بچوں کے لیے انتہائی ہنگامہ خیز، دل چسپ اور تیز رفتارجاسوسی ناول
عمر علی احمد سیریز کی ایک کہانی آپ پہلے ہی ساتھی میں پڑھ چکے ہیں ….ان ہی کرداروں پر ایک دل چسپ،سنسنی خیز،اورجاسوسی کارناموں سے بھرپور شان دار ناول۔
ایک چالاک مجرم کا قصہ ….جو کئی پردوں کے پیچھے چھپا تھا

 

پہلی قسط

 

اُس نے فون کان سے لگایا۔
دوسری طرف سے بھرائی ہوئی اجنبی آواز آئی۔
”دلاور ….اگر ڈھنگ کا کام کرنا چاہتے ہو تو مجھ سے ملو….بہت آسان کام ہے….معاوضہ تین لاکھ روپے ملے گا، اگر تمھارا جواب ہاں میں ہو تو اسی نمبر پہ ’میں تیار ہوں ‘کا ایس ایم ایس بھیج دو …. اگر تیار نہیں ہو اور اسی طرح بھوکوں مرنا اور اپنی بیوی کو اسی طرح فاقے کرانا چاہتے ہو تو اس نمبر کو بھول جاو¿….کبھی اس نمبرپر میسیج کرنا اور نہ ہی فون ….
تمھارے پاس بیس منٹ ہیں….بیس منٹ میں فیصلہ کرو اور اپنا جواب بتاﺅ….ورنہ بیس منٹ کے بعد یہ سِم رابطے کے لیے بند ہو جائے گی۔“
دلاور نے بے تابی سے پوچھا: ”لیکن آپ کون ہیں اور کام کیا ہے….مجھے کیسے جانتے ہیں….میرا فون نمبر کہاں سے ملا؟“
”بولو نہیں صر ف سنو….تمھارے پاس صرف بیس منٹ ہیں اور تمھارا وقت شروع ہوتا ہے اب ….“
اس کے ساتھ ہی دوسری طرف سے لائن کاٹ دی گئی۔
وہ فون ہاتھ میں لیے کھڑا سوچتا رہا کہ ہاں کرے یا نہ….جوابی میسج بھیجے یا نہ بھیجے۔
دلاور نے کچھ سوچ کر اُسی نمبر پر کال ملائی تو دوسری طرف سے فون لائن مصروف ہونے کی ریکارڈنگ سنائی دے رہی تھی۔
وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد فون کرتا رہا مگر ہر بار نمبر مصروف ہونے کی ریکارڈنگ سنائی دیتی رہی۔
وہ سمجھ گیا فون کرنے والے نے فون کو ’بزی موڈ‘ پر لگا دیا ہے۔
اس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو دیے گئے بیس منٹ میں سے اٹھارہ منٹ گزر چکے تھے۔
و ہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا….نامعلوم کس کا فون تھا اور وہ اس سے کیا کام لینا چاہتا تھا؟
تین لاکھ کی پیش کش کی تھی ا س نے….
تین لاکھ ا س کے لیے بہت بڑی رقم تھی….
وہ تو پانچ سو روپے دیہاڑی پر ایک ہوٹل میں ویٹر کا کام کر رہا تھا۔ مہینے میں پندرہ ہزار کما رہا تھا، جس میں سے پانچ ہزار روپے تو مکان کا کرایہ چلا جاتا تھا اور باقی کے دس ہزار میں دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے ہوتی تھی…. مگر بد قسمتی سے ایک ہفتہ پہلے یہ کام بھی چھوٹ گیا تھا اور اُس کے گھر میں فاقے ہو رہے تھے۔
اب اُس نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ اُنیس منٹ گزر چکے تھے۔ اُس نے لرزتے ہاتھوں سے موبائل میں اِن کمنگ کالز میں سے نمبر نکالا اور جلدی سے میسیج ٹائپ کرکے بھیج دیا۔
”میں تیار ہوں“
ٹھیک ایک منٹ بعد جوابی میسج آیا جس میں گلشن آباد کی ایک کمرشل بلڈنگ کا ایڈریس لکھا تھا۔
پھر دوسرا میسج آیا: ” آج رات گیارہ بجے بلڈنگ کی چھت پر ….“
پھر تیسرا میسج آیا ….جس میں لکھا تھا۔
”ان تمام میسیجز اور اِن کمنگ کال کو فون ہسٹری سے ڈیلیٹ کر دو….اب اس نمبر کو کبھی استعمال مت کرنا ورنہ مارے جاو¿ گے۔“
اس کے بعد کوئی میسج نہیں آیا۔
وہ سوچنے لگا کہ بڑا ہی عجیب سلسلہ ہے۔
”یہ کون ہو سکتا ہے اور مجھ سے کیا کام لینا چاہتا ہے۔“
یہ بات تو طے تھی کہ وہ کوئی غیر قانونی کام ہی لینا چاہتا تھا….قانونی کام کے کوئی بھلا تین لاکھ کیوں دینے لگا۔
جائز کام کا معاوضہ عام طور پر اتنا بھی نہیں ہوتا کہ عزت کی زندگی گزاری جاسکے….جتنے زیادہ پیسے….اتنا بڑا ناجائز کام….
اس نے بہت سوچنے کے بعد وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ اب اُس کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا، غربت، بدحالی، بے روزگاری اور فاقوں نے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی چھین لی تھی۔
وہ وقت مقررہ پر اس بلڈنگ کے نیچے پہنچ گیا جہاں کا پتا اُسے میسج پر بھیجا گیا تھا۔
اس نے ہدایت کے مطابق بلڈنگ کا پتا ذہن نشین کر لیا اور میسجز ڈیلیٹ کر دیے تھے۔ کال ہسٹری سے بھی فون نمبر ڈیلیٹ کر دیا تھا۔ البتہ اس نے وہ نمبر ذہن نشین کر لیا تھا جس سے اُسے فون آیا تھا۔
بلڈنگ بالکل ویران تھی ….مرکزی گیٹ کھلا ہوا تھا اور اِرد گرد کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اُوپر پہنچا، جیسا کہ اُسے چھت پر پہنچنے کا کہا گیا تھا۔
چھت پر تاریکی اور بالکل سناٹا تھا….صرف چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔
”آگئے تم؟“ ایک آواز چھت کے قدرے تاریک حصے سے آئی۔
وہ چونک کر آواز کی سمت پلٹا۔ اس کے سامنے تاریکی میںایک سایا سا کھڑا تھا۔ جس نے سرتا پا سیاہ لبادہ اوڑھ رکھا تھا، ہاتھ دستانوں میں چھپے تھے اور چہرے پر سیاہ رومال لپٹا ہوا تھا۔ صرف آنکھیں، ماتھا اور سر کے بال دکھائی دے رہے تھے۔ مگر کالے بال بھی تاریکی کا حصہ معلوم ہو رہے تھے۔
” جج….جی ….آگیا۔“ اُس نے ڈر کر کہا۔
”بہت خوب….مجھے یقین تھا کہ تم ضرور آو¿ گے۔ پیسے میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ لاو¿ اپنا موبائل مجھے دو۔“
”موبائل….مگر کیوں؟“ اُس نے چونک کر پوچھا۔
” میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم نے اس میں سے میرا فون نمبر اور میسج ڈیلیٹ کیے یا نہیں۔“
دلاور نے جلدی سے جواب دیا: ”وہ تو میں نے اُسی وقت ڈیلیٹ کر دیے تھے۔“
” میں چیک کرنا چاہتا ہوں۔“ سیاہ نقاب پوش نے کہا۔
دلاور نے موبائل فون جیب سے نکالا اور اس کی طرف بڑھا دیا۔
اُس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل لیا اور میسجز دیکھنے لگا۔
سیاہ نقاب پوش نے موبائل اچھی طرح چیک کرنے کے بعد جیب میں رکھ لیا اور اس کی طرف متوجہ ہوا۔
”میرا موبائل ….؟“
”یہ میں جاتے ہوئے تمھیں دے دوں گا۔“ اس نے عجیب سے لہجے میں کہا۔ پھر اس کو غور سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا: ”تو گویا تم کام کر نے کے لیے تیار ہو؟“
” جج….جی ہاں….لیکن کام کیا ہے پہلے یہ تو بتاو¿۔“ دلاور نے سیاہ نقاب پوش سے پوچھا۔
سیاہ نقاب پوش اپنی جگہ کھڑا رہا اور پھر اطمینان سے بولا:
”ایک پتا نوٹ کرو۔ “
” جی بولیں“ اس نے کہا۔
” عزیز نگر، مکان نمبر سولہ“ سیا ہ پوش نے بولنا شروع کیا۔
” جی! عزیز نگر دیکھا ہوا ہے میرا شش….شاید ایک بار وہاں گیا بھی ہوں۔“
” کیوں گئے تھے؟“ سیاہ نقاب پوش نے پوچھا۔
دلاور مخمصے میں پڑ گیا۔ سوچنے لگا کہ بتائے یا نہ بتائے اور خاموشی سے اس کے چہرے کے نقاب کو گھورنے لگا۔ سیاہ نقاب پوش نے کچھ دیر انتظار کیا۔
”مت بتاو¿….لیکن مجھے معلوم ہے کیوں گئے تھے۔“
اس نے سٹپٹا کر اس کی طرف دیکھا اور حیرانی سے پوچھا: ” آپ کو….کک….کیسے معلوم ؟“
”میرے پاس ایک وڈیو ہے….اس کو دیکھ کر معلوم ہوا۔“ سیاہ نقاب پوش نے بتایا۔
”وڈیو….؟“ اس نے حیرانی سے کہا۔
’ ’ہاں ….دیکھو گے؟“ سیاہ نقاب پوش نے پوچھا۔
دلاور نے کوئی جواب نہیں دیا۔
سیاہ نقاب پوش نے اپنا موبائل نکالا اور وڈیو گیلری میں سے ایک وڈیو نکال کر اس کے سامنے کر دی۔
دلاور نے وڈیو دیکھی اور اس کی آنکھیں خوف سے پھیلتی چلی گئیں۔
وڈیو دیکھ کر اس کی سِٹّی گم ہو گئی اور آنکھوں میں خوف کے سائے اتر آئے۔
اس نے ہکلا کر کہا: ”یہ ….یہ….یہ وڈیو ….“
”تم سے یہ کام کرانے کے لیے یہ وڈیو ہی کافی تھی۔ اس وڈیو کے بدلے ہی تم بغیر معاوضے کے میرا کام کر دیتے لیکن میں مزدور کی مزدوری دینے کا قائل ہوں۔“
دلاور کا خون خشک ہورہا تھا۔ وہ خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔
سیاہ نقاب پوش نے ایک تصویر نکالی اور اس کے ہاتھ میں تھمائی اور پھر ہزار ہزار کے نوٹوں کی ایک گڈی نکال کر اس کی طرف بڑھائی۔
”یہ ایڈوانس ہے، ایک لاکھ روپیہ….باقی دو لاکھ کام ہو جانے کے بعد….“
دلاور کے ہاتھ نوٹوں کو پکڑ کر کانپنے لگے تھے۔ اتنی بڑی رقم زندگی میں کبھی اس کے ہاتھ میں نہیں آئی تھی۔
” جیب میں رکھ لو ….“سیاہ نقاب پوش نے کہا۔
”لیکن کام….“ اس نے کہنا چاہا۔
”جو کہہ رہا ہوں وہ کرو….نوٹوں کو جیب میں رکھو۔“ سیاہ نقاب پوش نے غرا کر کہا۔
دلاور نے کانپتے ہاتھوں سے نوٹوں کی گڈی لے کر جیب میں رکھ لی۔
سیاہ نقاب پوش نے تصویر ا س کی طرف بڑھائی۔ ”اس تصویر کو غور سے دیکھو ….“
دلاور نے تصویر تھام لی اور کہا: ”یہ ….یہ کس کی تصویر ہے ؟“
سیاہ نقاب پوش نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجاے ٹھوس لہجے میں کہا: ”تمھیں اس کو قتل کرنا ہے۔“
دلاور لڑ کھڑا کر پیچھے ہٹ گیا۔ تصویر اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ اُس نے گھبرا کر کہا: ”قق….قق….قتل؟“
”ہاں….قتل“ سیاہ نقاب پوش نے تیز آواز میں کہا۔
”نہیں صاحب! مم….میں قاتل نہیں ہوں….میں قتل نہیں کر سکتا….میں قتل نہیں کر سکتا۔“ دلاور نے ساتھ ساتھ انکار میں سر ہلایا۔
سیاہ نقاب پوش نے اس کو گھورتی ہوئی نظروں سے دیکھا اور غرا کر کہا: ” قتل تو تمھیں کرنا پڑے گا۔ اس کے سوا تمھارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ میرا یہ کام کرو یا پھر جیل جانے کے لیے تیار ہوجاو¿۔“
”تم ہو کون؟پہلے یہ تو بتاو¿۔“ دلاور نے بے چینی سے پوچھا۔
”تم مجھے نہیں جانتے اور نہ ہی جاننے کی ضرورت ہے۔ تم بس اپنا کام کرو….پیسے لو اور سب کچھ بھول جاو¿….تم پر کوئی آنچ نہیں آئے گی….جس کو قتل کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ اُس کا اِس دنیا میں کوئی رشتہ دار موجود نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عزیز ہے….تمھیں اس کو قتل کرنا ہے ….اور ….“
سیاہ نقاب پوش کی بات ادھوری رہ گئی۔ اسی وقت تیز ہوا چلی اور اُس کے چہرے سے نقاب اُتر گیا۔ چاندنی میں اُس کی شکل صاف دکھائی دے رہی تھی۔
دلاور نے اس کا چہرہ دیکھا اور حیرت سے کہا: ”تت….تت….تم“
” ہاں! میں ….“ سیاہ نقاب پوش نے ایک طویل سانس لی۔
”مم….میں تمھیں پہچان گیا…. تم تو….تم تو….“
اُس نے دلاور ملک کی بات کاٹ د ی اور تیزی سے بولنے لگا: ”یہ بہت غلط ہو گیا….اب تمھارے پاس کوئی راستہ نہیں بچا….اب یا تو تم میرا کام کرو ورنہ جیل جانے کے لیے تیار ہوجاو¿۔“
”جج….جج…. جیل؟“ دلاور نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
”ہاں جیل ….یہ وڈیو تمھیں جیل پہنچانے کے لیے کافی ہے…. تمھارے خلاف ایک پکا ثبوت ہے۔“
دلاور خوف زدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر اُس نے ہاتھ جوڑ کر کہا: ”مم….مجھے معاف کر دو۔ میں قاتل نہیں ہوں اور میں کسی کی جان نہیں لے سکتا۔“
”لیکن یہ قتل تو تمھیں کرنا ہی ہوگا۔“ اس نے اپنی بات پہ کافی زور دیتے ہوئے کہا۔
”نن….نہیں….میں قتل نہیں کر سکتا….میں قاتل نہیں ہوں۔“ دلاور نے بے بس ہو کر کہا۔
”دو ہی راستے ہیں۔“ اس نے غرا کر کہا: ”قتل کرو یا قتل ہوجاو¿….“
اب اُس نے ایک ڈنڈا اُٹھا لیا تھا۔ دلاور خوف زدہ انداز میں پیچھے کو ہٹا اور اچانک ڈنڈا پکرنے کے لیے اس پر جھپٹنے کی کوشش کی….اگلے ہی لمحے وہ گتھم گتھا ہوگئے۔

