بل کھاتے خطرناک موڑ، گھنا جنگل، دس ہزار فٹ کی بلندی اور ٹھنڈی یخ ہوا! سردی کے علاوہ بھی خوف سے خون جما دینے کے سارے عوامل موجود تھے۔
خطرناک راستوں پر سفر ایسا کہ اگر لڑھکتے تو وادیِ نیلم سے سیدھا وادیِ فنا ہی میں پہنچتے…. اس خیال سے ہٹ کر گاڑی کے شیشے سے باہر نہایت حسین نظارے جھلملا رہے تھے۔ بلند و بالا سرسبز پہاڑ، آسماں پر تیرتے بادل اور کہیں کہیں چوٹیوں پر چمکتی سفید برف جس پر دھوپ سونے کی طرح پگھل رہی تھی۔
پہاڑوں کے دامن میں گِھرا یہ خوب صورت شہر آزاد کشمیر کا دارالخلافہ ’مظفر آباد‘ ہے۔ یہاں سے ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ مظفر آباد سے دو تین کلو میٹر آگے نکلتے ہی کشمیر کا تابناک حسن متحیر کردیتا ہے۔
کشمیر میں ہم نے سب سے پہلے پیر چناسی کا انتخاب کیا۔ جو تقریباً دس ہزار فٹ کی بلندی پر سرد ترین مقام ہے، جہاں معروف صوفی بزرگ ’حضرت شاہ حسین‘ کا مزار بھی واقع ہے۔
ہماری گاڑی دو موڑ مڑنے کے بعد ہی اتنی بلند ہوگئی کہ نیچے جھانک کر دیکھنے پر مظفر آباد کی سڑکوں پر گزرتی گاڑیاں کھلونوں کی طرح اور دریاے نیلم ایک باریک سفید لکیر کی طرح نظر آنے لگا۔ جیسے جیسے بلندی پر پہنچتے گئے، ہوا میں ٹھنڈک کی کاٹ بڑھتی گئی اور بعض جگہوں پر راستہ خطرناک حد تک تنگ دکھائی دینے لگا۔
تقریباً دو گھنٹے کا جان لیوا سفر بالآخر ایک موڑ پر راستہ بند ہونے کی وجہ سے تھم گیا۔
گاڑی سے باہر نکلتے ہی سرد ہواﺅں کے تھپیڑوں نے ٹکرا ٹکرا کر استقبال کیا۔ چاروں طرف تاحدِ نگاہ تک ڈوبتے اُبھرتے سر سبز پہاڑ تھے۔ پہاڑوں پر بنے گھر اوپر سے دیکھنے پر نقطے لگ رہے تھے۔ اتنی بلندی پر پہنچ کر چاروں طرف گہرا سکوت محسوس ہونے لگا…. نہ ہی درختوں کے پتوں کی آواز اور نہ کوئی چرند پرند…. ایک پُرسکون خاموشی، جو سرد ماحول کو کی لپیٹ میں تھی۔
٭….٭
پیر چناسی جیسی دلکش جگہ صبح کے وقت ایک جادوئی منظر پیش کرتی ہے۔ جب رات کی تاریکی چھٹ جاتی ہے تو دھند میں لپٹے سرد جنگلات سیاحوں کو اپنی طرف دیکھنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر پھیلے ہوئے جنگلات میں جانے کے راستے بہت دشوار گزار ہیں۔ اکثر راستوں پر پھسلن ہے، جہاں ذرا سی غفلت ہوئی وہیں گہری کھائی کے منھ میں جاسکتے ہیں۔
پیر چناسی کشمیر کے دوسرے علاقوں کی نسبت مظفر آباد سے قریب ترین ہے۔ کئی ہزار فٹ کی بلندی پر ہونے سے یہاں سے پورے شہر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ برف باری کے موسم میں یہ بالکل بند ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ لگاتار برف گرنے کی وجہ سے کوئی دب کے مر بھی سکتا ہے۔
