دنیا کا ساتواں براعظم برف کی ایک ایسی منجمد دنیا ہے جہاں انسانوں کے لیے رہائش نا ممکنات میں سے ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اگر انسان یہاں نہیں رہ سکتا تو کوئی بھی نہیں رہ سکتا۔ فطرت نے یہاں بھی مختلف مخلوقات کی چہل پہل لگا رکھی ہے۔ پینگوئن، سمندری شیر، برفانی ریچھ اور بہت سی انواع کے برفانی پرندوں نے براعظم ’انٹارکٹیکا‘ کو اپنے دَم سے آباد کر رکھا ہے۔
’قادوس‘ بھی ایسا ہی ایک پرندہ ہے۔ جس نے انٹارکٹیکا کے چہار طرف اپنی پُروقار اُڑان کا گھیرا ڈال رکھا ہے۔ تیز برفانی ہوائیں، برف کے طوفان اور یخ بستہ موسم ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ قادوس ایسے خطرناک موسموں کے تیور بھی خاطر میں نہیں لاتے اور مسلسل اُڑتے چلے جاتے ہیں۔ یہ دنیا کا واحد پرندہ ہے جو تمام پرندوں کے مقابلے میں اپنی حیات کا بیشتر وقت اُڑان میں صرف کرتا ہے۔ ان کی دس کے قریب انواع ہیں۔ سب سے بڑی ’وینڈر‘ اور شاہی قادوس ہیں۔ جن کے پَروں کا پھیلاﺅ انسان کے دونوں بازوﺅں کی درازی سے دو گنا زیادہ یعنی ۲۱ فٹ تک ہوتا ہے۔ اسی لیے ان کا شمار بڑے آبی پنچھیوں میں ہوتا ہے۔ ان کی سب سے چھوٹی نسل ’انڈین‘ ہے جس کے پَروں کا پھیلاﺅ ۵ئ۶ فٹ تک ہوتا ہے۔ یہ اپنی اوسط ۰۵ سالہ عمر میں ۷ئ۳ ملین میل تک اُڑتا ہے۔ ایک سال میں کئی بار برف کے براعظم کا چکر لگاتا ہے۔ ان کے دماغ میں کبوتر سے ملتا جلتا وہی قدرتی آلہ کمپاس (قطب نما) نصب ہوتا ہے جس کی مدد سے یہ زمین کی سمت کا درست اندازہ لگا سکتے ہیں۔ صرف اپنے اکلوتے بچے کے لیے ہی ایک بار کی خوراک کا انتظام کرنے میں ۰۰۰،۰۱ میل کا چکر لگاتا ہے۔ ان کی ایک دن کی اوسط اڑان ۰۰۵ میل تک یعنی پرندوں کے بادشاہ شاہین سے بھی زیادہ ہے۔
قادوس کا ایک اور نام ’الباطروس‘ بھی ہے۔ یہ پرندوں کے ماہر ترین شکاری ہیں اور پینگوئین کے انڈے اور بچے بھی کھاجاتے ہیں۔ شاہین اور باز کی طرح مڑی ہوئی چونچ منٹوں، سیکنڈوں میں مچھلیوں کی چیر پھاڑ کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ یہ ایک دن میں ۵ سے ۷ کلو تک مچھلیاں کھاجاتا ہے۔ اونچی لہروں میں بھی اپنی تیز آنکھوں سے پانی میں مچھلی کو دیکھ کر عین نشانے پر غوطہ مار کر پکڑ لیتا ہے۔ اس کا تعلق بطخ کے خاندان سے بھی ہے کیوں کہ یہ بالکل بطخ کی طرح سطحِ آب پر تیرتا ہے، اس مقصد کے لیے اس کے پیروں کے درمیان بھی وہی جھلی ہوتی ہے جو بطخ کے پیروں کے درمیان ہوتی ہے۔
دنیا کے پانچوں براعظم میں ان کا گوشت بھی بڑے ذوق سے کھایا جاتا ہے۔ اسی لیے انسانوں نے ان کا بے دریغ شکار کرکے ان کی نسل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے تاہم اب عالمی حیوانی حقوق کی تنظیموں کے خبردار کرنے پر اس کی نسل کو بچانے کی عملی کوشش شروع کردی گئی ہے۔
نیوزی لینڈ کے سیکڑوں جزائر ان کی سب سے اہم قیام گاہ ہیں، جزیرہ جے سن پر لگ بھگ ۴ لاکھ ماداﺅں نے ایک ہی قطعہِ ارض پر اپنے گھونسلے بنائے ہوئے ہیں۔ قادوس کی یہ نسل ’بلیک براﺅڈ‘ کہلاتی ہے۔ دنیا بھر کی مادائیں کسی ویران جزیرے کا انتخاب کرکے ایک ہی جگہ گھونسلہ بناتی ہیں تاکہ اتحاد کی برکت سے ایک دوسرے کے گھروں کی حفاظت ممکن ہوسکے۔ اتنی بڑی تعداد میں اپنے اکلوتے انڈے اور بچے کو ہر مادہ الگ سے پہچان کر اپنے ہی گھر میں آتی جاتی ہے۔ یقین نہیں آتا تو اس تصویر میں خود دیکھ لیجیے اور اگر ممکن ہو تو گن کر بھی بتائیں۔