خودی بلند تھی اس خوں گرفتہ چینی کی
کہا غریب نے جلاد سے دم تعزیر
ٹھہر ٹھہر کہ بہت دل کشا ہے یہ منظر
ذرا میں دیکھ تو لوں تابناکی شمشیر
کہیں آپ یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ کسی چینی باشندے پرقتل کا جُرم ثابت ہوا اور جب وہ اس کی سزا پانے لگا تو اس نے جلاد سے کہا:” ذرا ٹھہر جاﺅ، میرے موبائل کا کیمرا بہت بلندپایہ ہے۔ اس شمشیر کے ساتھ جس سے مجھے قتل کیا جائے گا،میں ایک ”سیلفی“ لینا چاہتا ہوں“۔اگر آج کی بات ہوتی تو شاید ایسا ہی ہوتا۔ آج کے نوجوان نے خودی کا مطلب ”سیلفی“ سمجھ لیا ہے۔
علامہ اقبال اس مصرعے میں یہ بتارہے ہیںکہ ایک چینی باشندے کو قتل کی سزا ملنے والی تھی۔ جب سزا کا وقت ہوا تو اس نے جلاد سے کہا:” ذرا ٹھہر جا! مجھے یہ نظارہ بہت پیارا لگ رہا ہے۔ ذرا تیری تلوار کی چمک دَمک دیکھ لوں“۔ اقبال کہتے ہیں کہ اس ہمت اور بے خوفی سے اس چینی باشندے کی خودی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اللہ ہمیں بھی اقبال کے تصورِ خودی سے آشنا کر دے (آمین)