sathee sathi

sathee sathi


میں ہوں آپ کا ساتھی…. جانا پہچانا ساتھی! ابھی تو میں بہت موٹا تازہ اور جوان ہوگیا ہوں۔ لیکن آج سے ۰۴ سال پہلے میں بہت دُبلا پتلا اور نازک تھا۔
گزشتہ چالیس سال سے سیکڑوں ساتھی میری تزئین و آرائش اور تربیت کررہے ہیں اور آج انھیں کی بدولت میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہوں۔
آج میں آپ کو اپنے پوری کہانی سنانا چاہتا ہوں۔
تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ میری پزیرائی میں کن ساتھیوں کی قربانیاں اور جدوجہد شامل ہیں۔ آپ کو یقینا میرا ماضی جان کر اچھا لگے گا۔
میں جنوری 1977ءکو کراچی میں پیدا ہوا۔ پیدائش کے وقت میرا نام ”پیامی“ رکھا گیا۔
”کلیم چغتائی“ پہلے مدیر تھے اور انھوں نے مجھے تخلیقی صلاحیتوں سے گزارا۔ جنہیں شاید خود معلوم نہ تھا کہ یہ پیامی (ساتھی) آج اتنا بڑا ہوجائے گا۔
شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ اپنے ابتدائی زمانے میں میرے کل صفحات 16 تھے اور قیمت بھی صرف 20 پیسے ہی تھی۔
پھر جنوری 1978ءمیں میرے صفحات 24 ہوگئے۔ اس کے بعد ”آفتاب الدین“ نے ستمبر 1978ءسے مجھے اپنی آغوش میں لیا اور میرے ساتھیوں کی تر بیت کے لیے پہلا خاص نمبر ”امتحان نمبر“ نکالا۔
مئی 1978ءمیں میرا نام پیامی سے بدل کر موجودہ نام ”ساتھی“ رکھ دیا گیا۔
میرے نام کی تبدیلی میں دو ساتھیوں کو یہ اعزاز حاصل ہوا۔ ان کی تجویز پر میرا نام ’ساتھی‘ رکھا گیا۔ وہ دہلی بوائز اسکول کے ”شارق ممتاز“ اور کے ایم اے بوائز اسکول کے طالب علم ”عبدالرحمن“ تھے۔
ابھی تک میں بلیک اینڈ وائٹ تھا۔ ستمبر 1978ءمیں میرا ایک رنگ کا سرورق بنایا گیا اور میرے سالنامے کی روایت 1979ءسے شروع ہوئی۔ پہلا سالنامہ نئے مدیر ”رفیع الدین مجاہد“ نے تیار کیا۔
جون 1982ءمیں میرے سرورق کے ساتھ ساتھ دوسرے صفحات بھی رنگین ہوگئے۔
جنوری 1984ءمیں ”اعظم منہاس“ نے مدیر کی حیثیت سے مجھے سنوارنے کی ذمہ داری قبول کی۔ آپ رخصت ہوئے تو ”سعود کمال عباسی“ نے جگہ لے لی اور کافی طویل عرصے تک یعنی نومبر 1984ءسے 1987ءتک مجھے نگہداشت کرتے رہے۔
پہلے میرا قد کچھ چھوٹا تھا لیکن آج کل آپ جو قد دیکھتے ہیں۔ وہ آپ نے ہی تیار کیا۔
ان کے دور میں سالنامہ کے علاوہ ”آزادی نمبر“ اگست 1985ءمیں شائع ہوا۔ آپ بھی اپنی صلاحتیں مجھے سونپ کر رخصت ہوئے اور اپنی جگہ ”صادق جمیل“ کو چھوڑ گئے۔ انھوں نے میرا مقبول عام سلسلہ ”کمانڈو فور“ جو منیر احمد راشد نے تحریر کیا تھا۔ ان ہی کے دور میں سالنامے سے شروع ہوا۔
ان ہی کا وہ تاریخ ساز دور تھا۔ جب میں مجلے کی شکل سے نکل کر ماہنامے کی شکل اختیار کر گیا۔ مجھے باقاعدہ رجسٹریشن جنوری 89ءمیں ملی۔
اب میں جس کے دور کا تذکرہ آپ سے کروں گا وہ ہے جناب ”سید شمس الدین“