یہاں مختلف قسم کی جڑی بوٹیاں بھی اُگتی ہیں، جنھیں مقامی لوگ حاصل کرکے کے بازاروں میں فروخت کرتے ہیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں گھومنے کے لیے یہ ایک بہترین انتخاب ہے۔ یہاں کا موسم غیر متعین ہے۔ یعنی پَل میں دھوپ، بارش یا اولے پڑنے لگتے ہیں۔ شام کے وقت چوٹی کے گرد بادل اکٹھا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اکثر پہاڑیوں پر سفید بادل اپنا ڈیرا ڈال دیتے ہیں اور جب ہوا کی خنکی بڑھنے لگتی ہے تو چاروں طرف سفید دھند چھاجاتی ہے۔ ان سب کا نظارہ کرنے کے بعد ہم نے واپسی کی راہ لی اور پیر چناسی کے بعد ہمارا دوسرا مقام وادی نیلم تھا۔
وادی ’نیلم‘ کا پرانا نام وادی ’گشن گنگا‘ ہے۔ یہ مظفر آباد کے شمال مشرق میں ۰۰۵۲ فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ راستے میں جگہ جگہ شفاف برفیلے پانی کے چشمے اور آبشاریں بہہ رہی ہیں۔ چشموں کا پانی اتنا ٹھنڈا ہوتا ہے کہ اس میں زیادہ دیر تک ہاتھ نہیں رکھ سکتے ورنہ ہاتھ بالکل سُن ہوجاتا ہے۔
پہاڑوں کی ڈھلانوں پر چاول اور مکئی کے کھیت دور تک لہلہاتے نظر آتے ہیں۔ ان کے ساتھ اوپر نیچے بکھرے رنگین ٹین کی چھتوں والے کشمیری طرز کے خوب صورت مکانات منظر میں ایک خوش نُمائی پیدا کردیتے ہیں۔
وادی نیلم سے آگے کا سفر بھی حسین مناظر بکھیرتا ہے۔ پورے راستے دریاے نیلم ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ کہیں دریا کا پاٹ نہایت چوڑا ہوجاتا تو کہیں دریا ایک ندی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اسی راستے میں مقبوضہ کشمیر کے بلند و بالا پہاڑ بھی نظر آئے، جو ڈرائیور کی نشاندہی کرنے پر ہمیں پتا چلے، ورنہ بظاہر دونوں طرف کے پہاڑ ایک جیسے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے پہاڑ زیادہ بلند، گھنے اور ہریالے ہیں۔ ان کی ڈھلانوں پر سبزے سے ڈھکی خوب صورت قدرتی سیڑھیاں ہیں۔ کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان بہتا دریاے نیلم ایک سرحدی لکیر ہے۔ بعض حصوں پر دریا اتنا تنگ ہے کہ باآسانی سرحد پار جاسکتے ہیں۔
اگست کے مہینے میں بارشوں کی وجہ سے دریا اپنے پورے جوش میں تھا۔ جس میں درختوں کے ٹوٹے ہوئے تنے تنکوں کی طرح بہہ رہے تھے۔ اونچا اچھلتا جھاگ اڑاتا دریا کا پانی دلوں میں خوف بھر رہا تھا۔
اس کے علاوہ راستے میں کئی ایسے پکنک پوائنٹ نظر آئے کہ دل چاہا بس یہیں رُک جائیں۔ یہاں سے ’شادرہ‘ اور ’کیل‘ کا فاصلہ سو کلو میٹر تھا۔
شادرہ تک کے سفر میں پورے راستے موسم بے انتہا خوب صورت رہا۔ ہلکی تیز بارش…. دریا کے پار موجود سرسبز پہاڑ دھیرے دھیرے بادلوں میں روپوش ہورہے تھے۔ یہ بادل ہماری نظروں کے سامنے جھکتے اترتے پانیوں تک پہنچ کر ان میں جذب ہوجاتے۔