اور پھر اچانک چھت پر ایک زور دار چیخ گونجی…

٭….٭

عمر نے پٹرول ٹنکی میں بھروا کر پیسے ادا کیے اور بائیک اسٹارٹ کی۔ علی اس کے پیچھے بیٹھا فون پر بات کر رہا تھا۔
”جی ابو….ہم نکل گئے ہیں….بس تھوڑی دیر میں گھر پہنچ جائیں گے۔“ علی نے فون پر اونچی آواز میں کہا۔
”تم نے کہا تھا کہ گیارہ بجے تک گھر آجاو¿ گے ….گیارہ بج گئے ہیں۔“ دوسری طرف سے ابو جی کی آواز سنائی دی۔
”نہیں ابوجی! میں نے کہا تھا….گیارہ بج جائیں گے۔“ علی نے آہستہ سے جواب دیا۔

٭….٭

”اور گیارہ تو بج گئے ہیں۔“ احمد صدیقی نے مصنوعی ناراضی سے کہا۔
”جی ہاں میں نے یہی کہا تھا۔“ اس کے لہجے میں شوخی تھی۔
احمد صدیقی ایک لمحے کو چپ ہوئے پھر ان کی سمجھ میں آگیا کہ وہ جملے سے کھیل رہا ہے۔ تو یکایک مسکراتے ہوئے بولے: ” میں سمجھ گیا بیٹا….! واقعی گیارہ بج گئے ہیں….اب کتنی دیر میں گھر پہنچو گے۔“
”بس ابو جی….بیس سے پچیس منٹ میں پہنچ جائیں گے۔“علی نے آخری جواب دیا۔
”ٹھیک ہے….پچیس منٹ سے زیادہ دیر نہیں ہونی چاہیے، ورنہ تمھاری امی جی گھر میں نہیں گھسنے دیں گی۔“ احمد صدیقی نے علی کی امی کا پیغام اُس تک پہنچا دیا۔
”جی ابو جی! معلوم ہے….آپ کے لیے بھی امی جی کا یہی فرمان ہے کہ بارہ بجے تک گھر نہیں آئے تو پھر آنے کی ضرورت نہیں ہے“ علی نے شوخی سے کہا۔
”فضول باتیں بند کرو اور فورا گھر پہنچو۔“ وہ ڈپٹ کر بولے اور رابطہ منقطع کر دیا۔
٭….٭
عمر نے بائیک آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ”تم ابو جی کے ساتھ بھی دِل لگی کرنے سے باز نہیں آتے ؟“
”کیوں ….ابو جی کیا ہمارے دشمن ہیں؟….جو اُن سے دل لگی نہیں کی جاسکتی۔“
عمر نے کوئی جواب نہیں دیا، وہ بائیک لے کر سڑک پر آگیا اور اب اُن کا رُخ اپنے گھر کی طرف تھا۔

٭….٭

 

