکراتے شوخ چہرے اور آنکھوں میں شرارت کی چمک لیے ہماری طرف بڑھ رہا تھا۔ ہم اسے دیکھ کر یوں خوش ہو گئے، جیسے کسی اجنبی بے مروت جگہ پر کسی اپنے کو اچانک دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔
فیس بکی تعلق بھی کیا عجیب شے ہے ۔بغیر ملے، بنا دیکھے، محض شعاعی تعلق فریقین کو بے تکلفی کی ان منازل پر لے جاتا ہے جو اکثر برسوں دن رات ساتھ رہنے والے بھی سَر نہیں کر پاتے۔ محض دو فیس بک آئی ڈیز کا یہ فیس بکی تعلق جب کبھی روبرو ملاقات میں متشکل ہوتا ہے تو حیرت، خوشی، محبت اور بے تکلفی کے بڑے حسین مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
وہ ہاتھ پھیلائے ہماری طرف آئے اور ہمیں بانہوں میں بھر لیا….ان کی اس وارفتگی پر ہم عادت کے مطابق شرم سے سرخ ہو گئے ….مگر شاید وہ ان کی زندگی کا یادگار لمحہ تھا، تب ہی وہ اپنی سعادت سمجھتے ہوئے کافی دیر ہمارے سینے سے چمٹے رہے۔ ہم نے بھی ان کے جذبات کا خیال رکھا، ان کی پیٹھ تھپکتے سہلاتے رہے اورتب تک اسی بہانے ان کی پسلیاں بھی گن گئے کہ حضرت کتنے پانی میں ہیں!
دعا، سلام اور شکوے شکایت کے بعد اُنھوں نے جلدی جلدی ہماری منزل، سفرکی تفصیل اور فیصل آباد واپسی کی بابت استفسار کیا۔ ہم جواب دیتے رہے اور ان کی جادو بھری چنچل آنکھوں کو دیکھتے رہے، جن میں شرارت گویا ناچ رہی تھی۔
اسی اثنا میں ہماری گاڑی نے چلنے کا صور پھونک دیا۔ مسافر بیٹھ رہے تھے، طاہر نے جلدی سے موٹرسائیکل سے دو تھیلیاں اتارے اور ہماری طرف بڑھائی۔ دیکھا تو جوس اور دودھ کے ڈبوں سے تھیلیاں بھری ہوئی تھیں۔
”بندہ مروت میں آ گیا ہے یا ہے ہی اتنا مہمان نواز؟“ہم نے سوچا۔
خیرجو بھی ہو، ہم نے بہرحال ہلکا سا رسمی احتجاج کرتے ہوئے تھیلیاں سنبھال لیں کہ ہم نہ سہی، آگے ملنے والے بچے یعنی بلال پاشا کو دودھ پلا دیں گے۔
طاہر ریاض بھائی کو جمعے کی تیاری کرنی تھی اور ہماری گاڑی بھی چلنے کو تیار تھی…. سوان سے الوداعی معانقہ کر کے رخصت کیا اور اپنی سیٹ پر آ بیٹھے۔
اگلا پڑاو¿ ہمارا پنڈی کا اسٹاپ تھا، جہاں بلال کو ہمیں لینے آنا تھا۔ اسکائی وے چل پڑی۔
تھوڑی دیر بعد ہی ایک پکی شکل کی میک اپ زدہ آنٹی نمودار ہوئیں اور سب مسافروں کو ہیڈفون تھمانے لگیں۔ ہماری سیٹ تک محترمہ پہنچیں تو ہماری بغل میں بیٹھے لڑکے کوتو ہیڈ فون دیا مگر ہمیں جیسے دیکھا ہی نہیں اور آگے بڑھ گئیں ۔
ہم نے خوش گمانی کی کہ محترمہ ہماری ریش مبارک کا احترام کر رہی ہیں شاید…. مگر یہ خوش گمانی کچھ دیر بعد اس وقت ختم ہو گئی جب وہ گلاس اور کولڈڈرنک لیے میزبانی کرنے لگیں۔ اس بار بھی وہ ہمارے پڑوسی کو گلاس تھما کر آگے بڑھ گئیں۔
اب یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ آنٹی کو ہماری شوگر کا الہام ہو گیا ہو…. سو ہم سے رہا نہیں گیا اور ساتھ بیٹھے مسافر سے بول پڑے:
”بھائی!ذرا دیکھنا، کیا ہم تمھیں نظر آ رہے ہیں؟“
”کک کیا مطلب؟ “ وہ کچھ بوکھلا سا گیا۔
”ہمارا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کو ہم نظر آ رہے ہیں تو ان آنٹی کے دیدوں کو کیا ہو گیا جو ہمارا احاطہ نہیں کرپارہی ہیں!“
ہماری بات اور لفظ آنٹی سن کر وہ مسکرا دیا۔ اس نے گردن موڑ کر اسکائی وے آنٹی کو پکارا:
”اِنھیں بھی تو دیجیے۔“
آنٹی شاید کسی پرانے قصے کو لے کر مولویوں سے بے حد خائف تھیں کہ منھ بنا کر دوسرا گلاس بھی ہمیں تھمانے کی بجاے لڑکے کو ہی تھما دیا۔ اس کی اس حرکت پر تو اب ہم باقاعدہ جل بھن ہی گئے اور ایک فوری فیصلہ کر اُٹھے۔
٭….٭
پہلی قسط