بینا صدیقی

محمود کی شادی کی مٹھائی سائرہ بیگم نے کس کس کو بھجوائی…. پڑھیے اس دلچسپ تحریر میں

تانیہ اسکول سے لوٹی تو گھر کے دالان میں مٹھائی کا ایک سجا سجایا ٹوکرا دھرا تھا۔ جس میں مٹھائی کے چھوٹے چھوٹے ڈبے بڑے سلیقے سے جمے ہوئے تھے۔
تانیہ کو مٹھائی بہت پسند تھی۔ وہ اتنی ڈھیر ساری مٹھائی دیکھ کر خوش ہوگئی اور باورچی خانے میں کام کرتی اپنی امی سے پوچھنے لگی: ”امی! یہ اتنی ساری مٹھائی کہاں سے آئی؟“
امی نے باورچی خانے ہی سے آواز لگائی: ”ارے تمھارے بڑے بھائی کی بات پکی ہوئی ہے تو ظاہر ہے اُسی کے سسرال سے آئی ہے…. لڑکی! کیا تم بے ہوش رہتی ہو؟ کل ہی تو ہم بات پکی کرکے آئے تھے اور آج انھوں نے یہ مٹھائی بھیجی ہے۔“
”تانیہ بیٹا…. اچھا ہوا آگئی ہو…. جلدی جاکر اپنے بھائی کے ساتھ شمسی صاحب کو مٹھائی کے دو ڈبے دے آﺅ۔“ اندر سے تانیہ کے ابو محمود صاحب نکل آئے۔
سائرہ بیگم، تانیہ کی امی تڑپ کر باورچی خانے سے باہر آئیں اور جل بھن کر بولیں: ”حد کرتے ہیں۔ شمسی صاحب تو آج تک ہمارے گھر کبھی طلوع نہیں ہوئے۔ ہمیشہ آپ ہی اُن کے گھر دوڑ دوڑ کر جاتے ہیں۔ اب تبریز کی شادی پر بلائیں گے تو دیکھ لیجیے گا، کہیں گے کہ میرے ہی گھر آکر کرلو شادی….“
”میرے خیال میں تو شمسی صاحب ہمارے گھر اکثر آتے ہیں۔ آپ کو اس لیے معلوم نہیں ہوسکا۔ کیوں کہ اکثر اوقات آپ اور آپ کے بچے گہری نیند سورہے ہوتے ہیں۔“ محمود صاحب طنزیہ انداز میں بولے تو امی نے سنی اَن سنی کر دی۔
تانیہ للچائی نظروں سے مٹھائی کا ٹوکرا دیکھ کر لجاجت سے بولی: ”امی…. میں اپنی سہیلی صبا کے گھر بھی مٹھائی لے کر جاﺅں گی۔“
سائرہ بیگم چڑ کر بولیں: ”یہ صبا، وبا ہمیشہ کام کے وقت تمھیں دھوکا دے جاتی ہے۔ یاد ہے امتحان سے دو دن پہلے تمھاری انگریزی کی کاپی گم ہوگئی تھی، میں خود تمھارے ساتھ گئی تھی اس کی کاپی لینے کہ سارا کام فوٹو کاپی کروا لیں گے مگر تمھاری اس نک چڑی سہیلی نے ٹکا سا جواب دیا تھا اور اب تو تم اُس سے کہو کہ مٹھائی کی صرف تصویر پہ گزارا کرے۔“
”مگر امی…. صبا میری سب سے اچھی دوست ہے۔“ تانیہ نے التجا کی۔
”ابھی یہ بات اُسے معلوم نہیں ہوئی کہ وہ تمھاری سب سے اچھی دوست ہے۔ مجھے تو وہ تمھاری پکی دشمن لگتی ہے اور کوئی ضرورت نہیں ہے اس کے لیے اتنا تڑپنے کی۔ جاکے کپڑے بدلو اور برتن میز پر لگاﺅ۔ کھانا لگانا ہے۔“ امی نے دو ٹوک انداز میں کہا تو تانیہ منھ بنا کر اندر چلی گئی۔
٭….٭
کھانے کی میز پر تبریز، تانیہ، تیمور، سائرہ بیگم اور محمود صاحب موجود تھے۔
”امی…. کھانے کے بعد میں گارڈن ایریا کی طرف جارہا ہوں۔ اگر قیصر چچا کے گھر مٹھائی دینی ہے، تو مجھے دے دیجیے گا۔ ان کا گھر راستے میں پڑے گا۔“ تبریز نے روٹی کا نوالہ بناتے ہوئے کہا۔