وہ ایک ایمرجنسی کی وجہ سے اس طرف آئے تھے۔ اُن کے ایک دوست جنید کے والد کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ اتفاق سے وہ اسی جگہ پر موجود تھے، جہاں ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ اِنھوں نے فوراً جنید کے والد کو ہسپتال پہنچایا اور دوا دارو کرکے اُنھیں، اُن کے گھر تک چھوڑا۔
وہ دونوں اب واپس گھر جارہے تھے۔ انھوں نے اپنے ابو جی کو ساری صورت حال فون کرکے بتا دی تھی اور آگاہ کر دیا تھا کہ اُنھیں گھر پہنچنے میں دیر ہوجائے گی۔
جب اُنھوں نے پوچھا تھا کہ گھرکب تک پہنچو گے تو علی نے جواب دیا تھا کہ گیارہ بج جائیں گے مگر دوست کے گھرسے نکلتے نکلتے اُنھیں کچھ تاخیر ہوگئی تھی۔ اسی لیے ٹھیک گیارہ بجے احمد صدیقی کا فون آگیا تھا۔
وہ اس وقت پٹرول پمپ پر اپنی بائیک میں پیٹرول ڈلوا رہے تھے۔
”ابو جی! کیا کہہ رہے تھے؟“ پٹرول پمپ سے نکلتے ہی عمر نے پوچھا۔
”یہی کہہ رہے تھے کہ ہم نے گیارہ بجے گھر پہنچنے کا کہا تھا۔“ علی نے جواب دیا۔
”ہاں….! ہمیں کچھ جلدی نکل جانا چاہیے تھا۔ امی جی اور ابو جی فکر مند ہو رہے ہوں گے۔“ عمر نے جھنجھلا کر کہا۔
”میں تو کہہ رہا تھا تم سے….مگر تم کہیں بیٹھ جاتے ہو تو اُٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے ہو۔“ علی نے طنزاً کہا۔
”جھوٹ مت بولو، میری وجہ سے نہیں تمھاری وجہ سے دیر ہو ئی ہے۔“عمر نے چلّا کر کہا۔
”میری وجہ سے؟“ علی نے سوالیہ لہجہ اختیار کیا۔
”تم ہی تو جنید کے آرٹ کے شاہ کار دیکھنے ا س کے کمرے میں چلے گئے تھے۔“ عمر نے علی کو آڑے ہاتھوں لیا۔
”تو کیا نہیں جانا چاہیے تھا….اتنے دنوں سے وہ اپنا کام دکھانے کا کہہ رہا تھا اور ہمیں اس کے گھر جانے کا وقت بھی نہیں مل رہا تھا….اب اتفاق سے اس کے گھر پہنچ ہی گئے تو میں نے سوچا لگے ہاتھوں اُس کی یہ خواہش بھی پوری کر دوں۔“ علی نے وضاحت پیش کی۔
”تو پھر مان لو ناں کہ غلطی تمھاری تھی۔“ عمر نے منھ بنا کر کہا۔
”ویسے غلطی میری نہیں…. تمھاری تھی۔“ علی نے کہا۔
”وہ کیسے؟“ عمر نے چونک کر پوچھا۔
”تمھیں مجھے اس کی پینٹنگ دیکھنے سے روکنا چاہیے تھا۔ کہنا چاہیے تھا کہ ہمیں دیر ہو جائے گی لیکن تم نے روکا ہی نہیں….بلکہ تم تو اُ س کے ابو سے باتوں میں مگن تھے۔“ علی نے اُلٹا عمر پہ ملبا ڈال دیا۔
”واہ! اب یہ بھی میری غلطی ہے کہ تم اپنی مرضی سے اس کے کمرے میں چلے گئے تھے….اور تم کوئی غلطی کرو گے تو و ہ اصل میں میری غلطی ہوگی ؟“عمر نے سخت لہجے میں کہا۔
”ظاہر ہے تم بڑے ہو….تمھیں سمجھانا چاہیے تھا…. روکنا چاہیے تھا ….اگر بڑے سمجھائیں گے نہیں تو بچے تو غلطیاں کرتے ہی ہیں۔“ علی نے عجیب ہی منطق پیش کردی۔
عمر جھلا گیا: ”تم سے تو بحث کرنا ہی فضول ہے۔“
”پھر تو ثابت ہو گیا۔“ علی نے اس کی جھلاہٹ سے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
”کیا ثابت ہو گیا ؟“عمر نے پوچھنا چاہا۔
”یہ کہ تم فضول کام بہت کرتے ہو؟“ علی مسکرایا۔
”یہ کیا بات ہوئی ؟“عمر نے عجیب منھ بنایا۔
”یہی تو بات ہوئی۔“ علی نے شوخی سے کہا۔
عمر نے تلملا کر پوچھا: ”بتاو¿ تو ذرا کہ میں کون سے فضول کام کرتا ہوں؟“
”یہی مجھ سے بحث کرنے کے۔ “علی نے معصومیت سے جواب دیا۔
عمر ایک لمحے کو تو سمجھ ہی نہیں پایا ….جب بات سمجھ میں آئی تو ایک قہقہہ اس کے حلق سے نکل گیا اور علی بھی مسکرا اُٹھا۔ اچانک اس نے تیزی سے کہا:
”ایک منٹ ….ایک منٹ ۔“
”کیا ہوا؟“ عمر نے گھبرا کر بائیک کی رفتار کم کر دی۔
علی نے دائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کیا: ” بائیک اس سڑک پر موڑ لو۔“
عمر نے بائیک روک کر اس طرف دیکھا تو وہ ایک ویران اور تاریک سی چھوٹی سڑک تھی۔
”اس سڑک پر؟“ عمر نے دوبارہ پوچھنا مناسب سمجھا۔
”ہاں….“ علی نے اثبات میں سر ہلایا۔
”کیا ہے اس سڑک پر ؟“عمر نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔
”شارٹ کٹ ؟“ علی نے بتایا۔
”شارٹ کٹ؟….کس چیزکا شارٹ کٹ؟“ عمر نے تعجب سے پوچھا۔
”گھر پہنچنے کا شارٹ کٹ….یاد نہیں یہ سڑک وہاں نکلتی ہے جہاں ہم مرکزی سڑک سے دو کلو میٹر آگے جا کر گھومیں گے اور پھر دو کلو میٹر مزید جاکر پہنچیں گے۔“علی نے وضاحت دیتے ہوئے چھوٹی سڑک پر گاڑی موڑنے کا اشارہ کیا۔
عمر نے ایک لمحے کو سوچا: ”او….ہاں یاد آگیا لیکن یار! کتنی تاریک ہے یہ سڑک ….اندھیرا بہت ہے۔“
”تو کیا ہو گیا….ہے تو سڑک ہی ناں….پانچ منٹ میں چار کلو میٹر کا راستہ گھٹ جائے گا۔موڑو اس طرف“ علی نے بائیک موڑنے کی بہت زیادہ ہی ضد کی۔
”لیکن؟“ عمر نے کہنا چاہا۔
”تاریکی سے ڈر لگ رہا ہے؟“ علی نے ا س کی طرف دیکھا۔
”نہیں….ڈر کیوں لگے گا؟“ عمر بائیک موڑ کر اس چھوٹی سڑک پر آگیا۔
اُنھیں نہیں معلوم تھا کہ اس سڑک پر ان کی ملاقات ایک لاش سے ہونے والی ہے۔ ابھی وہ سڑک کے وسط میں بھی نہیں پہنچے تھے کہ دفعتہ ایک زور دار چیخ سنائی دی۔
”یہ ….یہ چیخ ….“ عمر نے سٹپٹا کر بائیک روک دی۔
علی نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا اور کہا: ”چیخ کی آواز اوپر سے کہیں سے آئی ہے۔“
”ہاں….! ایسا لگا جیسے کسی کے حلق سے اُس کی آخری چیخ نکلی ہو۔“ عمر نے گھبراتے ہوئے کہا۔
چیخ کی آواز کے ساتھ ہی ایک دَم سناٹا چھا گیا تھا۔
”مم….مجھے ڈر لگ رہا ہے عمر ….کہیں ….“ علی کہنے ہی لگا تھا کہ اُس کی بات بھی پوری نہ ہو سکی اور ایک زور دار دھماکا ہوا…. دونوں بری طرح اچھل کر دور جا گرے اور ان کے حلق سے چیخ نکلتی چلی گئی۔
(جاری ہے)

 
 

٭….٭

 

اس قسط کے مشکل الفاظ
بَھّرائی: جوش و گریہ سے آواز بھاری ہوجانا
مخمصے میں پڑنا: عذاب، جھنجھٹ
سِٹی گم ہوجانا: ہوش کھو جانا، حواس باختہ ہوجانا
آڑے ہاتھوں لینا: لتاڑنا، بُرا بھلا کہنا

دوسری قسط

دوسرا باب ….خود کشی یا قتل

اُن دونوں کے حلق سے نکلنے والی چیخ اضطراری تھی۔ دونوں بائیک سے گرتے گرتے بچے، دھماکا بہت ہی زور دار تھا….کوئی بھاری چیز تیز آواز کے ساتھ نیچے آئی اور اُن کے قریب کھڑی کار کی چھت پر گر گئی تھی۔
اُنھوں نے گھبرا کر دیکھا تو زیر تعمیر بلڈنگ کے نیچے کھڑی چھوٹی سی کار کی چھت پر ایک آدمی پیٹھ کے بَل آگرا تھا۔ کار کی چھت اندر کو دھنس گئی تھی۔
اطراف کے شیشے چور چور ہو کر اِدھر اُدھر بکھر گئے تھے۔
”ارے باپ رے ….“
ان کے اوسان خطا ہوگئے۔ کار کی چھت پر ایک آدمی شدید زخمی پڑا کراہ رہا تھا۔ علی کے منھ سے نکلا: ”لل….لاش نے اوپر سے چھلانگ لگا دی۔“
عمر اور علی نے اوپر چھت کی طرف نظر دوڑائی مگر اُنھیں اوپر کوئی دکھائی نہیں دیا۔ وہ دونوں بھاگ کر کار کے قریب پہنچے تو چھت سے گرنے والا اب بے حس وحرکت ہو چکا تھا۔
علی نے سنسناتی ہوئی آوا زمیں پوچھا:
”مم….مر گیا ہے کیا؟“
عمر قریب آیا اس کی ناک کے پاس ہاتھ رکھا اور چونک کر بولا: ”نہیں….ابھی زندہ ہے۔“
” زندہ ہے ….؟“ علی کی بے ساختہ آواز آئی۔
”ہاں….زندہ ہے مگر بے ہوش ہو گیا ہے۔“ عمر نے کہتے ہوئے جلدی سے فون نکالا اور ایمبولینس کو فون کرنے لگا۔