جنگلات کے اندر اور سڑک کے کنارے لگے خوبانی اور اخروٹ کے بے شمار درخت، گھاس کے میدانوں کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں، بارش کی یخ بوندیں، دریا کا شور، آسمان میں تیرتے چٹے بادل اور آسمان پر شفق کے حسین رنگ دیکھ کر ہم تو مبہوت ہی رہ گئے۔
ہمارے ساتھ ڈرائیور، جو وہیں کا مقامی تھا وہ بھی فطرت کی ان حسین رعنائیوں میں گھوگیا۔ گویا وادی نیلم کوہ قاف کی کسی جادوئی وادی کا ایک بھید بھرا نظارہ بنی ہوئی تھی، جس کو دیکھ کر یہ خیال آئے کہ جب یہ اتنی حسین ہے تو جنت کیسے ہوگی؟
اس خوب صورت ترین راستے پر چلتے ہوئے احساس ہوا کہ کشمیر واقعی جنت نظیر ہے۔ یہ راستے خاص طور پر مہم جو سیاحوں کے لیے ایک انمول خزانہ ہے کیوں کہ یہ خوب صورت ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہے۔ اوپر آسمان، نیچے دریا اور بیچ میں کھائی۔ صرف یہی نہیں بلکہ جو مناظر فطرت دیکھ کر انگشت بہ دندان رہنا چاہتا ہو۔ اسے وادی کی سیر لازمی کرنا چاہیے۔
کئی جگہوں پر سیلن اور لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بھی ہے لہٰذا لمحہ بہ لمحہ بلند ہوتی، خطرناک موڑ مڑتی سڑکوں سے انتہائی احتیاط کے ساتھ گزرنا پڑتا ہے، یہاں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں کیوں کہ ذرا سی غفلت حادثے سے دوچار کرسکتی ہے اور سیکڑوں فٹ نیچے کھائی اور بپھرا ہوا دریا منتظر رہتا ہے…. بہتر یہی ہے کہ کسی مقامی گائیڈ سے رابطہ کیا جائے جو ماہر ڈرائیور بھی ہو۔
شادرہ میں چند دن کا قیام نہایت حسین تجربہ تھا۔ جب سورج غروب ہونے لگتا تو دور برف پوش پہاڑ سرخی مائل ہوجاتے ہیں۔
پہاڑی علاقوں میں سورج ڈوبنے کے ساتھ ہی اندھیرا چھا جاتا ہے اور رات کا منظر اپنے اندر ایک الگ دلچسپی رکھتا ہے۔ جھلملاتے ستارے اور پہاڑوں پر لوگوں کے گھروں میں جلتی روشنیاں چھوٹے چھوٹے خوبصورت فانوس معلوم ہوتے ہیں۔ رات کا یہ منظر فجر کی اذان کے بعد ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور اس وادی کا حسن دوبارہ جاگ اُٹھتا ہے۔
ایک ضروری بات یہ کہ کشمیر میں جگہ جگہ چیک پوسٹوں پر اپنی شناخت کروانی پڑتی ہے، سیاح اور ڈرائیور کا رجسٹر میں اندراج کیا جاتا ہے۔
کشمیر کے خوب صورت موسم کی طرح یہاں کے لوگ بھی خوب صورت دل کے مالک ہوتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ لوگوں سے ملوانے ڈرائیور ہمیں ایک جگہ پہاڑ پر لے گیا۔
ہمارے لیے پانچ منٹ بلندی کا سفر کرنا جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ جب کہ ڈرائیور ایسے آرام سے چل رہا تھا جیسے سیدھی سڑک پر چل رہا ہو۔ پہاڑ سے چشمہ بہتا ہوا آرہا تھا اور بارش کی وجہ سے گھاس پر پھسلن بھی تھی۔ انتہائی مضحکہ خیز انداز میں گرتے سنبھلتے، قدم جماتے ہوئے اوپر پہنچے تو ایسا لگا کہ گویا ’کے ٹو‘ سر کرلیا ہو۔
