ساتھی: ”سب سے پہلے تو آپ اپنا تفصیلی تعار ف بتا دیں کہ کہاں پیدا ہوئے، تاریخ پیدائش اور جاے پیدائش وغیرہ ۔“
اطہر علی ہاشمی: ”پاکستان بنا تھا ۴۱ اگست کو اور اس کے ۴ دن بعد ہم پیدا ہوگئے تھے اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ باقی جاے پیدائش بہاولپور ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے بڑے خالو کا بہاولپور میں گھر تھا اور والدہ بہاولپور آئی ہوئی تھیں اور اتفاق سے جہاں والدہ تھی ہم وہی پہ پیدا ہوئے۔ پھر گھومتے گھماتے کراچی آئے کیوں کہ یہاں والد صاحب کا تبادلہ ہوگیا تھا۔ والد صاحب منسٹری آف انڈسٹریز میں تھے۔ جب میں چار پانچ سال کا تھا تو والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ دوسری اور تیسری جماعت یہاں سے مکمل کی۔ پھر والد صاحب کا تبادلہ انڈیا میں ہوگیا اور وہ وہاں چلا گئے جوکہ اب تقسیم کے بعد ایک حصہ تھا۔ ہمیں بڑی خالہ کے پاس بہاولپور بھیج دیا گیا۔ جہاں ہم نے چھٹی جماعت تک پڑھا۔ اچھا یہاں ایک مزے کی بات یہ ہے کہ میرے والد اور میری والدہ نے بھی بہاولپور ہی سے پڑھا….اور پھر میٹرک بھی یہیں سے کیا…. اچھا پھر ہوا یہ کہ پھر والد کا لاہور میں تبادلہ ہوگیا۔ پھر تعلیم میٹرک، انٹر، بی اے لاہور سے کیا، ایم اے کراچی یونیورسٹی سے کیا اور ایم فل اسلام آباد سے کیا۔ اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ تعلیمی حساب سے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا ہے۔“
ساتھی: ”ہندوستان میں آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟“
اطہر علی ہاشمی: ”آبا تقسیم ہند کے بعد سن ۸۴۹۱ءمیں پاکستان آگئے اور بنیادی طور پہ ہندوستان میں سہارنپور سے تعلق تھا۔ وہاں دیوبند کی تحصیل تھی۔ “
ساتھی: ”تو آپ کبھی ہندوستان گئے ہیں؟“
اطہر علی ہاشمی: ”بچپن میں تو نہیں جانا ہوا لیکن الحمدللہ ویسے دو مرتبہ جاچکا ہوں۔“
ساتھی: ”آپ نے تعلیم کس شعبے میں حاصل کی اور صحافت میں کیسے آئے؟“
اطہر علی ہاشمی: ”میرا مضمون ہسٹری تھا اور صحافت میں یوں آیا کہ میں اور میرے ایک دوست چھٹیوں میں کراچی آئے ہوئے تھے کہ جسارت میں ضرورت تھی۔ انھوں نے ہمیں کہا کہ آپ یہاں آجائیں تو ہم چلے گئے جبکہ صحافت میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ طبیعت میں سستی کی وجہ سے صحافت میں ہی ٹکے رہے اور آج تک ٹکے ہوئے ہیں۔ جبکہ کراچی یونیورسٹی میں پڑھانے کی بھی پیشکش آئی لیکن میں نہیں گیا۔“
ساتھی: ”دوران طا لب علمی آپ کی کیا کیا نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں رہیں؟“