٭….٭

ایمبولینس کو آنے میں بیس منٹ لگے۔ اتنی ہی دیر میں ان کے ابو جی، احمد صدیقی بھی پہنچ گئے۔
بلڈنگ کی چھت سے کار پہ گرنے والا مکمل طور پر بے ہوش تھا۔ تاہم اس کی نبض دھیرے دھیرے چل رہی تھی اور وہ بہت ہی آہستہ آہستہ سانس بھی لے رہا تھا۔
ان کا گھر یہاں سے زیادہ دور نہیں تھا۔
ایمبولینس بلوانے کے فوراً بعد عمر نے ابو جی کو بھی فون کرکے ساری صورت حال بتادی تھی۔
”میں ابھی آرہا ہوں۔“ انھوں نے کہا تھا اور پھر ایمبولینس کے ساتھ ساتھ وہ بھی جاے وقوع پرپہنچ گئے۔
ایمبولینس کا عملہ فوری طور پر گرنے والے کو ابتدائی طبی امداد دیتے ہوئے اسٹریچر پر ڈالنے اور ضروری کارروائی کرنے لگا۔
پولیس کی گاڑی بھی پہنچ گئی تھی۔ شاید ابو جی نے پولیس ایمرجنسی نمبرز پر اطلاع دے دی تھی۔
عمر اور علی کو ایک طرف کھڑے دیکھ کر احمد صدیقی ان کے قریب آئے اور کہا: ”ہاں بھئی! اب بتاو¿….کیا ہوا تھا؟ اور پوری تفصیل….“
”کچھ نہیں ابو جی….ہم شارٹ کٹ کے چکر میں اس ذیلی سڑک پر آئے تھے۔“ عمر نے بتانا شروع کیا۔
”ہم یہاں سے گزر رہے تھے کہ ایک تیز چیخ سنائی دی۔ ہم نے گھبراکر بائیک روکی تو اگلے ہی لمحے ایک زور دار آواز کے ساتھ یہ آدمی اس کھڑی کار کی چھت پر آگرا ۔“
”ہوں….سمجھ گیا۔“ اُنھوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
اُنھوں نے اس کار کو دیکھا کہ کہاں کھڑی تھی، اس کے اوپر دیکھا۔ چھت سے گرنے والے کو دیکھا اور اس کی نبض چیک کی۔ ایک بار پھر اس عمارت کو دیکھا ….وہ پانچ منزلہ ویران عمارت تھی، جس کا بیرونی دروازہ کھلا ہوا تھا۔
”تمھارا کیا خیال ہے ….اس نے خود چھلانگ لگائی ہے، مطلب خود کشی کی ہے، یا اسے اوپر سے پھینکا گیا ہے….تم نے ضرور اوپر کی طرف دیکھا ہوگا۔ اس کے گرنے کے بعد کوئی چہرہ دکھائی دیا تھا؟“ صدیقی صاحب نے پوچھا۔
علی نے سوچتے ہوئے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا:
”کچھ کہا نہیں جا سکتا ابو جی….بلڈنگ ویران ہے، ہمیں اوپر کوئی دکھائی بھی نہیں دیا اور نہ ہی کوئی اس بلڈنگ سے باہر نکل کر بھاگا ہے ….اس کا مطلب ہے، اس نے خود ہی چھلانگ لگائی ہوگی۔“
”لیکن ایک عجیب بات ہے؟“ عمر بڑ بڑایا۔
”وہ کیا ….؟“صدیقی صاحب نے پوچھا۔
”اس کے گرنے سے چند منٹ پہلے ایک چیخ سنائی دی تھی، جو شاید اسی کی تھی….اسی چیخ کو سُن کر ہم رُک گئے تھے اور اگلے ہی لمحے وہ نیچے آ گرا تھا۔“ عمر نے بتایا۔
”اوہ! اس کا مطلب ہے، چیخ گرنے کے ساتھ نہیں بلند ہوئی تھی بلکہ چیخ میں اور گرنے کے دوران وقفہ تھا؟“صدیقی صاحب نے حیران ہوکر کہا۔
”جی ہاں ….چیخ بلند ہونے اور اس کے نیچے گرنے کے درمیان کچھ وقفہ تھا….کوئی دو یا تین منٹ کا۔“ عمر نے کہا۔
”اس کا مطلب ہے یہ خود نہیں گرا …. بلڈنگ میں کوئی اور بھی تھا، جس نے اسے اوپر سے پھینکا۔“ صدیقی صاحب نے تشویش ظاہر کی۔
”اس کا مطلب تو یہی نکلتا ہے۔“ دونوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
”جب سے تم یہیں کھڑے ہو ….کسی کو اندر سے نکلتے ہوئے دیکھا؟“ صدیقی صاحب نے پوچھا۔
دونوں نے نفی میں سر ہلایا اور کہا: ”جی نہیں اور نہ ہی کوئی بلڈنگ کے دروازے سے باہر آیا ہے اور نہ ہی کوئی اندر گیا ہے۔“
احمد صدیقی نے وہیں کھڑے کھڑے بلڈنگ کے اطراف کا جائزہ لیا۔ پھر اس کار کی طرف دیکھا، جس پر دلاور گرا تھا۔ ایمرجنسی میڈیکل کا عملہ اس وقت تک گرنے والے کو کار کی پچکی ہوئی چھت پر سے اُٹھا کر اسٹریچر پر لٹا چکا تھا۔
”یہ شخص پیٹھ کے بل گرا تھا یا منھ کے بل؟“ صدیقی صاحب نے دونوں سے پوچھا۔
”کیا مطلب ؟“ علی نے پوچھا۔
”مطلب یہ کہ جب وہ کار پر گرا تھا تو پیٹھ کے بل تھا یا منھ کے بل….کہیں تم نے اُسے سیدھا تو نہیں کیا۔ جس حالت میں گرا تھا اسی حالت میں پڑا ہوا تھا نا؟“ صدیقی صاحب نے مزید پوچھ گچھ کی۔
”جی نہیں…. پیٹھ کے بل گرا….آپ نے آتے ہی جس حالت میں اسے دیکھا تھا، اسی حالت میں کار پر گرا تھا۔“ دونوں نے یک زبان ہوکر کہا۔
احمد صدیقی نے ہم م م م کہہ کر سر ہلایا۔
”اس کا مطلب ہے….اب یہ بات تو کنفرم ہو گئی کہ اس نے خود چھلانگ نہیں لگائی بلکہ کسی نے اسے دھکا دیا ہے یا اوپر سے پھینکا ہے۔“
”ہاں! بالکل یہ گتھی تو سلجھ گئی۔“ عمر نے صدیقی صاحب کی طرف دیکھا۔
”کیسے کنفرم ہو گیا کہ اسے کسی نے پھینکا ہے؟“ علی نے پوچھا۔
احمد صدیقی نے بلڈنگ کو ایک کھوجتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے جواب دیا: ”اگر اس نے خود چھلانگ لگانے کی کوشش کی ہوتی تو وہ کار پر منھ کے بل گرتا ناکہ پیٹھ کے بل۔“
وہ ایک کمرشل قسم کی بلڈنگ تھی، اس کے دائیں بائیں خالی پلاٹ تھے اور پوری بلڈنگ تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔
احمد صدیقی نے ایک لمحے کو سوچا پھر اُنھیں اشارہ کیا: ”آو¿…. میرے ساتھ۔“
وہ دونوں تیزی سے بلڈنگ کی طرف بڑھے۔ اُسی وقت ایک انسپکٹر ان کی طرف لپکا۔
” ایکس کیوز، می!“
وہ رُک گئے: ” جی ….؟“
”پولیس کو اطلاع آپ لوگوں نے کی تھی؟“ اُس نے کہا۔
”جی ہاں ….“ عمر نے کہا۔
”پولیس، ایمبولینس اور ساتھ ہی ابو جی کوبھی اطلاع دی تھی۔“ عمر نے بتایا۔
”ابو جی ؟“ انسپکٹر نے چونک کر اُن کی طرف دیکھا۔
احمد صدیقی نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور کہا:
”میں ان بچوں کا ابو جی ہوں…. خادم کو احمد صدیقی کہتے ہیں۔“
انسپکٹر نے طنزیہ انداز میں کہا: ”ضرور کہتے ہوں گے…. ویسے لوگ مجھے انسپکٹر ’رانا‘ کہتے ہیں۔ رانا عدنان….نام تو سنا ہی ہو گا۔“
”انسپکٹر رانا عدنان۔“ احمد صدیقی مسکراے۔
”جی ہاں سنا ہے۔ آپ کے خلاف تو ماوراے عدالت قتل کی بہت سی وارداتوں کی رپورٹس اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں ….آپ وہی ہیں یا کوئی اور؟“
انسپکٹر رانا نے برا سا منھ بناتے ہوئے کہا: ”آپ اِنکاو¿نٹر یا پولیس مقابلے کو ماورائے عدالت قتل کہتے ہیں؟“
”میں نہیں کہتا شاید لیکن اخبار والے کہتے ہیں…. اُن کا خیال ہے کہ اس طرح کے پولیس مقابلے جعلی….“
انسپکٹر رانا نے بات کاٹتے ہوئے کہا: ”اس طرح کے مقابلے صرف بہادر پولیس والے کرتے ہیں۔“
”مگر وہ کہتے ہیں کہ ان مقابلوں میں اکثر بے گناہ بھی مارے جاتے ہیں۔“صدیقی صاحب نے کہا۔
انسپکٹر رانا نے اونچی آواز میں کہا: ”زیادہ بَک بَک کرنے کی ضرورت نہیں ہے، چلو پولیس اسٹیشن….تم لوگوں کا بیان لکھنا ہے اور کچھ ضروری کارروائی کرنی ہے۔“
احمد صدیقی نے ایک طویل سانس لے کر کہا: ”ضروری کار روائی تو یہیں ہونی ہے انسپکٹر رانا صاحب….یہ جاے وقوعہ ہے….پولیس اسٹیشن جا کر کون سی ضروری کار روائی کریں گے؟“
اس نے غصے سے کہا: ”اب تم مجھے سکھاو¿گے کہ مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں….؟“
علی نے تیز آواز میں کہا: ”انسپکٹر صاحب تمیز سے کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔“
انسپکٹر رانا نے علی کو گھورتے ہوئے کہا: ”ویسے کیا بد تمیزی کی ہے بچوں میں نے ؟“
عمر نے لطف لیتے ہوئے کہا: ”ابو جی! کو تم کر کے مخاطب کیا ہے ….اسے بد تمیزی کہتے ہیں۔“
انسپکٹر رانا نے ٹھٹھائی سے کہا: ”کیا تمھارے ابو جی وزیر اعظم ہیں جو اُنھیں تم کہہ کر مخاطب نہیں کیا جا سکتا؟“
احمد صدیقی نے مسکرا کر کہا: ” انسپکٹر رانا عدنان صاحب…. میر انام احمد صدیقی ہے۔ یہ میرا کارڈ ہے۔ اسے دیکھ لیجیے اگر کارڈ دیکھ کرآپ سیلوٹ کریں گے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔“
انسپکٹر رانا نے کارڈ دیکھا، اور پھر اس کے چہرے کے تاثرات بدلتے چلے گئے۔
اس نے بے اختیار سیلوٹ مارتے ہوئے کہا:
”آئی ایم سوری سر….میں نے پہچانا نہیں تھا۔“
عمر اور علی کے چہروں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
”کوئی بات نہیں….آپ ضابطے کی کارروائی مکمل کریں، ہم ذرا اس بلڈنگ کی چھت کا معائنہ کر لیں۔“
”جی بہتر ….“ انسپکٹر نے ایک دم مو¿دب ہو کر کہا۔
احمد صدیقی نے کارڈ واپس لیتے ہوئے عمر اور علی کو پیچھے آنے کا اشارہ کیا…. دونوں ان کے ساتھ بلڈنگ کے کھلے دروازے سے اندر داخل ہوگئے۔
احمد صدیقی نے پوچھا: ”جب یہ بلڈنگ ویران ہے اور اس میں کوئی رہتا نہیں تو اس کا دروازہ کُھلا کیوں کر ہوسکتا ہے؟“
”شاید…. جو اوپر سے گرا ہے وہ جب اندر گیا ہو گا تو اس نے دروازہ کھولا ہوگا۔“ عمر نے جواب دیا۔
