اگر ہم سے کبھی پوچھا جاتا کہ سب سے کم عقل، ناسمجھ، نالائق، بدھو، بھلکڑ اور بے وقوف کون ہے تو ہمارا بلا سوچے سمجھے، بلا توقف، بلا تامل اور بلا جھجک ایک ہی جواب ہوتا…. شجاعت!
”جس طرح تمھارا دن کوئی اہم کام کیے بغیر بسر ہوتا ہے، اس لحاظ سے تو تمھیں اس سے بھی چھوٹی ڈائری لینی چاہیے تھی روزنامچے کے لیے!“ ہم نے شجاعت کے ہاتھ میں ایک پاکٹ سائز ڈائری اور قلم دیکھ کر کہا۔
”مم…. مم…. یم!“ مرزا کچھ بھی بولنے سے پہلے اسی طرح آواز نکال کر ٹیسٹ کیا کرتے تھے کہ صحیح نکل بھی رہی ہے یا نہیں۔
”صرف یہی نہیں بلکہ دیکھو، یہ سب بھی میرے پاس ہے۔“ اُنھوں نے جیب سے میگنیفائن گلاس، چاقو، ڈوری، چابیوں کا گچھا اور اسی قسم کی ملتی جلتی چیزیں نکال کر دکھائیں۔
”یہ سب کیا بلا ہے؟“ ہم ان کی حماقت پر چیخ اُٹھے۔
”شیش….“ انھوں نے ہمیں خاموش کرایا اور دھیمے لہجے میں بولے۔
”مجھے دراصل جاسوسی کا ایک کیس ملا ہے اور کیس بھی کروڑوں کا ہے، بس اسے ہی حل کرنے جارہا تھا!“
”کروڑوں مکھیوں ہی کا ہوسکتا ہے، روپوں کا تو ہونے سے رہا!“ ہم نے منھ بنایا۔
”ہاں یہ تو مجھے پتا نہیں کہ خالہ کا ہیروں کا ہار کروڑوں روپے کا تھا یا مکھیوں کا، مگر یہ ضرور پتا ہے کہ وہ گم یا چوری ہوچکا ہے!“ مرزا نے ہاتھ جھاڑے جیسے ہار کا ذکر کرنے سے ان کے ہاتھ گندے ہوگئے ہوں۔
”ارے وہی ہار جسے وہ کل پرسوں لہک لہک کر بڑے فخر سے دکھاتی پھر رہی تھیں!“ ہم نے حیرت سے کہا۔
دراصل ہم جب پچھلی مرتبہ شجاعت کے ہاں آئے تھے تو ان کی خالہ آئی ہوئی تھیں اور ہر کسی کو اپنا ہیروں کا ہار فرض کفایہ سمجھ کر دکھا رہی تھیں، یہاں تک کہ ہم جیسے غیر متعلق شخص کو بھی دکھایا اور کہا۔’ ’ ایک بڑے جوہری کی بیوی ہونے کا کم از کم یہ فائدہ تو ہوا کہ جب دکان ومکان بیچا تو ایک ہیروں کا ہار تحفہ دے دیا۔ اس کی مالیت کروڑوں میں ہے!“
”عورتیں تو ویسے ہی بات کو بڑھا چڑھا کر بتاتی ہیں۔ تم یوں سمجھ لو کہ ہار لاکھوں ہی تک محدود ہوگا!“ ہم نے شجاعت کو سمجھایا۔
”مجھے تو یوں سمجھ لینے میں بھی کوئی پریشانی نہیں کہ وہ ہار چند ٹکوں کا ہو…. مسئلہ یہ ہے کہ چوری کس نے کیا؟ اور وہی معلوم کرنے میں جارہا ہوں۔“
شجاعت نے بے فکری سے کہا اور گھر سے باہر کو چل دیا۔
”جاسوسی معما حل کرنے کے لیے صرف ڈائری اور سامان ہی نہیں چاہیے ہوتا، بلکہ عقل نامی شے بھی درکار ہوتی ہے!“ہم نے گویا اسے یاد دلایا۔
”اوہ…. وہ تو میں اندر ہی بھول گیا، فرج میں رکھی تھی جب امی نے کہا تھا ٹھنڈے دماغ سے سوچو!“