اطہر علی ہاشمی: ”ویسے کوئی قابل ذکر حصہ نہیں لیا لیکن ایک دفعہ کلاس میں استاد نے کہا کہ سینٹر اسکول میں مقابلے ہو رہے ہیں لیکن ہماری کلاس میں سے کوئی حصہ نہیں لے رہا تو میں نے جوش میں آکر کہا کہ میں حصہ لیتا ہوں۔ پھر وہاں تقریر بھی کی اور پوزیشن بھی آگئی۔ اس کے علاوہ کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔“
ساتھی: ”اُردو زبان و ادب کی طرف رجحان کیسے ہوا؟ اور پہلی کہانی جو آپ نے لکھی ہو؟“
اطہر علی ہاشمی: ”اردو زبان تو میری پچپن ہی سے اچھی تھی حالانکہ میں نے پنجابی اساتذہ سے پڑھا ہے اور ہم نے دوسری تیسری جماعت ہی میں کہانیوں کی کتاب پڑھنی شروع کر دی تھی۔ والد صاحب جو ہمیں دو آنے چار آنے جیب خرچ دیتے، اس کی ہم کہانیوں کی کتابیں خرید لیا کرتے تھے۔ میری پہلی کہانی ”آداب عرض“ میں شائع ہوئی۔ حالاں کہ کسی نے بھی گائیڈ وائیڈ نہیں کیا بس ادب کی طرف رجحان ایسے ہی ہوگیا۔ پچپن میں کہانیاں پڑھتے رہے جب تھوڑے بڑے ہوئے تو رسائل پڑھنے لگے تو خود بخود رجحان پیدا ہوگیا…. ہمارے والد چونکہ شاعر بھی تھے اور اُنھوں نے ایک دن کہا کہ میں نے بہت سے لوگوں کو شاعر بنا دیا لیکن اپنے بچوں کو شاعری کی طرف نہ لاسکا۔ تو ہم نے بھی جوش میں آ کر شاعری شروع کردی لیکن یہ چلا نہیں…. کچھ ہی دنوں بعد اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ ہمارے بس کا کام نہیں ہے۔ ہر ایک آدمی اجمل سراج تو نہیں بن سکتا ناں۔“
ساتھی: ”کیا آپ نے بچوں کے لیے کہانیاں لکھی ہیں؟
اطہر علی ہاشمی: ”بھئی…. دیکھو میرا خیال یہ ہے کہ بچوں کے لیے لکھنے کے لیے بڑے ادیب کی ضرورت ہے۔ آج کل جو لکھ رہے ہیں وہ بھی بڑے ہو جائیں گے لیکن آپ آج سے تیس چالیس سال پہلے دیکھیں تو آپ کو بڑے بڑے لکھنے والے ملیں گے۔ شوکت تھانوی،غلام عباس،شفیق الرحمن، ابن انشا، اسماعیل میرٹھی اورعصمت چغتائی وغیرہ وغیرہ…. اُنھوں نے بچوں کا ادب لکھنے کا حق ادا کیا ہے۔ بڑوں کے لیے آپ کچھ بھی لکھ دیجیے….وہ پڑھ بھی لیں گے سمجھ بھی لیںگے اور اصلاح بھی کر دیں گے لیکن بچوں کے لیے لکھنے میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اگر آپ غلط سلط لکھیں گے تو وہ بھی غلط ہی لکھیں گے اور سمجھیں گے۔“
ساتھی: ”جب آپ اسکول میں تھے تو آپ کوکس مضمون سے دلچسپی رہی۔“
اطہر علی ہاشمی: ”اسکول میں تو افسانوں سے رہی اس کے علاوہ ’تاریخ ‘ ایک ایسا مضمون ہے جس سے دلچسپی بھی رہی اور شوق سے پڑھا کرتے تھے۔“
ساتھی: ”کوئی ایسا مضمون جس سے بیر رہا ہو؟“
اطہر علی ہاشمی: ”خیر بیر تو کسی مضمون سے نہیں رہا لیکن ہوا یہ کہ میٹرک تک ہم نے مضامین اُردو میں پڑھے لیکن ہم نے ایف سی کالج میں داخلہ لیا جو خالصتاً انگریزی میں تھا۔ ہوا یہ کہ ایک دن استاد ’ہسٹری‘ پڑھا رہے تھے۔ اس میں ایک تھا اوٹمن ایمپائر…. اس وقت میری سمجھ نہیں آیا کہ ہم نے ہسٹری بہت پڑھی لیکن یہ ’اوٹمن کہاں سے آگیا۔ دراصل یہ سلطنت عثمانیہ کا ذکر تھا۔ اسے انگریزی میں ’اوٹمن‘ کہتے ہیں تب سمجھ آیا۔ “