آپ جنوری 90ءسے دسمبر91ءتک میرے ساتھ رہے لیکن اس مختصر عرصے میں مجھے چار چاند لگ گئے۔ اب میرے اندر تحریروں کے ساتھ اسکیچز لگانے کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس کے علاوہ ”ساتھی رائٹرز ایوارڈ“ کی پہلی منفرد تقریب بھی مارچ 90ءمیں آپ ہی نے منعقد کی۔ اسی سال ”کمپیوٹر نمبر“ شائع ہوا۔ اتنے سارے اہم کام سر انجام دے کر آپ کا سنہرا دور ختم ہوا۔
نئے مدیر ”قاضی سراج الدین“ نے مجھے نئے جدید دور میں داخل کیا۔ سب سے پہلے تو فروری 92ءمیں میرا ”پندرہ سالہ نمبر“ شائع کرکے میری سا لگرہ منائی گئی۔ مجھے یاد ہے۔ میں 160 صفحات جتنا موٹا تھا اور میری قیمت پانچ روپے تھی۔ پھر اگلے ماہ ساتھی رائٹرز ایوارڈ کی کامیاب تقریب مارچ 92ءمیں منعقد ہوئی۔ اسی ماہ میں آل پاکستان چلڈرن میگزین سوسائٹی کا ممبر بھی بنا۔ اب میری قیمت مستقل چار روپے کر دی گئی۔
اسی سال میرا خاص نمبر ”سائنس اسپیشل“ شائع ہوا۔ اس کے فوری بعد اپریل کا شمارہ ”حقوق اطفال نمبر“ شائع کیا۔ اس خاص نمبر کو دعوة اکیڈمی نے بچوں کے رسائل میں دوسرا انعام دیا۔ اس سال بھی جولائی 93ءمیں ساتھی رائٹرز ایوارڈ کی تقریب منعقد ہوئی۔ بھئی سچ پوچھو تو کمال ہی کردیا قاضی سراج نے تو۔ ہر سا ل سا تھی رائٹرز ایوارڈز کی تقریب اور خاص نمبر کی تو ہیڈ ٹرک ہی کرلی۔
اگست 93ءمیں آپ نے” جیوے پاکستان نمبر“ شائع کیا۔ یہ آپ کا آخری خاص نمبر تھا۔
میری مقبولیت بہت بڑھ چکی تھی۔ ہر کوئی میرا ساتھی بننا چاہتا تھا۔ جاتے جاتے آپ مجھے دسمبر 93ءمیں آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کا ممبر بھی بنا گئے۔ صرف اتنا ہی نہیں۔ یہ جو میرادوسرا ایڈیشن آپ دیکھتے ہیں۔ یہ بھی اگست 92ءسے ہی نکلنا شروع ہوا ہے۔ اس طرح مجھے بیک وقت دو زبانوں میں شائع ہونے کا اہم اعزاز حاصل ہوا۔ یعنی اب ساتھی اردو کے علاوہ حیدرآباد سے سندھی زبان میں بھی شائع ہونے لگا۔ مارچ 94ءمیں ”خاص بچے خاص شمارہ“ شائع ہوا۔ مجھے پاکستان بھر میں اتنا پسند کیا گیا کہ دعوة اکیڈمی نے مجھے بچوں کے رسائل میں اول انعام سے نوازا۔ اس اہم اعزاز کو لیے قا ضی سراج رخصت ہوئے اور ”صہیب جمال“ کو اپنی جگہ چھوڑ گئے۔
صہیب جمال نے بھی قاضی سراج کی طرح مجھے نکھارنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑا مگر ان دنوں کاغذ کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ ہونے کے باعث اخراجات کو سنبھالنا انتہائی مشکل ہوگیا تھا۔ اب میری قیمت روز بروز بڑھتی جبکہ میرے ساتھیوں کی تعداد کم ہوتی جارہی تھی۔ مگر سلام ہے صہیب جمال صاحب کو جنھوں نے میرے معیار میں کوئی کمی آنے دی ہو۔ آپ کے بعد عبدالحامد نے مجھے سنوارنے کا عہد کیا۔ آپ نے ”صحت نمبر“، ”فروغ تعلیم نمبر“ اور ”اطفال پاکستان نمبر“ منفرد انداز میں شائع کیے۔ عبد الحامد جاتے جاتے ساتھی پبلی کیشنز کے تحت پہلا ناول ”کمانڈو فور“ جو بہت مقبول ہوا تھا، اسے بہترین سرورق کے ساتھ شائع کروایا۔
