ترکی کے مشہور مزاحیہ ادیب جناب عزیز نےسن کی ایک دلچسپ کہانی

آہ ہم گدھے! ہم گدھوں کی قوم بھی کتنی مظلوم قوم ہے جو اپنی زبان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کسی زمانے میں ہم بھی آپ انسان حضرات کی طرح بات چیت کرسکتے تھے۔ ہماری بھی ایک الگ زبان ہوتی تھی جسے ’گدھیالی‘ کہا جاتا تھا۔ ’گدھیالی‘ ایک نہایت شیریں زبان ہونے کے علاوہ ہر قسم کے خیالات اور جذبات کی ادائیگی کے لیے بھی ازحد موزوں تھی۔ ہم اپنی پیاری زبان میں کتنی پیاری پیاری باتیں کیا کرتے تھے۔ کتنے میٹھے میٹھے گیت گایا کرتے تھے۔ ان دنوں ہم گدھے آج کی طرح رینگتے نہیں تھے۔ اس کی ضرورت تو ہمیں گدھیالی زبان کے چھن جانے کے بعد پیش آئی۔ اب چونکہ ہماری اپنی زبان ہی کوئی نہیں۔ اس لیے رینک رینک کر ہی اپنی تمام خواہشات، احساسات اور دکھ سکھ کا اظہار کرلیتے تھے۔
رینکنا کیا ہے؟ یکے بعد دیگرے ایک باریک اور ایک موٹی آواز نکال کر ڈھیں چوں، ڈھیں چوں کی صدا لگانا، رینکنا کہلاتا ہے۔ افسوس ہماری وسیع و عریض ’گدھیالی‘ آج محض دو ہجوں والی اس ’رینکناہٹ‘ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ آپ خود ہی انصاف سے کہیے کہ اﷲ تعالیٰ کی اتنی بڑی مخلوق کے لیے اپنے جذبات و خواہشات کا اظہار محض دو ہجوں پر مشتمل رینکناہٹ کے ذریعے کرنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے! آپ سوچ تو رہے ہوں گے کہ اتنی دلکش اور وسیع زبان یکسر دو ہجوں میں تبدیل ہو کر کیسے رہ گئی تو سنیے، میں آپ کو سارا قصہ سناتا ہوں۔
زمانہ قدیم میں ایک نہایت مہیب حادثے کے نتیجے میں ہم گدھوں کی پوری قوم کے دماغ ایک دم ما¶ف ہو گئے اور ہماری زبانیں شل ہوگئیں۔ جب صدمے کا اثر دور ہوا تو پتا چلا کہ ہم اپنی ’گدھیالی‘ زبان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن ہم رینکنے کے سوا اپنے خیالات کا اظہار کسی اور طریقے سے کرنے سے قاصر چلے آرہے ہیں۔
ہماری کسی گزشتہ نسل میں ایک بوڑھا گدھا ہوتا تھا۔ ایک روز وہ اکیلا جنگل میں گھاس چررہا تھا۔ اچانک اسے کسی چیز کی بو آئی۔ بھیڑئیے کی بو سے ملتی جلتی۔ بوڑھے گدھے نے آسمان کی طرف منھ اٹھایا اور نتھنے پھلا پھلا کر بو کی نوعیت کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔ فضا میں بھیڑئیے کی تیز، مکروہ قسم کی بو رچی ہوئی تھی مگر بوڑھے گدھے نے اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ”نہیں پیارے فکر مت کرو، بھیڑئیے کی بو نہیں ہے۔“
