’’میں اسکول نہیں جائوں گا مجھے اسکول جانا اچھا نہیں لگتا۔‘‘ سلیم نے چیخ کر کہا اور بھاگتا ہوا گھر سے نکل گیا۔ اس کی والدہ یک دم اُداس ہوگئیں، اُنھیں سلیم کی یہ حرکت اچھی نہیں لگتی تھی۔ سلیم پہلے بھی کئی بار یہ حرکت کرچکا تھا۔ جس پر اُنھوں نے اسے پیار سے سمجھایا بھی تھا لیکن اس وقت ان کے گھر میں ڈاکٹر جمال بیٹھے تھے جو سلیم کے والد کے اچھے دوست تھے۔ وہ نیوزی لینڈ میں مقیم تھے اور کچھ عرصے کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے۔
جب سلیم چھوٹا تھا تو اس کی والدہ اسے پیار سے سمجھا بجھا کر اسکول بھیج دیتی تھیں اور کبھی وہ اسے ڈانٹتی بھی تھیں اور سختی کرکے اسکول بھیجتی تھیں لیکن جب سے سلیم گیارہ برس کا ہوا تھا اس کی اسکول سے دلچسپی بالکل ہی ختم ہوگئی تھی۔ اسے کلاس میں بیٹھنا بالکل پسند نہیں تھا، اس کے والد بھی اسے اکثر سزا دیتے تھے جس کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا اور آج تو اس نے گھر آئے مہمان کے سامنے بھی اپنے والدین کا کہنا نہیں مانا تھا۔
’’میں معافی چاہتی ہوں ڈاکٹر جمال۔‘‘ سلیم کی والدہ مسز احمد نے اُداسی سے کہا۔ ’’دراصل سلیم کو درختوں پر چڑھنا بہت پسند ہے۔ وہ درختوں پر چڑھ کر پرندوں کے گھونسلوںمیں جھانکتا ہے۔ نہ جانے اس کام میں اسے کیا مزہ آتا ہے کہ وہ اس کی وجہ سے اسکول بھی نہیں جاتا۔‘‘
’’میں سمجھ سکتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر جمال نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’میں چند روز آپ کے گھر ٹھہرا ہوا ہوں، میں سلیم سے بات کرکے دیکھتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر جمال کی بات پر مسز احمد کے چہرے پر پراُمید مسکراہٹ بکھر گئی تھی اور وہ کسی حد تک مطمئن ہوگئی تھیں کہ شاید ڈاکٹر جمال کے سمجھانے سے سلیم کی سمجھ میں کوئی بات آجائے۔
شام کے وقت جب مسز احمد کچھ میں کام کررہی تھیں اور سلیم کے والد دفتر سے واپس نہیں آئے تھے تو ڈاکٹر جمال نے سلیم سے کچھ بات کی۔ وہ اُن کے ساتھ چاے پی رہا تھا۔
’’سلیم میں نے سنا ہے تمھیں پرندے بہت پسند ہیں؟‘‘ ڈاکٹر جمال نے کیک کا ایک ٹکڑا اٹھا کر کاٹتے ہوئے کہا جو سلیم کی والدہ نے خاص طور سے ان کے لیے بنایا تھا۔
’’تم جانتے ہو میں بھی پرندوں سے محبت کرتا ہوں اور میں بھی جب تمھاری عمر کا تھا تو مجھے بھی اسکول جانا پسند نہیں تھا۔‘‘ اُنھوں نے کہا تو سلیم حیرت سے اُنھیں دیکھنے لگا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ڈاکٹر جمال جیسا بردبار اور عمرہ رسیدہ شخص بھی کبھی پرندوں کے گھونسلوں میں جھانکتا ہوگا لیکن پھر جب ڈاکٹر جمال نے اسے پرندوں کے بارے میں اپنے بچپن کی دلچسپ کہانیاں سنائیں تو اس کی غیر یقینی کی کیفیت یقین میں تبدیل ہوگئی اور اس کی دلچسپی اور زیادہ بڑھ گئی جب اسے یہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر جمال نیوزی لینڈ میں سب سے پہلے پرندوں پر ہی لیکچر دینے گئے تھے۔