عبد الحامد کے بعد عبد الفرید بروہی مارچ 97ءمیں آئے۔ آپ نے پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر میراضخیم ترین شمارہ ”عزم آزادی نمبر“کے نام سے شائع کیا۔
بہت جلد میرے بیس سال مکمل ہوئے اور” بیس سالہ نمبر“اس زمانے میں ریکارڈ توڑ صفحات یعنی 148 صفحات پر مشتمل شائع ہوا۔ میں اب واقعی جوان ہوچکا تھا۔ اگلے سال آپ بھی رخصت ہوئے اور مجھے ضیاءشاہد کے سپرد کرگئے۔ آپ نے آتے ہی پہلے ماہ اپریل 98ءمیں ”ماں نمبر“ شائع کیا۔ پھر اگلے سال جون 99ءمیں آپ نے میرا ”ورلڈکپ اسپیشل نمبر“ 136 صفحات کے ساتھ نکالا۔ اس خاص نمبر کے بعد نومبر 99ءمیںعام شمارے کی طرح ”حقوق اطفال نمبر“ شائع کیا۔
نئی صدی شروع ہوئی تو ”میر شاہد حسین“ نے ضیاءشاہد کی جگہ لے لی۔ آپ نئے صدی کے نئے عزائم لیے ہوئے تھے۔ آپ نے آتے ہی مئی 2000ءمیں ”صحت و صفائی نمبر“ شائع کیا۔ جس کے ساتھ ایک خوب صورت پزل کا تحفہ بھی مفت دیا گیا۔ اس خاص نمبر کے 136 صفحات تھے۔ آپ نے نئی صدی کے آغاز پر پرانی روایت ”رائٹرز ایوارڈ“ کا آغاز کیا۔ اس طرح یہ تقریب جولائی93ءکے طویل عرصے بعد 15 اکتوبر 2000ءکو ایو یکیو کلب، گلشن اقبال میں منعقد کی گئی۔
اگلے ماہ نومبر 2000ءمیں ”آزادی کشمیر نمبر“ شائع ہوا۔ اس طرح نئی صدی کا آغاز تین خاص نمبر اور رائٹرز ایوارڈ کی تقریب کو منعقد کرکے کیا گیا۔
اگلے سال صرف دو خاص نمبر شائع ہوئے۔ ایک تو ”بچے اور امن نمبر“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ جس کے سر ورق کو دعوة اکیڈمی نے پاکستان بھر میں بہترین سرورق قرار دیا اور دوسرا خاص نمبر ”سالنامہ“ اکتوبر 2001ءمیں شائع ہوا۔
اس کے صفحات کی تعداد 152 رکھی گئی تھی۔ لیکن خاص بات یہ تھی کہ اس کے ساتھ ایک منفرد لیڈو (Lido) گیم کا تحفہ مفت دیا گیا۔ جس میں اچھائی اور برائی کے درمیان فر ق کرتے ہوئے جنت تک پہنچنے کی تلقین کی گئی تھی۔یہ تحفہ آئیڈے کے لحاظ سے خاصہ منفرد ثابت ہوا۔
13 جنوری 2002 کو ریجنٹ پلازہ میں دوسری بار ”رائٹرز ایوارڈ“ کی تقریب منعقد کی گئی۔ اس تقریب کی افادیت یہ ہوئی کہ گمشدہ اور نئے لکھاری دوبارہ سے مجھے نکھارنے کی طرف مائل ہوئے اور میری دلکشی میں اضافہ کرنے لگے۔ اپریل 2002ءمیں میر شاہد حسین رخصت ہوتے ہوئے راحیل یوسف کو چھوڑ گئے۔ اب مجھے 25 سال مکمل ہوچکے تھے۔ مجھ میں شامل رنگا رنگ صفحات اور خوب صورت آئیڈیاز نے مجھے اتنا حسین کردیا تھا کہ آج تک بہت سے ساتھی مجھے اسی حوالے سے یاد رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی قیمت 20 روپے ہوچکی تھی۔
جولائی 2003ءمیں ”حیرت ناک نمبر“ شائع کیا جو اپنے اندر بہت سارے رنگین صفحات ساتھ لیے ہوئے تھا۔
ستمبر 2003ءمیں راحیل یوسف نے مجھے کاشف شفیع کے حوالے کر دیا۔
آپ نے آتے ہی پہلے ماہ ہی رائٹرز ایوارڈ کی تقریب ریجنٹ پلازہ میں منعقد کی۔ اگلے ماہ اکتوبر 2003ءمیں سالنامہ شائع کیا۔ پھر مئی 2004ءہر شمارہ ہی خاص نمبر دکھائی دینے لگا۔ 2004ءمیں ”جنگل نمبر“ پھر ”آزادی نمبر“ شائع ہوئے اور اسی سال سالنامہ بھی شائع کیا گیا۔ جس کی قیمت 18 روپے تھی۔