اس نے پھر گھاس چرنا شروع کردیا۔ تھوڑی ہی دیر میں بو پہلے سے تیز ہوگئی۔ صاف ظاہر تھا بھیڑیا قریب آرہا ہے اور آپ جانتے ہی ہیں کہ بھیڑئیے کا قریب آنا اور موت کا قریب آنا ایک ہی بات ہے۔ بوڑھے گدھے نے پھر اپنے آپ کو تسلی دی: ”نہیں یہ تو بھیڑئیے کی بو نہیں ہو سکتی۔“
ذرا سی دیر میں بو اور تیز ہو گئی۔ بوڑھا گدھا دل ہی دل میں خوفزدہ ضرور تھا مگر ظاہر یہی کرتا تھا جیسے اس کو کسی کی پروا نہ ہو۔ ”ان شاءاﷲ یہ بھیڑیا نہیں ہوگا۔ بھلا بھیڑیا یہاں کدھر سے آئے گا اور اگر بالفرض آ بھی گیا تو مجھے کہاں ڈھونڈتا پھرے گا؟“ وہ یونہی اپنے آپ کو تسلیاں دے رہا تھا کہ اس کے کانوں میں ایک آواز آئی۔ یہ کوئی میٹھی، سریلی آواز نہ تھی، بلکہ سراسر بھیڑےے کی کرخت آواز تھی۔ بوڑھے گدھے نے کان کھڑے کرکے آواز پہچاننے کی کوشش کی۔ آواز یقینا بھیڑئیے ہی کی تھی لیکن اس کا دل اس تلخ حقیقت کو ماننے کے لیے کسی طرح تیار نہ تھا۔
”نہیں بابا یہ بھیڑیے کی آواز نہیں ہے۔ ناجانے مجھے کیوں رہ رہ کر شک ہورہا ہے۔ وہ پھر گھاس چرنے میں مصروف ہو گیا۔ آواز لمحہ بہ لمحہ بلند ہوتی گئی۔ بوڑھا گدھا اپنے آپ کو دلاسا دیتا رہا۔ پھر وہ خوفناک آواز بہت قریب پہنچ گئی۔ وہ گھبرایا ”اے کاش! یہ آواز بھیڑیے کی آواز نہ ہو لیکن بھیڑیا کیسے ہوسکتا ہے؟ اسے دنیا میں اور کوئی کام نہیں جو یہاں آئے گا۔“
بوڑھے گدھے کے دل میں خوف تو تھا ہی، تھوڑی دیر بعد چور ی چوری سر اٹھا کر اپنے اردگرد نظر ڈال لیتا اور پھر گھاس چرنا شروع کر دیتا۔ ایک دفعہ جو اسی طرح آنکھ اٹھا کر دیکھا تو دور سامنے ٹیلے پر دھند میں موٹا تازہ بھیڑیا دکھائی دیا۔ گدھا پھر بھی اس تلخ حقیقت کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوا! ” میں بھی کتنا پاگل ہوں۔ دھند میں ہر سایہ مجھے بھیڑیا نظر آرہا ہے۔ وہ ٹیلے پر بھیڑیا تو نہیں کوئی اور جانور ہے۔“
وہ پھر گھاس چرنے لگا۔ دل میں سوچ رہا تھا: ”لگتا تو بھیڑیا ہی ہے لیکن یقینا بھیڑیا نہیں ہوسکتا۔ غالباً میں نے خواب دیکھا ہے۔ ہاں ہاں۔ خواب ہی تو دیکھا ہے۔“
تھوڑی دیر بعد اسے دور جھاڑیوں کے پیچھے بھاگتا ہوا بھیڑیا دکھائی دیا مگر چونکہ وہ کسی طرح بھیڑیئے کی آمد کو قبول کرنے پر راضی نہ تھا، اس لیے اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دیتے ہوئے بولا: ”بھیڑیا نہیں ہے ان شاءاﷲ بھیڑیا نہیں ہے۔ میری نظر خاصی کمزور ہو گئی ہے۔ ہر جھاڑی کے سائے کو بھیڑیا سمجھ بیٹھتا ہوں۔“
