اللہ نے ہم کوپانچ حواس عطا کیے ہےں۔ یہ’حواس‘ ہی ہیں جن کی مدد سے ہم اپنی اندر کی اور باہر کی دنیا کے بارے میں جان سکتے ہیں، یہ روشنی، درجہ¿ حرارت، اِرتعاش، درد، کیمیائی اور دباو¿کی تبدیلیوں سے ہم کو آگاہ کرتی ہے، حواس نہ ہوتے تو ہم دنیا سے واقف نہ ہوتے جیسے زندہ ہی نہ ہوتے، رب تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہماری اس ضرورت کا خیال رکھا اور اس کا انتظام کیا۔
ایک کلاس میں استاد اور شاگرد بیٹھے ہیںاور انہی حواسِ خمسہ کے بارے میں باتیں ہورہی ہیں۔
استاد: ”بچو! چلیے ہم آج ان پانچوں حواس کا تعلیمی دورہ کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم کان بھائی سے ملتے ہیں۔“ یہ سب کان کے پاس پہنچے۔
استاد: ”جناب کان بھائی! السلام علیکم!“
کان بھائی: ”وعلیکم السلام!“
استاد: ”ہم سب سے پہلے آپ کے پاس حاضرہوئے ہیں کیونکہ میں نے سنا ہے کہ آپ ہی حواسِ خمسہ میں سب سے پہلے کام شروع کرنے والے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟“
کان بھائی: ”ہاں! یہ سچ ہے کہ پروردگار نے میری ڈیوٹی آپ کی پیدائش سے پہلے ہی لگا دی تھی۔“
استاد: ”آپ جو کچھ سنتے تھے اس کا کیا کرتے تھے؟“
کان بھائی: ”میںتو بس ان باتوںکوبجلی کے اِشاروں (impulses)میں تبدیل کرکے اپنے بڑے بھائی دماغ کو بھیج دیتا تھا، پھر وہ جانیں وہ اس کا کیا کرتے تھے۔“
حاشر: ”آپ یہ کام کیسے کرتے ہیں؟“
کان بھائی: ”میں کیا میری بساط کیا، یہ تو میرے اور آپ کے رب کا کمال ہے اس نے میرے اندر بہت سی جگہوں پرقسم قسم کے خَلیے رکھ دیے ہیںجو یہ کام کرتے ہیں۔“
استاد: ”خلیے یہ کام کیسے کرتے ہیں؟ کس نے ان کو یہ کام سکھایا ہے؟“
کان بھائی: (خفا ہوکر)”میں کیا جانوں ….جاو¿ تم خود ہی پوچھ لو۔“
استاد: (آگے بڑھ کر) ”آپ ہی یہ کام کرتے ہیں؟ آپ کا کیا نام ہے؟“
خلیے: ”ہم عصبی پیغامبرخَلیے (receptor cells) ہیں، مگریہاںہم خاص ’میکانیکی پیغامبر خلیے‘ (mechanoreceptors) ہیں جو حرارت دباو¿ اور ارتعاش کی تبدیلیوں کی اطلاع بھائی دماغ کو دےتے ہیں…. ہمیں ربِ کریم نے ایسی صلاحیت دی ہے کہ ہم ہوا میں موجود آواز کے ارتعاش کو برقی جھٹکوں (impulses) میں تبدیل کرکے بھائی دماغ کو بھیج سکتے ہیں۔“
بلال: (چیخنے لگا) ”خبردار! بچ کر چلو! کہیں ہم کو کرنٹ نہ لگ جائے!“
عصبی خلیہ: ”آپ لوگ پریشان نہ ہوں اللہ کریم نے مجھے اور آپ کو اس برقی رَوکے نقصان سے بچانے کا محفوظ انتظام کر رکھا ہے۔“
حاشر: ”پھر وہی سوال مگر آپ بھی ناراض نہ ہو جائیں۔“
عصبی خلیہ: ”نہیں! میں بچوں کے سوالات سے ناراض ہوتا ہوں نہ پریشان! کیا سوال ہے؟“
حاشر: ”بھائی دماغ ان اشاروں کا کیا کرتے ہیں؟“
عصبی خلیہ: ”ہاں! دماغ بھائی ان اشاروں کو اپنے خاص حصہ میں جمع کرتے اور جوڑتے ہیںپھر اپنے رب کے دیئے ہوئے علم اور پچھلے تجربات کی بنیاد پر اس کو آواز کی حیثیت سے پہچانتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ کس کی اورکیسی آواز ہے۔“
حمزہ: (حیران ہوکر) ”اچھا! تو ہم اس طرح آواز سنتے ہیں!“