ساتھی: ”آپ نے اپنے نام کے علاوہ کسی قلمی نام سے بھی لکھا ہو جسے لوگوں نے پڑھا ہو اور وہ مقبول بھی ہوا ہو؟“
اطہر علی ہاشمی: ”جس نام سے بھی لکھا الحمدللہ لوگوں نے پڑھا قلمی ناموں میں ابو حماد، علی خان اور اس کے علاوہ اپنے نام سے بھی لکھا کرتا تھا۔ ”آدھی بات اور لکھنے والا پورا آدمی“ کے عنوان سے بھی لکھا۔
ساتھی: ”بیسویں صدی کی اُردو زبان اور آج بولے جانے والی زبان میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟“
اطہر علی ہاشمی:” ہم نے کتابت کا دور بھی دیکھا۔ پہلے اردو زباں بہت محتاط ہوکر لکھی جاتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اس زمانے میں اخبار کا پروف ریڈر پڑھا لکھا ہوتا تھا لیکن آج کل ایسا نہیں ہے۔ جسے کوئی کام نہیں آتاوہ پروف ریڈنگ شروع کر دیتا ہے۔ جبکہ پہلے پروف ریڈر بہت قابل ہوا کرتے تھے اور بلا مبالغہ ہماری غلطیاں بھی پکڑ لیا کرتے تھے۔“
ساتھی: ”پچپن میں آپ نے جن ادیبوں کو پڑھا کس نے آپ کو زیادہ متاثر کیا۔“
اطہر علی ہاشمی:” بچپن میں پڑھنے والے ادیبوں میں عظیم بیگ چغتائی وغیرہ کو پڑھا اور وہ پسند بھی آئے اس کے بعد پھر ابن صفی کا چسکا لگ گیا۔ ابن صفی سے بہت کچھ سیکھا خاص کر اُردو زبان…. میرا خیال ہے کہ جب سے انھوں نے لکھنا شروع کیا تب ہی سے ہم نے پڑھنا بھی شروع کر دیا۔ پہلے وہ یہی لالو کھیت ہی میں رہتے تھے۔ ہمارے والد صاحب نے ہی اس کا چسکا لگایا….اچھا ابن صفی کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ زبان کی اصلاح بھی کیا کرتے تھے۔ مثلاً صفدر عمران سے کہتا ہے ”برخوردار! یہ رجوع کرنا نہیں بلکہ رجوع لانا ہوتا ہے۔“ اب آپ یہ دیکھے کہ اصل رجوع لانا ہی ہے۔“
ساتھی: ”کن کن قلم کار کی تحریریں آپ شوق سے پڑھا کرتے تھے؟“
اطہر علی ہاشمی:” ہم اس وقت یہ تو نہیں دیکھتے تھے کہ کس نے لکھا ہے بس پڑھ لیتے۔ یہ خرابی تو اب پیدا ہوئی ہے۔ اس وقت جو ہاتھ لگا ….پڑھ ڈالا۔ “
ساتھی: ”آپ نظم پڑھا کرتے تھے یا کہانی؟“
اطہر علی ہاشمی: ”زیادہ تر تو کہانیاں ہی پڑھا کرتے تھے اور عموماً یہی ہوتا ہے کہ کہانیاں زیادہ پڑھی جاتی ہیں۔“
ساتھی: ”ساتھی میں بچوں کے لیے لکھنے والوں میں آپ کو کون پسند ہے؟ “
