1857ءکے عرصہ میں ہندوستان کے صوبے میسور کے شہر سرنگا پٹم کے میدان میں چند معصوم بچے اپنے کھیل میں مصروف ہیں لیکن انہی کا ہم عمر اور دوست ۹ سالہ فتح علی ٹیپو ان سے کچھ دور ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھا ، اپنے پیر کے انگوٹھے سے میدان کی ریت کریدتے ہوئے کسی گہری سوچ میں گم ہے کہ اچانک ایک طرف سے ایک بزرگ نمودار ہوتے ہیں تو فتح علی ٹیپو آگے بڑھ کر ان بزرگ شخصیت کو ادب سے سلام کرتا ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی اور دوسرے بچے بھی بزرگ کو سلام کرکے ایک طرف کھڑے ہو گئے ۔ تمام بچے فتح علی ٹیپو اور بزرگ شخصیت کو بڑی دلچسپی سے دیکھنے لگے۔ وہ بزرگ دوسرے بچوں کو بھول کر، فتح علی ٹیپو سے اس کا نام دریافت کرتے ہیں۔ نام معلوم ہونے پر وہ بزرگ اس بچے سے پوچھتے ہیں کہ تم ان بچوں کے ساتھ نہیں کھیلو گے۔“ تو وہ بچہ کہتا ہے کہ جناب عالی یہ تو ابھی بچے ہیں جبکہ میں اپنا قیمتی وقت ان بے کار کاموں میں ضائع نہیں کرنا چاہتا ، اور دین کا علم حاصل کرنا چاہتا ہوں۔“ وہ بزرگ جب یہ جواب سنتے ہیں تو بہت خوش ہوتے ہیں اور آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے کامیابی کی دعا دیتے ہوئے دوسرے بچوں سے فرماتے ہیں کہ بچوں تمہارا یہ ساتھی بڑا ہو کر بہت بڑا جرنیل اور اس ریاست میسور کا بادشاہ بنے گا اور ایک مسجد ”مسجد اعلیٰ“ کے نام سے تعمیر کرے گا اور یہ دشمنوں کے خلاف لڑتے ہوئے بہت سی کامیابیاں حاصل کرے گا اور پھر اسلام اور وطن کی خاطر لڑتے ہوئے اپنوں ہی کی غداری کی وجہ سے جام شہادت نوش کرے گا۔“
اتنا کہہ کر وہ بزرگ وہاں سے چلے گئے لیکن وہ ان بچوں کو حیرت میں ڈال گئے۔ وہ بچے، فتح علی ٹیپو کو حیرت سے دیکھنے لگے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب لوگوں نے دیکھا کہ وہ بچہ فتح علی ٹیپو چالیس سال بعد ۴ مئی سن ۹۹۷۱ءکو اپنوں ہی کی غداری کی وجہ سے انگریزوں کے خلاف انہی کے ہاتھوں سرنگا پٹم کے قلعے کے دروازے پر لڑتے ہوئے شدید زخمی ہوا اور زخموں کی تاب نہ لا کر وہیں گر کر شہید ہو گیا اور بعد میں فتح علی ٹیپو سلطان شہید کے نام سے جانا اور پہچانا گیا۔
ٹیپو سلطان ۳۱ صفر المظفر۵۶۱۱ھ بمطابق ۱۲ دسمبر ۰۵۷۱ءکو بنگلور سے ۲۲ میل دور قصبہ دیوان دہلی (یوسف آباد) میں پیدا ہوئے۔ سلطان کے آبائو اجداد قریشی النسل تھے۔ سولہویں صدی کے اواخر میں ان کے خاندان کے ایک بزرگ ٹیپو سلطان کے پردادا محمد علی کے بیٹے فتح محمد نے فوج کی ملازمت اختیار کی۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی والدہ اپنے دونوں بیٹوں حیدر علی اور شہباز علی کو لے کر بنگلور آئیں اور سرنگاپٹم میں مقیم ہوئیں۔ بڑے ہو کر حیدر علی نے بھی فوج میں شمولیت اختیار کی۔