ڈرائیور نے ہمیں زبردستی کا مان نہ مان، میں تیرا میزبان بنایا اور ہمیں اپنے گھر لے گیا، جہاں اس کے گھر والے ہم سب سے بہت محبت سے ملے۔ سخت سردی میں انھوں نے گھر کی چاے سے تواضع کی۔ ان کی طرح ان کا گھر بھی سادگی کا نمونہ تھا۔ ایک کے اوپر ایک پتھر رکھ کر عارضی طور پر دیوار بنائی ہوئی تھی۔ اونچے نیچے پتھروں کی وجہ سے جگہ جگہ سوراخ بھی تھے۔ جن سے آئی ٹھنڈی ہوا، قدرتی ائیر کنڈیشنڈ کا کام دے رہی تھی۔ اس کے علاوہ گھر کی چھت لکڑی اور پتوں سے بنائی گئی تھی، جس کی اونچائی بمشکل اتنی تھی کہ سر نہ ٹکرائے۔ یہاں بارش میں لوگوں کی چھتیں بھی جگہ جگہ سے ٹپکتی ہیں اور جب پہاڑوں پر شدید برف باری ہوتی ہے تو یہ لوگ نیچے عارضی طور پر بنے گھروں میں کچھ مہینے گزارنے آتے ہیں۔
جب کہ شہر کے لوگ آسائشوں کے محتاج ہیں۔ وہ سردی میں کپکپاتے ہوئے کسی آبشار کو گرتا دیکھنے کے بجاے گھر کی گرمائش میں ٹی وی دیکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ دریا کا اُچھلتا پانی دیکھنے کے بجاے انھیں کرکٹ کے چھکے پر اچھلنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ طوفانی بارش ہو یا برفیلی ہوائیں، وہ انھیں خاطر میں لائے بغیر اپنے کاموں میں مگن رہتے ہیں۔ انھیں دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ یہ لوگ کتنے خوش اور مطمئن ہیں۔ انھیں کبھی شکایت نہیں ہوئی کہ پیٹرول مہنگا ہے یا سستا، تنخواہ اتنی کم کیوں ہے، ٹریفک جام رہتا ہے، فضا میں ہر وقت زہریلا دھواں کیوں پھیلا رہتا ہے؟ کیوں کہ یہ لوگ کشمیر جنت نظیر میں رہتے ہیں۔ ایک ایسی جنت جس کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہے۔
تو کیا خیال ہے…. زندگی میں ایک بار جنت کی سیر تو بنتی ہے ناں…. جہاں قدرت کے شاہکار آپ کے منتظر ہیں، جنھیں دیکھ کر زبان پر کلمہ شکر آجاتا ہے کہ خدا نے ہمیں زمین پر کشمیر جیسی جنت عطا کی۔
٭….٭
اس تحریر کے مشکل الفاظ
کاٹ: تیزی، چھبن سکوت: چپ، خاموشی
پاٹ: چوڑائی، عرض (کپڑے یا دریا وغیرہ کا)
کیل اور شادرہ: آزاد کشمیر کے علاقوں کے نام
رو پوش ہونا: غائب ہونا، فرار ہونا
شفق: سرخی جو طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کے وقت اُفق پر نمو دار ہوتی ہے۔
رعنائی: حسن و جمال، حسنِ نظر
بھید: راز، چھپی ہوئی بات
انگشت بہ دنداں: دانتوں تلے انگلی دبائے ہوئے، (مراداً) متعجب، حیران سیلن: نمی، تری
سرخی مائل: لالی لیے ہوئے، جس میں کچھ سرخ رنگ شامل ہو
پیر چناسی: مظفر آباد سے قریب سیاحتی مقام
لینڈ سلائیڈنگ: بڑے پیمانے پر چٹان کا پہاڑ یا چوٹی پر سے لڑھکنا