اطہر علی ہاشمی: ”بھئی ایک تو حاطب صدیقی ہوئے، ایک شریف شیوہ جو بچوں کے لیے اچھی نظمیں لکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی دیگر لکھنے والے ہیں نام میرے ذہن میں نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ جو آپ کا ایک سلسلہ ہے جس میں ننھے لکھنے والے ہیں۔ اس میں بھی اچھے لکھنے والے سامنے آئیں گے۔ اس کے علاوہ ساتھی میں جو سفر نامہ چل رہا ہے اس کی زبان بھی اچھی ہے۔ بامحاورہ اور باادب زبان ہے۔ پڑھنے میں مزہ آتا ہے۔ اس کے علاورہ رﺅف پاریکھ اور محمود شام وغیرہ ہیں لیکن یہ منجھے ہوئے لوگ ہیں۔ اس کے علاوہ الیاس نواز کی ناچتے آدمی اور پچاس لاکھ کا نوٹ وغیرہ ہے۔ یہ سب کہانیاں ہم نے پچپن میں پڑھی تھیں ،اب وہ دوبارہ تازہ ہوگئی ہیں۔ اس کے علاوہ گل رعنا کا بہت اچھا ترجمہ ہوتا ہے۔“
ساتھی: ”آج کل یہ بات پھیلی ہوئی ملتی ہے کہ ادب روبہ زوال ہے اور بچوں کا ادب بھی زوال کا شکار ہوگیا ہے۔ آپ کی اس بارے میں کیا راے ہے؟“
اطہر علی ہاشمی: ”بھئی یہ بات جو بھی کہے اُسے ساتھی پڑھوا دیا کرو۔ بھئی اول تو یہ ذہن میں رہے کہ ہر چیز میں زوال ہے لیکن بچوں کے ادب میں ایسا ابھی تک تو نظر نہیں آتا۔ ہاں اگر کوئی مسئلہ ہوسکتا ہے تو وہ ان کی فنڈنگ کا مسئلہ ہوگا۔ یا انھیں اشتہار نہیں ملتا ہوگا جس کی وجہ سے یہ دَب جاتے ہیں۔ “
ساتھی: ”آپ زبان و بیان کے حوالے سے جسارت فرائڈے اسپیشل اور ساتھی میں بھی لکھتے ہیں تو آپ کو زبان و بیان کا کس طرح شوق ہوا اور اس موضوع پر کب سے لکھنا شروع کیا؟“
اطہر علی ہاشمی: ”بس جب سے آئے ہیں اور دیکھا کہ یہاں زبان و بیان کی خرابی ہے تو تب سے لکھنا شروع کر دیا۔ بس ان کی اصلاح کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اسے خاصی مقبولیت حاصل ہوئی یہ سعودیہ میں پڑھا جاتا ہے اور اس کے علاوہ انڈیا میں بھی چھپتا ہے لیکن پہلے اپنے لوگوں کی اصلاح کے لیے…. جنھیں مطالعہ کی عادت نہیں ہوتی اور یہ سلسلہ شاعر اجمل سراج کے کہنے پہ شروع کیا اور سب سے پہلے یہ سنڈے میگزین میں چھپنا شروع ہوا۔
ساتھی: ”ساتھی میں یہ سلسلہ کیسے شروع ہوا؟“
اطہر علی ہاشمی: ”آپ کے مدیر صاحب کے کہنے پریہ سلسلہ شروع کیا گیا۔ اُنھوں نے تبصرہ کرنے کا کہا تو وہی سے آغاز ہوگیا اور وہی سے یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ لیکن مجھے یہ مضمون لکھتے ہوئے تکلیف بھی ہوتی ہے کہ بچے لکھ رہے ہیں اور میں ان کی ٹانگ پکڑ رہا ہوں لیکن میری کوشش ہوتی ہے کہ ان کی زبان کی اصلاح ہوجائے اور بڑے ہوکر وہ یہ سب غلطیاں نہ کریں اور جو ہم کرتے رہے ہیں۔ “
ساتھی: ”صحافتی زندگی میں کن کن اداروں سے وابستہ رہے؟“
اطہر علی ہاشمی:” صحافتی زندگی میں کراچی میں رہا ہوں اور پھر چھہ سات سال کے لیے سعودیہ کے شہر جدہ چلا گیا تھا۔ اس کے علاوہ کراچی میں جسارت سے ہی منسلک رہے کسی اور ادارے یا اخبار میں نہ جانے کی وجہ طبیعت میں سستی ہے وہ مصرع ہے ناں داغ دہلوی کا کہ ….
حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے…. وہی صورت حال ہمارے ساتھ ہے۔ “
ساتھی: ”بچوں کا ادب مستقبل میں کیسا دیکھتے ہیں؟“
اطہر علی ہاشمی: ”میں سمجھتا ہوں کہ بچوں کے ادب کا مستقبل روشن ہے۔ ساتھی سمیت اور متعدد رسالے نکل رہے ہیں اور بچے بھی اس میں دل چسپی لے رہے ہیں۔ ساتھی نے جو نئے لکھنے والے متعارف کروائے ہیں اس سے لگ رہا ہے کہ بچوں کا مستقبل روشن ہے۔ کوئی مایوسی والی بات نہیں ہے۔ “
ساتھی: ”بچوں کے مستقبل کے حوالے سے آپ کی راے؟“
اطہر علی ہاشمی: ”ہمارے یہاں بچوں کا پچپن چھین لیا جاتا ہے۔ تین سال یا اس سے بھی پہلے اسے اسکول میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ مائیں مطمئن ہوجاتی ہیں کہ چلو اب دو یا تین چار گھنٹے کے لیے آرام ملا اور بچوں کو اتنا ہوم ورک مل جاتا ہے کہ اسے کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ عجیب حماقت ہے۔ جبکہ برصغیر میں یہ عمومی رجحان بلکہ روایت تھی کہ جب تک بچہ چار سال چار ماہ چار دن کا نہیں ہوجاتا تب اس کی ’آمین‘ ہوگی یعنی اسے بسم اللہ پڑھائی جاتی تھی لیکن اب یہ رجحان ہے کہ انھیں ابتدائی عمر ہی میں اسکول میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ “
ساتھی: ”ادارہ ساتھی اور اس کے قارئین اور قلمکاران کے لیے کوئی پیغام؟“
اطہر علی ہاشمی: ”بھئی میں تو یہی کہتا ہوں کہ لگے رہو…. تم لوگ اچھی محنت کر رہے ہو۔ تم نے بہت سے اچھے لکھنے والے متعارف کروائے ہیں، ان شاءاللہ آئندہ بھی یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور میری یہ دعا ہے کہ اللہ تمھیں اور تمھارے لکھنے والوں کو برکت دے۔ قارئین کے لیے یہ توجہ کہ وہ اپنی زبان ٹھیک کریں…. یہ اصرار میرا اس لیے ہے کہ اہل زبان اور غیر اہل زبان سب کے سب پیٹ بھر کے غلطیاں کر رہے ہیںتو کم از کم آپ لوگ نہیں کریں…. ہمیں تو خوش ہونا چاہیے کہ ایک بلوچی، پٹھان، پنجابی آپ کی زبان بول رہا ہے۔ اگر وہ غلط بھی بول رہا ہے یا اس کاتلفظ بھی ٹھیک نہیں ہے تو آ پ کو خوش ہونا چاہیے۔ ویسے اگر آج بھی اسماعیل میرٹھی کی نظمیں بچوں کے نصاب میں شامل کر دی جائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ان کی اُردو اچھی ہوجائے۔“
رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ اطہر ہاشمی نے باتوں باتوں میں بہت سی اہم نصیحتیں بھی کردیں۔ یہ نصیحت بچوں کے لیے بھی ہے اور والدین کے لیے بھی، ضرورت اس پر سوچنے سمجھنے کی ہے۔ اطہر صاحب سے خوب سیر حاصل گفتگو کے بعد ہم اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔
٭….٭