احمد صدیقی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور کہا:
”تم کہنا چاہ رہے ہو کہ گرنے والے کا تعلق اس بلڈنگ سے تھا اور اس کے پاس دروازے کی چابی تھی۔“
”ہو بھی سکتا ہے۔“ عمر نے اندازہ لگایا۔
وہ تینوں ایک ایک منزل چڑھتے ہوئے اوپر پہنچے۔ ہر منزل کا دروازہ سیڑھیوں کے پاس سے سے لاک تھا…. صرف چھت کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔
چھت پر پہنچ کر عمر نے اپنی جیب سے ٹارچ نکال لی۔
ٹارچ کی روشنی میں احمد صدیقی نے اِدھر اُدھر دیکھا اور چونک کر ایک طرف بڑھے۔
عمر اور علی نے بھی حیرانی سے اس طرف دیکھا تو چھت پر ایک جانب بَیس بال کھیلنے والا ڈنڈا پڑا ہوا تھا۔
احمد صدیقی نے آگے بڑھ کر ڈنڈے کو دیکھا، پھر جیب سے دستانے نکال کر پہنے اور ڈنڈا اُٹھا لیا۔
ان تینوں کی یہ عادت بہت پختہ ہو چکی تھی….وہ کسی بھی جاے واردات پر پہنچتے ہی فوراً ربڑ کے دستانے پہن لیا کرتے تھے۔ دستانوں کی ایک جوڑی ہمیشہ ان کی جیب میں رہا کرتی تھی۔
اُنھوں نے ٹارچ کی روشنی میں دیکھا۔ بیس بال کے ڈنڈے کے اگلے سرے پر خون کا ہلکا سا نشان تھا۔
”اب یہ بات پایہ¿ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ نیچے گرنے والا….خود نہیں گرا بلکہ گرایا گیا تھا۔ اسے اوپر سے نیچے پھینکنے سے پہلے اس کے سر پر یہ ڈنڈا مار اگیا، جس کے نتیجے میں اس کے حلق سے چیخ نکلی جسے سن کر تم دونوں رُک گئے تھے….سر پر ڈنڈا مارنے کے بعد اُسے چھت سے دھکا دیا گیا…. اگر پھینکا جاتا تو وہ سر کے بل گرتا نہ کہ پیٹھ کے بل…. تو اس کا مطلب ہے وہ مضروب ہونے کے بعد یہاں، اس کارنس کے ساتھ کھڑا تھا اور اُسے پیچھے کی طرف دھکیل دیا گیا۔ یہ دیکھو….! کارنس کا یہ حصہ ٹوٹا ہوا ہے اور یہ عین اس جگہ کے اوپر جہاں نیچے وہ کار کھڑی ہے۔“
”اس کامطلب ہے یہاں کوئی اور بھی تھا ….جس نے اسے یہاں سے دھکا دیا۔“ علی نے سوچتے ہوئے کہا۔
”صرف دھکا نہیں دیا بلکہ ڈنڈے سے اس پر حملہ بھی کیا۔“
عمر اور علی نے معنی خیز انداز میں سر ہلایا۔
”جی ہاں…. ہم اس کی چیخ سن کر رُکے تھے اور پھر کچھ دیر بعد وہ نیچے آگرا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ اس کو مارنے اور نیچے پھینکنے والا گیا کہاں ؟….ہم نے اسے باہر نکلتے ہوئے بھی نہیں دیکھا۔ اس بلڈنگ کا کوئی فلور کُھلا ہوا نہیں ہے….ہر فلور کی سیڑھی کے پاس لوہے کی گرل لگی ہے اور اس میں تالے بھی لگے ہوئے ہیں۔“
”ہوسکتا ہے وہ اُڑ کر چلا گیا ہو۔“ علی نے سوچتے ہوئے کہا۔
عمر نے گھور کر دیکھا: ”کوئی اُڑ کر کیسے جا سکتا ہے؟“
”جیسے اُڑ کر جایا جاتا ہے ….اُڑتے ہوئے“ علی نے مسکرا کر ہاتھوں سے پرندوں کا سا اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔
عمر کا دماغ کہیں اور ہی اُلجھا ہوا تھا، اس نے سوچتے ہوئے کہا: ”قاتل کے پاس جب اس بلڈنگ کے بیرونی دروازے کی چابی تھی تو ممکن ہے اُس کے پاس کسی فلور کے دروازے کی بھی چابی ہو اور اسی فلور کے کسی فلیٹ کی بھی چابی ہو….وہ ممکنہ طور پر کسی فلور کے کسی ویران فلیٹ میں چھپا بیٹھا ہو۔“
احمد صدیقی نے اس کی بات سن کر اِدھر اُدھر دیکھا اور کہا: ”ایسا ممکن تو ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ قاتل کی بے وقوفی ہی ہوگی….اس بلڈنگ کے دائیں بائیں کوئی بلڈنگ نہیں ہے البتہ پشت پر دوسری بلڈنگ ہے جس کی چھت اس بلڈنگ کی چھت سے ملی ہوئی ہے….ممکن ہے وہ اسی بلڈنگ کے کسی فلیٹ میں چھپنے کے بجاے پورے اطمینان اور سکون سے دوسری بلڈنگ کی چھت پر پہنچا ہوگا اور سیڑھیوں کے ذریعے نیچے اُتر کر پچھلی گلی سے چلا گیا ہوگا۔“
علی نے کہا: ”ہوسکتا ہے قاتل اتنا چالاک نہ ہو بلکہ بے وقوف ہو اور اُس نے وہی غلطی کی ہو جس کی طرف عمر نے اشارہ کیا۔“
احمد صدیقی نے اثبات میں سر ہلا کر کہا: ”ہاں! ایسا ممکن ہے ….مجرم ہمیشہ اپنی احمقانہ غلطیوں ہی سے پکڑے جاتے ہیں۔ ہم اس پوائنٹ آف ویو سے بھی جائزہ لیں گے۔“
ٹارچ کی روشنی میں اُنھوں نے اچھی طرح چھت کا جائزہ لیا، مگر کوئی اور ایسی چیز نہیں ملی جس سے ممکنہ قاتل کی نشان دہی ہوتی۔
چھت پہ ہر طرف کچرا اور فالتو سامان پڑا ہوا تھا۔ ایک طرف سگریٹ کے کچھ ٹوٹے پڑے تھے، جو سب ہی ایک برانڈ کے تھے۔
احمد صدیقی نے جھک کر احتیاط سے تمام ٹوٹے ایک رومال میں اُٹھا لیے۔
”چلو نیچے چلیں ….یہاں کچھ اور نہیں ہے۔“
وہ عمر کے پوائنٹ آف ویو سے ہر فلور کا جائزہ لیتے ہوئے نیچے اُترے۔
عمر کا خیال غلط نکلا۔ قاتل نے کسی فلور کا دروازہ نہیں کھولا تھا۔
ہر فلور کے دروازے کے سامنے لگی لوہے کی گرل میں ایک زنگ آلود تالا لگا ہوا تھا۔ اگر قاتل کسی فلور پر ہوتا تو یقینا باہر زنگ آلود تالا لگا ہوا نہ ہوتا۔
وہ لوگ نیچے آئے تو دیکھا ایمبولینس جاچکی تھی اور انسپکٹر رانا عدنان ضابطے کی کار روائی مکمل کر چکا تھا۔ جیسے ہی صدیقی صاحب کو قریب آتے دیکھا تو ایک دم مودب ہوگیا۔
”گرنے والے کو کچھ ہوش تھا؟“ صدیقی صاحب نے پوچھا۔
”نہیں….سر! شدید زخمی تھا اور شاید بے ہوش ہو گیا تھا۔“ انسپکٹر نے جھجکتے ہوئے کہا۔
”اچھا….! کون سے ہسپتال پہنچایا گیا ہے؟“ صدیقی صاحب نے مزید پوچھا۔
”سٹی ہاسپٹل“ رانا عدنان نے جواب دیا۔
پھر اس نے کچھ چیزیں ان کے سامنے رکھ دیں اور کہا: ”اس کی جیب سے یہ چیزیں ملی ہیں سر ….!“
تینوں نے چونک کر دیکھا۔
ہزار ہزار کے نوٹوں والی ایک گڈی تھی۔ جو پورے ایک لاکھ روپے تھے۔ سارے نوٹ پرانے تھے۔ اس کے علاوہ ایک گراری والاچاقو اور ایک پرس تھا۔ باڈی کے پاس سے نہ اس کا شناختی کارڈ ملا اور نہ ہی کوئی ایسی چیز، جس سے شناخت ہو پاتی….
احمد صدیقی نے پرس کھولا تو اس میں کچھ روپے اور ایک کارڈ تھا۔
انھوں نے کارڈ کو روشنی میں دیکھا اور کچھ بڑ بڑائے:
”انسپکٹر راشد شیرازی “
” انسپکٹر شیرازی؟“ انسپکٹر رانا عدنان نے چونک کر کہا۔
”ہاں….! تم جانتے ہو اُسے ؟“ صدیقی صاحب نے فوراً پوچھا۔
”جی سر! میرا ماتحت رہ چکا ہے۔ آج کل جھنڈا چوک کے علاقے میں تعینات ہے لیکن اس کا کارڈ اس کی جیب میں کیا کر رہا ہے؟“ انسپکٹر رانا بھی تشویش میں مبتلا ہوگیا تھا۔
علی چپ نہ رہ سکا اور جھٹ سے بول اُٹھا: ”کچھ نہیں کر رہا تھا، کارڈ بھی بھلا کچھ کرتا ہے، وہ تو پرس میں صرف پڑا ہو اتھا۔“
انسپکٹر رانا عدنان نے ناگواری سے علی کی طرف دیکھا مگر کچھ کہا نہیں۔
”جھنڈا چوک؟“ صدیقی صاحب نے دوبارہ پوچھا۔
”ہاں! یہاں سے جائیں گے تو قریب میں ہی ہے۔“ اس نے بتانا شروع کیا تو احمد صدیقی نے ہاتھ سے روک دیا۔
”جھنڈا چوک پولیس اسٹیشن ہم نے دیکھا ہوا ہے۔“
پھر وہ عمر اور علی کی طرف گھومے اور کہا: ” کیاخیال ہے؟“
”چلتے ہیں…. کل تو ویسے بھی اسکول کی چھٹی ہے“ عمر نے کہا۔
”ٹھیک ہے۔“ پھر وہ انسپکٹر رانا سے مخاطب ہوئے:
”انسپکٹر صاحب! یقیناً اس کیس کی ایف آئی آر آپ اپنے تھانے ہی میں درج کریں گے۔ جو کار روائی آپ کو کرنی ہے وہ کیجیے ….ہم اپنے طور پر اس کیس کو دیکھ رہے ہیں۔“
انسپکٹر رانا عدنان نے سر ہلاتے ہوئے کہا:
”ٹھیک ہے سر لیکن کیا ہی اچھا ہوتاکہ میں بھی اس کیس میں آپ کے ساتھ کام کرتا۔“
”آن بورڈ آپ ہی ہیں۔“صدیقی صاحب نے مسکرا کر کہا۔
”شکریہ سر!“ وہ خوش ہوگیا۔
”چلو بھئی…. ذرا اس انسپکٹر راشد شیرازی سے مل لیں پھر ہسپتال جائیں گے۔“ صدیقی صاحب نے اگلا لائحہ عمل بتایا۔
انسپکٹر رانا عدنان نے کہا: ”او کے سر ….میں آپ کو ہسپتال میں ہی ملوں گا اگر زخمی کو ہوش آگیا تو اس کا بیان لینے کی کوشش کریں گے۔“
”گڈ….پھر وہیں ملاقات ہوتی ہے۔“ احمد صدیقی نے گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ چھت پر سے اُٹھایا ہوا ڈنڈا ابھی تک ان کے ہاتھ میں تھا۔ انھوں نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور ڈنڈا پچھلی نشست پر ڈال دیا۔
”ابو جی! ہم بائیک پر آئیں؟“ علی اور عمر نے اجازت طلب کی۔
احمد صدیقی ایک لمحے کو رُکے۔ پھر انسپکٹر رانا عدنان کی طرف پلٹے اور کہا: ”انسپکٹر صاحب….کسی کانسٹیبل کے ذریعے یہ بائیک ہمارے گھر پہنچوا دیں۔“
”ٹھیک ہے سر! “ اس نے خوش دلی سے کہا۔
احمد صدیقی نے گھر کاپتا سمجھایا اور چابی اسے دے کر گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔
عمر اور علی ان کے پیچھے پیچھے تھے۔

