’اسکول نمبر‘ توقعات کے مطابق بھرپور ہے۔ ساتھی والوں کو جو بھی سوجھتی ہے، خوب سُوجھتی ہے۔ ہمیں نہیں یاد کہ اس عنوان سے بچوں کے کسی رسالے نے خاص نمبر نکالا ہو۔ اس سے پہلے جو خصوصی شمارے آئے وہ بھی انوکھے ضرور تھے۔ بہت دل چاہا کہ اسکول نمبر کے لیے ہم بھی کچھ لکھیں، پھر خیال آیا سارے بچے (ساتھی) ہماری غلطےاں پکڑیں گے، خواہ اسکول میں کی ہوں یا اس تحریر میں جو لکھی نہیں جاسکی۔
’اسکول نمبر‘ کے سرورق پر تو اسکول کے لوازمات ہی چھائے ہوئے ہیں۔ بڑی سی پینسل کے ساتھ ساتھی بھی جھانک رہا ہے ۔ گویا یہ بھی کلاس میں چُھپ چُھپا کے پڑھا جاتا ہے۔ بچے کسی کو نہ بتائیں، ہم کلاس میں ڈیسک کے نیچے چھپا کر ابن صفی کے ناول پڑھا کرتے تھے۔ اب بچوں سے کیا کہیں کہ ایسا نہ کریں۔ اسکول نمبر کے لیے نہ لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔
عبدالرحمن مومن ساتھیوں کو علامہ اقبال ؒبا تفسیر پڑھا کر رہیں گے۔ اچھا سلسلہ ہے۔ السلام علیکم میں بھی بچوں کو اسکول اور ساتھی کو پریس (مطبع) بھیج کر اپنی نیند پوری کر رہے ہوں گے۔ اسکول نمبر کے بارے میں قارئین سے راے طلب کی گئی ہے ۔ ہم بغیر پڑھے ہی کہہ دیتے ہیں کہ بہت خوب۔ ساتھیوں پر اعتماد ہے۔
بینا صدیقی نے ساتھی کا آغاز ’صفر‘ سے کیا ہے۔ یعنی پہلی کہانی ان ہی کی ہے اور خُوب ہے۔ ان کی کہانی ’ صفر کا سفر‘ دلچسپ ہے اور سبق آموز بھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر بینا صدیقی بڑی کہانی بُن ڈالتی ہیں۔ شاید کبھی سویٹر بُنتی ہوں، جس کا رواج اب ختم ہو رہا ہے۔ ویسے تو یہ ایک محاورہ ہے ”بات کا بتنگٹر بنانا“۔ لیکن بینا پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ وہ بات سے بات نکالتی ہیں۔ آخر میں یہ سبق کہ ” صفر کہیں بھی کسے بھی ملا ہو، اس کا غصہ اُتار کے اپنوں کو صفر نہیں کرنا چاہیے۔“ عموماً یہ ہوتا ہے کہ باہر ڈانٹ کھا کر آنے والے اپنے گھر والوں پر غصہ اُتارتے ہیں۔ ساتھی کے نو نہال بڑے ہو جائیں تویہ کام نہ کریں۔
عظمٰی ابو نصر صدیقی نے صفّہ اور اہل صفہ کا تعارف دلچسپ انداز میں کروایا ہے۔ ایک جملہ ہے ”یہ ہے صفہ کا چبوترہ۔“ بہت پہلے کہیں پڑھا تھا کہ صفہ کا مطلب ہی چبوترہ ہے بلکہ انگریزی کا صوفہ، صفہ ہی سے انگریزی میں گیا ہے۔ چبوترے کو کھجور کی چھال سے ڈھانکا گیا تھا۔ یعنی چھت ڈالی گئی تھی۔ اس کام کے لیے کھجور کی چھال نہیں، کھجور کی شاخیں استعمال کی جاتی ہیں، مسجدِ نبوی کی چھت بھی ایسے ہی ڈالی گئی تھی۔ کھجور کی چھال تنے کو چھیل کر حاصل کی جاتی ہے؟ بہرحال اصل بات تو اصحاب صفّہ کا تعارف ہے۔ ایک جملہ ہے ”شکستہ ہو کر اُلٹے پیر بھاگ کھڑے ہوئے۔“ یا تو دل شکستہ کہا جاتا یا شکست خوردہ ہو کر۔ محاورہ اُلٹے پیروں ہے، اُلٹے پیر نہیں۔“
