پردہ کھلتا ہے

اسٹیج پر ریلوے کے گیٹ کا منظر۔ گیٹ پر ٹکٹ کلکٹر وردی میں ملبوس کھڑا ہے۔ پوپٹ لال نام کا ایک شخص اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ گیٹ کے باہر جانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی بغل میں ایک مرغا ہے۔ ساتھ میں بیوی اور دو چھوٹے بچے ہیں۔ قلی کے سرپر سامان لدا ہوا ہے۔
پوپٹ لال: ٹی سی صاحب ، یہ رہے دو ٹکٹ۔
ٹکٹ کلکٹر: مرغا کیوں نہیں بک کرایا؟
پوپٹ لال: ہیں…. ہیں…. ہیں۔ مرغا کوئی پڑھا لکھا تھوڑے ہی ہے۔ اس کا بک یا کاپی سے کیا تعلق؟
ٹکٹ کلکٹر: اف فوہ! بک سے میرا مطلب ہے کہ آپ نے اس کا کرایہ دے کر رسید کیوں نہیں بنوائی؟
پوپٹ لال: اب آپ کہیں گے دونوں بچے کیوں نہیں بک کئے؟
ٹکٹ کلکٹر: بچے تین سال سے نیچے ہیں۔
پوپٹ لال: مرغا بھی تین سال سے نیچے ہے۔
ٹکٹ کلکٹر:ساتھ کا سامان بک کرانا ضروری ہے۔
پوپٹ لال: یعنی پراٹھے اور لیموں کا اچار بھی۔
ٹکٹ کلکٹر:وہ کھانے کی چیزیں ہیں۔
پوپٹ لال: مرغا بھی کھانے کی چیز ہے۔ اس کے تایا، ابا اور چچا سب میرے پیٹ میں پہنچ چکے ہیں۔ کیا سمجھے جناب!
ٹکٹ کلکٹر:بحث مت کیجئے۔ مرغے کا کرایہ اور جرمانہ دینا ہوگا آپ کو۔
پوپٹ لال: جرمانہ کیسا؟ مرغے نے کیا جرم کیا ہے؟ کون سی آپ کو چونچ مار دی؟
ٹکٹ کلکٹر:میں کہتا ہوں آپ کو کرایہ اور جرمانہ بھرنا ہی ہوگا۔ (حساب جوڑ کر) نکالیے سولہ روپے پچاس پیسے۔
پوپٹ لال: کیا کہا؟چھ روپے کا مرغا اور ساڑھے سولہ روپے کرایہ؟ آپ مرغا ہی کیوں نہیں لے لیتے؟
ٹکٹ کلکٹر: مجھے کرایے سے مطلب ہے مرغے سے نہیں۔
پوپٹ لال: مجھے مرغے سے مطلب ہے کرایے سے نہیں۔
ٹکٹ کلکٹر:میں پولیس بلاتا ہوں۔
پوپٹ لال: ملٹری بھی بلا لیجئے، مگر پہلے یہ بتائیے کہ اگر میں مرغا کھا کر چلا ہوتا تو کیا پیٹ کا کرایہ دینا پڑتا؟
ٹکٹ کلکٹر:وہ الگ بات ہے۔ آپ تو زندہ مرغا بغل میں داب کر لا رہے ہیں۔
(مرغا بولتا ہے ککڑو کوں…. ککڑوں …. کوں)
پوپٹ لال: اپنی گھڑی ملا لیجئے۔ دن کے ٹھیک بارہ بجے ہیں۔ یہ مرغا اسی وقت سو کر اٹھتا ہے۔
ٹکٹ کلکٹر:مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں۔ کرایہ نکالیے ، مرغے کا۔
پوپٹ لال: (جھنجلا کر) جہنم میں گیا کرایہ۔ دیکھئے، میرے مرغے کا موڈ نہ خراب کیجئے، یہ سو کر اٹھنے کے فوراً بعد نمکین بسکٹ کا ناشتہ کرتا ہے یا تو مجھے باہر جانے دیجئے یا میرے مرغے کے لیے نمکین بسکٹ منگوائیے۔
بیوی: ہے بھگوان! کتنی دیر ہو رہی ہے۔ میں کہہ رہی تھی مرغے کو ساتھ لے کر مت چلو، لیکن….
