انسان جس جگہ رہتا ہے ‘ اس جگہ سے اس کی وابستگی ایک فطری امر ہے۔ انسان کو اس جگہ سے محبت ہوجاتی ہے۔ وہاں کے در و دیوار ہوں یا کمرے، اسے اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کافی عرصہ پہلے کچھ سکھ حضرات ہندستان سے پاکستان آئے تو ایک محلے میں موجود اپنے آبائی گھر کی طرف چلے گئے، جہاں وہ تقسیم سے پہلے رہا کرتے تھے۔ انھوں نے مالک مکان سے اندر جانے اور مکان دیکھنے کی اجازت چاہی۔
اجازت ملنے کے بعد جب وہ گھر کے اندر گئے تو ان کے انداز اور ان کی حرکات قابلِ دید تھیں۔ کوئی کہہ رہا تھا: ’’اماں جی یہاں بیٹھ کر چرخا کاتا کرتی تھیں، بابو جی کے کپڑے یہاں لٹکے ہوتے تھے۔ باقاعدہ ہاتھ لگا کر در و دیوار کو چھو رہے تھے۔ جیسے یہاں سے ان کے اجداد کی خوشبو آرہی ہو۔ اسی طرح مشہور شخصیات کی وجہ سے بھی کچھ جگہیں مشہور ہوجاتی ہیں۔
بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے حوالے سے بھی کچھ ایسی عمارات اور جگہیں مشہور ہیں۔ جہاں انھوں نے قیام کیا۔
وزیر مینشن
وزیر مینشن وہ عمارت ہے، جس میں قائداعظم محمد علی جناح ۲۵ دسمبر ۱۸۷۶ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والدین ۱۹۷۴ء میں کاٹھیاواڑ سے ہجرت کرکے کراچی آئے تو یہاں رہائش اختیار کرلی۔
وزیر مینشن کراچی کے علاقے ’کھارادر‘ میں واقع ہے۔ یہ عمارت ۱۸۶۰ء سے ۱۸۷۰ء کے درمیان تعمیر ہوئی۔ قائداعظم کے والد جناح پونجا نے ۱۸۷۲ء میں یہ عمارت رہائش کے لیے خریدی۔ یہ ایک چار منزلہ عمارت تھی، جس کی پہلی منزل پر دکانیں جب کہ اوپر کا حصہ رہائش کے لیے مختص تھا۔ اس عمارت کا کل رقبہ ۱۲۵؍ مربع گز ہے اور اس کی تعمیر میں پہاڑی پتھروں کے بلاک، چونا اور پَٹ سَن کا استعمال ہوا۔ قائداعظم کے علاوہ محترمہ فاطمہ جناح اور محترمہ شیریں بائی بھی اس عمارت میں پیدا ہوئے۔ فاطمہ جناح کی پیدائش کے فوراً بعد جناح پونجا کسی اور عمارت میںمنتقل ہوگئے۔ یوں قائداعظم کے والد ۲۰ برس تک اس عمارت میں رہائش پذیر رہے۔ ۱۹۰۴ء میں یہ عمارت ایک تاجر وزیر ’علی پونا والا‘ نے خریدلی اور پھر بعد میں اسی تاجر کے نام پر یہ عمارت ’وزیر مینشن‘ کہلائی۔
نومبر ۱۹۵۲ء میں قائداعظم کی اس رہائش گاہ کو قومی یادگار کا درجہ دینے کی تجویز سامنے آئی۔ چنانچہ حکومتِ وقت نے ۱۹۵۳ء میں یہ عمارت وزیر علی پونا سے خریدی اور اس کی تعمیر نو شروع کی۔ بعد میں اس عمارت کو عجائب گھر میں بھی تبدیل کیا گیا۔ عمارت کی دو منزلیں ہیں۔ پہلی پر کتب خانہ اور مطالعہ گاہ ہے۔ دوسری پر برآمدہ اور ساتھ ہی تین کمرے ہیں۔ ان کمروں میں قائداعظم کے زیر استعمال اشیا رکھی گئی ہیں۔ تیسرے کمرے میں قائداعظم کی پیدائش ہوئی تھی۔جہاں تاریخ پیدائش بھی کندہ ہے۔
سندھ مدرستہ الاسلام
یہ عمارت ۱۸۸۵ء میں قائم کی گئی۔ اس کے بانی خان بہادر حسن علی آفندی تھے۔ حسن علی آفندی نے اس عمارت کو خاص طور پر مسلمان بچوں کی تعمیر و تربیت کے لیے بنایا تھا۔ اس عمارت کی تعمیر کے لیے نصف حصہ مقامی حکومت نے ادا کیا، جب کہ باقی شہر کے مخیر حضرات کی مدد سے ممکن ہوا۔ قائداعظم محمد علی جناح اس مدرسے کے نمایاں ترین طالب علم تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ اس ادارے میں تین بار داخل ہوئے۔