”اب تک تو وہ دماغ واقعی ٹھنڈا پڑچکا ہوگا۔ چلو ہم تمھاری مدد کردیتے ہیں اس کیس میں!“ ہم نے فراخ دل ہونے کا اظہار کرنے کی کوشش کی۔
”دیکھو یہ جان جوکھوں کا کام ہے کسی بھی قسم کے جانی و مالی نقصان کا ذمہ دار میں نہیں ہوں گا!“ شجاعت نے ہاتھ اٹھائے۔
”ہاں ہاں ہمیں پتا ہے تم ذمہ دار شخص ہو ہی نہیں!“
٭….٭
خالہ نے تو واویلا مچایا ہوا تھا۔
”ہاے میرا کروڑوں کا ہار، ہاے میرا کروڑوں کا ہار!“
”لگتا ہے ہار ہیروں کا نہیں بلکہ کروڑوں کا تھا۔“ شجاعت نے سرگوشی کی۔
”صبر کرو غزالہ، مل جائے گا۔ میں کوشش کر تو رہا ہوں!“ خالو تسلی دینے کی کوشش کررہے تھے۔
”گھر میں بیٹھ کر کیا خاک کوشش کررہے ہو۔ اب تک تو چور اسے لے کر پکا قلعہ پہنچ چکا ہوگا!“
”ارے لو…. دیکھو شجاعت بھی آگیا۔ یہ ضرور تمھارا ہار ڈھونڈ نکالے گا!“
ہار تو کیا ڈھونڈ نکالنا تھا، اُنھوں نے جیب سے ڈائری قلم نکال لیا اور کسی منجھے ہوئے سراغ رساں کی طرح خالہ سے سوال پوچھا: ”آپ نے آخری مرتبہ ہار کہاں رکھا تھا!“
”ہاے ہاے! کسی نے تو عقل کی بات کی، آخر خون کس کا ہے؟ مرحوم اشتیاق صاحب کی یاد دلادی۔ ہاں ہاں میں بتاتی ہوں!“ خالہ ایسے گا گا کر بول رہی تھیں جیسے مرثیہ پڑھ رہی ہوں۔
”صبح سے چھہ، سات مرتبہ تو بتا چکی ہو سب کو، اب پوچھنے کو رہ کیا جاتا ہے!“ خالو جل بھن کر بولے۔
”میں ہار پہنے جارہی تھی کہ کسی کام سے باورچی خانے میں جانا پڑ گیا، میں نے ہار ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا اور باورچی خانے چلی گئی، وہاں سے واپس آئی تو ہار نہیں تھا!“
”تو آپ کو اِدھر اُدھر دیکھنا چاہیے تھا، شاید آپ جلدی میں کہیں اور رکھ کر بھول گئی ہوں!“ ہم بولے بغیر نہ رہ سکے۔
”پہلے پوری بات تو سن لو…. جب میں واپس آئی تو میں نے یہی کیا، ہار دراصل تمھارے خالو نے اٹھا کر دراز میں رکھ دیا تھا، میں نے نکال کر ڈریسنگ پر رکھا اور ہاتھ صاف کرنے باتھ روم چلی گئی، وہاں سے آئی تو کوئی میرے ہار ہی پر ہاتھ صاف کرچکا تھا۔
”کیا پتا خالو نے اسے اٹھاکر دوبارہ دراز میں رکھ دیا ہو؟“ شجاعت نے اندازہ لگایا۔
”میں نے دوبارہ دراز میں بھی دیکھا، مگر وہ وہاں بھی نہیں تھا، میں لٹ گئی برباد ہوگئی!“
مرزا ان کا بیان جلدی جلدی ڈائری میں نوٹ کرنے لگے۔
”ارے بھائی، یہ باتیں بھی بھلا نوٹ کرنے کی ہیں، یہ تو یاد رکھ ہی سکتا ہے بندہ!“ ہم نے انھیں جھاڑا۔
”ابھی پہلا بیان ہے اس لیے تمھیں ایسا لگ رہا ہے۔ ابھی آگے تم خالہ کے بیٹوں کے نام اور شکل ہی یاد رکھ لو تو مان جاﺅں گا!“
”میں نے ہار ڈریسنگ سے دراز میں نہیں رکھا تھا!“ خالو نے احتجاج کیا۔