پوپٹ لال: تم چپ رہو جی۔ یہاں میری نہیں ، میرے مرغے کی عزت کا سوال ہے۔ پردیس میں چھوڑ آتا تو اڑوس کے بچوں کے ساتھ کھیل کر وقت برباد کرتا۔ مجھے اس کا کیریئر چوپٹ نہیں کرنا ہے۔
ٹکٹ کلکٹر: آپ اپنے مرغے کو یونیورسٹی بھجئے یا جرمنی، پہلے کرایہ دیجئے۔
(لوگ گیٹ پر اکٹھے ہو کر ان کی نوک جھونک کا لطف اٹھا رہے ہیں)۔
پوپٹ لال: (تقریر کے انداز میں) بھائیو اور بہنو! آپ دیکھ رہے ہیں کہ مرغے پر کتنا ظلم ہو رہا ہے…. ابھی ابھی بچوں کا سال بیتا ہے اور ننھے منوں پر ظلم ہونے لگا۔ اچھے اور تندرست مرغے اس ملک کی رونق ہیں۔ میرے علاوہ اس مرغے کا بھلا اس دنیا میں اور کون ہے؟
ٹکٹ کلکٹر: (چڑھ کر) تقریر مت کیجئے۔ سیدھی طرح مرغے کا کرایہ اور جرمانہ نکالیے۔ میں رسید دیتا ہوں۔
پوپٹ لال: دیکھ رہے ہو بھائیو! کیا وقت آگیا ہے ، مرغے کی رسید۔ آج تک میں نے نہ جانے کتنے مرغے ڈکار گیا مگر رسید کی بات کبھی نہ نکلی۔
ایک نوجوان: (آگے آکر) آپ یہ مرغا فروخت کریں گے؟ (آنکھ سے اشارہ کرتا ہے)
پوپٹ لال: ضرور کروں گا مگر ایک شرط پر، اسے صبح و شام بسکٹ اور دوپہر میں آملیٹ کھلائیے۔ ہو سکے تو اس کی پڑھائی جاری رکھئے گا۔ ایک دو کتابیں پڑھ چکا ہے۔
نوجوان: (ہنس کر) بہتر ہے۔ لیجئے…. یہ روپے۔
(پوپٹ لال مرغے کی چونچ چوم کر اسے نوجوان کے حوالے کر دیتا ہے)
ٹکٹ کلکٹر: (آگ بگولہ ہو کر) آپ کرایہ نکالتے ہیں یا نہیں؟
پوپٹ لال: کاہے کا کرایہ؟
ٹکٹ کلکٹر: مرغے کا۔
پوپٹ لال: کون سا مرغا؟ میرے پاس کوئی مرغا
ورغا نہیں ہے۔
(ٹکٹ کلکٹر دیکھتا رہ جاتا ہے۔ پوپٹ لال اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ گیٹ کے باہر نکل جاتا ہے۔)
ٹکٹ کلکٹر: (نوجوان سے) آپ دیجئے مرغے کا کرایہ۔
نوجوان: کرایہ؟ کیسا کرایہ؟ میں اسے سفر سے ساتھ تو نہیں لایا۔ آپ سب کے سامنے میں نے اسے پلیٹ فارم پر خریدا ہے۔ اگر مرغے کا پلیٹ فارم ٹکٹ لگتا ہو تو ابھی لے آتا ہوں۔
(مرغے کی چونچ چوم کر) چل بیٹے! تجھے نمکین بسکٹ کھلاتا ہوں۔
(نوجوان مرغے کو لے کر گیٹ کے باہر ہوجاتا ہے۔ ٹکٹ کلکٹر کو کچھ سوجھتا نہیں۔ باہر پوپٹ لال کھڑا ہے۔
نوجوان: (پوپٹ لال کو مرغا دے کر) یہ رہا آپ کا مرغا ۔ اس کی چونچ ذرا تیز ہے۔ مجھے پسند نہیں آئی۔ میرے روپے واپس کر دیجئے۔
(پوپٹ لال مرغے کو سنبھال کر جیب سے روپے نکالتے ہیں اور نوجوان کو دیتے ہیں۔ پھر ہنستے ہوئے دونوں اپنی راہ لیتے ہیں۔ ٹکٹ کلکٹر دانت پیس کر دیکھتا رہ جاتا ہے۔ )

٭….٭

(پردہ گرتا ہے)