(عدالت کا منظر۔ کالا کوٹ پہنے جج صاحب بیٹھے ہیں۔ ایک طرف وکیل ہیں جن کے ہاتھ میں فولڈ کی ہوئی فائل ہے، جسے بار بار لہرا کر وہ اپنی بات کہتے ہیں۔ عدالت میں بہت سے لوگ موجود ہیں)
وکیل: جناب! اجازت ہو تو سونومونو کیس میں گواہوں کو بلایا جائے۔
جج: ٹھیک ہے۔ گواہ رام لعل کو حاضر کیا جائے۔
چپراسی: (اسٹیج پر سے ایک طرف جا کر آواز لگاتا ہے) رام لعل حاضر ہو۔
(گواہ رام لعل سہما سہما داخل ہوتا ہے اور کٹہرے میں جا کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ معمولی کرتے پاجامے میں ملبوس ہے۔
جج: انہیں قسم دلائی جائے۔ (ایک شخص لال کپڑے میں لپٹی کتاب لے کر رام لعل کو قسم دلاتا ہے)
شخص: گیتا پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاﺅ کہ جو کہو گے سچ کہو گے اور سچ کے سوا کچھ نہ کہو گے۔
رام لعل: جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا، سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا۔
وکیل: ہاں تو رام لعل! سونو مونو کا جب جھگڑا ہوا تم کہاں تھے؟
رام لعل: جی صاحب، میں وہیں قریب کھڑا تھا۔
وکیل : یہ بتاﺅ کہ تم نے کیا دیکھا؟
رام لعل: یہی کہ سونو، مونو کو پیٹ رہا تھا۔
وکیل: تمہیں ٹھیک سے یاد ہے؟
رام لعل: جی ہاں، بالکل ٹھیک یاد ہے۔
وکیل: اچھا یہ بتاﺅ‘ آج صبح تم نے کیا کھایا تھا؟ مطلب یہ کہ کیا سبزی کھائی تھی؟
رام لعل (جج کی طرف دیکھ کر) صبح کی سبزی کا اس کیس سے کیا تعلق ہے؟
جج: (چونک کر) ہاں صبح کی سبزی سے کیس کا کیا تعلق؟ (سب ہنستے ہیں)
وکیل: تعلق ہے سرکار۔ آپ سوال پوچھنے کی اجازت تو دیں۔
جج: ٹھیک ہے۔ پوچھئے۔
وکیل: ہاں تو رام لعل، بتاﺅ کیا سبزی کھائی تھی؟
رام لعل: آج صبح تو صرف دال کھائی تھی وکیل صاحب (دال پر کچھ اس طرح زور دیتا ہے کہ سب ہنس پڑتے ہیں)
وکیل: کل کیا کھایا تھا؟
رام لعل: جی…. ٹھیک سے کچھ یاد نہیں…. شاید آلو…. یا
وکیل: (طنز سے) تمہیں یاد رہ بھی نہیں سکتا۔ مگر تمہیں بتانا ہے کہ کل کیا کھایا تھا اس سے پہلے دن کیا کھایا تھا؟ چھ مہینے پہلے کیا کھایا تھا؟
رام لعل: (گھبرا کر) اب یہ بھی کوئی یاد رکھنے کی بات ہے؟ آدمی روز کھانا کھاتا ہے۔ کھانے میں کیا کھاتا ہے یہ بھی کسی کو یاد رہتا ہے۔
وکیل: (مڑی ہوئی فائل کو زور سے کٹہرے پر ما رکر) اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری یادداشت کمزور ہے۔ (جج کی طرف دیکھ کر) اس آدمی کی یادداشت ٹھیک نہیں ہے جج صاحب، اسے یہ یاد نہیں کہ اس نے چھ مہینے پہلے کیا کھایا تھا، اس لیے سال بھر پہلے ہوئے سونو مونو کے جھگڑے میں اس کی شہادت پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا، عدالت سے درخواست ہے کہ اس گواہ کو کیس سے ہٹادیا جائے۔
جج: (تذبذب سے) ٹھیک ہے۔ آپ کہتے ہیں تو اس گواہ کو کیس سے ہٹادیتاہوں۔
(وکیل طنز سے مسکراتا ہے۔ عدالت میں سرگوشیاں ہونے لگتی ہیں۔ رام لعل اسٹیج کے پیچھے چلاجاتا ہے۔)
جج: اگلے گواہ کو پیش کیا جائے۔
چپراسی: پکارتا ہے ‘ شیام لال حاضر ہو۔
(وہی گواہ پھر حاضر ہوتا ہے لیکن اس مرتبہ اس کا انداز یکسر مختلف ہے، کافی پراعتماد نظر آرہا ہے)۔
وکیل: تمہارا نام؟
شیام لال: شیام لال۔
وکیل: حلف لو (شیام لال حلف لیتا ہے)
وکیل: اچھا بتاﺅ‘ جب سونو مونو کا جھگڑا ہورہا تھا تم وہاں موجود تھے؟
شیام لال: جی ہاں! میں وہاں موجود تھا۔
وکیل: کون کس کو پیٹ رہا تھا؟
شیام لال: سونو،مونو کو پیٹ رہا تھا۔
وکیل : اچھا شیام لال، یہ بتاﺅ تم نے صبح کون سی سبزی کھائی تھی؟
شیام لال: بینگن کا بھرتہ۔
وکیل:اور کل؟
شیام لال: بینگن کا بھرتہ کھایا تھا۔
وکیل: اور پرسوں کیا کھایا تھا؟ ترسوںکیا کھایا تھا؟ نرسوں کیا کھایا تھا؟
شیام لال: بینگن کا بھرتہ…. بینگن کا بھرتہ …. بینگن کا بھرتہ…. بینگن کا بھرتہ ہی کھایا تھا حضور (عدالت میں موجود لوگ ہنستے ہیں) جج صاحب ہتھوڑا میز پر بجا کر آرڈر آرڈر کہتے ہیں، سب خاموش ہوجاتے ہیں)۔
وکیل: خیر‘شیام لال یہ بتاﺅ چھ مہینے پہلے تم نے کیا کھایا تھا؟
شیام لال: (تپاک سے)بینگن کا بھرتہ، حضور!(سب لوگ ہنستے ہیں۔ جج صاحب ہتھوڑا بجاتے ہیں)
وکیل: کمال ہے، کیا تم ہمیشہ بینگن کھاتے ہو؟
شیام لال: جی ہاں۔ کیا آپ کو کوئی اعتراض ہے؟ مجھے بھرتہ اچھا لگتا ہے، اس لیے کھاتا ہوں۔ آپ کو اعتراض ہے؟
وکیل: (چکرا کر) میں نے اپنی زندگی میںآج تک ایسا شخص نہیں دیکھا جو ہمیشہ بینگن کھاتا ہو۔
جج©: کچھ کہا آپ نے وکیل صاحب؟
وکیل: (بوکھلا کر) جی ہاں جناب…. جی…. کچھ نہیں۔
جج: اس گواہ کی یادداشت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
وکیل: (سنبھل کر) اس کی یادداشت کی تو میں داد دیتا ہوں۔ اگر میں اس سے پوچھوں کہ دس سال پہلے ایک خاص دن اس نے کیا کھایا تھا تو یہ وہی کہے گا کہ بینگن کا بھرتہ کھایا تھا۔
جج: تو کیس کو آگے بڑھایا جائے؟
وکیل: اب اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے …. (پسینہ پونچھتا ہے)
شیام لال، جج صاحب اور عدالت میں موجود اشخاص ہنستے ہیں۔
(پردہ گرتا ہے)
٭….٭