غرور کا سر تو ہمیشہ سے نیچا تھا ایک بار پھر غرور خاک میں مل گیا

 

بیگم وقاص کو گلاب کی ننھی کلی پر جھکا دیکھ کر آم بھیا نے منہ بنا لیا۔
” مالی بابا…. دیکھیں یہ کلی تو کھل ہی نہیں رہی ہے آپ اس کلی کا خاص خیال رکھا کریں۔ یہ انگلش گلاب کا پھول مجھے بہت پسند ہے۔“ بیگم وقاص مالی بابا کو ہدایات دیتے ہوئے کہنے لگیں۔
”روٹی کو دودھ میں بھگو کر اس کی پتیوں کو صاف کیا کریں۔“
” جی بالکل“ مالی بابا نے کہا تو بیگم وقاص لان کے تمام پودوں، پھولوں اور درختوں پر سرسری نگاہ ڈال کر اندر کی جانب چلی گئیں۔
”ہونہہ…. بیگم وقاص خواہ مخواہ اس ایک انچ کی کلی کے لیے پریشان رہتی ہیں۔“ بیگم وقاص کے جاتے ہی آم بھیا نے امرود بھیا سے اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔
”ہاں بالکل ….انھیں اس کلی کو اپنے لان سے ہٹا دینا چاہیے۔“ امرود بھیا نے بھی تائید میں سرہلایا۔
” یہ چھوٹی سی کلی ہمارے لیے ایک بدنما داغ ہے۔“ انار کے درخت نے حقارت سے کہا۔ ان کی باتیں سن کر ننھی کلی جو پہلے ہی سمٹی ہوئی تھی مزید سمٹ کر چھوٹی سی ہوگئی۔
٭….٭
اگلے دو دن بیگم وقاص کے لان میں بڑی ہلچل مچی رہی۔ انہوں نے دیسی گلابوں کا خوبصورت سا گلابی پودا خرید کر گل کے پاس لگوایا تھا۔ اس میں نہایت حسین بڑے بڑے گلابی پھول کھلے ہوئے تھے۔ ایک ہفتہ تو یونہی گلابی کا آس پڑوس میں تعارف کروانے میں گزر گیا۔ گلابی کلی دھیمے مزاج کی خوش اخلاق کلی تھی۔ باتوں کی تو وہ نہایت شوقین تھی ایسے میں وہ گل سے باتیں نہ کرتی…. یہ تو ناممکن سی بات تھی۔
تمھیں یہاں آئے کتنے دن ہوئے ہیں؟ “ گلابی کلی نے مسکرا کر گل سے سوال کیاتو آم بھیا بولے۔
” ارے اسے آئے پورے پندرہ دن ہوگئے ہیں۔ مگر اس کا قد چھوٹا ہے اور یہ تھوڑی مغرور بھی ہے کسی سے بات نہیں کرتی۔“
” ہاں ہاں ہر وقت منھ چھپائے رکھتی ہے۔ بیگم وقاص اس کی وجہ سے کافی پریشان رہتی ہیں۔“ چمبیلی کے پھول نے بھی آم بھیا کی طرف داری کی۔
گلابی کلی صرف ہم م کرکے رہ گئی۔ گل کے لیے یہ بات شرمندگی کا سبب بنی کہ ایک نئے مہمان کے سامنے بھی اس کے ’قد‘ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
”ارے قد سے کیا ہوتا….“ گلابی کی بات ادھوری ہی رہ گئی کیونکہ جھٹ سے امرود بھیا بول پڑے۔
”اصل خوبصورتی تو قد ہی ہے۔ مثال کے طور پر آم کو دیکھ لو گلاب نہ ہو کر بھی اس کی اتنی اہمیت ہے کہ بیگم وقاص گرمیوں کی شام میں آم کی لمبی اور گھنی شاخوں کے نیچے ہی بیٹھتی ہےں۔“ امرود کی بات پر آم بھیا فخر سے مزید اکڑ گئے۔