چاے پینے کے بعد ڈاکٹر جمال سلیم کو اپنے کمرے میں لے گئے تھے اور اسے بہت سی کتابیں دکھائیں جو پرندوں کے بارے میں تھیں اور سلیم دیر تک وہ رنگ برنگے اور عجیب و غریب پرندے دیکھتا رہا تھا۔
’’اوہ! یہ پرندہ تو میں نے دیکھا ہے۔‘‘ اچانک سلیم زور سے چیخا تھا اس کے لہجے میں خوشی نمایاں تھی۔
’’یہ ناممکن ہے۔‘‘ ڈاکٹر جمال نے کہا۔ ’’ان کتابوں میں ان پرندوں کی تصویریں ہیں جو اب نایاب ہوچکے ہیں یہ پرندے تمھیں یہاں تو کہیں نظر نہیں آئیں گے۔‘‘ اُنھوں نے کہا لیکن سلیم ضد کرتا رہا کہ اس نے ناصرف یہ پرندہ دیکھا ہے بلکہ اس کا جوڑا دیکھا ہے۔
’’مجھے یقین ہے کہ تم کچھ غلطی کررہے ہو۔‘‘ ڈاکٹر جمال نے کہا۔ ’’یہ بلیک روبن ہے اور اب ناپید ہوچکا ہے اس کی آواز بہت خوبصورت ہوتی ہے۔‘‘ اُنھوں نے کہا لیکن سلیم ضد کرتا رہا کہ اس نے بلیک روبن کا جوڑا دیکھا ہے۔
’’اگر تم نے بلیک روبن کا جوڑا دیکھا ہے تو کیا تم مجھے دکھا سکتے ہو؟‘‘ ڈاکٹر جمال نے اس سے پوچھا۔ ’’ہاں، اگر آپ کہیں تو میں ابھی آپ کو دکھا سکتا ہوں۔‘‘ سلیم نے کہا تو ڈاکٹر جمال نے جلدی سے اپنا کوٹ پہنا اور دوربین گلے میں ڈال کر اس کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوگئے، سلیم ان کے ساتھ ہی کمرے سے نکلا تھا باہر برآمدے میں اس کی والدہ کھڑی تھیں۔
’’ممی، میں اور انکل پرندے دیکھنے جارہے ہیں۔‘‘ سلیم نے دروازے کی طرف جاتے ہوئے کہا مسز احمد حیران تھیں انھوں نے تو ڈاکٹر جمال سے سلیم کو سمجھانے کے لیے کہا تھا اور وہ اسے سمجھانے کے بجاے اس کے ساتھ پرندے دیکھنے چلے گئے تھے۔
سلیم کا گھر جس علاقے میں واقع تھا وہاں قریب ہی ایک گھنا جنگل تھا۔ سلیم کا سارا دن وہاں گزرتا تھا۔ اس وقت بھی سلیم ڈاکٹر جمال کو وہیں لے جارہا تھا، راستے میں ڈاکٹر جمال اس سے قیمتی اور نایاب پرندوں کے بارے میں باتیں کررہے تھے۔ چلتے چلتے جب وہ سلیم کی پسندیدہ جگہ کے قریب پہنچے تو ایک گھنے اور پرانے درخت کی طرف اشارہ کرکے سلیم چِلّایا۔
’’وہ دیکھیں… وہ اوپر شاخوں میں ان کا گھونسلا ہے۔‘‘ ڈاکٹر جمال نے دیکھا کہ درخت میں اوپر کی شاخوں میں ایک کپ نما گھونسلا موجود تھا جو دو ٹہنیوں کے درمیان ٹکا ہوا تھا۔ ڈاکٹر جمال نے جلدی سے دوربین نکالی اور گھونسلے کا جائزہ لینے لگے۔
’’مجھے اُمید ہے کہ تمھارے بلیک روبن سوئے نہیں ہوں گے۔‘‘ ڈاکٹر جمال نے کہا۔ سلیم بھی گھونسلے کی طرف تفتیشی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ رات کا اندھیرا پھیلنے لگا تھا اور پرندے اپنے اپنے گھونسلوں کی طرف جارہے تھے۔ سلیم نے دیکھا کہ ایک کالا پرندہ گھونسلے کے قریب چکر لگا رہا تھا تھوڑی دیر بعد دوسرے کالے پرندے بھی گھونسلے سے سر باہر نکالا تھا۔