”میرا خیال ہے خالہ بھول رہی ہیں، اُنھوںنے خود ہی باورچی خانے کی طرف جاتے ہوئے اسے احتیاط سے دراز میں رکھا ہوگا۔“ ہم نے خالو کی طرف داری کی۔
”نہیں نہیں، بھولتی ہے میری جوتی، خالو بھول رہے ہیں!“ خالہ چڑھ دوڑیں۔
”ٹھیک ہے بھئی، میں ہی بھول رہا ہوں گا، اب تم لوگ ہار تلاش کرو، ہمیں پیکنگ بھی کرنی ہے!“
”کیسی پیکنگ؟“ ہم نے شجاعت کو ٹہوکا دیا۔
”یہ لوگ کل کینیڈا شفٹ ہورہے ہیں۔ خالو دکان مکان سب بیچ چکے ہیں!“ شجاعت نے بتایا۔ پھر خالو سے بولا: ”آپ ہمیں بلڈ پریشر چیک کرنے والی مشین دے دیں اسے ہم بطور لائی ڈیٹکٹر (Lied detector) یعنی جھوٹ پکڑنے والے آلے کے طور پر استعمال کریں گے!“
بلڈ پریشر مشین لے کر ہم نے گھر کے باقی تمام افراد کو ڈرائنگ روم میں بلالیا۔ یہ ان کے چھہ بیٹے، ایک ماسی اور ماسی کا لڑکا تھے۔
”چلو بھئی تم سب اپنے اپنے نام بتاﺅ!“
نام سن کر تو ہمیں اپنا دماغ واقعی گھومتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ یہ تھے۔
امجد، ماجد، واجد، جاوید، مجید، جواد۔
شجاعت کو شرارت سوجھی بولا: ”اب تم لوگ اپنی جگہیں ادل بدل لو اور حمزہ چلو اب ذرا ان کے نام بتاﺅ۔“
ہم کھسیانے ہوگئے اور کھمبا نوچنے کے لیے ماسی کے لڑکے سے بولے: ”تم نے نہیں بتایا اپنا نام؟“
”ساجد!“ وہ خوش ہو کر بولا جیسے اسے اعلا صدارتی ایوارڈ کے لیے نامزد کردیا گیا ہو۔
”دیکھو ہمارے پاس یہ بی پی مشین ہے۔ ہم اسے لگا کر تم سے سوالات پوچھیں گے۔ جو جھوٹ بولے گا، مشین فوراً ہمیں بتادے گی، لہٰذا تم سب کی بہتری اسی میں ہے کہ ہمارے سوالات کے سچ سچ جواب دو!“
شجاعت کی بات سن کر سارے بچوں کے چہروں پہ خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ یوں لگتا تھا کہ ان سب کو یہ مشین لگانے کی بڑی حسرت ہو جو آج پوری ہورہی تھی۔ چند ایک نے تو آستینیں تک چڑھالیں۔
بس ماسی کا لڑکا ساجد کچھ گھبرایا ہوا معلوم ہوا۔ شجاعت نے بھی بھانپ لیا اور ہم اسے لے کر ایک الگ کمرے میں آگئے۔
”کیا معاملہ ہے بھئی؟“
”وہ…. پہلے آپ وعدہ کریں کہ کسی کو بتائیں گے نہیں!“ساجد بولا لگتا تھا کہ وہ چور کو جانتا ہے یا شاید چوری ہی اس نے کی تھی۔
”ایسا کوئی وعدہ تو ہم قطعاً نہیں کرسکتے!“ ہم دو ٹوک انداز میں بولے۔
”اچھا بس خالو کو بتادیجیے گا، خالہ کو پتا نہ چلے!“ اس نے درخواست کی۔
”اچھا بتاﺅ!“ شجاعت نے حامی بھری۔
”ہار دراصل میں نے اٹھایا تھا، خالو کے کہنے پر۔“ اس نے بھانڈا پھوڑا۔
”کیا….“ ہم دونوں کی چیخ نکل گئی۔ کوئی کیس بھلا اتنی جلدی اور اس آسانی سے حل ہوسکتا ہے ہم نے سوچا تک نہ تھا اور مجرم خود خالو نکلے!