٭….٭

وہ لوگ جھنڈا چوک پولیس اسٹیشن پہنچے، جو جاے وقوعہ سے زیادہ دور نہیں تھا۔ وہاں اُنھیں بتایا گیا کہ انسپکٹر راشد شیرازی باہر گئے ہوئے ہیں۔
اس کا کارڈ احمد صدیقی کے پاس تھا۔ احمد صدیقی نے اُس کا فون نمبر ملایا تو دوسری طرف سے انسپکٹر راشد شیرازی نے ہی فون کال ریسیو کی۔
”ہیلوانسپکٹر راشد شیرازی ….“
”السلام علیکم….! “
”وعلیکم السلام ….!“
”میں احمد صدیقی بات کر رہا ہوں….آپ سے ایک ضروری کام کے سلسلے میں ملنا ہے۔“
”تو آپ پولیس اسٹیشن آجائیں….ملاقات ہو جائے گی….ویسے کس سلسلے میں ملنا ہے ؟“ انسپکٹر شیرازی نے پوچھا۔
”ہم آپ کے پولیس اسٹیشن میں ہی ہیں مگر ہمیں بتایا گیا ہے کہ آپ یہاں موجود نہیں…. “
انسپکٹر شیرازی نے کہا: ”اوہ….میں ذرا پٹرولنگ پہ نکلا تھا….آپ لوگ ذرا تشریف رکھیں، میں اسی طرف آرہا ہوں۔“
ٹھیک دس منٹ بعد انسپکٹر راشد شیرازی پولیس اسٹیشن پہنچ گیا۔ اس نے ان کے قریب آکر جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور سگریٹ نکال کر سلگاتے ہو ئے کہا:
”جی فرمائیے….! “
احمد صدیقی نے چونک کر دیکھا اور پھر ان کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں۔

٭….٭

اس قسط کے مشکل الفاظ
اضطراری: غیر ارادی، بے چینی
بیس بال: امریکا کا مقبول کھیل جس میں نو، نو کھلاڑیوں کی دو ٹولیاں بلے اور گیند سے ایک، چار ٹھانوں والے میدان میں کھیلتی ہیں
مضروب: وہ شخص جسے چوٹ آئی ہو، زخمی
کارنس: چھجہ، طاقچہ گرل: لوہے کی جالی یا جنگلا
پٹرولنگ: گشت، نگرانی کرنا

تیسری قسط

انسپکٹر شیرازی اُسی برانڈ کی سگریٹ پی رہا تھا، جس برانڈ کے ٹوٹے اُنھیں بلڈنگ کی چھت پر ملے تھے۔ جہاں سے اُس آدمی کو پھینکا گیا تھا۔
”ہم کمرے میں بیٹھ کر بات کرلیں؟“ احمد صدیقی نے شائستگی سے پوچھا۔
اس نے تینوں کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور روکھے لہجے میں کہا: ”آئیے….آئیے۔“ وہ کمرے میں جاکر بیٹھ گئے۔
”اب فرمائیے۔“ انسپکٹر شیرازی نے اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
احمد صدیقی نے ایک طویل سانس لی اور مسکرا کر کہا: ”انسپکٹر شیرازی….کچھ دیر پہلے ایک حادثہ پیش آیا ہے….ایک نوجوان بلڈنگ کی پانچویں منزل کی چھت سے نیچے ایک گاڑی پر گر گیا ہے….یا گرا دیا گیا ہے۔“
”اوہ….“ انسپکٹر نے دُکھ سے کہا۔
”اس زخمی نوجوان کو ہاسپٹل پہنچا دیا گیا ہے…. اور انسپکٹر رانا عدنان اس کیس کو دیکھ رہے ہیں۔“
”اچھا….تو آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں اور اس واقعے سے آپ کا کیا تعلق….؟“ اس نے بہ یک وقت دو سوال پوچھ ڈالے۔
احمد صدیقی نے مسکرا کر کہا: ”تعلق توہم بعد میں بتا دیں گے….سردست ہم صرف ایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں۔“
اس نے باری باری تینوں کو دیکھا اور کہا: ”کس حیثیت سے؟“
احمد صدیقی نے اپنی حیثیت بتائی تو وہ سنبھل کر بیٹھ گیا۔ لہجہ بھی یک دَم بدل گیا اور اُس نے تمیز سے کہا: ”جی احمد صاحب….پوچھیے کیا پوچھنا تھا؟“
”جو نوجوان چھت سے گرا ہے ….اس کے بچنے کی کوئی اُمید نہیں ہے لیکن زندگی اللہ دیتا ہے….ممکن ہے وہ بچ جائے….ابتدائی تفتیش کے نتیجے میں ہم یہ اندازہ لگانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ اس نے خود چھلانگ نہیں لگائی یا خود کشی کی کوشش نہیں کی….بلکہ اُسے اوپر سے پھینکا گیا ہے۔“ احمد صاحب نے کہا۔
”اوہ….“ انسپکٹر راشد شیرازی کے منھ سے نکلا۔ ”شناخت ہوئی اس کی کہ ….کون ہے وہ؟“
”اسی سلسلے میں ہم یہاں آئے ہیں ….اس کی جیبوں میں سے جو سامان نکلا ہے ….ان میں ایک کارڈ بہت اہم ہے….ایک وزیٹنگ کارڈ….“ احمد صدیقی نے زور دے کر کہا۔
”وزیٹنگ کارڈ؟“ انسپکٹر شیرازی نے حیرت سے پوچھا۔
”جی ہاں….اور وہ وزیٹنگ کارڈ آپ کا ہے۔“صدیقی صاحب بتایا۔
وہ بری طرح چونکا: ”میرا کارڈ….؟“
انھوں نے اثبات میں سر ہلایا: ”سمجھ میں نہیں آرہا کہ آپ کا کارڈ اس کے پاس کیسے ہے؟ بس ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ آپ کا جاننے والا ہے۔“
انسپکٹر شیرازی ایک دم سے کچھ پریشان ہوگیا اور ہکلاتے ہوئے کہنے لگا: ”مم….مم….ممکن ہے …. وہ میرا واقف کار ہو …. کیا آپ کے پاس اس کی تصویر ہے؟ …. ویسے اس کا نام کیا ہے؟“
”نہیں…. تصویر تو نہیں ہے اور نہ ہی اب تک اُس کی شناخت ہوسکی ہے۔“ احمد صدیقی نے انکار میں سر ہلایا۔
انسپکٹر شیرازی نے گویا سکون کا سانس لیا اور کاندھے اچکا کر کہا: ”تو پھر میں کیسے بتا سکتا ہوں کہ وہ کون ہے، جس کے پاس سے میرا کارڈ ملا ہے ….میں تو درجنوں لوگوں کو اپنا کارڈ دیتا رہا ہوں….ہوسکتا ہے یہ ان میں سے کوئی ایک ہو۔“
”یہ بات بھی ہے۔“ احمد صدیقی نے سر ہلایا۔
علی نے اچانک کہا: ”اس کی تصویر تو ہے ہمارے پاس لیکن آپ اُسے شاید ہی پہچان سکیں۔“
سب نے اس کی طرف چونک کر دیکھا۔
علی نے اپنا سیل فون نکالا اور گیلری میں جا کر دو تین تصویریں کھولیں۔
”یہ تصویریں اُس وقت کی ہیں جب وہ بلڈنگ سے گاڑی کی چھت پر گرا ہوا تھا ….لیکن اس کا چہرہ خون میں بھرا ہوا ہے جس کی وجہ سے آپ شاید ہی شناخت کرسکیں….میں نے یہ تصویریں احتیاطی طور پر بنالی تھیں….اس وقت جب ہم ایمبولینس اور ابو جی کا انتظار کر رہے تھے۔“
”شاباش علی….“ احمد صدیقی نے بے اختیار داد دیتے ہوئے اس کے ہاتھ سے موبائل لے لیا، پہلے خود ان تصویروں کو غور سے دیکھا….پھر انسپکٹر شیرازی کو دکھائیں۔
انسپکٹر راشد شیرازی تصویروں کو دیکھتا رہا، پہچاننے کی کوشش کرتا رہا، پھر انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا: ”نہیں سر….! خون اس کے چہرے پر پھیل گیا ہے….جس کی وجہ سے شناخت کرنے میں مشکل ہورہی ہے….ویسے مجھے یہ جانا پہچانا بھی معلوم ہورہا ہے۔ اگر میں قریب سے دیکھوں تو شاید پہچان لوں۔“
احمد صدیقی اس کی طرف دیکھتے رہے پھر مسکرا کر بولے: ”آپ کو زحمت تو ہوگی….اگر مناسب سمجھیں تو ہمارے ساتھ سٹی ہاسپٹل چلیں اور ….“
”جی جی ….بالکل، کیوں نہیں۔“ اس نے فوراً خوش مزاجی سے کہا اور کھڑے ہو کر مزید کہا: ”ابھی چلیں؟“
”اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔“ احمد صدیقی خوش ہو کر بولے اورخود بھی کھڑے ہوگئے۔ انسپکٹر شیرازی دروازے کی طرف بڑھے تو احمد صدیقی نے ایک عجیب حرکت کی….اس حرکت کو علی اور عمر نے حیرت سے دیکھا، مگر کچھ کہا نہیں۔ اُنھیں معلوم تھا کہ انھوں نے وہ حرکت کیوں کی ہے۔
کچھ دیر بعد وہ اپنی اپنی گاڑیوں میں سٹی ہاسپٹل کی طرف جا رہے تھے۔
انسپکٹر رانا عدنان، انھیں ہاسپٹل کے باہر ہی مل گئے۔ صدیقی صاحب کو مخاطب کر کے انسپکٹر رانا نے کہا: ”زخمی کو ابھی تک ہوش نہیں آیا ہے سر….ڈاکٹر اُسے بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔“
”اوہ….کوئی آپریشن؟“صدیقی صاحب نے پوچھا۔
”شاید ابھی تک تو نہیں کیا گیا ….پسلیوں اور ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچا ہے….ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کچھ بہتر حالت ہو جائے تو آپریشن کا سوچیں گے۔“
”شناخت ہوئی اس کی….کوئی نام وغیرہ معلوم ہوا؟“ صدیقی صاحب نے مزید پوچھا۔
”نہیں سر….اس کی جیب سے جو چیزیں ملی تھیں، وہ آپ کو دکھا دی تھیں۔ اس کے سوا اُس کے پاس سے کچھ نہیں ملا جس سے شناخت ہوسکے۔“انسپکٹر رانا نے بتایا۔
انسپکٹر رانا عدنان کی ہدایت کے باعث زخمی کو ایک الگ کمرے میں رکھا گیا تھا، غفلت سے پہلو بچا کر اس کی نگہداشت کی جا رہی تھی، دو تربیت یافتہ نرسیں اور ایک ڈاکٹر ہمہ وقت اس کے ساتھ تھے۔
انسپکٹر راشد شیرازی، احمد صدیقی، عمر اور علی اندر داخل ہوئے تو ڈاکٹر نے اُن کی طرف دیکھ کر کہا: ”آئی ایم سوری….اسے ابھی تک ہو ش نہیں آیا ہے۔“
احمد صدیقی نے اثبات میں سر ہلایا اور زخمی کی طرف بڑھے۔ جس کا چہرہ صاف کر دیا گیا تھا، سر کے گرد بینڈج کر دی گئی تھی، منھ پہ آکسیجن لگی ہوئی تھی، اس کے علاوہ کچھ اور مشینیں بھی ساتھ منسلک تھیں۔
انسپکٹر شیرازی اس کے قریب گیا تو وہ بری طرح چونکا۔ عمر نے محسوس کیا زخمی کو دیکھتے ہی انسپکٹر شیرازی کچھ بے چین اور پریشان ہوگیا تھا۔
”لگتا ہے ….آپ جانتے ہیں اسے؟“عمر نے پوچھا۔
انسپکٹر شیرازی نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا: ”جج….جی ہاں….بہت اچھی طرح جانتا ہوں…. یہ….مم….میرا واقف کار تھا۔ اس کا نام ’دلاور ملک‘ ہے….یہ ایک چور تھا اور اسے عدالت سے چوری کے جرم میں تین سال کی سزا بھی ہوئی تھی۔“
”چور؟“ سب نے انسپکٹر شیرازی کو حیرت سے دیکھا۔