صفحہ ۲۰ پر چوکھٹے میں فائزہ اقبال کا مرسلہ ”اسکول پر حملہ“ میں آٹھویں سطر تک آتے آتے دو سال بڑھ گئے یعنی ۲۰۱۴ء۲۰۱۶ءہوگیا۔ یہ پروف کی غلطی ہے۔
”اسکول کی دیوار“ فوزیہ خلیل کی بہت موثر کہانی ہے لیکن ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ کہانی لکھنے والے جس کردار کو کہانی میں شامل کریں ، خود پر وہی کردار طاری کرلیں اور اسی کے الفاظ میں بات کریں۔ اس کہانی میں چھوٹے سے گاﺅں کے اسکول کا ذکر ہے۔ مرکزی کردار ولید چوتھی جماعت میں داخل ہوا ہے، جس کے یونیفارم پر جا بجا دھبے تھے، منھ ہاتھ بھی کم ہی دُھلا ہوا ہوتا تھا۔ پاکستان کے کس چھوٹے سے گاﺅں کے پرائمری اسکول میں بچوں کے لیے یونیفارم کا اہتمام کیا جاتا ہے؟ اب ذرا گاﺅں کے اسکول کی چوتھی جماعت کے بچے کی گفتگو پڑھیے، ”میری دنیا اندھیر ہوگئی۔ ابا ایک مہلک بیماری سے لڑ رہے ہیں۔ میری امی میری پڑھائی میں بہت دلچسپی لیتی تھیں مگر اب کون لے دلچسپی؟ یہ پرس میری امی کا ہے، میری امی کی آخری نشانی ہمیشہ اپنے پاس ہی رکھتا ہوں۔ ان نوٹوں پر میری امی کے ہاتھ لگے ہوں گے…. جیسے وہ میرے قریب ہی ہوں، یہیں کہیں میرے آس پاس۔“ گاﺅں دیہات میں تو آج بھی خواتین پرس نہیں رکھتی ہوں گی۔ ایسی ہی ایک مثال ”حماد گیا اسکول“ میں ملتی ہے۔ ایک بچہ جو ابھی اسکول میں داخل بھی نہیں ہوا، کہتا ہے ”تارے رقص کرتے ہوئے کتنے پیارے لگیں گے۔“ (صفحہ: ۱۳۹) جب کہ اس کی آپی نے ”تارے ناچتے“ کہا تھا۔ ممکن ہے یہ لفظ ٹی وی نے سکھا دیا ہو۔ کہانی بہرحال دلچسپ ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ سہیلیاں اپنی سہیلی کے چھوٹے سے بھائی سے لاڈ پیار کرتی ہیں، طنز نہیں کرتیں۔
گل ِرعنا کا ترجمہ ”کنڈر گارٹن“ حسب ِمعمول دلچسپ اور رواں ہے۔ یہ ایک ناول کا ٹکڑا ہے لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پورا ناول ہی دلچسپ ہوگا، گل رعنا ہمت کرکے ترجمہ کر ڈالیں۔ سابق مدیر ِساتھی اعظم طارق کوہستانی کی تحریر ”وہ زخم“ بہت پُراثر ہے۔ انھوں نے ”سبک“ کو تیزی کے معنوں میں استعمال کیا ہے یعنی ”ماضی کے اوراق بڑی سبک رفتاری کے ساتھ۔“ سامنے کا لفظ تھا تیزی کے ساتھ۔ لیکن ہمیں بھی مشکل الفاظ استعمال کرنے کا شوق ہے کہ اس سے رعب پڑتا ہے۔ سبک کا مطلب ہے ہلکا، خفیف، نازک۔ جیسے یہ کہا جائے کہ ”اعظم طارق کوہستانی ساتھی کی ذمے داریوں سے سبکدوش ہوگئے۔“ یعنی ان کے کندھے ہلکے ہوگئے۔ سبک سار (فارسی) کا مطلب ہے ہلکے بوجھ والا۔
