”وائی چوائے مجھے یہ امید نہیں تھی کہ تم نقل کروگے۔“ ٹیچر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
”بچوں مجھے آپ کو ایک بہت اہم بات بتانی ہے۔“ ہیڈماسٹر صاحب کے کہتے ہی سب بچے کام روک کر ان کی بات سننے لگے۔
”اگلے ہفتے انگریزی کا ایک خاص امتحان لیا جائے گا۔“ ہیڈ ماسٹر صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ”اور اس امتحان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے کو انعام دیا جائے گا۔ بہت سال پہلے ہمارے اسکول میں ایک لڑکا ’ولیم ابراہام‘ پڑھا کرتا تھا۔ اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے اپنی پڑھائی جاری رکھی اور ڈاکٹر بن گیا۔ اب ہر سال مسٹر ابراہام انگریزی کے امتحان میں اول آنے والے بچے کو انعام دیتے ہیں۔“ ہیڈ ماسٹر صاحب نے اپنی بات مکمل کی۔
”لیکن سر! انعام کیا ہوگا؟“ وائی چوائے نے پوچھا۔
”کتابیں خریدنے کے لیے پچاس ڈالر بطور انعام دیے جائیں گے اور امتحان اگلے ہفتے منگل کے دن لیا جائے گا۔“ ہیڈ ماسٹر صاحب نے انعام کا ذکر کرتے ہی امتحان کی تاریخ کا اعلان بھی کردیا۔
سب بچے یہ خبر سن کر بہت پُرجوش ہوگئے اور آپس میں چہ مگوئیاں کرنے لگے۔ باتیں کرتے کرتے اُن کی آواز اتنی بلند ہو گئی کہ ٹیچر کو اُنھیں خاموش کروانا پڑا۔
٭….٭
منگل کی صبح سب بچے گھر سے مکمل تیاری کے ساتھ امتحان دینے اسکول پہنچ گئے۔
”سوال نامہ آپ کی میز پر رکھا ہے۔“ ٹیچر نے سوال نامہ کی طرف نشاندھی کرتے ہوئے کہا: ”اگر کوئی نقل کرتے ہوئے پکڑا گیا تو اس سے پرچہ واپس لے لیا جائے گا۔ اب آپ امتحان شروع کر سکتے ہیں۔“ ٹیچر کی تنبیہ کے بعد بچے امتحان دینے میں مشغول ہوگئے۔ اُنھیں ایک گھنٹے میں بیس سوالات کے جوابات لکھنے تھے۔
’وائی چوائے‘ نے اپنا پرچہ پڑھنا شروع کیا۔ کچھ سوالات تو انتہائی آسان تھے، لیکن پرچے کے آخر میں کچھ مشکل سوالات بھی تھے۔ وائی چوائے نے اپنے جیومیٹری بکس سے پنسل نکالی اور پرچہ حل کرنا شروع کر دیا۔
پندرہواں سوال مکمل کرنے کے بعد اس نے کمرے میں لگی ہوئی گھڑی کی طرف نظر اُٹھائی۔
وائی چوائے کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا، کیوں کہ صرف بیس منٹ بعد امتحان کا وقت ختم ہونے والا تھا۔ اُس نے سولہواں سوال حل کرنا شروع کیا۔ تبھی ایک مڑا تڑا کاغذ اس کی میز سے آ ٹکرایا۔ وائی چوائے نے اِدھر اُدھر دیکھا تو ’یانگ کی‘ پین منھ میں لیے وائی چوائے ہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وائی چوائے نے کاغذ سیدھا کیا اور پڑھنے لگا۔ کاغذ پر لکھا تھا: ”سوال نمبر گیارہ کا جواب کیا ہے؟“
وائی چوائے نے ’یانگ کی‘، کی طرف غصے سے دیکھا اور نفی میں سر ہلاتے ہوئے کاغذ کا ٹکڑا واپس پھینک دیا۔
”یہ تم کیا کر رہے ہو وائی چوائے؟“ وائی چوائے کو کاغذ کا ٹکڑا پھینکتے ہوئے دیکھ کر ٹیچر نے اس سے تیز آواز میں پوچھا۔
”یہ کاغذ کیسا ہے؟ مجھے دکھاو¿۔“ اُنھوں نے کاغذ اُٹھایا اور اس پر لکھا ہوا پیغام پڑھا۔
