ایڈیٹر صاحب کے مسلسل ’شکایت بھرے‘ پیغام موصول ہورہے تھے کہ ڈاکٹر صاحبہ آپ بھی سستی چھوڑیں اور کچھ لکھ لیں… اب ان کو کون سمجھاتا کہ شادی اور پھر اس کے فوراً بعد صبح ۸ سے شام ۳ بجے کی ہائوس جاب نے اس قابل ہی نہیں چھوڑا تھا کہ مطالعے کا کوئی وقت نکالا جاسکے اور بغیر مطالعے کے قلم اُٹھانے کے ہم بہت خلاف ہیں۔
بہرحال، ان کی یہ بات سن کر کہ ’’سنا ہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ میرے پاس ٹائم نہیں ہے وہی سب سے زیادہ فارغ ہوا کرتا ہے۔‘‘ ہم نے قلم اٹھا ہی لیا، تاکہ اُنھیں اور اپنے پیارے ساتھی کے سب قارئین کو باور کرایا جاسکے کہ ہم واقعی ’’مصروف‘‘ ہیں۔
ابھی کچھ لکھنے کا سوچا ہی تھا کہ ایک مریضہ دانت میں سخت تکلیف کی شکایت کے ساتھ حاضر ہوئیں… سوچا کہ پہلے ان کی شکایت دور کرنی چاہیے… دیکھا تو دانت کا بُرا حال تھا، بچنے بچانے کی کوئی اُمید نظر نہ آئی تو ان کو بتانا ہی پڑا… بحیثیت ڈاکٹر مجھے ہمیشہ دانت نکالتے ہوئے افسوس ہی ہوتا ہے، پھر چاہے جتنی بھی کوشش کیوں نہ کرلی جائے، اصل چیز جو اللہ نے عطا کی تھی اس سے ملتی جلتی بھی بنانا ہم انسانوں کے بس میں کہاں ہے۔
’’ایکسرے سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کا دانت زیادہ خراب ہے… اب اس کو بچایا نہیں جاسکتا اس کو نکالنا ہی پڑے گا۔‘‘ میں نے بہت افسوس سے بتایا۔
’’نہیں ڈاکٹر صاحبہ! میں دانت نہیں نکلوائوں گی۔‘‘ محترمہ نے چیخ ماری۔
’’دیکھیں آپ کا دانت جتنا خراب ہے، اگر آپ نے اس کو نہ نکلوایا تو آپ کو انفکیشن بھی ہوسکتا ہے۔ میں دوا لکھ کے دے رہی ہوں۔ پانچ دن بعد یہاں تشریف لا کر دانت نکلوالیجیے۔‘‘ ہم نے اُنھیں سمجھایا۔
’’ڈاکٹر صاحبہ! کوئی مرہم وغیرہ لگادیں ناں، میں دانت نہیں نکلوائوں گی ورنہ مجھے کچھ نظر نہیں آئے گا۔ میں بغیر دیکھے کیسے رہوں گی؟‘‘ محترمہ روہانسی ہوگئیں۔
’’کیا…؟‘‘ ایک لمحے کے لیے ہمیں لگا کہ شاید ان کی بصیرت و بصارت ان کے دانتوں میں پنہاں ہے اور دوسرے ہی لمحے یہ یاد آگیا کہ پاکستان کی اکثریت اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ دانت نکلوانے سے ان کی بینائی پر کوئی اثر پڑجائے گا اور عقل داڑھ نکلوا دینے سے ان کی عقل چلی جائے گی…
اپنی مریضہ کو ہم نے کیسے منایا، یہ کہانی پوشیدہ ہی رہنے دیں مگر ساتھی کے توسط سے ہم یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ دانت نکلوانے سے بینائی اور عقل وغیرہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
فارغ ہو کر پھر سے قلم اُٹھایا ہی تھا کہ ایک اور حضرت تشریف لائے۔ معائنہ کرتے ہوئے دل خراب ہوگیا… منھ کا بُرا حشر ہورہا تھا۔ ہم نے بہت نااُمیدی سے پوچھا: ’’سر! دانت صاف کرتے ہیں آپ؟‘‘
جواب ملا: ’’بالکل کرتا ہوں۔‘‘ سن کر خوشی ہوئی۔
’’اچھا! دن میں کتنی دفعہ کرلیتے ہیں؟‘‘
’’تقریباً چودہ پندرہ دفعہ!‘‘ محترم نے فرمایا۔