”بہت خوب بیٹا! اگر اپنی شادی میں جادو ٹونے کا خاص اہتمام کرنا چاہ رہے ہو تو ضرور لے جانا۔“ سائرہ بیگم نے جل کر کہا۔
”لیکن امی وہ ہمارے سگے چچا ہیں۔ بھائی جان کی شادی کی مٹھائی ان کے گھر تو جانی ہی چاہیے۔“ تانیہ نے حیران ہو کر کہا۔
”ارے میں تو کہتی ہوں، شادی ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے اُنھیں خبر ہونی چاہیے کہ تبریز کی شادی ہو رہی ہے۔ ورنہ تمھاری چچی حسد میں آکر ایسا جادو چلائیں گی کہ شادی کی تقریب میں انگارے برسیں گے۔“ سائرہ بیگم نے غصے میں کہا۔
”ہاں یہ تو ہے۔ فیروزہ چچی نے عالیہ باجی کی شادی پر بھی بہت ہنگامہ کیا تھا۔ میرے خیال میں انھیں پورے خاندان سے جلنے کا لائسنس ملا ہوا ہے۔“ تیمور نے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
”تو پھر فائزہ خالہ کی مٹھائی تو ضرور ہی دے دیجیے۔ ان کا گھر بھی راستے میں پڑتا ہے۔“ تبریز نے سنجیدگی سے کہا۔
”ارے فائزہ خالہ خود تو بہت اچھی ہیں لیکن ان کی بیٹی فرح سے مجھے سخت چڑ ہے۔ ہم جب بھی ان کے گھر گئے، فرح کو سوتا ہوا پایا اور پھر فرح نے ہمیشہ میرے پیٹھ پیچھے میری برائیاں کی ہیں۔“ تانیہ غصے سے بولی۔
”حالاں کہ اُسے تمھارے منھ پر برائیاں کرنی چاہیے تھیں۔“ تیمور نے مذاقاً کہا تو تانیہ کو مزید غصہ آگیا۔
”جو بھی ہو…. مٹھائی اُن کے گھر نہیں جائے گی۔ کسی دن فائزہ خالہ اکیلی ہم سے ملنے آئیں تو ہم ان کو چاے کے ساتھ کھلا دیں گے۔“ تانیہ نے فیصلہ سنایا۔
”افوہ کم از کم شمسی صاحب تو….“ محمود صاحب ہکلائے۔
”ابو شمسی صاحب کے بیٹے نے میری بائیک کو ٹکر ماری تھی اور اُلٹا خود ہی لڑنے کھڑا ہوگیا تھا۔ اب کم از کم میری شادی کی مٹھائی تو اُس کے منھ میں ہرگز نہیں جائے گی۔“ تبریز کو بھی یاد آگیا تھا۔
”اپنی سلمیٰ پھوپھو کو بھجوا دو ورنہ وہ شکایت کریں گی۔“ محمود صاحب نے کچھ نرمی سے سفارش کی۔
”سلمیٰ کو تو اس دنیا میں آتے ہی شکایت ہوگئی تھی۔ اب مٹھائی نہ بھیجیں تو صرف ایک شکایت اور ہوگی کہ تبریز کی شادی کی مٹھائی نہیں آئی لیکن اگر بھیج دی تو دو سو شکایتیں ہوجائیں گی کہ مٹھائی اتنی کم کیوں تھی؟ مٹھائی باسی تھی۔ مٹھائی میں شیرہ سوکھ گیا تھا۔ مٹھائی میری بیٹی اور بھانجی کے لیے کیوں الگ ڈبے میں نہیں بھیجی؟ مٹھائی کا رنگ، سائز اور گولائی ناپیں گی۔ اس میں سے کچھ مسئلے نکال لیں گی۔ اس سے بہتر ہے کہ مٹھائی نہ ہی بھیجی جائے۔ مثل مشہور ہے کہ دسترخوان نہ بچھانے میں ایک عیب اور بچھانے میں سو عیب۔“ سائرہ بیگم تیز تیز بولتی چلی گئیں۔
”حد ہوگئی بھئی یعنی یہ مٹھائی کا بھرا ٹوکرا ہم گھر والے اکیلے اکیلے کھائیں گے؟ ہمارے پیٹ ہیں یا کنوئیں….“ محمود صاحب غصے سے بولے۔
”دیکھوں گی…. کچھ خاص خاص لوگوں کو بھجوا دوں گی۔“ سائرہ بیگم سوچتے ہوئے بولیں۔