”تم نقل کر رہے تھے وائی چوائے؟“ ٹیچر نے غصے سے وائی چوائے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں ٹیچر ! دراصل….“ وائی چوائے کہنے لگا۔
لیکن ٹیچر نے اس کی بات کاٹ کر تیز لہجے میں کہا: ”لیکن میں نے تمھیں یہ نوٹ پھینکتے ہوئے دیکھا تھا۔“
”لیکن ٹیچر ! میں….“ وائی چوائے پھر کہنے لگا۔
”میں نے یہاں سب کو نقل کرنے سے منع کیا تھا۔ مجھے اپنا پرچہ دو اور باہر جاو¿….“ ٹیچر نے دوبارہ اس کی بات کاٹتے ہوئے اس کے ہاتھ سے پرچہ چھین لیا۔
وائی چوائے بہت اُداس اور ناخوش تھا اور آنکھوں میں آنسو لیے اپنی سائیکل پر سوار اسکول سے نکل گیا۔ پورے راستے وہ سر جھکاے سائیکل چلاتے ہوئے اپنی بدقسمتی کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اس نے اچانک نظر اُٹھائی۔ اس کے سامنے ایک بوڑھا شخص تھا۔ مگر اب بہت دیر ہوچکی تھی۔ ”ٹھا….“ کی آواز آئی اور وائی چوائے اور بوڑھا شخص دونوں سڑک کے بیچ گر پڑے۔ وائی چوائے فوراً اُچھل کر کھڑا ہوا اور بوڑھے آدمی کی کھڑے ہونے میں مدد کرنے لگا۔
”اوہ، جناب! معاف کیجیے گا میں نیچے دیکھ کر سائیکل چلا رہا تھا۔“ وائی چوائے نے بوڑھے شخص سے معذرت کی۔
”میں بھی سڑک کی غلط طرف چل رہا تھا۔ ہم دونوں نے ہی بے وقوفانہ حرکت کی ہیں اور ویسے مجھے زیادہ چوٹ بھی نہیں لگی۔“ بوڑھے آدمی کے چہرے پر دوستانہ مسکراہٹ تھی۔
”تم اسکول میں کیوں نہیں ہو؟ ابھی گھر جانے کا وقت تو نہیں ہوا؟“ بوڑھے شخص نے اس کا لباس دیکھ کر پوچھا۔
”دراصل مجھے کلاس سے باہر نکال دیا گیا ہے۔“ وائی چوائے نے سر جھکاتے ہوئے کہا۔
وائی چوائے نے اسے اسکول میں ہونے والے تمام معاملات بتائے۔
”کیا تم یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ وہ پیغام تم نے نہیں لکھا؟ اگر تم یہ ثابت کر سکو گے تو شاید تمھارے ٹیچر تمھیں پرچہ مکمل کرنے دیں۔“ بوڑھے شخص نے وائی چوائے کو مشورہ دیا۔
”میرے خیال سے میں اپنی بے گناہی ثابت نہیں کرسکوں گا۔“ وائی چوائے مایوسی سے بولا۔
ابھی وائی چوائے نے کہا ہی تھا کہ تبھی اس کی نظر بوڑھے شخص کی جیب میں رکھے ہوئے قلم پر پڑی۔
”ایک منٹ…. میں یہ ثابت کرسکتا ہوں کہ وہ نوٹ میں نے نہیں لکھا تھا کیوں کہ وہ پین سے لکھا گیا تھا جب کہ میں اپنے سوالات کے جوابات پنسل سے لکھ رہا تھا۔ میرے پاس تو پین تھا ہی نہیں…. اب میں اپنے ٹیچر کو بتا سکتا ہوں کہ میں نے نقل نہیں کی۔ اب مجھے واپس جانا ہوگا۔“ وائی چوائے اپنی سائیکل پر بیٹھ کر تیزی سے اسکول کی طرف روانہ ہوگیا۔
جب وائی چوائے کلاس میں پہنچا تو سب بچے جا چکے تھے اور ٹیچر بیٹھے سب بچوں کے پرچے پڑھ رہے تھے۔
”وائی چوائے مجھے یہ امید نہیں تھی کہ تم نقل کرو گے۔“ انھوں نے اُسے دیکھتے ہی کہا۔
”لیکن میں نے نقل نہیں کی۔ وہ نوٹ پین سے لکھا ہوا ہے جب کہ میں ہمیشہ پنسل استعمال کرتا ہوں۔ آپ میرے جوابات دیکھ سکتے ہیں سب کے سب پنسل سے لکھے ہوئے ہیں۔“ وائی چوائے نے پُرجوش لہجے میں ٹیچر کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کیا۔