مارچ 2005ءمیں بہت عرصہ بعد ایک اور مقبول قسط وار ناول ”گوریلا فائٹرز“ شانِ مسلم کے قلم سے شائع ہوا۔ اپریل 2005ءمیں آپ نے بھی رائٹرز ایوارڈ کی تقریب ریجنٹ پلازہ میں منعقد کی۔ ستمبر 2005ءمیں حسب معمول سالنامہ شائع ہو۔ اس طرح کاشف شفیع جاتے جاتے پچیس سالہ نمبر کی تاریخ کو دہرا گئے۔
جی ہاں دسمبر 2005ءمیں جو ”قائداعظم“ نمبر آپ نے پسند کیا تھا۔ وہ نجیب احمد حنفی نے آتے ہی نکالا تھا اور بہت خوب نکالا تھا۔ خاص نمبر کے ساتھ ایک قائد اعظم کی آٹو گراف بک بھی مفت دی گئی تھی۔ یہ خاص نمبر ایک صدی اپنے اندر سمائے ہوئے تھا۔ 2006ءمیں دو خاص نمبر آپ نے پڑھے ہوں گے۔ ستمبر 2006ءمیں سالنامہ اور دسمبر 2006 ءمیں ”عالم اسلام نمبر۔“
آپ نے بھی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے، اپریل 2007ءمیں آواری ٹاورز میں رائٹرز ایوارڈ کی تقریب منعقد کی اور ستمبر 2007ءمیں 30سالہ نمبر اپنی آب وتاب کے ساتھ شائع ہوا۔ جو 30روپے قیمت کے ساتھ 200 صفحات پر مشتمل تھا۔
جنوری 2008ءمیں نجیب احمد حنفی کی ادارت میں ہی 152صفحات پر مشتمل ”کارنامہ نمبر“ شائع ہوا۔ جس کی قیمت 20 روپے تھی۔
جون 2008ءمیں 152صفحات کا ”بور نمبر“ شائع ہوا۔ ”بور نمبر“ کو اپنے انوکھے آئیڈیاز کی وجہ سے قارئین نے خوب سراہا۔ اس خاص نمبر میں بور قارئین کو جھنجھنا بطور تحفہ بھجوایا گیا۔
ابھی قارئین نے ”بور نمبر“ ہضم کیا بھی نہیں تھا کہ نومبر 2008ءمیں”سالنامہ“ لایا گیا۔
یوں تو نجیب حنفی اپنے انوکھے آئیڈیاز کی وجہ سے میرے منفرد ایڈیٹر رہے ہیں لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ 17 اپریل 2009کو فاران کلب میں رائٹرز ایوارڈ کے ساتھ بچوں کا ”کل پاکستان مشاعرے“ کا انعقاد تھا۔
جس میں پاکستان بھر کے شعراءکو اکھٹا کیا گیا تھا۔ جولائی 2009ءمیں 152صفحات پر مشتمل ”شرارت نمبر“ اور نومبر 2009ءمیں ”سالنامہ“ شائع کیا گیا۔ یہ ”نجیب احمد حنفی“ کی ادارت میں شائع ہونے والا آخری ”سالنامہ“ تھا۔ بالآخر نجیب احمد حنفی بھی مجھے چھوڑ گئے۔
جون 2010ءمیں ”سائنس نمبر“ نئے مدیر ”شمعون قیصر“ کی ادارت میں شائع ہوا اور نومبر 2010ءمیں ہمیشہ کی طرح پورے طمطراق سے ”سالنامہ“ لایا گیا۔
اس سالنامے میں بچوں کے لیے سندباد 4Dسینما کا مفت ٹکٹ بھی شامل تھا۔
شمعون قیصر نے نجیب احمد حنفی کے کیے ہوئے کام کو خوش اسلوبی کے ساتھ آگے بڑھایا اور 17اپریل 2011ءکو ریجنٹ پلازہ میں ”ساتھی رائٹرز ایوارڈ“ کی پروقار تقریب ہوئی۔ اس کے بعد اگست 2011ءمیں ”تعمیر پاکستان نمبر“ اور دسمبر 2011ءمیں ”سالنامہ“ شائع ہوا۔ جس میں گزشتہ سال کی طرح سندباد 4Dسینما کا مفت ٹکٹ شامل تھا۔اس سال بھی دو خاص نمبر شائع ہوئے تھے۔
جولائی 2012ءمیں ”سیر سپاٹے نمبر“ اور نومبر 2012ءمیں ”سالنامہ“ لایا گیا۔