استاد: ”مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے زیادہ علم ہمارے دماغ کو دیا ہے۔“
شجیع: ”ہم کتنی مشکل سے یہ علم الابدان سیکھ رہے ہیں، لیکن ہمارے دماغ کو ہماری پیدائش سے پہلے ہی اس کا علم تھا!“
کان بھائی: (بات کرنے کے موڈ میں آکر) ”میرے تین حصے ہیں بیرونی، درمیانی اور اندرونی ۔میرابیرونی حصہ تو آپ کو نظر آتا ہے، یہ آواز کو جمع کرکے ایک نالی کے ذریعہ میرے پردے تک پہنچاتا ہے اور جس میںوہی ارتعاش پیدا کرتا ہے جو اس آواز میں ہوتا ہے۔“
شجیع: (بے چین ہوکر) ”درمیانے حصے میں کیا ہوتا ہے؟“
کان بھائی: (پھر غصے میں آکر) ”تم کو صبر نہیں!“…. (ذرا ٹھہر کر) ”میں بتا ہی رہا تھا۔“
استاد: ”اچھا اب کے معاف کردیں…. اب یہ بیچ میں نہیں بولےں گے۔“
کان بھائی: (ذرا ٹھنڈے ہو کر) ”پردے کے پیچھے، میرے درمیانی حصہ میں کچھ ہڈیاں (ossicles) ہوتیں ہیں جو پردے کے ارتعاش کے برابر خود بھی مُرتعش ہوجاتی ہیں، مثلاً: اگر ہوا میں سو ارتعاش فی سیکنڈ ہیں تو پردے کے ساتھ یہ ہڈیاں بھی ایک سیکنڈ میںسو مرتبہ حرکت کرتی ہیں، اس جگہ ہوا ہے، باہر ہوا کے دباو¿ کو برابر (balance) کرنے کے لیے رب ِاعلا نے ایک نالی دی ہے جو یہاں سے جا کر ناک کی خلا (nasal cavity) میں کھلتی ہے۔“
استاد: ”سنا ہے کہ سننے سنانے کے سوا بھی آپ کے کچھ ضروری کام ہیں؟“
کان بھائی: ”ہاں بھئی! یہ رب کا احسان ہے اس نے مجھے آپ لوگوں کی خدمت کا موقع دیا ہے، میرے اندرونی حصے میں موجود میکانیکی پیغامبر نیم دائری نہروں (semicircular canals) اور ’یوٹریکیولس‘ (utriculus) سے دماغ بھائی کو پیغام دےتا ہے تاکہ وہ آپ کو اپنا توازن برقرار رکھنے میں مدد دے سکے۔“
استاد: ”واقعی اللہ ہم پریہ احسان نہ کرتا تو ہم کو پتا ہی نہ چلتا کہ ہم سیدھے کھڑے ہیں یا ٹیڑھے۔“
بچے: (سب ایک آواز میں) ”الحمد للہ!“
کان بھائی: ”ہاں بھئی! اگر دماغ بھائی کو اطلاع ہی نہ ملتی کہ آپ کیسے ہیں تو وہ آپ کو گرنے کے نقصان سے بچانے کے بڑے بڑے فیصلے کیسے کرتے۔“
بلال: ”ہیں! سب معلومات ان تک پہنچنا کیوں ضروری ہے؟“ اب کے ایک عصبی بول پڑا۔                                                                                                                                                                                                                  عصبی: ”ہاے بے چارے بھائی دماغ تو اندھیرے کمرے (skull) میں بند ہیں، ان کو باہر کی دنیا کی کیا خبر؟“
کان بھائی: ”ہیں! ہیں! تم کو کیا ہو گیا، اپنی خبر لو! …. رب سبحان نے ہم میں سے ہر ایک کا ایک کام مقرر کیا ہوا ہے…. ہم کو دوسرے کے کام اور مقام سے کیا غرض!“
عصبی: ”ہاں! ہاں! آپ ٹھیک کہتے ہیں…. میں ربِّ عظیم سے معافی چاہتا ہوں…. مگرمیں تو صرف بچوںکو یہ بتانا چاہتا تھا کہ اگر رب ِرحمٰن و رحیم ہم عصبی پیغامبر خلیوں کوباہر کی اطلاعات دماغ بھائی کو پہنچانے کی ڈیوٹی نہ لگاتے تو ان کو کچھ خبرنہ ہوتی۔“
کان بھائی: ”ہاں! یہ تو ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کے اپنے کام ہیں، اپنی حدود ہیں۔ اب دیکھو تم بھی تو صرف ارتعاش کی خبر رکھتے ہو روشنی اور حرارت کی تم کو کچھ خبر نہیں…. اس طرح بے چارے تو تم بھی ہو۔“