ٹیچر نے کاغذ کا ٹکڑا اٹھایا اور اسے غور سے دیکھا۔
”سر! یہ کاغذ کا ٹکڑا میری میز پر کسی اور نے پھینکا تھا اور جب آپ نے مجھے دیکھا تب میں یہ کاغذ واپس پھینک رہا تھا۔“ وائی چوائے نے اُس کاغذ سے متعلق مزید وضاحت پیش کی۔
”تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو؟“ ٹیچر نے سوال کیا۔
”اس نوٹ میں سوال نمبر گیارہ کے بارے میں پوچھا گیا ہے جب کہ میں سوال نمبر گیارہ پہلے ہی مکمل کر چکا تھا۔ پھر میں کسی سے سوال نمبر گیارہ کیوں پوچھوں گا؟“ وائی چوائے نے سر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
”ہمم…. ٹھیک….“ اُنھوں نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”اگر آپ اس نوٹ کی لکھائی پر غور کریں تو آپ باآسانی محسوس کر لیں گے کہ یہ لکھائی بھی میری نہیں ہے۔“ وائی چوائے نے پُر اعتماد لہجے میں کہا۔
ٹیچر نے پہلے نوٹ اور پھر وائی چوائے کے امتحانی پرچے کو دیکھا۔ کچھ دیر بعد اُنھوں نے نظریں اُٹھائیں اور بولے: ”وائی چوائے! مجھ سے غلطی ہوگئی۔ مجھے معاف کر دو…. اور یہ بتاو¿ کہ یہ نوٹ کس نے پھینکا تھا؟“ ٹیچر نے وائی چوائے کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
”معاف کیجیے گا سر، میں نہیں بتاسکتا۔“ وائی چوائے کا جواب سن کر ٹیچر مسکرا دیے۔
”یہ واقعی ایک بے وقوفانہ سوال تھا۔“ ٹیچر نے زیر لب کہا۔
”مجھے معلوم تھا کہ تم اس سوال کا جواب نہیں دو گے۔ ٹھیک ہے…. بیٹھ جاو¿! تمھارے پاس پرچہ ختم کرنے کے لیے بیس منٹ ہیں۔“ ٹیچر نے اُسے پرچہ دیتے ہوئے سامنے کرسی پر بیٹھنے کا کہا۔
وائی چوائے نے مسکرا کر پرچہ لیا اور کرسی پر بیٹھ کر سولہواں سوال حل کرنا شروع کر دیا۔
کچھ دنوں بعد ٹیچر نے بچوں کو نتائج کے بارے میں بتایا۔
”دو بچے ایسے ہیں۔ جنھوں نے سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں۔ یقیناً آپ سب ان کے منتظر ہیں۔ ان میں سے ایک ہیں ’کوائی ین‘ جنھوں نے نوے نمبر لے کر پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔“ ٹیچر اتنا بتا کر خاموش ہوئے تو تمام بچوں نے ’کوائی ین‘ کے لیے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔
”وائی چوائے نے بھی نوے نمبر لے کر پہلی پوزیشن لی ہے۔ اس لیے وائی چوائے اور کوائی ین کو مسٹر ابراہام کی طرف سے انعام دیا جائے گا۔“ تمام بچے دوبارہ تالیاں بجانے لگے۔
اُس دوپہر وائی چوائے کو حیرت سے دوچار ہونا پڑا۔ جب اُسے پتا چلا کہ مسٹر ابراہام وہی بوڑھے آدمی ہیں۔ جو اس دن اس کی سائیکل سے ٹکرائے تھے۔ مسٹر ابراہام اس کو انعام دیتے ہوئے مسکراے اور اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولے: ”میرا خیال ہے تم ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہو۔“
”جی ہاں میں نے اپنی بات ٹھیک ثابت کر دی تھی۔“ وائی چوائے نے بھی مسکراتے ہوئے کہا اور اپنی میز پر آکر بیٹھ گیا۔
٭….٭
اس تحریر کے مشکل الفاظ
چہ مگوئیاں: سرگوشی کے انداز میں تبادلہ¿ خیال، چون و چرا
تنبیہ: نصیحت، دھمکی