شمعون قیصر کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہوا کہ ان کے دور میں نئے لکھاریوں کی رہنمائی کے لیے بنایا گیا ”ساتھی گائیڈنس فورم“ متحرک ہوا۔
”شمعون قیصر“ کے بعد ”فصیح اللہ حسینی“ نے مدیر کی کرسی سنبھال لی۔ ”فصیح صاحب“ نے آتے ہی 9 جون 2013ءکو آرٹس کونسل کراچی میں ”رائٹرز ایوارڈ“ کی تقریب کا انعقاد کیا اور پھر جون 2013ءمیں ”بچپن نمبر“ شائع کیا گیا۔ یہ بچپن نمبر ”نجیب احمد حنفی“ کے 30 سالہ نمبر کے تعاقب میں 200صفحات کا نکالا گیا۔ اس خاص نمبر میں دلچسپ انعامی سلسلے تھے۔ وہیں کچھ خاص قارئین کے لیے بذریعہ کوپن ’چسنی‘ دینے کا اعلان کیا گیا۔ ۳۱۰۲ءکے ماہ نومبر میں ساتھی کا ۵۳سالہ نمبر اپنی آب وتاب کے ساتھ لایا گیا۔ اس سالنامے نے ضخامت میں پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ یہ سالنامہ اپنے منفرد آئیڈیاز کی وجہ سے ادبی حلقوں میں خوب سراہا گیا۔ اپریل ۴۱۰۲ءمیں ساتھی گائیڈنس فورم کے تحت نئے قلمکاروں کی تربیت کے لیے ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ اس ورکشاپ کے نگراں مجلس ادارت کے اعظم طارق کوہستانی تھے۔ معروف قلمکاروں اور ٹرینرز نے نوجوانوں کی تربیت کا سامان کیا۔ جون ۴۱۰۲ءمیں ساتھی کے ساتھیوں نے ایک مشکل ہدف کو مقصود بناتے ہوئے ”مریخ نمبر“ نکالا۔ اس نمبر کے حوالے سے میرے ساتھیوں نے خوب محنت کی اور بچوں کے ادب میں پہلی بار کسی رسالے نے اس موضوع پر خاص نمبر نکالا تھا۔
پچھلی روایتوں کے برعکس اس بار سالنامہ اکتوبر ۴۱۰۲ءمیں لایا گیا۔
۵۱۰۲ءکے ماہ مئی میں ۶۷۱ صفحات پر مشتمل ”آئیڈیا نمبر “لایا گیا۔ نت نئے خیالات اور مستقبل کا نقشہ کھینچتا یہ آئیڈیا خوب پسند کیا گیا۔
نومبر ۵۱۰۲ءساتھی کی ٹیم نے سالنامہ اور ”کُل پاکستان بچوں کا مشاعرہ + رائٹرز ایوارڈ“ جیسے اہم کام کیے۔ کُل پاکستان بچوں کا مشاعرہ کے انعقاد نے ساتھی کے چاہنے والوں میں اضافہ کیا۔ کراچی ایکسپو سینٹر میں منعقد اس مشاعرے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں عوام کو شرکت کی کھلی دعوت دی گئی تھی۔
جنوری ۶۱۰۲ءمیں ساتھی گائیڈنس فورم کے تحت تیسری ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔
اس ورکشاپ کے نگراں مجلس ادارت کے انچارج اعظم طارق کوہستانی تھے۔ جس نے نئے لکھنے والوں کو نکھارا۔ اتنے اہم کام کرکے بلاآخر سید فصیح اللہ حسینی بھی ساتھی سے رخصت ہوئے اور محمد طارق خان کو اپنا جانشین چھوڑ گئے۔
محمد طارق خان اپنے قلمی نام اعظم طارق کوہستانی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے مدیر کی کرسی سنبھالتے ہی ایک انوکھے نام کے ساتھ خاص شمارہ یعنی ”ابو نمبر“ شائع کیا۔ جسے قارئین نے بہت سراہا۔
انھوں نے تو اگلے ہی ماہ یتیم بچوں کے لیے ”باہمت بچے نمبر“ شائع کر دیا، جس سے بچوں سمیت میری بھی کافی ہمت بندھی۔
انہی کی ادارت میں ہر کہانی کے آخر میں ”مشکل الفاظ کے معنی“ کا سلسلہ شروع کیا گیا، جو اب میری ایک روایت بن چکی ہے۔
