’رَنگا بھالو‘ اپنی سستی کی وجہ سے جنگل بھر میں نالائق اور نکما مشہور تھا۔ جس طرح انسانوں میں کوئی شخص سست ہوجائے اور کوئی کام نہ کرے بس اوروں سے اُمید لگا کر کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرے تو ایسے شخص کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔

بالکل اسی طرح جنگل کے قانون میں یہ بات درج تھی کہ کوئی جانور کسی دوسرے جانور کا کھانا نہیں چرائے گا بلکہ خود محنت کرے گا۔

لیکن اب بھلا رَنگا کو یہ بات کون سمجھاتا؟ اُسے جس نے بھی سمجھایا، وہ سمجھا سمجھا کر تھک گیا لیکن رَنگا تو اپنی موج مستی میں لگا رہتا، کبھی کسی کی مچھلیاں چُرا لیں اور کبھی شہد کی مکھیوں کو بھگا کر ان کا شہد ہڑپ لیا۔

اپنی انہی حرکتوں کی وجہ سے وہ کئی بار پٹ بھی چکا تھا لیکن رَنگا کو باز آنا تھا، نہ باز آیا۔

٭….٭

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔

سردیوں کی ایک رات بھوک سے رنگا کا بُرا حال تھا کہ اچانک اُسے درخت پر بھن بھن کی آوازیں سنائی دیں۔

رَنگا نے جب اوپر نظر اٹھائی تو اُسے شہد کا چھتا نظر آیا۔ اب تو رَنگا کے منھ میں پانی بھر آیا، اس نے چھلانگ لگائی اور درخت پر چڑھ گیا…. شہد کی مکھیوں نے جب رَنگا کو اپنے پاس دیکھا تو وہ سب ڈر گئیں۔

شہد کی مکھیوں کی ایک رانی ہوتی ہے، تمام مکھیاں اپنی رانی کی بات مانتی ہیں، رانی نے بھالو سے کہا کہ وہ سارا شہد نہ لے جائے بلکہ جتنی اس کی بھوک ہے، صرف اتنا شہد لے لے۔

رَنگا چاہتا تو وہ شہد کا سارا چھتا لے جاتا لیکن اس وقت وہ مکھیوں سے لڑنے کے موڈ میں نہیں تھا، اسے معلوم تھا کہ شہد کی مکھیوں کا ڈنگ بہت خطرناک ہوتا ہے۔

رَنگا نے چالاکی سے کہا: ”ایک شرط پر ایسا کروں گا…. مجھے جب بھی بھوک لگے گی، شہد دیا جائے گا۔“

رانی نے اس وقت چھتا بچانے کے لیے ہامی بھر لی لیکن بعد میں رانی کو اندازہ ہوا کہ رَنگا اُن کی محنت مفت میں ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔

کچھ دن تک یونہی ہوتا رہا۔ رَنگا نے ایک بڑا مرتبان چرا لیا تھا، شہد کی مکھیاں روزانہ شہد بالٹی بھر بھر کر مرتبان میں ڈالتی رہیں اور رنگا مزے مزے سے مفت کا شہد کھانے لگا اور رَنگا کو اس بدمعاشی میں مزا آنے لگا تھا…. جب کبھی شہد کم ملتا یا دیر سے ملتا، رَنگا بھالو زور زور سے چیخیں مار کر درخت کو ہلا کر رانی کو ڈراتا۔

رانی نے بھالو کی اس بدمعاشی سے تنگ آکر ایک دن تمام مکھیوں کو جمع کیا اور کہا: ”رَنگا کی بدمعاشی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ وہ ہم سے زبردستی ہمارا کھانا لے جاتا ہے اور خود سارا دن کاہلوں کی طرح پڑا رہتا ہے۔ جو جانور ایسا کرتا ہے وہ جنگل والوں کے لیے بد نما داغ ہے۔ ہمیں رَنگا کو سبق سکھانا چاہیے۔“

مکھیوں نے ’بھن بھن‘ کی آوازیں نکال کر رانی کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔

فیصلہ ہوا کہ دوپہر میں رَنگا پر ایک ساتھ حملہ کیا جائے گا۔ رانی نے اس موقع پر دیگر جانوروں سے رابطہ کرکے مدد کی درخواست کی۔

بندر بھی رَنگا سے بہت تنگ تھے، کیوں کہ وہ ان کے کیلے کھاجاتا تھا، بندروں نے بھی رانی کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔

دوپہر کے وقت رَنگا شہد ملنے کا انتظار کر رہا تھا لیکن اب تک ایک مکھی بھی شہد لے کر نہیں آئی تھی۔

رَنگا کو غصہ آنے لگا۔ اُسے غصہ بھی بھلا کس بات پر آرہا تھا…. غلط طریقے سے کسی کا کھانا لینا کتنی بُری بات ہے لیکن رنگا تو اسے اپنا حق سمجھ رہا تھا۔

رَنگا غصے سے چیخا جیسے آج وہ درخت ہی گرا دے گا، اچانک اُسے ایک مکھی مرتبان سمیت آتی دکھائی دی۔ رَنگا اُسے بُرا بھلا کہنے لگا: ”میں تم سب کو رانی سمیت مار ڈالوں گا۔“

”رنگا….! اب بہت ہوچکا…. تمھیں اس بدمعاشی سے باز آنا ہوگا۔“ رانی کی آواز آئی۔

”تمھاری یہ جرات مجھے سمجھاﺅ، میں تمھیں ابھی بتاتا ہوں، کہاں ہو تم سامنے آﺅ ڈرپوک رانی….“ ابھی اس نے کہا ہی تھا کہ اسے بہت ساری شہد کی مکھیوں کا شور سنائی دیا۔

”اُف! یہ کیا کرنے لگے ہیں؟“ رَنگا کہتے ہوئے پیچھے ہٹنے لگا تو اس کا پیر پھسلا اور وہ درخت سے نیچے گر گیا۔

شہد کی مکھیوں نے اس پر حملہ کر دیا تھا۔

”اُف…. آئی…. میں مرگیا…. آیندہ نہیں کروں گا…. اُف بچاﺅ کوئی مجھے….“ رَنگا بھالو چیختے ہوئے بولا۔

لیکن اب کوئی بچانے والا نہیں تھا۔ دوسری طرف بندروں نے بھی ناریل توڑ توڑ کر رَنگا کو مارنا شروع کردیے تھے، دو ناریل ہی بھالو کو لگے، جس سے اس کا سر پھٹ گیا اور وہ درد سے کراہتے ہوئے بھاگ گیا۔

پتا نہیں وہ کہاں گیا…. کوئی کہتا ہے کہ اس کے سر سے خون بہنے کی وجہ سے وہ مر گیا، کوئی کہتا کہ اُسے انسان اپنے گھر لے گئے ہیں۔ کوئی کہتا کہ وہ پہاڑوں میں رہنے لگا ہے لیکن حقیقت کیا ہے، آج تک کسی کو معلوم نہیں ہوسکی۔

٭….٭