اب تو بھیڑیا بہت قریب آچکا تھا۔ بس کوئی تین چار سو ” گدھا قدم“ دور ہوگا۔ بوڑھا گدھا اسے دیکھ کر بولا: ” یا میرے مولیٰ کیا یہ میری طرف آنے والا جانور واقعی بھیڑیا ہے۔ نہیں نہیں یہ ناممکن بات ہے۔ بالکل ناممکن بھیڑیا نہیں ہوسکتا۔“
جب بوڑھے گدھے اور بھیڑئےے کا درمیانی فاصلہ صرف پچاس ”گدھا قدم“ رہ گیا، تو گدھا اپنے آپ سے یوں مخاطب ہوا۔ ”یہ جانور جو سامنے سے آرہا ہے بھیڑیا تو ہر گز نہیں ہوسکتا۔ شاید اونٹ ہو یا شاید ہاتھی۔ ممکن ہے کوئی اور ہی جانور ہو۔ عین ممکن ہے کوئی بھی جانور نہ ہو بلکہ محض، میرا وہم ہو۔ پتا نہیں کیا بات ہے اب مجھے ہر چیز بھیڑیا دکھائی دے رہی ہے۔“ جب بھیڑیا چند ہی قدم دور رہ گیا تو بوڑھے گدھے کی سوچ میں معمولی سی تبدیلی آئی۔
”میں خوب جانتا ہوں کہ یہ بھیڑیا نہیں ہے مگر پھر بھی بہتر ہوگا کہ میں یہاں سے تھوڑا دو رہی چلا جا¶ں۔“
یہ سوچ کر بوڑھا گدھا وہاں سے چل پڑا۔ دو چار قدم چل کر پیچھے دیکھا تو بھیڑیا دانت نکالے رال ٹپکاتا پیچھے پیچھے آتا نظر آیا: ”اے خدائے پاک میرے حال پر رحم کھا۔ اگر بالفرض یہ میرے پیچھے پیچھے آنے والا جانور بھیڑیا ہی ہے، تو اسے بھیڑیے کی جگہ کوئی اور جانور بنا دے۔ ارے واہ، میں بھی کیا سمجھ بیٹھا ہوں۔ یہ تو بھیڑیا نہیں۔ کبھی کبھی تو میں بلاوجہ ہی ڈر جاتا ہوں۔“
اس کے ساتھ ہی بوڑھے گدھے نے اپنی رفتار تیز کردی۔ بھیڑیے نے اور تیز رفتاری سے اس کا پیچھا شروع کردیا۔ اب بھی گدھا اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دے رہا تھا۔ ”واہ جی وا۔ میں بھی کتنا بدھو ہوں۔ جنگلی بلی کو بھیڑیا سمجھ کر اس سے ڈر کر بھاگ رہا ہوں، بھیڑیا یہاں کہاں؟“
اب اس نے پوری طاقت سے بھاگنا شروع کردیا۔ بھاگتا جاتا اور اپنے آپ کو یوں تسلی دیتا جاتا: ”اگر یہ واقعی بھیڑیا ہے تو بھی بھیڑیا نہیں ہوسکتا۔ ان شاءاﷲ نہیں ہوسکتا۔“
بھاگتے بھاگتے جو مڑ کر پیچھے دیکھا تو بھیڑیے کی انگاروں کی طرح دہکتی آنکھیں نظر آئیں۔ گدھا اور تیز بھاگا مگر سوچ کا وہی سلسلہ جاری رکھا: ”خدا کی قسم بھیڑیا نہیں ہوسکتا۔ بھیڑیا کیسے ہوگا۔“
تھوڑی ہی دیر بعد بھیڑیے کا گرم گرم سانس بوڑھے گدھے کے جسم کو لو کی طرح جھلستا ہوامحسوس ہوا۔ اس نے دل میں کہا ”میں شرط لگانے کو تیار ہوں کہ جس جانور کا گرم گرم سانس میرے جسم کو جلا رہا ہے وہ بھیڑیا نہیں ہے۔“