علاوہ ازیں دسمبر ۶۱۰۲ءمیں ساتھی گائیڈنس فورم کے تحت چوتھی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔
اس سال ساتھی میں نئے سلسلے بھی شامل کیے گئے جس میں ”آپ کی نگارشات“، ”الفا ظ کا تعاقب“ وغیرہ شامل ہیں۔
پھر نومبر ۶۱۰۲ ءمیں سالنامہ لایا گیا۔ ماہنامہ ساتھی نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے اپریل ۷۱۰۲ میں فاران کلب کراچی میں رائیٹرز ایوارڈز کے نام سے شان دار تقریب کا انعقاد کیا۔ اس تقریب میں ملک بھر سے مشہور و معروف شعرا اور ادبا نے شرکت کی۔ رائیٹرز ایوارڈ میں سال ۵۱۰۲ ءاور ۶۱۰۲ ءکے بہترین شعرا اور قلمکاران کو ایوارڈز دیے گئے۔
اب میں اپنے چالیس سالہ دورمیں داخل ہوگیا اور رواں سال کا میراپہلا خاص شمارہ مئی ۷۱۰۲ ءکو ”بھول نمبر“ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ یہ شمارہ اپنی نوعیت کا ایک شاندار رسالہ تھا۔
نومبر ۷۱۰۲ءمیں ، میری عمر چالیس برس ہوگئی اور میرا سالنامہ یعنی ’چالیس سالہ نمبر‘ بہت خوبصورت انداز میں شائع ہوا۔ جس کے ۸۸۲ صفحات نے ساتھی کے چالیس سال کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔
اب اکتیالیسویں برس میں داخل ہوا تو مئی ۸۱۰۲ءمیں ایک خاص نمبر ”شکایت نمبر“ کے عنوان سے شائع کیا گیا۔ جسے قارئین نے خوب سراہا۔
اس کے علاوہ اعظم طارق کوہستانی کے دور ادارت میں مجھے ڈیجیٹل محاذ پر بھی نمائش کا موقع ملا۔ جسے میں نے ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ اس کے ساتھ ہی نومبر ۸۱۰۲ءمیں میرا سالنامہ شائع کیا گیا۔
اس کے بعد اعظم طارق بھی ایک باصلاحیت نوجوان مدیر عبدالرحمن مومن کے ہاتھ میری اہم ذمہ داری سپرد کرکے رخصت ہوگئے۔
نوجوان مدیر عبدالرحمن مومن نے حال ہی میں میری ادارت سنبھالی ہے اور آتے ہی بچوں کے لیے ”اسکول نمبر“ کے عنوان سے خاص نمبر شائع کیا، جسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور مجھے امید ہے کہ یہ نوجوان مدیر مجھے نئے دورسے ہم آہنگ رکھیں گے اور مجھے خوب پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا۔
اس کے علاوہ میں کچھ مزید بھی کہنا چاہوں گا جو کہ بہت اہم ہے۔
اپنی تاریخ میں شاید میں نے تمام مدیروں کا تذکرہ تو کردیا مگر ان کے ساتھ کام کرنے والے ایسے افراد بھی ہےں جن کے نام میرے پہلے صفحے پر شائع ہوتے رہے اور بہت سارے ایسے افراد بھی ہیں کہ جن کا کہیں نام نہ تھا مگر ان کی محنتوں، کوششوں اور قربانیوں نے مجھے آج اس مقام پر پہنچایا۔ اور ہاں!آپ بھی اس میں شامل ہیں جو مجھے فروخت کر رہے ہیں اور آپ بھی!!جو مجھے اشتہار کی صورت میں میری مدد کررہے ہیں اور ہاں آپ تو یقینا اس میں شامل ہیں جو مجھے خرید کر پڑھ رہے ہیں اور میرے ساتھیوں کی تعداد میں اضافہ کررہے ہیں۔ میں آج اس موقع پر آپ کو کیسے بھول سکتا ہوں جب آپ نے مجھے نہیں بھولا ہے۔