حیدر علی نے اپنے بیٹے ٹیپو سلطان کی تعلیم و تربیت کا معقول انتظام کیا تھا۔ انہیں فقہ، حدیث، عربی، فارسی ، فرانسیسی، انگریزی اور اردو کی تعلیم دلائی۔ ان کے اساتذہ میں ملک الشعراءحضرت علی حسین اور نصیر الدین اختر شامل ہیں۔ ٹیپو کو فن خطاطی اور خوش نویسی میں کافی دلچسپی تھی۔ علم حکمت میں ان کامقام بہت بلند تھا۔ یہ فن مصوری میں بھی ماہر تھے۔ ٹیپو کی عسکری تربیت ماہرین حرب کی نگرانی میں شروع ہوئی۔ انہوں نے بہت جلدشہ سواری، نیزہ بازی، تیر اندازی ، بندوق چلانا، نبوٹ چلانا، پیراکی ، کشتی اور دوبدو جنگ لڑنے میں مہارت حاصل کی۔ ٹیپو سلطان نے میسور پر صرف سولہ سال حکومت کی اور سلطنت کو بے پناہ ترقی دی۔ تجارت و زراعت اور دفاعی شعبہ کو حیرت انگیز طور پر ترقی دی اور بیشتر سماجی و معاشرتی برائیوں کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا۔
مملکت کو دشمن کے حملوں بالخصوص مرہٹوں کی سازشوں اور انگریزوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے فوج کی تنظیم نو کی، اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے فرانسیسی ماہرین حرب کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جا بجا اسلحہ سازی کے کارخانے قائم کیے گئے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ راکٹ تیار کیے گئے۔ فوج کی تعداد بڑھا کر تین لاکھ کر دی گئی۔ ۳۲ سپہ سالار اور تین نائب سپہ سالار مقرر کیے گئے۔ نئے نئے فوجی قوانین اور ضابطے نافذ کیے گئے اور فوجی ڈسپلن کو یقینی بنایا گیا۔ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور جدید تقاضوں کے پیش نظر سلطان نے بحریہ کے قیام کا فیصلہ کیا اور اس کے فروغ پر بھرپور توجہ دی۔ نئے نئے بحری اڈے اور چوکیاں قائم کی گئیں۔ گیارہ امیر البحر اور تین نائب امیر البحر مقرر کیے گئے۔ جہاز سازی کی صنعت کو ترقی دی گئی۔ جہازوں کی تیاری اور ان کی مرمت کے مراکز قائم کیے گئے۔
سلطان بیرونی ممالک سے رابطہ کی اہمیت سے بخوبی واقف تھا۔چنانچہ اس نے فرانس کے نپولین بونا پارٹ کے علاوہ عرب ممالک ، مسقط ، افغانستان، ایران، ترکی اور ہندوستان کے سلاطین سے بھی مفید رابطے قائم کیے۔
ٹیپو سلطان نے حلف برداری کے وقت سلطنت میسور کا نام بدل کر سلطنت خداداد رکھا اور سب کو اس بات کی تاکید کی کہ آئندہ میسور کو اس نام سے پکارا جائے۔
انگریز ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے اور کچھ عرصہ بعد پورے ہندوستان پر قبضے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ اس کی ابتدا بنگال سے ہوئی۔ وہ غدار میر جعفر کی عسکری اعانت سے والی بنگال نواب سراج الدولہ کو پلاسی کے میدان میں شکست دے کر پورے بنگال پر قابض ہوگئے۔ دہلی کی برائے نام حکومت سے ان کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ شمال میں صوبہ جات آگرہ اور اودہ میں ان کا پٹھو والی اودھ نواب شجاع الدوجہ ان کے مفادات کی نگرانی کر رہا تھا۔ جنبو میں نظام حیدر آباد اور مرہٹے ان کے حلیف بن چکے تھے ۔ اب وہ محسوس کررہے تھے کہ برصغیر میں ان کے اقتدار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ والی میسور ٹیپو ہے۔ انہوں نے اس وزنی پتھر کو ہٹانے کے لیے نظام حیدر آباد اور مرہٹہ شاہی سے اتحاد کیا۔