عصبی: ”میں پھر معافی چاہتا ہوں۔“
استاد: ”ارے بھائیو! تم آپس میں لگے رہو گے یا ہم سے بات کرو گے؟“
کان بھائی: ”اوہ!میں تو بھول ہی گیا …. …. آپ کیا پوچھ رہے تھے؟“
استاد: ”اصل میں تو آپ اپنی اندرونی ساخت اور کاموں کے بارے میں بتا رہے تھے، عصبی پیغامبر دماغ تک پیغام کیسے پہنچاتے ہیں؟“
عصبی: (پھر بول پڑے) ”یہ پیغام ہم’عصبِ سمعی‘ (auditory nerve) کے ذریعہ بھائی دماغ کے ایک خاص حصہ تک پہنچاتے ہیں۔“
کان بھائی: ”اب کے تم صحیح بولے۔“
عثمان: ”یہ آواز کیا چیز ہے؟“
کان بھائی: ”یہ ہوا میں موجود ارتعاش (vibrations) ہیں، جو دو چیزوں کے ٹکرانے یا بولنے سے بنتے ہیں اور متواتر دباو¿ ڈال کرہوامیں مسلسل پھیلتے رہتے ہےں، جب یہ بیرونی کان (outer ear) کے ذریعہ میرے پردے سے ٹکراتا ہے تو اس میں بھی وہ ہی اِرتعاش (vibrations) پیدا کرتا ہے۔“
بلال: ”یہ آپ کا درمیانی حصہ ہے، اندرونی حصہ کیسا ہے؟ پھر یہاں سے اندرونی حصے میں ارتعاش کیسے جاتا ہے؟“
کان بھائی: ”(بلند آواز سے) پھر تم لوگ بیچ میں بولے…. میں بتا ہی رہا تھا۔“
استاد: ”اب کی بارپھرمعاف کردیں …. اب نہیں بولیں گے۔“
کان بھائی: ”دو دفعہ معافی دے دی تیسری بارنہیں ہوگی۔“
استاد: ”ان شاءاللہ اب شکایت نہیں ہوگی۔“
کان بھائی: ”میرے درمیانی حصہ کی ہڈیوں (ossicles) میںجب ارتعاش منتقل ہوتا ہے تو یہ ایک کھڑکی سے اندرونی حصہ کے مائع میں داخل ہوتا ہے جس کی ذریعہ ارتعاش ’کوچلیا‘ (cochlea) کے مائع میں منتقل ہو کر یہاں بیٹھے ہوئے عصبی پیغامبر خلیوں تک پہنچتا ہے یہ خلیے اس ارتعاش کو برقی جھٹکوں میں تبدیل کر کے ’عصبِ سمعی‘ (auditory nerve) کے ذریعہ بھائی دماغ کے خاص حصہ تک پہنچا دیتے ہیں۔“
عثمان: ”بھائی دماغ ان کا کیا کرتے ہیں؟“
کان بھائی: ”یہ ان برقی اشاروں کی ترجمانی کرتے ہیں اپنے علم اور پچھلے تجربات کی بنیاد پر پرکھتے ہیں اورآپ کوبتاتے ہیں کہ یہ کیسی اورکس کی آواز ہے۔“
شجیع: ”ایک بات رہ گئی۔ اگر اجازت ہو تو پوچھوں؟“
استاد: ”ہاں! ہاں! پوچھو۔“
شجیع: ”یہ کان میں میل کیوں آتا ہے؟“
کان بھائی: ”پردے سے پہلے نالی میں کچھ غدود ہیں جو یہ بدبودار چکنائی خارج کرتے ہیں۔“
حاشر: (بول پڑا) ”کیوں،اس کا کیا کام ہے؟“
کان بھائی: ”میں کیا جانوں….اپنے استاد سے پوچھو۔“
استاد: ”بچو! اس میل میں جو بو ہے وہ کیڑے مکوڑوں کو کان میں جانے سے باز رکھتی ہے….اگر یہ نہ ہوتی تو یہ کیڑے کان کے پردے کو نقصان پہنچا کر ہم کو ہمیشہ کے لیے بہرا کر دیتے ….دیکھو! یہ بھی اللہ کے خالق ہونے کا ثبوت ہے، یہ انتظام وہ ہی ہستی کر سکتی تھی جو سب حیوانات سے واقف ہو اور اس بات سے بھی واقف ہو کہ کون سا کیڑا کون سی بو سے بھاگے گا۔ یہ بھی اس کے احسانات میں سے ایک احسان ہے۔“
شجیع: ”ہاں! کس کس احسان کا شکر ادا کریں گے۔“
بچے: (سب مل کر) ”شکر الحمد للہ!“
استاد: ”تو یہ تھا ہمارا حسِّ سماعت جس سے ہم اس جہاں کی آوازیں سنتے ہیں۔ چلو بچو! اب آنکھ کی طرف۔“