”ہاں…. آم بھیا کا قد تو ماشا اﷲ بہت ہی اچھا ہے۔“ گلابی نے سرہلاتے ہوئے کہا تو آم بھیا نے ایک ادا سے تمام درختوں کی جانب دیکھا اورکہا
”اس لیے تو میں کہتا ہوں کہ ہم جیسوں کے سامنے بیگم وقاص نے اس ایک انچ کی کلی کو لگا کر غلطی کی ہے۔“
٭….٭
”مالی بابا…. آپ جلد ہی آم کے درخت کی شاخوں کی کانٹ چھانٹ کردیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اس کی شاخےں بجلی کی تاروں سے الجھ جائیں گی اور کوئی نقصان ہوجائے گا۔“ وقاص صاحب مالی بابا کو ایک ایک درخت اور پودے کے متعلق الگ الگ ہدایات دے رہے تھے۔
آج تو نہیں مگر کل ضرور کردوں گا بیٹا۔“ مالی بابا نے کہا۔
ٹھیک لیکن یہ کام جتنی جلدی ہوجائے اتنا ہی اچھا ہے۔“ وقاص صاحب اب ننھی کلی کے پاس آکر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے تھے۔
” یہ ننھی کلی مجھے بالکل انشراح بیٹی کی طرح لگتی ہے۔ “ انھوں نے انگلی کے پوروں سے گل کو چھوا تواس نے حیرت سے انھیں دیکھا۔ خلوص و محبت کا لمس پا کر مارے گھبراہٹ کے اس کی ننھی پتیوں پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔
”ارے بیٹا یہ کلی تو کافی دن سے یونہی مرجھائی مرجھائی سی ہے۔ میں اس کا کافی خیال رکھتا ہوں مگر سب بے سود تم میری مانو تو اس گلاب کو یہاں سے ہٹا دو۔“
ننھی کلی کو یوں لگا جیسے بابا کے روپ میں آم بھیا کہہ رہے ہوں۔
” کیسی باتیں کرتے ہیں بابا…. یہ گلاب تو پچھلے مہینے ہی میری انشراح بیٹی کی پیدائش پر اپیا نے تحفتاً دیا ہے۔ اس میں تو مجھے انشراح بیٹی کا عکس بھی نظر آتا ہے۔“ وقاص صاحب قدرے ناراضی سے بولے۔
” یہ پودا چھوٹا ضرور ہے مگر اس کی خوشبو سب سے الگ ہے۔“
” یہ خوشبو دے تو بات بنے ناں بیٹا۔“ مالی بابا نے مایوسی سے کہا۔ تمام پودے اور درخت ان دونوں کی باتوں سے محظوظ ہو رہے تھے۔ گلابی کلی نے دھیرے سے گل کی جانب دیکھا جو کبھی وقاص صاحب اور کبھی مالی بابا کو دیکھ رہی تھی۔
”تمھارے اندر بہت ساری خوبیاں ہیں تم اپنے قد کی وجہ سے ان سب خوبیوں کو ختم کررہی ہو۔“ گلابی کلی سرگوشی کے انداز میں بولی۔
” مگر امرود بھیا کہتے ہیں اصل چیز قد ہے پھر تمام خوبیاں۔ “ گل معصومیت سے بولی۔
”دیکھو ناں آم بھیا بھی تو صرف قد کی وجہ سے سب کے ہر دل عزیز بنے ہوئے ہیں۔
”دیکھو خدا نے جو چیز تمہےں دی ہوئی ہے اس پر شکر ادا کرو کبھی کبھی ضرورت سے زیادہ اچھی چیزیں بھی ہمارے لیے مصیبت کا سامان پیدا کرتی ہیں۔“شاید گلابی کی یہ بات آم نے سن لی اور وہ تیز لہجے میں گویا ہوا۔