”مگر کیوں؟“ شجاعت نے سوال کیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا، ماسی اندر داخل ہوئی۔
”دیکھیں۔“ یہ چور نہیں ہے، اس کو چوری کے لیے کہا ضرور گیا تھا، مگر میں نے سن لیا اور اس سے پہلے کہ وہ چوری کرتا، میں نے ہار کو اٹھا کر دراز میں چھپا دیا!“ ماسی نے صفائی پیش کی اور صفائی کا کام کرنے میں تو ماسیاں ویسے ہی بہت ماہر ہوتی ہیں!
”مگر امی….“ ساجد نے کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا۔
”تم چپ کرو!“
”تو ٹھیک ہے،جہاں تم نے ہار چھپایا تھا وہاں سے نکال کر خالہ کو واپس کردو!“ ہم نے خوش ہو کر ماسی سے کہا اور ہم اسے لے کر واپس خالہ کے کمرے میں آگئے۔ راستے میں بچے پوچھ رہے تھے۔ ”ہمارے مشین کب لگے گی۔“ پہلے میرے لگائیے گا وغیرہ وغیرہ….
ماسی نے دراز کھولی اور ٹٹول ٹٹول کر ہار ڈھونڈنے لگی۔ مگر نہ ملا۔
”شاید آپ بھول رہی ہیں کہ آپ نے ہار کہاں رکھا تھا؟“ شجاعت بولا۔
”نہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے، میں نے ہار یہیں رکھا تھا۔“ ایسے میں خالو کمرے میں آگئے اور یہ تماشا دیکھ کر ہمیں اپنے قریب بلایا، ماسی سے کہا وہ وہاں سے چلی جائے، پھر بولے:”دیکھو بچو! تم لوگ ہار ڈھونڈنے میں خود کو ہلکان نہ کرو!“
”کیوں کہ وہ آپ ہی چرانا چاہتے تھے، اور آپ ہی کے پاس ہوگا!“ ہم نے جلدی سے نتیجہ نکالا۔
”میری پوری بات سن لو۔ دراصل وہ میرے کسی گاہک کا ہار تھا، تمھاری خالہ نے ضد مچادی کہ مجھے لے کر دیں۔ اب اتنی مہنگی چیز اور وہ بھی امانت، بھلا میں کیسے دے سکتا تھا، لہٰذا میں نے اس کی فرسٹ کاپی، جو کہ نمائش کے لیے ویسا ہی نقلی ہار ہوتا ہے وہ حاصل کرکے تمھاری خالہ کو دے دیا اور وہ چند ہزار کا بھی نہ ہوگا!“
”اوہ…. مگر آپ اسے چوری کیوں کرانا چاہتے تھے؟“ ہم پوچھ بیٹھے۔
”تو تم لوگوں نے یہ معلوم کرہی لیا۔ دراصل میں نہیں چاہتا تھا کہ کسی کو اس ہار کی اصلیت کا معلوم ہو کہ وہ نقلی ہے!“
”واہ واہ نقلی کی اصلیت!“ ہم خوش ہو کر بولے۔
