ایک زمانہ تھا جب بچوں کا ادب بہت اہمیت کا حامل ہوا کرتا تھا۔ اخبارات میں بچوں کے صفحات پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ بچوں کے ماہانہ جرائد بڑی باقاعدگی سے شائع ہوتے تھے اور خاصی بڑی تعداد میں تھے لیکن پرانے جرائد میں آج صرف ’’ہمدرد نونہال‘‘ اور ’’تعلیم و تربیت‘‘ ہی نظر آتے ہیں۔ ’’بچوں کا ڈائجسٹ‘‘، ’’کھلونا‘‘، ’’بچوں کی دنیا‘‘، ’’جگنو‘‘، ’’غنچہ‘‘، ’’بچوں کا گلشن‘‘ اور کئی جرائد تھے جو رفتہ رفتہ بند ہوگئے۔ روزنامہ ’’مشرق‘‘ اور ’’امروز‘‘ کے بچوں کے صفحات بہت مقبول تھے اور ان میں بچوں کا اعلیٰ درجے کا ادب پڑھنے کو ملتا تھا۔ پھر بچوں کے ناولوں کا دور بھی کیا خوب تھا۔ لاہور کے ایک معروف اشاعتی ادارے نے بچوں کے بہت معیاری ناول شائع کیے۔ جن میں ’’عالی پر کیا گزری‘‘ اور ’’میرا نام منگو ہے‘‘ جیسے معرکۃ الاراء ناول بھی شامل ہیں۔ ’’عالی پر کیا گزری‘‘ جناب عزیز اثری کی تخلیق تھا جبکہ ’’میرا نام منگو ہے‘‘ جبار توقیر نے تحریر کیا تھا۔ ’’میرا نام منگو ہے‘‘ کو سرکاری ٹی وی پر ڈرامائی شکل میں بھی پیش کیا گیا تھا۔ ’’عالی پر کیا گزری‘‘اور ’’میرا نام منگو ہے‘‘ بچوں کے مقبول ترین ناول تھے اور ان کے بے شمار ایڈیشن شائع ہوئے۔ وہ لوگ جو اب پچاس یا ساٹھ کے پیٹے میں ہیں، وہ اپنے بچپن میں پڑھے گئے ان ناولوں کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ اثری صاحب اور جبار توقیر نے اس کے بعد بھی کچھ ناول تخلیق کیے لیکن وہ چیز کہاں؟ اسی طرح محمد یونس حسرت نے بھی کچھ عمدہ ناول لکھے۔ لاہور کے ایک اور اشاعتی ادارے نے بچوں کے لیے ’’پاکٹ کہانی‘‘ کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں بچوں کو بہت پسند آئیں۔ ہر کہانی کی قیمت صرف 50 پیسے ہوتی تھی۔ سکول جانے والا ہر بچہ بڑی آسانی سے یہ چھوٹی سی کہانی خرید لیتا تھا۔ اس کامیاب تجربے کے بعدکچھ اور اشاعتی اداروں نے بھی پاکٹ کہانیاں شائع کرنا شروع کردیں اور یہ خاصا منافع بخش کام ثابت ہوا۔ کچھ برسوں بعد یہ سلسلہ بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔ اب دور آیا بچوں کے جاسوسی ادب کا۔ اس میں اشتیاق احمد نے بہت نام کمایا۔ انہوں نے خاصی بڑی تعداد میں بچوں کے جاسوسی ناول تحریر کیے جنہیں بچوں کی طرف سے بہت پذیرائی ملی۔ اس زمانے میں انہیں بچوں کا ابن صفی بھی کہا جاتا تھا۔ آج اشتیاق احمدکہاں ہیں، کیا کررہے ہیں، کچھ علم نہیں۔ لاہور کے ایک اور اشاعتی ادارے ’’مکتبہ اقرا‘‘ نے بھی بچوں کے ادب کے فروغ کے سلسلے میں شاندار خدمات سر انجام دیں۔ اس ادارے کے کرتا دھرتا جلال انور اور سلیم اختر تھے۔ انہوں نے بچوں کے لیے انتہائی سستی کہانیاں چھاپنے کا اہتمام کیا اور صاحب طرز ادیب اے حمید نے بھی اس ادارے کے لیے لاتعداد بچوں کی کتابیں لکھیں۔ جادوئی اور دیو مالائی کرداروں پر مشتمل ان کے ناولوں کی سیریز ’’عنبر، ناگ اور ماریا‘‘ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ بچوں کے معروف ادیبوں میں ایک نام امان اللہ نیرّ شوکت کا بھی ہے۔ جو طویل عرصے تک ’’بچوں کا ڈائجسٹ‘‘ اور ’’بچوں کا گلشن‘‘ جیسے معیاری جرائد کی ادارت کرتے رہے۔ اب وہ اپنا ذاتی جریدہ شائع کرتے ہیں۔ اسی طرح مقبول جہانگیر نے بھی بچوں کے لیے کئی ناول لکھے اور ان کی داستانِ امیر حمزہ تو بچوں کے ادب میں کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ مقبول احمد دہلوی، احمد شبیر، اقبال نواز، ایم ایس ناز اور کئی دوسرے ادیبوں نے بھی بچوں کے لیے بہت خوبصورت کہانیاں لکھیں۔ احمد شبیرّ نے بچوں کے افسانوں کا مجموعہ ’’گلاب کے پھول‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ بچوں کی شاعری کے حوالے سے صوفی غلام مصطفیٰ تبسم اور قیوم نظر نے بے مثال کام کیا۔ ان کو جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ صوفی تبسم کی شہرہ آفاق بچوں کی نظم ’’ٹوٹ بٹوٹ‘‘ کو تو لافانی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے بعد آنے والوں میں سرور بجنوری، رفیق احمد خان، طالب حسین طالب (روزنامہ ’’کھلونا‘‘ کے مدیر)، غلام محی الدین نظر، محمد احمد شاد، زاہد الحسن زاہد، قندیل ناصرہ اور افضال عاجز نے بچوں کی شاعری کے حوالے سے اپنے فن کے جوہر دکھائے اور خوب نام کمایا۔ لیکن… اب کہاں ہیں یہ لوگ اور کہاں ہیں وہ جرائد۔ ایک ہمارے مسعود احمد برکاتی ہیں جنہوں نے عمر عزیز بچوں کے ادب کی آبیاری میں گزار دی۔ کچھ عرصہ قبل ایک انٹرویو میں انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ بچوں کے ادیب کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ ان کی بات میں وزن ہے اور شاید یہی وہ بنیادی سبب ہے کہ آج کے ادیبوں کا رجحان بچوں کے ادب کی طرف نہیں ہے۔ شاید آنے والے دور میں ہمیں ایک بار پھر بچوں کے ایسے ادیب اور شاعر میسر آجائیں جن کو اپنے شاندار کام کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے۔ اس سلسلے میں ہم سب کو دعا کرنی چاہیے۔