٭….٭

وہ سب ہاسپٹل کی راہداری میں آگئے تھے اور ابھی تک حیرت سے انسپکٹر شیرازی کی طرف دیکھ رہے تھے۔
”جی ہاں سر!“ انسپکٹر راشد شیرازی تفصیل بتاتے ہوئے کہنے لگا۔ ”دلاور ملک کسی وکیل کے گھر چوری کرتے ہوئے گرفتار ہوا تھا۔ کیس مضبوط بن گیا تھا تو وکیل نے پولیس کے ساتھ مل کر اسے بری طرح رگڑ دیا اور تین سال کی سزا کروائی….کوئی چھے ماہ پہلے ہی دلاور جیل سے رہا ہوا تھا۔“
”اوہ ….“ احمد صدیقی نے تاسف سے سر ہلایا اور کہا: ”اس کا مطلب ہے ….یہ ایک مجرم ہے اور شاید اپنے ہی کسی ساتھی کے ہاتھوں اس پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔“
انسپکٹر شیراز ی نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا: ” نہیں سر….! یہ مجرم کبھی تھا اور بہت معمولی چور تھا ….چھوٹی موٹی چوریاں کرتا تھا مگر اب یہ مجرم نہیں….جیل کی سزا بھگتنے کے بعد اس نے جرائم سے توبہ کر لی ہے۔“
”اچھا….تو شاید اسی وجہ سے اس کے کسی ساتھی نے اپنی پرانی دشمنی نکالی ہے اور ….“ صدیقی صاحب نے اپنا گمان ظاہر کیا۔
انسپکٹر راشد شیرازی نے ایک بار پھر انکار میں سر ہلایااور کہا؛ ”نہیں سر….یہ مکمل طور پر شریف آدمی بن چکا تھا….اس کا ماضی میں کوئی ایسا ساتھی نہیں….اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا….یہ بہت معمولی اور چھوٹی چھوٹی چوریاں کیا کرتا تھا….اس لیے کوئی اس کام میں اس کا یا یہ کسی کا ساتھی نہیں تھا….تاہم اب یہ محنت مزدوری کرکے اچھی زندگی گزار رہا تھا۔“
”آپ کا کارڈ اس کے پاس کیسے آیا….؟ اور آپ کیسے جانتے ہیں؟“ صدیقی صاحب نے آخر پوچھ ہی لیا۔
”میں نے بتایا ناں….یہ میرا واقف کار ہے…. اسکول کے زمانے میں میرے ساتھ پڑھتا تھا….دو مہینے پہلے یہ مجھ سے پہلی بار ملا اور اس نے بتایا تھا کہ یہ مزدوری کر رہا ہے مگر زندگی بہت سخت ہے….تاہم یہ مشکلات سے بھی لڑ رہا تھا….آخری بار کوئی ایک مہینے پہلے یہ مجھ سے ملا تھا….میں نے اسے اپنا کارڈ دیا تھا اور کہا تھا کہ مجھ سے رابطے میں رہے….میں اس کے لیے کسی بہتر ملازمت کی کوشش کر رہا تھا….پھر میں نے اسے ایک جگہ کام بھی دلوایا مگر چند ہی دنوں میں وہ کام بھی چھوٹ گیا….ویسے میں یقین دلاتا ہوں سر….یہ اب کسی غلط کام میں ملوث نہیں تھا….میں اس کے شریف ہونے کی پوری ذمہ داری لے سکتا ہوں…. میں نے اپنی زندگی میں بہت کم لوگ دیکھے ہیں جو اس حد تک تبدیل ہونے کے بعد مشکلات اور غربت سے لڑتے ہوئے زندگی گزارنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔“
احمد صدیقی نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا: ”انسپکٹر راشد شیرازی….کبھی کسی کی شرافت کی قسمیں مت کھایا کرو ….ہم لوگوں کو جیسا سمجھتے ہیں….وہ عام طور پر ویسے نہیں ہوتے۔“
اس نے نہ سمجھنے والے انداز میں کہا: ”میں سمجھا نہیں سر؟“
احمد صدیقی نے جیب سے گراری والا چاقو اور ہزار ہزار کے نوٹوں والی گڈی نکال کر انسپکٹر کو دکھاتے ہوئے کہا: ”یہ ایک لاکھ روپے اور یہ گراری والا چاقو آپ کے اس شریف مجرم دلاور ملک کی جیب سے نکلا ہے….اس لیے آپ اس کی شرافت کی قسمیں نہ کھائیں….شریف لوگ جیب میں گراری والے چاقو نہیں رکھا کرتے اور نہ ہی غریب مزدوروں کی جیب میں ایک لاکھ روپے ہوتے ہیں۔“
انسپکٹر راشد شیرازی حیرت سے چاقو اور نوٹوں کو دیکھنے لگا۔
”ناقابل یقین ….“ اس نے بڑ بڑا کر کہا: ”سر….میں یقین نہیں کر سکتا….اس نے کبھی زندگی میں کوئی ہتھیار اپنے ساتھ نہیں رکھا ….جن دنوں چوری کرتا تھا، تب بھی نہیں رکھا….اب کیسے رکھ سکتا ہے جبکہ اب تو وہ مزدوری کرتا ہے ….نہیں سر ….یہ چاقو اس کا نہیں ہو سکتا۔“
”یہ ہمیں اسی کی جیب سے ملا ہے۔“ انسپکٹر رانا نے تائیدی انداز میں کہا۔
”یہ بات تو میرے حلق سے ہی نہیں اُتر رہی….میں دلاور ملک کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں ….وہ چوریاں ضرور کرنے لگا تھا مگر بہت ڈرپوک تھا۔ ہاں….! میں یہ مان سکتا ہوں کہ حالات سے مجبور ہو کر شاید دلاور نے دوبارہ چوری کرنے کا ارادہ کر لیا ہو مگر میں یہ کبھی نہیں مان سکتا کہ اس نے اپنے پاس کوئی چاقو وغیرہ رکھا ہو۔“
احمد صدیقی اس کی طرف غور سے دیکھ رہے تھے۔ کہ ذرا چبھتے ہوئے لہجے میں کہا: ”اور کیا جانتے ہیں آپ دلاور ملک کے بارے میں؟“
”ہر وہ بات جو عام طور پر ایک پولیس انسپکٹر اپنے مجرم دوست کے بارے میں جان سکتا ہے۔“ انسپکٹر شیرازی نے کہا۔
”کیا دلاور ملک بھی….وہی سگریٹ پیتا تھا۔ جو آپ پیتے ہیں؟“ علی نے اچانک پوچھا۔
انسپکٹر شیرازی نے اس کو چونک کر دیکھا….پھر اپنے ہاتھ میں موجود سگریٹ کے پیکٹ کو دیکھا اور انکار میں سر ہلایا۔
”میرا خیال ہے….وہ سگریٹ نہیں پیتا تھا۔ میں نے اُسے کبھی سگریٹ پیتے نہیں دیکھا….ایک بار اسے سگریٹ پیش کی تو اس نے انکار کر دیا تھا۔“
”اوہ ….اچھا ….“ علی نے لمبی سانس لے کر کہا۔
”آپ نے یہ سوال کیوں پوچھا؟“ انسپکٹر شیرازی کو تجسس ہوا تو انھوں نے علی سے سوال کیا۔
”اس لیے کہ ….اسے جس چھت سے پھینکا گیا تھا…. وہاں تازہ پی ہوئی سگریٹ کے چند ٹوٹے ملے ہیں اور وہ اسی برانڈ کے تھے جو برانڈ آپ کے ہاتھ میں ہے۔“ عمر نے انسپکٹر کو آگاہ کیا۔
انسپکٹر راشد شیرازی نے ایک لمحہ سوچا، پھر کاندھے اُچکا کر کہا: ”ممکن ہے ….جس نے اسے پھینکا ہو….وہ بھی یہی سگریٹ پیتا ہو۔“
”ہاں۔“ صدیقی صاحب نے مزید کہا: ”ویسے سگریٹ پینا چھوڑ دیں….اچھی عادت نہیں ہے۔“