آوے کا آوا بگڑنا (صفحہ: ۷۳) مطلب صحیح دیا ہے کہ کسی برائی میں یکساں مبتلا ہونا لیکن لغت نویس بچوں کو یہ بھی تو بتائیں کہ ”آوا“ کیا ہوتا ہے؟ نیر کاشف نے اسٹاف روم کا اچھا نقشہ کھینچا ہے۔ موند، بند یا میچنے کا عمل صحیح ہے لیکن موند اکیلا نہیں آتا بلکہ عموماً آنکھوں کے ساتھ آتا ہے ، جیسا کہ کہانی میں بھی ہے۔ عاقب جاوید نے عجیب و غریب اسکولوں کا تعارف کروایا ہے جو دلچسپ اور معلوماتی ہے۔ ہمارے خیال میں ہیری پورٹر کا نام ”پوٹر“ ہے۔ یہ ناول بچوں کے پاس دیکھا ہے، ”رہائشی ضروریات زندگی“ میں یا تو رہایشی ضروریات ہوتا یا ضروریات زندگی۔ لغت کے مطابق تہہ نہیں تہ ہوتا ہے ورنہ تو تلفظ ” تہے“ ہو جائے گا۔ (صفحہ: ۱۵) تہے کی آواز نکالنے کے لیے عام طور پر تہ کے (ہ) کے نیچے ایک زیر لگا دیا جاتا ہے یعنی تہِ۔
”ریٹائرڈ اسکول بس کا انٹرویو‘دلچسپ اور اچھوتا عنوان ہے لیکن جس طرح پرانی کھٹارا بس جھٹکے کھاتی ہوئی چلتی ہے، اسی طرح تحریر بھی بار بار جھٹکے لے رہی ہے۔ کاش اسے ایک بار پڑھ لیا ہوتا۔ تحریر پر کسی کا نام نہیں اور یہ ”ادارہ“ سے منسوب ہے ۔ گویا پورا ادارہ غلطیوں میں شامل ہے۔ غلطیوں کا آغاز پانچویں سطر ہی سے ہو جاتا ہے، تفصیل میں کیا جانا۔ آخر تک یہ طے نہیں ہوا کہ بس مذکر ہے یا مونث۔ آغاز میں ہے ”چلو (مجھے) اپنا تعارف کروا ہی دیتی ہوں۔ اس سے ظاہر ہے کہ بس مونث ہے۔ اگلے صفحے پر ”کہاں کہاں اپنی خدمات دے چکے ہیں۔“ یہاں پر بس مذکر ہوگئی۔ بسیں درآمدات و برآمدات کے لیے استعمال نہیں ہوتیں۔ (صفحہ: ۵۵) بلکہ آمد و رفت کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
نذیر انبالوی کی ”اپناگھر“ بہت اچھی تحریر ہے۔ کاش ایسے تمام بچے جو صاحب ِ ثروت ہو جائیں، اپنی مادر علمی کی حالت بہتر بنانے میں دلچسپی لیں۔ قائداعظم نے بھی اپنی جائداد کا کچھ حصہ سندھ مدرسة الاسلام کو دے دیا تھا۔ محمد الیاس نواز کی ”نقل مندی“ کچھ اُلجھی ہوئی تحریر ہے ۔ تاہم لب لباب یہ ہے کہ نقل پکڑی جاتی ہے۔ سیما صدیقی اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے ایک شگفتہ تحریر ”اسکول کا آسیب“ لائی ہیں لیکن جہانگیر جیسے بچوں کا علاج نہیں بتایا۔