”سنو میرے دوستو! گل کی وجہ سے ہماری اصل خوبصورتی ماند پڑتی جا رہی ہے۔ ہم مل کر احتجاج کریں گے کہ گل کو یہاں سے ہٹا دیاجائے ہم احتجاجاً اپنے اوپر کوئی پھل اور پھول لگنے نہیں دیں گے۔ جب تک گل یہاں رہے گی ہم اپنی بہاریں کھل کر نہیں دکھا سکیں گے۔ اس احتجاج میں کون کون میرے ساتھ ہے؟“
آم کی بات پر پہلے تو تمام درختوں اور پودوں نے حیرت سے اسے دیکھا پھر سب اس کی طرف ہو گئے سوائے گلابی کلی اور رات کی رانی کے۔
٭….٭
رات کا نجانے کونسا پہر تھا۔ جب آم کی گھنی شاخیں بجلی کی تاروں میں الجھ گئیں۔ نیند کے خمار میں اس نے ایک جھٹکے سے شاخوں کو کھینچا تو ساتھ ہی ایک زوردار دھماکے کے ساتھ بجلی کی تاریں وقاص صاحب کی دیواروں پر گر گئیں۔ پنکھے بند ہوگئے اور اے سی کے اسٹیبلائزر سے چنگاڑی نکلی۔ وقاص صاحب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے ۔ بھاگم بھاگ اسٹیبلائزر کو بند کیا۔ دیواروں میں کرنٹ دوڑ رہا تھا۔ انھوں نے کے ای ایس سی کے دفتر فون کرکے حالات کی سنگینی کا بتایا اور مدد کی درخواست کی ۔ آن کی آن میں پورا محلہ جمع ہو گیا۔ کے ای ایس سی کی گاڑی آئی اور تاروں کو جوڑا۔ اسی وقت وقاص صاحب نے آم کے درخت کو جڑ سے کٹوا دیا۔ قد کی لڑائی ختم ہوئی اور اگلے دن سب نے دیکھا کہ انگلش گلاب کی کلی پوری طرح سے کھلی اپنی خوشبو سے پورے لان کو معطر کررہی تھی۔
٭….٭
بیگم وقاص کو گلاب کی ننھی کلی پر جھکا دیکھ کر آم بھیا نے منہ بنا لیا۔
” مالی بابا…. دیکھیں یہ کلی تو کھل ہی نہیں رہی ہے آپ اس کلی کا خاص خیال رکھا کریں۔ یہ انگلش گلاب کا پھول مجھے بہت پسند ہے۔“ بیگم وقاص مالی بابا کو ہدایات دیتے ہوئے کہنے لگیں۔
”روٹی کو دودھ میں بھگو کر اس کی پتیوں کو صاف کیا کریں۔“
” جی بالکل“ مالی بابا نے کہا تو بیگم وقاص لان کے تمام پودوں، پھولوں اور درختوں پر سرسری نگاہ ڈال کر اندر کی جانب چلی گئیں۔
”ہونہہ…. بیگم وقاص خواہ مخواہ اس ایک انچ کی کلی کے لیے پریشان رہتی ہیں۔“ بیگم وقاص کے جاتے ہی آم بھیا نے امرود بھیا سے اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔
”ہاں بالکل ….انھیں اس کلی کو اپنے لان سے ہٹا دینا چاہیے۔“ امرود بھیا نے بھی تائید میں سرہلایا۔
” یہ چھوٹی سی کلی ہمارے لیے ایک بدنما داغ ہے۔“ انار کے درخت نے حقارت سے کہا۔ ان کی باتیں سن کر ننھی کلی جو پہلے ہی سمٹی ہوئی تھی مزید سمٹ کر چھوٹی سی ہوگئی۔
٭….٭