’’دیکھا… میں نا کہتا تھا کہ وہ دو ہیں۔‘‘ سلیم نے خوشی سے کہا۔ ڈاکٹر جمال خاموشی سے پرندوں کا جائزہ لے رہے تھے یہاں تک کہ پرندے اپنے گھونسلے میں چلے گئے۔
’’تم ٹھیک کہہ رہے تھے لیکن ہم کل صبح پھر آئیں گے۔‘‘ ڈاکٹر جمال نے کہا۔
اس رات کھانے کے بعد ڈاکٹر جمال مسز احمد سے مخاطب ہوئے :’’اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو کل علی الصبح میں سلیم کو اپنے ساتھ پرندے دیکھنے لے جانا چاہتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر جمال کی بات پر مسز احمد نے ان کی طرف حیرت سے دیکھا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ اُنھوں نے آہستہ سے کہا لیکن ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار تھے۔
اگلی صبح سلیم اور ڈاکٹر جمال سورج نکلنے سے پہلے ہی اُٹھ گئے تھے اور جنگل کی طرف روانہ ہوگئے۔ سلیم بہت خوش تھا کیوں کہ ڈاکٹر جمال کی دوربین اس کے گلے میں لٹکی تھی۔
جلد ہی صبح کی سپیدی نظر آنے لگی اور اس کے ساتھ ہی پرندوں کے چہچہانے کی آوازوں سے جنگل گونج اُٹھا، پرندے اپنے گھونسلوں سے باہر آچکے تھے۔ سلیم اور ڈاکٹر جمال بار بار دور بین سے پرندوں کو دیکھ رہے تھے انھیں بلیک روبن بھی نظر آرہے تھے۔
’’اوہ سلیم واہ۔‘‘ اچانک ڈاکٹر جمال خوشی سے چیخے۔ ’’یہ واقعی بلیک روبن کا جوڑا ہے، تم جلدی سے درخت پر چڑھو اور ان کے گھونسلے میں جھانکو۔‘‘ ڈاکٹر جمال نے کہا اور سلیم تیزی سے درخت پر چڑھ کر گھونسلے کی طرف بڑھا، یہ تو اس کا پسندیدہ کام تھا۔
’’اوہ انکل… یہاں دو انڈے ہیں۔‘‘ اس نے درخت کی اونچی شاخ سے چیختے ہوئے کہا اور ڈاکٹر جمال کی خوشی کی انتہا نہ رہی، پھر اُنھوں نے سلیم کو مختلف درختوں پر چڑھنے کے لیے کہا اور وہاں موجود گھونسلوں میں انڈوں کی تعداد پوچھتے رہے جسے انھوں نے اپنے کوٹ کی جیب میں موجود ایک ڈائری میں نوٹ کرلیا۔
کئی گھنٹوں بعد ڈاکٹر جمال نے ایک پرسکون سانس لیا تھا۔ سلیم بھی بہت خوش تھا۔ آج اسے اپنا پسندیدہ کام کرنے میں زیادہ مزہ آیا تھا۔
’’چلو اب واپس چلتے ہیں۔ آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔‘‘ ڈاکٹر جمال نے کہا۔
واپسی پر راستے میں ڈاکٹر جمال اور سلیم پوسٹ آفس پر رکے، جہاں سے ڈاکٹر جمال نے مختلف جگہوں پر ٹیلی گرام بھیجے اور ایک بیرونی کال بھی کی۔ جب وہ گھر پہنچے تو دوپہر ہوچکی تھی اور مسٹر اور مسز احمد ان کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے۔ آج ان کے گھر پہ ڈاکٹر جمال کے قیام کا آخری دن بھی تھا۔ اُنھوں نے ڈاکٹر جمال کے لیے دوپہر کا خاص کھانا بنایا تھا۔
’’مسز احمد، مجھے اُمید ہے کہ آپ کو اعتراض نہیں ہوگا اگر میں اور سلیم پرندے دیکھنے کا کام جاری رکھیں؟‘‘ کھانے کے دوران ڈاکٹر جمال نے کہا جس پر اُنھوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’سلیم، تم میری مدد کرو گے ان پرندوں کو بچانے میں۔‘‘ ڈاکٹر جمال نے سلیم سے کہا جب وہ اس کے گھر واپس جارہے تھے اور گھر کے دروازے کے باہر کھڑے تھے۔