”کسی کو پتا چل جاتا تو ساری زندگی کی عزت اور ناموری خاک میں مل جاتی کہ خاور جوہری جعلی چیزیں بیچتا تھا!“
”مگر وہ اصلی ہار آخر تھا کس کا؟“ شجاعت نے پوچھا۔
”مشہور زمانہ وسیم سیٹھ، جو بڑا مغرور اور بدمزاج قسم کا آدمی ہے۔ میں نے اس کی امانت فوراً اس کو واپس کردی مگر….“ خالو سوچ میں پڑگئے۔
”مگر کیا۔“
”میں نے اصلی ہار اوپر والی دراز میں رکھا تھا، نقلی ہار نیچے والی دراز میں، پھر نیچے والی دراز سے ہار نکال کر خالہ کو دے دیا تھا مگر جب اصلی ہار نکالنے کے لیے اوپر والی دراز کھولی تو ہار نہیں تھا، سوچا کہ بھولے سے نیچے رکھ دیا ہوگا اور ہار نیچے والی دراز ہی سے ملا۔ کچھ کنفیوژن ہے مگر چھوڑو!“ خالو کی بات پر شجاعت مرزا نے ہمیں دیکھ کر ایک گہرا سانس لیا اور جلدی جلدی بیان نوٹ کرنے لگے۔
”تم لوگ خالہ کی تسلی کے لیے تھوڑی بہت پوچھ گچھ کرلو اور جا کر اپنے کاموں کو دیکھو!“ خالو نے مشورہ دیا اور اُٹھ گئے۔
باہر نکل کر ہم نے شجاعت سے پوچھا: ”تم کیوں اتنے گہرے گہرے سانس لے رہے تھے؟“
”میرا خیال ہے کہ ہمیں سب سے ایک ایک سوال اور کرنا پڑے گا۔“
پہلے ہم ماسی کے پاس پہنچے اور پوچھا: ”آپ نے ہار کون سی دراز میں رکھا تھا، اوپر والی یا نیچے والی؟“
”نیچے والی…. بی بی جی کا زیادہ سامان اسی میں ہوتا ہے نا!“
پھر ہم خالہ کے پاس پہنچے: ”آپ نے ہار کون سی دراز سے نکالا تھا اوپر والی یا نیچے والی؟“
”اوپر والی…. تمھارے خالو زیادہ تر وہی دراز استعمال کرتے ہیں!“
”نہیں!!“ ہماری چیخ نکل گئی۔
”کیا ہوا…. کیا ہوا۔“ خالہ گھبرا گئیں۔
”وہ…. اصلی…. مطلب ہے ہیروں کا ہار…. چچ چوری!“ ہم بس یہیں تک کہہ سکے۔
”لو تو یہی تو میں صبح سے چلا رہی ہوں!“ خالہ حیران ہو کر بولیں۔
شجاعت ہمیں کندھے سے پکڑ کر وہاں سے کھینچ لایا۔ آگے خالو ملے جو مسکرا کر ہاتھ ہلانے لگے، گویا کہہ رہے ہوں کہ اب چلے بھی جاﺅ۔
”ابھی اگر ہم نے انھیں بتادیا کہ جو ہار چوری ہوا ہے وہی دراصل اصلی تھا اور یہ جعلی ہار وسیم سیٹھ کو دے آئے تو ان کی ساری مسکراہٹ تو گئی۔“ ہم بڑبڑائے۔
