”بچے ہمارے عہد کے“ پڑھنے کے بعد جب ہماری آپی اور بھائی جان نے ہمیں ہر شاخ کے بچوں سے ملانا شروع کر دیا اور ہماری ناک کم کان میں زیادہ دم کر دیا تو ہم نے سوچا کیوں نہ اب بڑے ہمارے عہد کے اوپر کچھ روشنی ڈالی جائے پھر ہم نے بغیر کسی تاخیر کے اس نیک سوچ کو عملی جامہ پہنا لیا۔
بچوں کی طرح بڑوں (آپی اور بھائی جان) کی بھی کئی اقسام ہوتی ہیں جن میں سے ہم چند ایک آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔
حد درجہ سست
اس قسم کے بڑوں کی ایک کثیر تعداد پائی جاتی ہے جن کا آج تک کوئی علاج دریافت نہ ہوسکا۔ ان کوہلنے جلنے سے سخت نفرت ہے۔ (صرف اپنا ہلنا جلنا) اگر (ویسے تو زیادہ تر) یہ پائوں پھیلائے بیٹھے ہوں اور ان کے پائوں میں مچھر کاٹے تو (بڑی مشکل سے) آواز لگا کر چھوٹے بھائی بہن کو بلاتے ہیں اور کہتے ہیں : ”یہ پائوں پر بائیں طرف مچھر بیٹھا ہے اسے اڑانا ذرا۔“
رعب جمانے والے
اس طرح کے بڑوں کی ایک فیصد تعداد ہے۔ جو اپنے سے چھوٹے بھائی بہنوں پر رعب جمانا اپنا حق اور
فرض سمجھتے ہیں۔ ایسے بڑے ہم بچوں کا جینا دو بھر کر دیتے ہیں۔ ان کے رعب جمانے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ حال ہی میں ہمارے بھائی جان نے اردو سیکھنے (اور ہم پر آزمانے) پر توجہ دینی شروع کی ہے۔ اب وہ جب کوئی لفظ سیکھ کر آتے ہیں اس کی مشق سب سے پہلے ہم پر کرتے ہیں۔ ان کے چند جملے پیش خدمت ہےں۔ ”عاصم تمہیں پتاہے میں کتنا متواضع (دوسروں کی خدمت کرکے خوش ہونے والا) ہوں۔ ”تمہارے اندر ”قلت عزم“ کی کمی نہ ہو تو تم دنیا پر چھا سکتے ہو۔ تم بادی النظر (دیکھتے ہی، ظاہری طور پر) بھنگی لگتے ہو، وغیرہ وغیرہ اور وغیرہ ۔کیونکہ اگر آگے بھی لکھا تو رہی سہی عزت بھی ختم ہوجائے گی۔
بلاوجہ ٹوکنے والے
ایسے بڑے، ہرگھر میں ضرور ہوتے ہیں جو بات بے بات پر روکتے ٹوکتے ہیں اور کبھی کبھی ایسی بات پر ٹوکتے ہیں کہ ’فوم‘(گدے) پر سر مارنے کو دل چاہتا ہے جیسے ”ابھی تو واش روم گئے تھے پھر کیوں جا رہے ہو؟ اب اس کا کیا جواب ہونا چاہیے۔
”اف دوسری بار قمیص بدل رہے ہو۔ اتنا پسینہ کیوں آتا ہے تمہیں؟“
دریاے راوی بہہ رہی ہے ناں جسم میں اس لیے۔ اگر اس قسم کے بڑے زیادہ ہوتے تو آج دنیا ختم ہوچکی ہوتی۔
کام نکلوانے والے
اس طرح کے بڑے بھی ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو اپنا کام چھوٹے بھائی بہن سے کرواتے ہیں۔ ان کے لہجے میں ایسی محبت اور مٹھاس ہوتی ہے کہ ان کو انکار ہی نہیں کیا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف ہم سے کچھ لکھا بھی نہیں جا رہا۔ اس لیے آگے بڑھتے ہیں۔
ٹینشن دینے والے