اگلے دو دن بیگم وقاص کے لان میں بڑی ہلچل مچی رہی۔ انہوں نے دیسی گلابوں کا خوبصورت سا گلابی پودا خرید کر گل کے پاس لگوایا تھا۔ اس میں نہایت حسین بڑے بڑے گلابی پھول کھلے ہوئے تھے۔ ایک ہفتہ تو یونہی گلابی کا آس پڑوس میں تعارف کروانے میں گزر گیا۔ گلابی کلی دھیمے مزاج کی خوش اخلاق کلی تھی۔ باتوں کی تو وہ نہایت شوقین تھی ایسے میں وہ گل سے باتیں نہ کرتی…. یہ تو ناممکن سی بات تھی۔
تمھیں یہاں آئے کتنے دن ہوئے ہیں؟ “ گلابی کلی نے مسکرا کر گل سے سوال کیاتو آم بھیا بولے۔
” ارے اسے آئے پورے پندرہ دن ہوگئے ہیں۔ مگر اس کا قد چھوٹا ہے اور یہ تھوڑی مغرور بھی ہے کسی سے بات نہیں کرتی۔“
” ہاں ہاں ہر وقت منھ چھپائے رکھتی ہے۔ بیگم وقاص اس کی وجہ سے کافی پریشان رہتی ہیں۔“ چمبیلی کے پھول نے بھی آم بھیا کی طرف داری کی۔
گلابی کلی صرف ہم م کرکے رہ گئی۔ گل کے لیے یہ بات شرمندگی کا سبب بنی کہ ایک نئے مہمان کے سامنے بھی اس کے ’قد‘ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
”ارے قد سے کیا ہوتا….“ گلابی کی بات ادھوری ہی رہ گئی کیونکہ جھٹ سے امرود بھیا بول پڑے۔
”اصل خوبصورتی تو قد ہی ہے۔ مثال کے طور پر آم کو دیکھ لو گلاب نہ ہو کر بھی اس کی اتنی اہمیت ہے کہ بیگم وقاص گرمیوں کی شام میں آم کی لمبی اور گھنی شاخوں کے نیچے ہی بیٹھتی ہےں۔“ امرود کی بات پر آم بھیا فخر سے مزید اکڑ گئے۔
”ہاں…. آم بھیا کا قد تو ماشا اﷲ بہت ہی اچھا ہے۔“ گلابی نے سرہلاتے ہوئے کہا تو آم بھیا نے ایک ادا سے تمام درختوں کی جانب دیکھا اورکہا
”اس لیے تو میں کہتا ہوں کہ ہم جیسوں کے سامنے بیگم وقاص نے اس ایک انچ کی کلی کو لگا کر غلطی کی ہے۔“
٭….٭
”مالی بابا…. آپ جلد ہی آم کے درخت کی شاخوں کی کانٹ چھانٹ کردیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اس کی شاخےں بجلی کی تاروں سے الجھ جائیں گی اور کوئی نقصان ہوجائے گا۔“ وقاص صاحب مالی بابا کو ایک ایک درخت اور پودے کے متعلق الگ الگ ہدایات دے رہے تھے۔
آج تو نہیں مگر کل ضرور کردوں گا بیٹا۔“ مالی بابا نے کہا۔
ٹھیک لیکن یہ کام جتنی جلدی ہوجائے اتنا ہی اچھا ہے۔“ وقاص صاحب اب ننھی کلی کے پاس آکر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے تھے۔
” یہ ننھی کلی مجھے بالکل انشراح بیٹی کی طرح لگتی ہے۔ “ انھوں نے انگلی کے پوروں سے گل کو چھوا تواس نے حیرت سے انھیں دیکھا۔ خلوص و محبت کا لمس پا کر مارے گھبراہٹ کے اس کی ننھی پتیوں پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔
”ارے بیٹا یہ کلی تو کافی دن سے یونہی مرجھائی مرجھائی سی ہے۔ میں اس کا کافی خیال رکھتا ہوں مگر سب بے سود تم میری مانو تو اس گلاب کو یہاں سے ہٹا دو۔“