لارڈ ویلزلی ہندوستان کا گورنر جنرل بن کر آیا تو اس نے آتے ہی جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں۔ سلطان کو بے دست و پا کرنے اور ہر قسم کی امداد سے محروم کرنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ طرح طرح کے ہتھکنڈوں ، دھونس، دھمکی اور دھاندلی سے کام لیا۔ داخلی طور پر سازشوں کا جال بچھایا اور عوام کو باور کرایا کہ انگریز اسلامی رسومات کو بہت پسند کرتے ہیں لیکن ٹیپو سلطان ان کا مخالف ہے۔ غرض اس نے مکارانہ حکمت عملی اختیار کی۔ ۰۳ فروری ۹۹۷۱ءکو جنرل ہرس کو حکم دیا کہ وہ میسور پر حملہ کر دے اور الزام لگایا کہ ٹیپو سلطان فرانسیسیوں سے مل کر ہندوستان میں انگریزوں کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ حکم کی تعمیل پر ہرس ۱۲ ہزار فوج کے ساتھ ۰۱ مارچ کو میسور میں داخل ہوا اور بنگلور پر قبضہ کر لیا۔ ٹیپو سلطان سید غفار اور پورنیا کی قیادت میں کچھ فوج چھوڑ کر مشرق کی طرف بڑھا۔ ۲۲ اپریل ۹۹۷۱ءکو جنرل ہرس نے مصالحتی یاداشت سلطان کو پیش کی۔ اس کی شرائط پہلے سے بھی زیادہ سخت اور توہین آمیز تھیں۔ ٹیپو سلطان نے اسے مسترد کر دیا۔
۸۲ اپریل ۹۹۷۱ءکو سرنگا پٹم کے قلعے کے باہر توپیں نصب کرکے گولہ باری شروع کر دی۔ ۳ مئی کو قلعہ کی فصیل میں ایک چھوٹا سا شگاف ہو گیا۔ میر صادق نے شگاف کی حفاظت کرنے والے دستے کو تنخواہ دینے کے بہانے وہاں سے واپس بلا لیا اور انگریز فوجیں مزاحمت کرکے شگاف کے راستے سے قلعہ میں داخل ہو گئیں۔ سلطان اس وقت دوپہر کے کھانے کے لیے بیٹھا ہی تھا کہ اسے اپنے وفادار ساتھیوں سید غفار اور سید حمید کی شہادت کی اطلاع ملی۔ سلطان کھانا چھوڑ کر یہ کہتا ہوا اپنی فوج کی طرف پیادہ بھاگا کہ اب شاید ہم بھی زندہ نہ بچیں۔ سلطان نے فصیل پہنچ کر اپنی منتشر فوج کو مجتمع کرنے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن فوج حوصلہ ہار چکی تھی۔ ٹیپو سلطان گھوڑے پر سوار ہو کر دروازے کی طرف بڑھا جسے پہلے ہی میر صادق نے بند کر دیا تھا تاکہ سلطان باہر نہ جا سکے۔ پھر میر صادق یہ کہہ کر وہاں سے نکلا کہ وہ ابھی کمک لے کر آتا ہے لیکن سلطان کا ایک وفادار ساتھی اس کی غداری کو بھانپ چکا تھا۔ اس نے پے در پے تلوار کے وار کرکے اس غدار کو واصل جہنم کر دیا۔ ٹیپو سلطان نے ایک دروازے سے گزرنے کی کوشش کی جہاں سے قلعہ کے اندر کی طرف راستہ جاتا تھا ۔ وہ تین بار شدید زخمی ہوا لیکن مردانہ وار لڑتا رہا ایک انگریز سپاہی نے سلطان کی قیمتی پیٹی چھیننے کی کوشش کی سلطان نے تلوار کے ایک وار سے اس کا کام تمام کر دیا۔ سلطان ایک تنگ جگہ لڑتا رہا اور تین انگریز سپاہیوں کو ہلاک کیا۔ اچانک ایک گولی سلطان ٹیپو کی کنپٹی میں لگی اور یہ عظےم انسان مرتبہ شہادت پر فائز ہو گیا۔ ”انا ﷲ و انا الیہ راجعون“
دوسرے دن سہ پہر کو اس کا جنازہ اٹھایا گیا ۔ جنازے کا جلوس جس راستے سے گزرا وہاں دونوں جانب کھڑے انگریز سپاہیوں نے اپنی توپوں اور بندوقوں سے سلامی دی۔ جنازے میں شریک ہندو اور مسلمان سب ہی دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے کہ اب کوئی شیر میسور پیدا نہ ہو سکے گا۔“ لال باغ کے مقبرے میں ٹیپو سلطان کو ان کے والد حیدر کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
٭….٭….٭