دوستی ہو تو ایسی
بینا صدیقی

کہتے ہیں دوست وہی جو مصیبت میں کام آئے۔ بہت سے ایسے ملتے ہیں جو ہمیں زبر دستی مو قع دیتے ہیں کہ ہم ان کی مصیبت میں کام آئیں ورنہ وہ بُر ی طر ح پیش آئیں گے۔ خیر یہ تو جملہ معتر ضہ تھا۔ آج سے چالیس بر س قبل بچوں کے لیے ایک ایسے رسالے کی داغ بیل ڈالی گئی جس نے صحیح معنوں میں بچوں کو اس حقیقت سے روشنا س کرایا کہ اچھے دوست اور اچھے ساتھی کی زندگی میں کس قدر اہمیت ہو تی ہے۔ ہم بات کر رہے ہیں ماہنامہ ساتھی کی جس کا آغاز نومبر ۷۷۹۱ءمیں ہوا اور اسے کلیم چغتا ئی جیسے معتبر اور محترم مدیر کی سر برا ہی میں مرتب کیا گیا۔ جو بچوں کے اردو ادب کی تخلیق میں ایک سنگ ِ میل ثا بت ہوا۔تفریح کی یہ واحد چیز تھی جسے نئی نسل کے ہاتھوں ہاتھ لینے پربچوں کے ماں با پ نے انہیں آڑے ہاتھوں نہ لیا،کہ ماں با پ جانتے تھے یہ رسالہ ان کے بچوں کا کچھ بھلا ہی کر ے گا ان کا وقت بر باد نہیں کرے گا۔
۰۷۹۱ ءکے عشرے میں وی سی آر کی لعنت نے پر پُر زے نکالنے شروع کر دئیے تھے۔ اس لیے ماں باپ نے اس رسالے کو بہتر تفر یح کے طور پر قبول کر لیا۔ کہ بچہ کسی دوست کے ساتھ کرائے کی بے ہودہ اور گھٹیا فلم دیکھے ، اس سے لاکھ درجے بہتر ہے گھر پہ بیٹھ کے رسالہ پڑھے۔ اخلا قیات کے ہلکے پھلکے سبق ،کہانیوں کی بُنت میں ایسے سموئے گئے کہ بچوں کو اچھے برے کی واضح پہچان میں کچھ دشواری نہ ہوئی۔
چالیس بر س کے اس سفر میں ماہنامہ ساتھی کو دو نسلیں سنوارنے کا موقع ملا۔ نئی پود کے مسئلے جدا تھے کہ ان کو موبائل ، انٹر نیٹ ، فیس بک اور واٹس ایپ یوں کھینچ رہی تھی جیسے مرزا غالب کو ایماں وکفرکی کشمکش کھینچ رہی تھی۔ ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مر ے آگے ماہنامہ ساتھی نے بھاگتی دوڑ تی زندگی میںدوڑ لگانے والے ان بچوں کا دامن بڑے پیار سے اپنی جانب کھینچا۔ جیسے کوئی اچھا دوست کسی کوبھٹکنے سے بچانے کے لیے اپنی جانب کھینچ لے۔ آ ج کل کی پود کا ایک اور مسئلہ انگریزی زبان کے لمبے چوڑے اسکول اور ان میں بولی، سنائی، دکھائی، پڑھائی اور سنگھا ئی جانے والی انگر یزی کی روزانہ خوراک ہے۔جس کی وجہ سے وہ اپنی اردو کی کمزوری کو اپنی طاقت سمجھ بیٹھتے ہیں۔
ماہ نامہ ساتھی نے اردو سے اس نئی نسل کا نیا تعارف کرایا۔ اُنھیں رفتہ رفتہ اس میٹھی اور بہت اپنی زبان سے محبت کرنا سکھایا۔ شین قا ف کی آوازوں سے نا لاں اور شوشوں گوشوں سے خفا بچوں کو ان ہی شین قاف اور شوشوں گوشوں سے سجی وہ وہ کہانیاں دیں کہ کہانی کے اشتیاق نے ان کو اُردو پڑھنے اور سمجھنے پہ آمادہ کرلیا۔