پہلی بار دس سال کی عمر میں گجراتی زبان کی چوتھی جماعت میں داخل کیا گیا۔ پھر بمبئی انجمن الاسلام اسکول میں داخل ہوئے اور گجراتی زبان کی چوتھی جماعت وہیں سے پاس کی۔ والدین نے ۲۳ دسمبر ۱۸۸۷ء کو دوسری بار محمد علی جناح کو سندھ مدرستہ الاسلام میں داخل کروایا۔ پھر تبدیلی کے رجحان کے پیشِ نظر ۵ فروری ۱۸۹۱ء کو لارنس روڈ کراچی میں واقع سی ایم ایس ہائی اسکول میں داخل کروایا گیا۔ ۹ فروری ۱۸۹۱ء کو قائداعظم تیسری بار انگریزی کی چوتھی جماعت میں داخل ہوئے اور بالآخر ۳۰ جنوری ۱۸۹۲ء کو انھوں نے سندھ مدرستہ الاسلام کو مستقل طور پر خیر باد کہا۔ اس وقت آپ انگریزی کی پانچویں جماعت میں تھے۔
گورنر ہائوس
سندھ کا یہ گورنر ہائوس ۴۰؍ ایکڑ کے وسیع رقبے پر محیط ہے۔ اس عمارت کو سرچارلس نیپئر (کمشنر سندھ) نے اپنی رہائش گاہ کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ ۱۸۴۷ء میں حکومت نے یہ رہائش گاہ خرید لی اور اسے صوبے کا گورنر ہائوس ڈکلیئر کردیا۔ قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء سے ۱۱؍ ستمبر ۱۹۴۸ء تک سندھ کے اسی گورنر ہائوس میں قیام پذیر رہے۔ اس گورنر ہائوس کے پچھلے حصے میں موجود ایک اونچے چبوترے پر ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو قائداعظم نے بطور گورنر جنرل آف پاکستان کے حلف اُٹھایا تھا۔
گورنر ہائوس کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ۱۸۵۶ء میں اس وقت کے قائم مقام کمشنر جنرل جیکب نے اس کی تعمیر و توسیع کا کام کیا۔ ۱۹۰۶ء میں ویلز کے شہزادوں اور شہزادیوں کی آمد پر عمارت میں روشنی اور پنکھوں کا انتظام کیا گیا۔ گورنر ہائوس کے آخری حصے میں دائیں جانب ’’قائداعظم روم‘‘ ہے۔ یہ کمرہ گورنر جنرل کی حیثیت میں قائداعظم کے زیر استعمال رہا جب کہ قائداعظم اس کمرے کو دفتری امور کے لیے بھی استعمال کرتے تھے۔ کمرہ ۵۳۲ مربع فٹ پر محیط ہے۔ جس میں قائداعظم کے زیر استعمال اشیا محفوظ کی گئی ہیں۔
’’قائداعظم روم‘‘ میں موجود لیمپ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ رات گئے تک اپنے ملک و قوم کی خدمت میں مصروف رہتے۔ گورنر ہائوس میں گزارے اپنے مختصر ایام کو بھی انھوں نے قوم کی بہتری و ترقی کے لیے وقف کیے رکھا۔
قائداعظم ریذیڈنسی
زیارت، بلوچستان کا ایک پُرفضا مقام ہے۔ جہاں قائداعظم نے اپنی زندگی کے آخری دو ماہ گزارے۔ قائداعظم نے جس مقام پر قیام کیا اسے ’زیارت ریذیڈنسی‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ریذیڈنسی دراصل وائسراے ہند کا متبادل گھر تھا۔ جس کے دروازے پر اس کی تاریخ بنیاد بھی درج ہے اور عمارت کے آس پاس خوب صورت تراشی گئی گھاس کے برآمدے ہیں۔ مختلف رنگوں کے پھول اور چنار کے درخت خوب صورت ماحول ترتیب دیتے نظر آتے ہیں۔ صنوبر کی لکڑی سے تیار کردہ اس دلکش عمارت میں آگے پیچھے، اوپر نیچے چار چار کمرے موجود ہیں۔ دائیں جانب والے کمرے میں قائداعظم کھانا کھاتے تھے۔ اس کے سامنے بائیں طرف سے پہلے کمرے میں وہ مہمانوں سے ملاقات کیا کرتے۔ دائیں طرف کے پہلے کمرے سے پیچھے والا کمرہ قائداعظم کے نجی سیکرٹری کا تھا۔ اس کے بالمقابل کمرہ قائداعظم بطور دفتر استعمال کرتے تھے۔ بالائی منزل پر بائیں ہاتھ کا پہلا کمرہ قائد کا بیڈ روم جب کہ دائیں ہاتھ والا کمرہ آپ کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے زیر استعمال تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح کا دروازہ کھلا ہو تو قائداعظم کا بیڈ روم واضح نظر آتا ہے۔
قائداعظم کے بیڈ روم میں ایک طرف ڈریسنگ ٹیبل بچھی ہے جب کہ دوسری طرف کرسی اور میز پڑی ہے، جہاں علالت کے دوران بھی قائداعظم حکومتی فرائض انجام دیتے تھے۔
۹۲۔ ۱۸۹۱ء میں اس ریذیڈنسی کی تعمیر پر ۳۹۰۱۲ روپے کی کثیر رقم خرچ ہوئی۔ ۱۸۸۵ء میں جنرل ضیاء الحق نے اسے فوجی یادگار کا درجہ دیا۔ تب سے اس کا نام ’’قائداعظم ریذیڈنسی‘‘ قرار پایا۔
٭…٭