’’پرندوں کو بچانے میں؟‘‘ سلیم نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں! تم نے مجھے جو پرندے دکھائے ہیں وہ اب نایاب ہوچکے ہیں۔ ویسے تو بلبل کی سو سے زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں لیکن بلیک روبن کی یہ قسم نایاب ہوچکی ہے۔ صرف نیوزی لینڈ کے مشرقی علاقے میں چند پرندے ہمارے ریکارڈ پر ہیں جن میں تین مادہ بلبل اور دو نر ہیں۔ وہاں تیزی سے ان کی اموات ہوئی ہیں۔‘‘
’’کیا ہمارے بلیک روبن بھی مرجائیں گے؟‘‘ سلیم نے پریشان لہجے میں پوچھا۔
’’نہیں، ہم اُنھیں مرنے نہیں دیں گے ہم ان کی حفاظت کریں گے۔‘‘
’’لیکن کیسے؟‘‘
’’ہم ان کے گھونسلوں سے ان کے انڈے اُٹھالیں گے اور دوسرے پرندوں کے انڈوں کے ساتھ رکھ دیں گے، پھر وہ دوسرے انڈے دیں گے چنانچہ ہمیں اسی موسم میں دگنی تعداد میں ان کے انڈے مل جائیں گے۔‘‘
’’کیا ہمیں انڈے ابھی اٹھانے ہوں گے؟‘‘ سلیم نے پوچھا۔
’’ہاں، لیکن ہمیں بہت زیادہ احتیاط کرنا ہوگی۔ گندے ہاتھ استعمال کرنا خطرناک ہوگا کیوں کہ انڈے خراب ہوجانے کا خطرہ ہے۔‘‘ اُنھوں نے کہا۔ سلیم بغور ان کی بات سن رہا تھا پھر ڈاکٹر جمال نے سلیم کے ہاتھ دھلوائے اور اس کو چمچے کی شکل کا ایک آلہ دیا اس کے ساتھ ہی ایک ڈبہ بھی تھا۔
’’یہ ہر قسم کے جراثیم سے پاک ہے۔‘‘ ڈاکٹر جمال نے کہا پھر وہ سلیم کے ساتھ جنگل گئے اور اپنی ڈائری میں لکھے نوٹس کی مدد سے ایسے دو درختوں کی نشاندہی کی جن کے انڈے آپس میں بدلے جاسکتے تھے پھر سلیم نے بلیک روبن کے انڈے دوسرے درخت کے پرندوں کے گھونسلے میں رکھ دیے تھے۔ ’’اب بلیک روبن کا گھونسلا بھی توڑ دو۔‘‘ ڈاکٹر جمال نے کہا تو سلیم حیرت سے انھیں دیکھنے لگا، یہ ضروری ہے، بلیک روبن اسی صورت میں انڈے دیں گے جب وہ اپنا نیا گھونسلا بنائیں گے۔‘‘ ڈاکٹر جمال نے اسے بتایا۔
’’تو یہ گھونسلہ میں اپنے پاس یادگار کے طور پر رکھ لوں گا۔‘‘ سلیم نے کہا اور درخت سے ’’کپ نما‘‘ گھونسلا توڑ لیا۔ پھر اُنھوں نے انڈے بدلے جانے والے درختوں کو نشان لگادیے تھے۔
گھر واپس آتے ہوئے ڈاکٹر جمال، سلیم کو پرندوں کے بارے میں بتاتے رہے تھے۔
’’میری خواہش تھی کہ میں یہاں رہتا اور بلیک روبن کی فیملی کو بڑھتے ہوئے دیکھتا لیکن میں ایسا نہیں کرسکتا مجھے نیوزی لینڈ واپس جانا ہے، اب تم اس تجربے کو آگے بڑھائو گے، ویسے میرے کچھ دوست یہاں آکر کیمپ لگائیں گے تم ان کی مدد کرنا… کروگے نا؟‘‘
’’ہاں، میں پرندوں کی نسل بچانے کے لیے ضرور ان کی مدد کروں گا۔‘‘ سلیم نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’اس موسم کے لیے ہم نے کافی کام کرلیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بلیک روبن تین یا چار بار اور انڈے دیں گے۔‘‘
’’میں آپ کی بات کا مطلب سمجھ گیا۔‘‘ سلیم نے کہا۔