کہانی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کا شوق کبھی مرتا نہیں۔ بچپن سے لیکر بڑ ھاپے تک ہمیں کہانی کی ضرورت رہتی ہے۔ لحافوں میں گھس کے نانی دادی سے کہانی سننے سے جہاں قوت ِ تخیل کو پرواز ملتی ہے وہیں پر نٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا کے چینلز گواہ ہیںکہ زندگی میں کہانی کی گنجائش کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتی ہے۔ یہی شوق بچوں کو ساتھی کے نزدیک لے آیا۔ اس نئے ساتھی نے مزے مزے کی کہانیاں سنا ئیں تو سب بچے اس کے اسیر ہوگئے۔
نظموں سے شاعری کے ذوق کو جلا ملی تو لطائف نے لبو ں کو مسکراہٹیں بخشیں۔ ساتھی کی کہانیوں کی خا صیت رہی کہ اُنھوں نے بچوں کو نہ تو بونوں اور پر یوں کی دوستی کی کہانیاں سنا کے ان کا وقت ضا ئع کیا نہ ہی خشک ، لیکچر میں ڈوبی ، نصیحت سے لت پت کہانیاں دے کے زبر دستی کا استاد بننے کی کو شش کی ۔ جو ڈنڈا لے کے سبق پڑھانے پہ تل جائے۔ ما ہ نامہ ساتھی کا مقصد صرف ایک ہی تھا بچوں کو بھلا ئی کی تر غیب دینا۔ اور دنیا جانتی ہے کہ بھلائی کی تر غیب کسی لیکچر سے کبھی مل ہی نہیں سکتی۔ اس لیے دلچسپ کہانیوں ، سبق آموز واقعات، کھٹی میٹھی نظموں اور شرارتی لطیفوں تک ہر کونے میں سمجھنے والوں کے لئے کوئی نہ کوئی پیغام چھپا دیا گیا۔ ساتھی کو مختلف مد یران کی سر براہی میں شائع کیا گیا لیکن نصب العین ایک ہی رہا۔ اس لیے ساتھی کے ساتھی بڑھتے چلے گئے۔ ساتھی کے ہر ادارتی بورڈ نے پوری دلجمعی کے ساتھ کام کیا اور خوب سے خوب تر شمارہ پیش کیا۔ ساتھی کا ہر مدیر اس گر کی بات کو جانتا تھا کہ جب ایک بچہ کورس کی کتاب سے تھک کر بچوں کا کوئی رسالہ اٹھا تا ہے تو وہ سبق ہر گز نہیں پڑ ھنا چاہتا۔ ورنہ وہ کورس کی کتاب ہاتھ سے رکھتا ہی کیوں؟
پھر ایک نئی روایت کی داغ بیل ڈالی گئی، مختلف دلچسپ موضوعات پہ مبنی مکمل شمارے نکالے گئے، مثلا ً ابو نمبر، باہمت بچے نمبر، مریخ نمبر، آئیڈیا نمبر، بور نمبر، بھول نمبر۔ یہ کام جتنا انوکھا دیکھنے اور سننے میں لگتا ہے، کر نے میں اس قدر ہی مشکل، کسی مخصوص مو ضو ع پر کہانیاں ، نظمیں ، لطائف ، معلوماتی مضامین جمع کرنا کو ئی خالہ جی کا گھر نہیں۔
لیکن ساتھی کے نئے مدیر اور ان کی ٹیم نے یہ کام کر دکھایا اور انتہائی دلچسپ مو ضوعاتی نمبر پیش کر کے بچوں ہی کے نہیں والدین اور اساتذہ کے بھی دل جیت لیے۔ اپنی زبان سے لگاو¿ بڑھانے کی خاطر اس میں اردو زباں کی اصلاح کے لیے جناب اطہر ہاشمی صا حب کی خدمات حاصل کی گئیںاور اُنھوں نے ایک باقاعدہ سلسلہ بعنوان © © ’اردو زباں ہماری‘کا آغاز کیا۔ جس میں زبان و بیان میں کی جانے والی غلطیوں کی نشان دہی کی جاتی ہے۔
جس سے پتا چلا کہ’ پتہ‘نہیں چلتا، ’پتا ‘چلتا ہے۔ جیسے کہ محتر مہ قر ة العین حید ر صا حبہ نے فرمایا کہ پاکستان آکے لوگ کھانا ’بنانے‘لگے، پہلے کھانا ’پکایا‘ کرتے تھے۔ ماہ نامہ ساتھی گزشتہ چالیس بر س سے نئی نسل کی تر بیت میں انتہائی خاموشی مگر دیانتداری کے ساتھ اپنا کر دار ادا کر رہا ہے۔دعا ہے کہ آئندہ بر سوں میں بھی یہ کام اسی جذبے اور سر گر می کے ساتھ جاری وساری رکھے۔