عمیر علی نے انکشاف کیا ہے کہ کے الیکٹرک کے کال آفس سینٹر میں نابینا افراد کام کرتے ہیں۔ اب پتا چلا کہ بجلی غائب ہونے کی شکایت پر توجہ کیوں نہیں دی جاتی۔ حماد ظہیر کا ’فیئرویل‘ طویل ہونے کے باوجود دلچسپ لیکن حقیقت سے کچھ دور ہے۔ مشکل الفاظ کے معانی میں ”پاٹ“ کا مطلب بلند آواز دیا ہے لیکن پاٹ اکیلا نہیں آتا، اس کے ساتھ ”دار“ لگانا ضروری ہے۔ اکیلا آئے تو اس کا مطلب چکی کا پاٹ، دریا کا پاٹ یا کسی جگہ کو پاٹ دینا، بھر دینا۔ شہسوار کا مطلب کسی فن کو سکھانے والا، فن میں دسترس حاصل کرنے والا نہیں ہے۔ یہ شہ سوار ہے یعنی گھڑ سواری کا ماہر۔ نوشتہ (بروزن فرشتہ) دیوار کا مفہوم تو ٹھیک ہے لیکن اس کا مطلب ہے دیوار پر لکھا ہوا۔ ایمن احسن نے اُردو کو ایک نئی ترکیب دی ہے ”بوجھل ہونٹ۔“ بی بی! یہ کیا ہوتا ہے۔ بوجھل قدم، بوجھل دل وغیرہ تو سنا ہے اور مطلب ہے ”بوجھ والا۔“ ہونٹ کیسے بوجھل ہوں گے۔
بات کچھ لمبی ہوگئی، خاص نمبر بھی تو ہے۔ رسالے پر سارا تبصرہ تو سارا جاوید کر ڈالتی ہیں، ہمارے لیے بچتا ہی کیا ہے۔ خنسا شاہد نے پوچھا ہے کہ ہمارا نام کس نے رکھا ہے۔ بیٹا، بات یہ ہے کہ جب میں پیدا ہوا تو بہت چھوٹا سا تھا۔ اس لیے یہ بات پوچھ نہیں سکا۔ بڑے ہونے پر بتایا گیا کہ نانی نے بڑے بھائی کا یہ نام تجویز کیا تھا لیکن دادا نے ان کا نام سرور رکھ دیا۔ یہ بچا ہوا نام ہمارے حصے میں آگیا۔ اسے متروکہ تو نہیں کہیں گے کہ یہ لفظ قرآن کریم میں ہے۔ صلواتیں ص کے بجاے بہتر ہے کہ ”س“ سے لکھیں یعنی سلواتیں۔ ابن صفی مرحوم بھی اسی طرح لکھتے تھے۔
طوعاً و کرہاً کا مطلب چارو نا چار بالکل صحیح ہے۔ اس پر اضافہ یہ ہے کہ اس کا مادہ طوع ہے اور عربی میں طوع رضا کار کو کہتے ہیں۔ یہ دینی رضا کار ہیں، جو کسی کو غلط کام کرنے سے روکتے ہیں۔ شہزادے ان سے پریشان رہتے ہیں۔ سارا جاوید ”کہیں کوئی یہ نا سمجھے“ میں نا کی جگہ نہ آئے گا ورنہ….
خنسا شاہد نام تو تمھارا بھی پیارا ہے، اللہ تعالیٰ تمھارے نانا کو صحت کاملہ و عاجلہ عطا کرے۔ گزارش۔ عرض میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلو۔ حفصہ تنویر کی لذیذ ڈش بھی مہنگائی سے متاثر ہے چنانچہ ورق گردانی، گرانی ہوگئی، دال غائب ہے جو گلتی ہی نہیں ہے۔ چونگا یا چنگا کے بارے میں پھر سہی۔ ویسے چنگا کوئی نہیں بولتا، یہ تو چنگی کا مذکر معلوم ہوتا ہے۔ تبصرہ زیادہ طویل ہوگیا آخر خاص نمبر پر تھا۔ کچھ ہم نے حذف کردیا کچھ مدیران ساتھی کو اجازت ہے کہ کاٹ پیٹ کر دیں۔

٭….٭