ہمیں زور سے چکر آگئے کہ اگر واقعی اُنھوں نے زندگی میں بھی چودہ پندرہ بار دانت صاف کرلیے ہوتے تو ان کے دانتوں کا یہ حال کبھی نہیں ہوتا… اللہ تعالیٰ کی بے حساب نعمتوں میں سے ایک نعمت صحت بھی ہے… اس کو تباہ کرنے کا بھی روز حشر حساب دینا ہوگا۔
ایک اور مریض منھ پوری طرح نہ کھلنے کی شکایت کے ساتھ تشریف لائے… پوچھا کہ بھائی پان یا چھالیہ کھاتے ہیں تو اثبات میں جواب ملا۔ آدھے گھنٹے ان کو سمجھایا کہ ایسی مضر صحت چیزیں روزانہ کی بنیاد پر کھانے سے خطرناک ترین بیماریاں جیسے منھ کا کینسر وغیرہ ہونے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔
مہینوں، برسوں میں کبھی کھایا جاسکتا ہے مگر بہرحال یہ ایک بُری عادت ہے۔ جس سے پرہیز ضروری ہے۔ کیوں کہ یہ مقولہ تو سنا ہوگا کہ ’’جان ہے تو جہان ہے۔‘‘
اسی طرح مریضوں کو دیکھتے ہوئے سارا وقت نکل گیا۔ ساڑھے تین بجے گھر پہنچے اور منھ ہاتھ دھوتے ہی رات کا کھانا چڑھادیا کہ ایک دفعہ اگر بیٹھ جاتے تو پھر اُٹھنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔
فارغ ہو کر قلم اور کاغذ لے کر بیٹھے تو ماسی نے آکر پوچھ لیا: ’’باجی! صفائی کرنے آجائوں؟‘‘
کمرہ صاف ہی لگا تو ماسی کو منع کردیا کہ آج ہم بہت ’’مصروف‘‘ ہیں آج صفائی نہیں ہوگی۔
’’مگر باجی! آج میرے پاس وقت ہے۔ آج پنکھا صاف کردیتی ہوں، پھر جس دن وقت نہیں ہوتا آپ اس دن ہی کرنے کو کہتی ہیں۔‘‘ ماسی کی اس شکایت بھری فرمائش کو ہم ٹال نہ سکے کہ فی الحال اس کا وجود ہماری زندگی کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھا… صفائی کرتے ہوئے نماز کا وقت آگیا۔ نماز ادا کرنے کے بعد ماسی کو فارغ کیا پھر قلم اور کاغذ اُٹھایا تو بیٹھے بیٹھے اونگھ گئے۔
آنکھ کھلی تو اپنے پیارے میاں جی کا دیدار ہوا… پہلے تو بہت خوشی ہوئی کہ شاید وہ آج جلدی تشریف لے آئے ہیں۔ گھڑی پر نظر پڑی تو ہوش ٹھکانے آگئے کہ جس کو ہم ایک ہلکی سی جھپکی سمجھ رہے تھے وہ دراصل ایک بھرپور نیند تھی… میاں جی کو گھر آتے ہی فوراً کھانا چاہیے ہوتا ہے اور اس سے پہلے کہ ان کو ’شکایت‘ کا کوئی موقع ملتا ہم کچن کی طرف دوڑ گئے۔
کھانا کھا کر ابھی ہم کچن صاف ہی کررہے تھے کہ ایک شکایت بھری آواز موصول ہوئی… وہ پُرخلوص آواز جو سن کر دن بھر کی تھکن اُتر جایا کرتی ہے۔
’’السلام علیکم ارفع! کیسی ہو بیٹا؟ پورا دن میں ماں باپ کا خیال تھوڑی آئے گا کہ کال کرکے آواز ہی سنادو۔‘‘ فون اٹھاتے ہی پیار بھری ڈانٹ پڑگئی۔ بہت معذرت کرنے کے بعد ان کی شکایت دور ہوئی۔
رات ہوگئی تھی… بستر نے آوازیں دینا شروع کردی تھیں کہ قلم اور کاغذ دور ہی سے شکایت کرتے ہوئے نظر آئے… بہت ہمت کرکے اُٹھی… اپنے عزیز ساتھی اور اس کے پیارے قارئین کی شکایت دور کرنے کی ادنیٰ سی کوشش کرتے ہوئے، مزید کچھ عرصہ قلم سے دور رہنے کا عزم اور پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شکایتوں کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کرتے ہوئے ہم سونے لیٹ گئے۔
٭…٭