گھر واپس آنے کے بعد ڈاکٹر جمال نے مسٹر احمد اور مسز احمد کو بتایا کہ کس طرح سلیم نے ایک نایاب پرندے کی نسل بچانے کے لیے ان کے ساتھ کام کیا، رات میں وہ نیوزی لینڈ چلے گئے۔
دن گزرنے کے ساتھ ساتھ مسز احمد کو بہت ہی حیران کردینے والی چیزیں دیکھنے کو ملیں، سلیم باقاعدگی سے اسکول جانے لگا اور دنیا کے مختلف علاقوں سے پرندوں سے محبت کرنیو الے لوگوں کے خطوط آنے لگے جن میں سلیم کے لیے تعریفی جملے لکھے ہوتے تھے۔
ان کی خوشیوں کی انتہا نہ رہی جب اُنھوں نے ایک مشہور میگزین میں سلیم کی تصویر دیکھی جس کے نیچے ایک آرٹیکل لکھا تھا جس میں بتایا گیا کہ سلیم نے دنیا میں ناپید ہونے والے بلیک روبن کی نسل کے دو پرندوں کی دیکھ بھال کی ہے اور ان کی نسل بڑھانے کے لیے کام کررہا ہے، اسکول میں بچوں اور استادوں کو اس کا علم ہوا تو اُنھوں نے سلیم کی تعریف کی، اس پذیرائی سے سلیم کی دلچسپی اسکول اور پڑھائی میں بڑھ گئی۔
اخبار میں جو آرٹیکل شائع ہوا تھا وہ ڈاکٹر جمال نے لکھا تھا۔ وہ پڑھ کر سلیم کی والدہ بہت خوش ہوئی تھیں اور حیران تھیں کہ ڈاکٹر جمال نے کس طرح سلیم کے مسئلے کو سمجھا تھا اور اس کو کتنے اچھے طریقے سے سمجھایا، وہ اخبار کا مضمون پڑھ کر سلیم کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکیں۔
’’سلیم، تم جغرافیہ پڑھ رہے ہو؟‘‘ اُنھوں نے حیرت سے پوچھا۔
’’آپ کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے ممی، اگر میں جغرافیہ نہیں پڑھوں گا اور اسکول نہیں جائوں گا تو میں پرندوں کا ماہر کیسے بنوں گا، ڈاکٹر جمال کی طرح جو نیوزی لینڈ میں پرندوں ہی کے ایک بڑے ریسرچ سینٹر میں کام کرتے ہیں۔‘‘
’’اوہ… میرے بیٹے… تمھارے مسئلے کو میں نہیں سمجھ سکی تھی، تمھیں ہر وقت ڈانٹتی رہتی تھی لیکن تمھارے انکل جمال تمھارا مسئلہ سمجھ گئے اور اُنھوں نے تمھاری درست رہنمائی کی۔‘‘ اس کی والدہ نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔
چند روز بعد ڈاکٹر جمال کا مختصر خط مسز احمد کو موصول ہوا تھا جس میں اُنھوں نے لکھا تھا۔
’’بعض اوقات اپنے بچوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتے وقت ہم یہ بات نظر انداز کردیتے ہیں کہ ان کی دلچسپیاں کیا ہیں، اس طرح اُنھیں کامیابی حاصل کرنے میں دشواریاں پیش آتی ہیں اور کبھی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اگر ہم ایسے فیصلے کرتے وقت ان کی دلچسپیوں کو نظر میں رکھ کر ان کی رہنمائی کریں تو کامیابی جلدی اور یقینی ہوتی ہے جو کبھی کبھی پرندوں کے گھونسلوں میں بھی مل جاتی ہے۔‘‘
٭…٭
اس تحریر کے مشکل الفاظ
صبح کی سپیدی: وہ سفیدی یا روشنی جو سورج نکلنے سے کچھ دیر پہلے نمودار ہوتی ہے
ٹیلی گرام: برقی پیغام
نیوزی لینڈ: آسٹریلیا کے قریب ایک ملک
آرٹیکل: مضمون یا مقالہ جو کسی خاص موضوع پر لکھا جائے۔