اس قسم کے بڑے ہماری نظر میں بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ ہمارے اسکول سے واپسی پر بلاناغہ یہ سوال پوچھ کر ہمیں ٹینشن میں مبتلا کرنے کی سازش کرتے ہیں کہ
ہوم ورک کتنا ملا؟
کوئی ٹیسٹ ملا ….اور
جو کل ٹیسٹ ہوا تھا اس میں کتنے نمبر آئے؟
امتحان کے دنوں میں یہ ہمیں ٹینشن کا مریض بنا دیتے ہیں اور آخر مجبور ہو کر ہم یہ سوچتے ہیں کہ اگر یہ امتحان جلد نہ ختم ہوا تو ہم ضرور ختم ہوجائیں گے۔
اپنی بات کے الٹ کرنے والے
ایسے بڑے اپنا ہر کام اپنی بات کے الٹ کرتے ہیں مثلاً جب ہم اسکول سے واپس آتے ہیں تو زور دار آواز میں کہا جاتا ہے ”اپنا بیگ جگہ پر رکھنا اور خبردار جو موزے کو ادھر ادھر پھینکا تو“ اور جب وہ خود کالج سے واپس آتے ہیں تو ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ان کا بستر وغیرہ جگہ پر رکھا جائے۔
ایک تیر سے دو شکار کرنے والے
اس قسم کے بڑے تمام بچوں کو جمع کرکے کہتے ہیں ”چلو آئو تم سب کو ایک مزے دار کہانی سناتا سناتی ہوں پھر کہانی شروع کرنے سے پہلے تمام بچوں کو الگ الگ کام پر لگاتے ہیں کہ تم پائوں دبائو، تم ہاتھ دبادو، تم ایسا کرو سر میں جس طرح مالش کرتے ہیں اس طرح کرو اور تم دل چھوٹا نہ کرو میری پیٹھ سہلا دو۔ یعنی کسی بچے کو مایوس نہیں کرتے اور مزے کی بات۔ ان کی کہانی کوئی ایک دو گھنٹے میں ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ کہانی لگاتار تین سے چار دن تک چلتی ہے اور اس طرح وہ ایک تیر سے دو شکار کرتے ہیں یعنی اپنی ناقابل اشاعت تحریر ہمیں سنا بھی دیتے ہیں اور اپنی خدمت بھی کروا لیتے ہیں۔
نصیحت کرنے والے
ایسے بڑے صرف اس وقت خطرناک ہوجاتے ہیں جب ہم کوئی آئس کریم وغیرہ کھا رہے ہوں اور ان کو پتا چل جائے، پہلے تو حیرانی سے ہماری آئسکریم کو دیکھ کر کہتے ہیں: ”یہ کون سی آئسکریم ہے چکھانا ذرا۔“ اور پھر آئس کریم لے کر بھول جاتے ہیں کہ صرف چکھنے کے لیے مانگی تھی اور ساری آئسکریم کھانے کے بعد ہماری رونی صورت دیکھ کر سمجھانے والے انداز میں بولتے ہیں: ”اتنی خراب آئسکریم کھانے جارہے تھے وہ تو اچھا ہوا میں نے دیکھ لیا ورنہ تمہارا گلا خراب ہوجاتا اور ڈاکٹر تمہیں بڑا والا (ہاتھ کے اشارے سے بتاتے ہوئے) انجکشن لگادیتا“ اور ہم ان کی نصیحت سے متاثر ہو کر ان کا لاکھ شکریہ ادا کرتے ہیںکہ آپ نے ہمیں بروقت اس خراب آئسکریم کھانے سے بچا لیا۔
ویسے تو بڑوں کی اور بھی بہت سی اقسام ہیں اگر ہم گنوانے بیٹھ جائیں تو ایک خاص نمبر صرف آپی اور بھائی جان پر ہی بن جائے اور ویسے بھی جن کے آپی یا بھائی جان ہوں گے انہیں معلوم تو ہوگا کہ اور کون کون سی اقسام ہوتی ہیں۔ فی الحال تو ہم اپنی جان کی امان کے لیے دعا کرنے جارہے ہیں آپ سب بھی دعائوں میں یاد رکھیے گا….!
٭….٭