”جی بالکل….میں پہلے ہی کوشش کر رہا ہوں۔“ اس نے جواب دیا۔
”اچھا….کیا یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کون ہے جو اس دلاور ملک کی جان لے سکتا ہے….؟ کوئی اس کا جاننے والا….؟ کوئی ایسا شخص جس کا اس نے کبھی تذکرہ کیا ہو کہ اسے اُس سے خطرہ ہے ….یا ہو سکتا ہے….“ عمر نے پوچھا۔
انسپکٹر راشد شیرازی نے انکار میں سرہلاتے ہوئے کہا: ”نہیں….اس کے مزید دوستوں کے بارے میں مجھے علم نہیں….نہ کبھی اس نے کسی کا تذکرہ کیا….“
”اچھا….! اس کے گھر والے ….یا کوئی رشتے دار؟“ علی نے پھر ایک سوال پوچھنا چاہا۔
”رشتے داروں کا تو علم نہیں، ہاں….اس کی ایک بیوی ہے۔“ انسپکٹر شیرازی نے بتایا۔
”بیوی….؟“ علی نے سوالیہ لہجے میں کہا۔
”جی ہاں ….بیوی“ اُس نے بتایا۔
”کہاں رہتی ہے وہ؟“ علی نے پوچھا۔
”خدا کی بستی میں….یہاں سے کوئی تین کلو میٹر دور۔“ انسپکٹر شیرایز ی گویا ہوئے۔
”ایڈریس ہے آپ کے پاس؟“علی نے مزید پوچھا۔
انسپکٹر راشد شیرازی نے اثبات میں سر ہلایا تو صدیقی صاحب نے عمر کو مخاطب کر کے کہا: ”عمر….دلاور ملک کے گھر کا ایڈریس لکھو….ہم ابھی وہاں جا رہے ہیں۔ کیا نام بتایا اُس کی بیوی کا….؟“
”جی خالدہ ….“ انسپکٹر راشد شیرازی نے جواب دیا۔
عمر نے انسپکٹر شیرازی سے ایڈریس پوچھ کر اپنے سیل فون میں محفوظ کیا اور پھر احمد صدیقی، عمر اور علی خدا کی بستی کی طرف روانہ ہوگئے۔
کچھ ہی دیر میں وہ دلاور کے گھر پہنچ گئے۔ وہ ایک چھوٹا سا دو کمرے کا کچا گھر تھا۔ جس کی حالت باہر سے ہی مخدوش دکھائی دیتی تھی۔
”چلو! عمر….دستک دو….“علی نے کہا۔
عمر نے آگے بڑھ کر دستک دی تو کچھ دیر بعد ایک تیس سال کی سادہ سی غریب عورت نے دروازہ کھولا۔ حلیے سے گھر کی ماسی لگ رہی تھی۔
”جی کون؟“ اس نے انھیں اجنبی نظروں سے دیکھا۔
”آپ ہی کا نام ’خالدہ‘ ہے؟“ عمر نے پوچھا۔
”جی ہاں….!“ اس نے جواب دیتے ہوئے ان سب کو باری باری دیکھا۔
”آپ دلاور ملک کی بیوی ہیں؟“ صدیقی صاحب نے سیدھا سیدھا سوال کیا۔
اس نے حیران نظروں سے دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور کہا: ”لیکن آپ لوگ کون ہیں؟“
احمد صدیقی ذرا آگے بڑھے اور نرم لہجے میں کہا: ”بہن جی ….میرا نام احمد صدیقی ہے اور یہ دونوں میرے بیٹے ہیں….ہمیں آپ سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔“
”مجھ سے بات کرنی ہے مگرکس سلسلے میں؟“ اس نے تعجب سے ایک بار پھر ان سب کو دیکھا۔
”دلاور ملک کے حوالے سے….“ صدیقی صاحب نے کہا۔
اس نے اپنا دوپٹہ درست کیا اور فوراً بولی: ”جی….کیجیے، کیا بات کرنی ہے؟“
”کیا ہم اندر بیٹھ کر بات نہیں کر سکتے؟“ علی نے پوچھا۔
خالدہ ذرا شش و پنج میں مبتلا ہوکر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی تو صدیقی صاحب نے اطمینان دلاتے ہوئے کہا: ”آپ گھبرائیں مت….ہمارا تعلق ایک خفیہ ایجنسی سے ہے۔ ہم بس آپ کے شوہر دلاور ملک کے حوالے سے آپ سے کچھ سوال کرنے آئے ہیں۔“
وہ ذرا پریشان ہو کر بولی: ”جی….اندر آجائیں۔“
اس نے اُن کے اندر آنے کے لیے دروازہ کھول دیا…. وہ تینوں دروازے کے ساتھ ہی موجود کمرے میں داخل ہو گئے۔
اندر ایک چارپائی اور ایک پرانا سا صوفہ رکھا ہوا تھا۔ وہ صوفے پر بیٹھ گئے اور خالدہ ایک طرف کھڑی ہو گئی۔
”جی فرمائیے….پوچھیے کیا پوچھنا ہے؟“ خالدہ نے عجلت میں پوچھا۔
”آپ کے شوہر….مطلب دلاور ملک کیا کام کرتے ہیں؟“ عمر نے آہستہ سے پوچھا۔
”جی ….وہ ایک ہوٹل پر کام کر رہے تھے۔ پھر وہ کام چھوٹ گیا….اب وہ کسی پٹرول پمپ پر کام کی تلاش میں جارہے ہیں۔“
”کب سے؟“ عمر نے پوچھا۔
”چار پانچ دن سے…. “ اس نے جواب دیا۔
”اس سے پہلے وہ کیا کرتے تھے؟“ اب سوال صدیقی صاحب نے کیا۔
”ہوٹل پر کام کرتے تھے۔“ خالدہ نے بتایا۔
”نہیں….اس سے بھی پہلے….“ صدیقی صاحب نے دوبارہ پوچھا۔
خالدہ نے نظریں اُٹھا کر ان کی طرف دیکھا، اور چپ ہوگئی۔ وہ کچھ بول نہیں پائی۔
احمد صدیقی نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ”دیکھیے ہم سے کچھ چھپا نہیں ہے…. ہمیں سب معلوم ہے۔ ہم تو بس آپ سے تصدیق کرنا چاہ رہے ہیں۔“
”لیکن کیوں….؟ کیا ضرورت ہے….؟ اب تو وہ یہ سب کچھ چھوڑ چکے ہیں….اب کیوں آپ ان کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں؟“ خالدہ نے جذباتی ہو کر کہا۔
احمد صدیقی نے ایک طویل سانس لے کر کہا: ”ضرورت پیش آگئی ہے….اس لیے پوچھ رہے ہیں۔“
خالدہ ایک دَم سے چونکی جیسے کوئی خیال آگیا ہو اور پھر اُس نے گھبرا کر پوچھا: ”کک….کہیں انھوںنے پھر سے تو ….؟“
احمد صدیقی نے اس کی بات کاٹ دی اور کہا: ”نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے….آپ یہ بتائیں….کیا آپ کے علم میں کوئی ایسا شخص ہے، جس کے بارے میں آپ کا خیال ہو کہ وہ آپ کے شوہر کا دشمن ہے اور اُنھیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔“
”کک….کیا مطلب؟“ وہ گھبرا گئی۔
”مطلب ….کیا آپ ایسے کسی شخص کو جانتی ہیں….جو آپ کے شوہر کی جان لینے کی کوشش کر سکتا ہو؟“
خالدہ کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔

( جاری ہے )

 

٭….٭

اس قسط کے مشکل الفاظ
سرِ دست: ابھی، اس وقت، حتیٰ الحال
نگہداشت: نگرانی، حفاظت
راہداری: راستہ، گزر گاہ، کسی کمرے کے دروازے اور اصل مکان کے درمیان کا پتلا راستہ، ڈیوڑھی
مخدوش: خراب، بُری، خطرناک
شش و پنج: سوچ بچار، گھبراہٹ