”بہتر ہے کہ نہ بتاﺅ، خواہ مخواہ ایک نئی مصیبت میں پڑجائیں گے وہ بھی اور ہم بھی۔“ شجاعت نے اُنھیں جواباً ہاتھ ہلایا اور ہم مسکراتے ہوئے وہاں سے نکل آئے۔
اگلے دن شجاعت کو ہم نے اپنے دروازے پر کھڑا پایا۔
”ڈائری میں نوٹس بنانے سے کم از کم ایک تو فائدہ ہوا۔“
”امتحان سے پہلے انھیں پڑھنے نہ بیٹھ جانا، اس میں سے کوئی سوال نہیں آنے والا۔“ ہم نے سمجھایا۔
”ماسی کا بیٹا ساجد کچھ کہنا چاہتا تھا، ہم نے اس کا مکمل بیان تو لیا ہی نہیں!“
”لو بھلا…. ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اسے ہار چوری کرنا تھا، مگر اس سے پہلے ماسی نے اٹھالیا…. اب بھلا اس کے بیان کی کیا ضرورت رہی۔“ ہم نے کان سے مکھی اڑائی۔
”یہی ہے نوٹس اور زبانی کا فرق۔ اس کا بیان تھا کہ ”اس نے ہار اٹھایا“ دوم یہ کہ خالہ کا بیان تھا کہ اُنھوں نے ہار واپس ڈریسنگ میں رکھ دیا تھا!“ مرزا تالی بجا کر بولے۔
”ارے باپ رے، پھر تو فوراً چلو!“
ہم بھاگے بھاگے خالہ کے ہاں پہنچے، وہ لوگ وہاں سے جاچکے تھے۔ بڑی مشکل سے پوچھ پاچھ کر ماسی کا پتا پوچھا، اس کے گھر…. جو کہ جھونپڑی ہی تھی، وہاں پہنچے۔
”ساجد، تم نے جو ہار اٹھایا تھا وہ کدھر ہے؟“
”میں نے اس سے کھیلنا چاہا، مگر وہ کوئی گیند بلا تو تھا نہیں، لہٰذا بور ہو کر میں نے چھوٹی بہن کو دے دیا!“
”مطلب وہ کروڑوں کے ہیرے گیند بلے سے بھی گئے گزرے تھے!“ مرزا نے سرگوشی کی۔
”بلاﺅ اپنی بہن کو!“ ہم نے حکم دیا۔
تھوڑی دیر میں وہ اپنی چھوٹی بہن کو لے آیا۔ ننگے پاﺅں تھی، بدن پر چیتھڑے مگر گلے میں کروڑوں کا ہار!
واہ خدایا، تو نے مال و زر کی کیا ٹھیک اوقات ہمیں دکھائی۔ ہمیں ہیروں کی چیخیں سنائی دینے لگیں جو کہہ رہے تھے۔
”ہمیں اس کے گلے سے اتارو جس کی ناک بہہ رہی ہے، بال اُجڑے ہیں اور بار بار اپنے گندے ہاتھوں سے ہمیں چھو رہی ہے۔“
”لاﺅ بیٹا یہ ہار ہمیں دے دو۔“ شجاعت پیار سے بولا۔ بچی نے نفی میں سر ہلایا۔
”پہلے اسے ٹافی دیں پھر یہ دے گی!“ ساجد نے ترجمانی کی۔ ہم نے کم از کم چار ٹافیوں کے عوض آٹھ ہیرے لے لیے!
