”کوئی کام نہیں ہے تمھارے پاس ، جو مل جائے اس سے ملکی حالات پر بحث کرنے لگتے ہو۔“ عرفان نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ”میں روز صبح یونیورسٹی جانے سے پہلے اخبار پڑھتا ہوں۔تم پڑھتے ہو اخبار؟“میں نے عرفان کو گُھورکے دیکھا۔”سرسری سی نظر ڈال لیتا ہوں۔“عرفان نے کلائی پر گھڑی باندھتے ہوئے کہا۔”تم کیسے بحث کرو گے تمھارے پاس تو خبریں ہی نہیں ہوتیں۔ میں نے فیس بک پر ہر طرح کے صفحات (پیج) لائیک کیے ہوئے ہیں ۔ ان میں خبروں کے پیج بھی ہیں۔ میں چوبیس گھنٹے فیس بک سے جُڑا رہتا ہوں۔“میں نے عرفان پر رعب ڈالنے کی کوشش کی۔”ارے عرفان، عثمان تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو؟چلو ہم وی سی آفس کے باہر یونیورسٹی میں ہونے والی کرپشن اور مسائل کے حل کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ “ علی نہ جانے کہاں سے آیا اوربس اتنا کہہ کر چلا گیا۔”چلو عثمان ہم بھی چلتے ہیں۔“ عرفان کھڑا ہوا۔”نہیں یار، میں گھر جارہا ہوں۔“میں بھی کھڑا ہوگیا۔ ”اچھا! تم تو کرپشن کے خلاف بڑی باتیں کرتے ہو۔ ابھی کام کرنے کا وقت آیا تو گھر یاد آگیا۔“عرفان نے طنز کا تیر پھینکا۔”یار یہ سب فارغ لوگوں کے کام ہیں، جواتنی دھوپ میں احتجاج کر رہے ہیں۔ اس احتجاج سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔“میں نے عرفان کو سمجھایا۔ ”یار برا مت ماننا میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔“عرفان نے میری طرف دیکھا۔”کہہ دو، اس سے پہلے مجھ سے پوچھ کر کہہ رہے تھے۔“
”تم غلام ہو، وہ بھی کسی اور کے نہیںاپنے ہی نفس کے۔ تمھیں جس کام میں مزا آتا ہے تم وہ کام کرتے ہو۔ابھی تمھیں دھوپ نظر آرہی ہے تو تم ایک اہم کام سے بھاگ رہے ہو۔فارغ وہ لوگ نہیں تم ہو۔وہ اپنے نفس کی غلامی سے آزاد ہیں۔وہ لوگ تواپنی استطاعت کے مطابق کام کررہے ہیں۔ نتیجے کے بارے میں تم جیسے لوگ سوچتے ہیں جنھیں کوئی کام کرنا ہی نہیں ہوتا۔فیس بک کازیادہ استعمال فارغ لوگ کرتے ہیں۔ تم جاو¿ ، جا کر فیس بک پر کرپشن کے خلاف اسٹیٹس لگاو¿ اور اس پر لائک اور کمنٹس آنے کا انتظار کرو۔ میں جارہا ہوں دھوپ میں جلنے والے فارغ (آزاد) لوگوں کے ساتھ احتجاج کرنے۔ “عرفان اپنی تقریر کر کے چل دیا۔ ”ہنہہ ، جذباتی ہے بے چارہ۔ جلد سمجھ جائے گا۔“ میں نے آہستہ سے کہا اور موبائل نکال کر فیس بک پر علامہ اقبال کا یہ شعر لگا دیا۔

میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندہ  حُر کے لیے جہاں میں فراغ