مسجد اقصٰی


اس مسجد کا تذکرہ …. جسے ہم بھلائے جارہے ہیں

مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے لیے حرمین شریفین کے بعد سب سے اہم اور مقدس مقام ہے۔ مسجد اقصیٰ فلسطین کے شہر یروشلم میں واقع ہے، جو شہر کی سب سے بڑی مسجد بھی ہے۔
اہمیت
مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں کا پہلا قبلہ بھی ہے جہاں مسلمان اپنا منھ کرکے نماز پڑھتے تھے، بعد میں اللہ نے قبلہ کی تبدیلی کا حکم دے دیا تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے مو قع پر سفر کیا تو آپ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے جایا گیا ، جہاں آپ نے تمام انبیا کی امامت کی اور وہاں سے براق کے ذریعے سات آسمانوں کی طرف سفر کیا۔ قرآن مجید نے اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
” پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف جس کے ماحول کو اس نے برکت دی، تاکہ اسے اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائے،حقیقت میں وہی سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔“ (بنی اسرائیل)
احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق بھی تین مساجد حرمین شریفین اور مسجد اقصیٰ کی طرف سفر کر کے جانا برکت کا باعث ہے۔
مسلم تعمیرات:
حضرت عمر ؓ کے دور میں جب بیت المَقدِس فتح ہوا تو آپؓ نے اس مقدس مقام پر مسجد تعمیر کرائی، چونکہ قرآن میں اس مقام کو مسجد اقصیٰ کہا گیا ہے لہٰذا مسجد کا نام بھی اقصیٰ رکھا گیا ہے۔بعد میں خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد کی توسیع کی اور ولید بن عبد الملک نے تزئین و آرائش کے بعد اسے مکمل کیا۔خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی تعمیر میں حصہ ملایا۔
پہلی صلیبی جنگ کے بعد مسجد میں عیسائیوں کا قبضہ ہوگیا تھا۔ انہوں نے مسجد کے ڈھانچے میں رد و بدل کی، اس میں رہائشی کمرے بنائے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھ کر گرجا گھر کا اضافہ کر دیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ءمیںمسجدِ اقصیٰ کو فتح کیا ۔ سلطان نے اس میں سے عیسائی باقیات کاخاتمہ کیا اورمسجدکی دوبارہ تعمیر کی ۔

قبۃ الصخرۃ

مسجد اقصیٰ اور قبة الصخرہ میں فرق:
عربی زبان میں مسجد سجدہ کرنے کہ جگہ کو کہتے ہیں اور مسجد اقصیٰ یا بیت المقدِس کے نام کا اطلاق پورے حرمِ قدسی پر ہوتا ہے جس میں ایک اہم عمارت قبة الصخرة بھی ہے۔ عام طور پر قبة الصخرہ کو مسجداقصیٰ سمجھا جاتا ہے جبکہ مسجدِ اقصیٰ قبة الصخرہ کے جنوب میں واقع ہے۔ دراصل قرآن نے جس جگہ کو مسجد اقصیٰ کہا ہے اس میں مسجد ، قبة الصخرہ اور دیگر عمارتیں شامل ہیں۔قبة الصخرہ ایک سنہرے گنبد والی عمارت ہے، جس کی بنیاد حضرت داود ؑ نے رکھی تھی۔

خصوصیات:
مسجد کا احاطہ پینتیس ہزار مربع فٹ ہے، جس میں تقریباً پانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش موجود ہے۔مسجد کا ایک بڑا گنبد اور ایک مینار بھی ہے۔ مسجد اقصیٰ ابتدائی اسلامی طرزِ تعمیر کا نمونہ ہے۔
سانحہ بیت المقدس:
12 اگست 1969ءمیں ایک یہودی نے مسجد میں آگ لگا دی تھی جس سے مسجد تین گھنٹے تک جلتی رہی اور مسجد کا ایک حصہ مکمل تباہ ہوگیا۔آگ لگنے سے مسجدکے محراب میں موجودصلاح الدین ایوبی ؒ کا نصب کیا ہوا منبر بھی نظر آتش ہوگیا۔
فلسطین پر صیہونی قبضے کے بعد یہودیوں نے مسلمانوں پر جبری پابندیاں لگا دیں اور انھیں مسجد سے دور کرنے کے لیے وہشت ناک ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کردیے ، یہودی اس مسجد کو ہیکلِ سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور مسجد کو ڈھا کر اس کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کے عزائم رکھتے ہیں۔ تمام تر پابندیوں ، ظلم اور جبر کے باوجود بھی فلسطینی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد غاصب یہودیوں کے سامنے بر سرِ پیکار ہے لیکن یہ وہ مسجد ہے کہ شاید جسے ہم بھول چکے ہیں۔