اتنے میں بھیڑئےے کی رال بھری تھوتنی گدھے کی پچھلی ٹانگوں سے ٹکرائی۔ گدھے کی تو گویا روح ہی قبض ہو گئی۔ مڑ کر دیکھا ، تو بھیڑیا لپک کر اس پر حملہ کرنے ہی کو تھا۔ یہ دیکھ کر گدھے کا ایک ایک قدم دس دس من کا ہوگیا۔ وہ بھیڑئیے کی شعلہ بار آنکھوں کے طلسم سے جہاں تھا وہیں پتھر ہو کر رہ گیا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں تاکہ حقیقت نظر ہی نہ آئے۔ پھر اپنے آپ کو دلاسا دینے لگا۔ ”بھیڑیا نہیں ہے میری جان بھلا بھیڑیا کیوں ہوگا؟“
بھیڑئیے نے بوڑھے گدھے کی پشت میں ایک پنجہ گاڑ دیا۔ گدھا سہم گیا اور بھیڑئیے سے کہنے لگا: ”میں جانتا ہوں بھائی خوب جانتا ہوں کہ تم بھیڑیے نہیں ہو۔ میری پیٹھ پر ہاتھ مت رکھو، کیونکہ مجھے بڑی گدگدی ہورہی ہے۔ ویسے بھی مجھے مذاق بالکل اچھا نہیں لگتا۔“
بھیڑئیے نے اپنے لمبے لمبے تیز دانت بوڑھے گدھے کی پیٹھ میں گاڑ دیئے اور گوشت کا ایک بڑا سا ٹکڑا نوچ لیا۔ گدھا درد کی شدت سے زمین پر گر پڑا۔ ایک تلخ حقیقت کے شدید احساس نے اس کے ذہن کو بالکل شل کردیا۔ پھر بھیڑئیے نے اس کی گردن پر وار کیا۔ گدھے کے سارے جسم سے خون کی دھاریں بہنے لگیں۔ اپنی یہ حالت دیکھ کر اسے اس قدر صدمہ ہوا کہ وہ گدھیالی زبان بالکل بھول گیا۔ اس کے منھ سے صرف یہ الفاظ نکل سکے۔
”ڈھیں چوں ڈھیں چوں۔“ (گدھیالی زبان میں اس کا مطلب ہے، بھیڑیا ہی ہے ، بھیڑیا ہی ہے۔)
بھیڑیا بوڑھے گدھے کو چیرتا پھاڑتا رہا اور گدھا آخری دم تک ڈھیں چوں ڈھیں چوں کرتا رہا۔ ان اندوہناک حالات میں بھیڑئیے کے ہاتھوں جان گنوانے والے بوڑھے گدھے کی ان دو ہجوں والی آخری فریاد پہاڑوں اور چٹانوں نے سنی تو ان کے بھی دل پگھل گئے…. پہاڑوں اور چٹانوں سے ٹکرا کر یہی الفاظ پوری وادی میں گونج اٹھے۔ ہم گدھوں کی ساری قوم نے سنے۔
ڈھیں چوں ڈھیں چوں۔
وہ دن اور آج کا دن ہماری قوم گفتار کی نعمت سے محروم ہے۔ اس معذوری کی وجہ سے اب ہم اپنے تمام خیالات، جذبات اور احساسات کا اظہار رینک رینک کر ہی کرتے ہیں۔ وہ بوڑھا گدھا آخری دم تک حقیقت کو نظر انداز کرکے اپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں دے کر انتظار کرتا رہا۔ یہاں تک کہ خطرہ اس کے سر پر آگیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا، تو ہمیں اپنی پیاری زبان سے ہاتھ نہ دھونے پڑتے۔ آج ہم بھی آپ سب کی طرح اہل زبان ہوتے۔
آہ ہم گدھے! آہ ہماری یہ مظلوم قوم! …. ڈھیں چوں ڈھیں چوں!!
٭….٭