ننھی کلی کو یوں لگا جیسے بابا کے روپ میں آم بھیا کہہ رہے ہوں۔
” کیسی باتیں کرتے ہیں بابا…. یہ گلاب تو پچھلے مہینے ہی میری انشراح بیٹی کی پیدائش پر اپیا نے تحفتاً دیا ہے۔ اس میں تو مجھے انشراح بیٹی کا عکس بھی نظر آتا ہے۔“ وقاص صاحب قدرے ناراضی سے بولے۔
” یہ پودا چھوٹا ضرور ہے مگر اس کی خوشبو سب سے الگ ہے۔“
” یہ خوشبو دے تو بات بنے ناں بیٹا۔“ مالی بابا نے مایوسی سے کہا۔ تمام پودے اور درخت ان دونوں کی باتوں سے محظوظ ہو رہے تھے۔ گلابی کلی نے دھیرے سے گل کی جانب دیکھا جو کبھی وقاص صاحب اور کبھی مالی بابا کو دیکھ رہی تھی۔
”تمھارے اندر بہت ساری خوبیاں ہیں تم اپنے قد کی وجہ سے ان سب خوبیوں کو ختم کررہی ہو۔“ گلابی کلی سرگوشی کے انداز میں بولی۔
” مگر امرود بھیا کہتے ہیں اصل چیز قد ہے پھر تمام خوبیاں۔ “ گل معصومیت سے بولی۔
”دیکھو ناں آم بھیا بھی تو صرف قد کی وجہ سے سب کے ہر دل عزیز بنے ہوئے ہیں۔
”دیکھو خدا نے جو چیز تمہےں دی ہوئی ہے اس پر شکر ادا کرو کبھی کبھی ضرورت سے زیادہ اچھی چیزیں بھی ہمارے لیے مصیبت کا سامان پیدا کرتی ہیں۔“شاید گلابی کی یہ بات آم نے سن لی اور وہ تیز لہجے میں گویا ہوا۔
”سنو میرے دوستو! گل کی وجہ سے ہماری اصل خوبصورتی ماند پڑتی جا رہی ہے۔ ہم مل کر احتجاج کریں گے کہ گل کو یہاں سے ہٹا دیاجائے ہم احتجاجاً اپنے اوپر کوئی پھل اور پھول لگنے نہیں دیں گے۔ جب تک گل یہاں رہے گی ہم اپنی بہاریں کھل کر نہیں دکھا سکیں گے۔ اس احتجاج میں کون کون میرے ساتھ ہے؟“
آم کی بات پر پہلے تو تمام درختوں اور پودوں نے حیرت سے اسے دیکھا پھر سب اس کی طرف ہو گئے سوائے گلابی کلی اور رات کی رانی کے۔
٭….٭
رات کا نجانے کونسا پہر تھا۔ جب آم کی گھنی شاخیں بجلی کی تاروں میں الجھ گئیں۔ نیند کے خمار میں اس نے ایک جھٹکے سے شاخوں کو کھینچا تو ساتھ ہی ایک زوردار دھماکے کے ساتھ بجلی کی تاریں وقاص صاحب کی دیواروں پر گر گئیں۔ پنکھے بند ہوگئے اور اے سی کے اسٹیبلائزر سے چنگاڑی نکلی۔ وقاص صاحب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے ۔ بھاگم بھاگ اسٹیبلائزر کو بند کیا۔ دیواروں میں کرنٹ دوڑ رہا تھا۔ انھوں نے کے ای ایس سی کے دفتر فون کرکے حالات کی سنگینی کا بتایا اور مدد کی درخواست کی ۔ آن کی آن میں پورا محلہ جمع ہو گیا۔ کے ای ایس سی کی گاڑی آئی اور تاروں کو جوڑا۔ اسی وقت وقاص صاحب نے آم کے درخت کو جڑ سے کٹوا دیا۔ قد کی لڑائی ختم ہوئی اور اگلے دن سب نے دیکھا کہ انگلش گلاب کی کلی پوری طرح سے کھلی اپنی خوشبو سے پورے لان کو معطر کررہی تھی۔

٭….٭