”خالو تو اب سات سمندر پار جاچکے، اب کیسے دیں یہ ہار؟“ ہم نے سوال کیا۔
”وسیم سیٹھ اور کون!“
بڑی مشکلوں سے وسیم سیٹھ تک رسائی ہوئی۔
”آپ کو خاور صاحب نے جو ہار دیا تھا وہ نقلی ہے، اسے آپ ہمیں دے دیں اور یہ اصلی ہار لے لیں!“ ہم نے مدعا بیان کیا۔
”تم لوگوں کو میرے سر پر سینگ نظر آرہے ہیں کیا؟“ سیٹھ غرایا۔
”آپ بھلے پرکھ لیں!“ شجاعت نے کہا۔
”میں نے نظروں ہی سے پرکھ لیا ہے، ہیروں کو بھی اور تم لوگوں کو بھی۔ ایک نمبر کے فراڈیے ہو…. بھائی میں نے وہ ہار شہر کے معروف جوہری خاور جی سے لیا تھا، کسی باورچی سے نہیں، اب تم لوگ چلتے پھرتے نظر آﺅ، ورنہ میرے پاس دھکے دینے کی بھی سہولیات موجود ہیں!“ سیٹھ کا غرور سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
”دیکھ لیں…. سوچ لیں پھر نہ کہیے گا کہ مجھے بتایا نہیں۔“
”اگر واقعی یہ اصلی ہیرے ہیں تو جاﺅ تمھیں دیے اس سے عیش کرو۔ ہونہہ!“
وہ پاﺅں پٹختا ہوا چل دیا۔
ہم بھی تھکے قدموں واپس ہوئے۔
”کیا پتا اس الٹ پھیر میں ہم نے غلط اندازہ لگایا ہو، یہ واقعی جعلی ہیرے ہوں!“ ہم نے اندیشہ ظاہر کیا۔
”ہیروں کو دو طرح سے تو ہم بھی پرکھ ہی سکتے ہیں دوست، ایک یہ کہ اسے چکھنے سے آدمی مرجاتا ہے۔ تم چکھ کر دیکھو، اگر مرگئے تو یہ اصلی ہوگا!“ شجاعت جل کر بولا۔
”دوسرا طریقہ بتاﺅ!“ ہم نے منھ بنایا۔
”دوسرا یہ کہ یہ بہت سخت جان ہوتے ہیں، لو یہ پتھر ان پر دے مارو!“ اس نے کوئی بیس تیس کلو کا وزنی پتھر ہمیں پکڑادیا اور ہار پکے فرش پر پھینک دیا۔
”یہ تو کرچی کرچی ہوجائیں گے!“ ہم ڈرے۔
”تو پھر فائدہ ہی کیا ان کے ہیرے ہونے کا۔“
ہم نے پتھر چھوڑ دیا اور جب واپس اٹھایا تو فرش پر نشان جم گئے تھے لیکن ہیروں کا کچھ نہ بگڑا تھا۔وہ واقعی اصلی تھے۔
شجاعت نے اپنا جاسوسی چاقو نکالا اور ہار کاٹ دیا۔ ایک ایک کرکے ہیرے نکالے اور مٹھی میں بھر لیے۔ آدھے یقینا ہمیں دینے کا پلان تھا اور آدھے خود رکھنے کا ہوگا۔ ہم پچاس لاکھ خرچ کرنے کے پلان بنانے لگے۔
مگر وہ شجاعت ہی کیا جو کسی کی سمجھ میں آجائے یا کم از کم کوئی عقل کا کام کرجائے۔
اس نے ایک جست لگائی اور ہیرے اس زور سے آگے پھینکے کہ تین چار گلی میں تو گئے ہی ہوں گے اور نہ جانے کس کس کی چھت، منڈیر یا مچان پر جا کر گرے ہوں گے۔
ہمارے قدموں تلے سے تو زمین نکل گئی اور ہم نے شجاعت کا گلا دبوچ لیا۔
” یہ کیا کیا، پتا بھی تھا وہ ہمارے کتنے کام آسکتے تھے؟“
”جو اپنے مالک کے کام نہ آسکے وہ بھلا ہمارے کیا کام آتے!“ شجاعت خلاﺅں میں گھورتے ہوئے بولا۔
”پتا بھی ہے وہ کتنے قیمتی تھے؟“
”ہاں اچھی طرح پتا ہے۔ چار ٹافیوں کے عوض لیے تھے۔“
٭….٭
اس تحریر کے مشکل الفاظ
روزنامچہ: کتابچہ جس میں روزانہ کی تاریخ اور
حسابات لکھے جائیں
جان جوکھوں کا کام: خطرناک کام، مشکل کام
واویلا مچانا: شور مچانا
مرثیہ: اظہار غم، اوصاف مردہ