”خاص خاص لوگ وہی ہوں گے، جو قوتِ گویائی سے محروم ہوں، تاکہ آپ کو کچھ کہہ نہ سکیں، جب کہ آپ کی خوشامد کرنے والی پڑوسنیں اور ماسیاں بھی خاص لوگوں کی فہرست میں شامل ہیں۔“ محمود صاحب طنزیہ لہجے میں بولے اور کرسی پیچھے کرکے اٹھ کھڑے ہوئے۔
وہ اپنے کمرے میں چلے گئے تو تانیہ نے افسوس سے کہا: ”لگتا ہے…. ابو ناراض ہوگئے۔ امی سلمیٰ پھپھو کو تو ضرور مٹھائی بھیج دیں۔ ورنہ ابو ناراض ہی رہیں گے۔“
”سلمیٰ پھپھو کو بھیجیں یا نہ بھیجیں لیکن شمسی صاحب کے مکار بیٹے کے پاس مٹھائی نہیں پہنچنی چاہیے۔“ تبریز نے اُٹھتے ہوئے کہا اور چلا گیا۔
”تانیہ تم خاموش رہو۔ یہ بڑوں کا معاملہ ہے۔ بڑوں کو دیکھنے دو…. اچھا! یہ لو ایک ڈبہ، کل اسکول میں اپنی سہیلیوں میں مٹھائی بانٹ دینا۔“ سائرہ بیگم نے اُٹھ کر ٹوکرے سے ایک عدد ڈبہ نکال کر تانیہ کی طرف بڑھا دیا۔
”حد ہوگئی امی…. یہ اکیلا ڈبہ جس میں ایک پاﺅ مٹھائی ہے۔ اسکول کی بارہ تیرہ سہیلیوں میں کیسے بانٹی جاسکتی ہے؟“ تانیہ نے جھنجھلا کر کہا۔
”اسی لیے کہتی تھی، حساب کے مضمون میں بھائی سے مدد لے لو۔ اس میں ہوتے ہیں ایسے سوال کہ اگر پاﺅ بھر مٹھائی بارہ لڑکیوں میں بانٹنی ہو تو اس کے کتنے ٹکڑے کیے جائیں گے۔“ سائرہ بیگم اپنی دانست میں مسئلے کا حل بتا کر چلی گئیں۔
”وہ بھی بارہ ندیدی سہیلیوں کے لیے….“ تیمور نے ٹکڑا لگایا۔
”تیمور بھائی…. مجھے امی سے بارہ ایسے ڈبے دلوا دیں ناں پلیز….“ تانیہ نے بھائی کا بازو پکڑ کر ملتجیانہ لہجے میں کہا۔
”بارہ؟ میں تو چوبیس دلوا دوں گا۔ ایسے ڈبے…. بس اُنھیں خالی ہونے دو۔“ تیمور نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا۔
”حد ہوگئی، میں مٹھائی کی بات کر رہی ہوں۔“ تانیہ نے غصے سے پیر پٹخے۔
”تم نے کہا، تم کو بارہ ایسے ڈبے چاہئیں۔ یہ نہیں کہا کہ مٹھائی سے بھرے ہوئے یا خالی؟“ تیمور نے ہنس کر کہا۔
”پلیز بھائی آپ امی کے لاڈلے ہیں۔ دلوا دیں ناں، میں نے سب سہیلیوں کو بتایا ہے کہ میرے بھائی کی شادی ہورہی ہے۔“ تانیہ نے درخواست کی۔
”میں تو امی کا لاڈلا ہوں لیکن تم میری اتنی لاڈلی نہیں کہ میں شیر کے کچھار میں ہاتھ ڈال دوں۔“ تیمور نے ہری جھنڈی دکھاتے ہوئے کہا تو تانیہ ایک ننھا سا ڈبہ ہاتھ میں تھامے کھڑی رہ گئی۔
”یہ بھی نہیں لے جاتی۔ اتنی ننھی منی سی مٹھائی کے ریزے بانٹوں گی کیا؟ سہیلیاں مذاق اُڑائیں گی۔ اس سے بہتر ہے مٹھائی لے کر ہی نہ جاﺅں۔“ تانیہ نے غصے سے ڈبہ واپس ٹوکری میں رکھا اور چلی گئی۔
٭….٭
”یہ بدبو کہاں سے آرہی ہے؟ لگتا ہے کچن میں کوئی چوہا مرگیا ہے۔“ تانیہ پانی پینے گئی تو بدبو سے اُس کا دماغ پھٹنے لگا۔
”بیٹا یہ مٹھائی کا ٹوکرا ہے، جو فریج میں نہیں رکھا گیا اور لوگوں کے پیٹ میں پہنچنے سے بھی روک دیا گیا۔ ساری مٹھائی اب بدبو دینے لگی ہے۔ محلے داروں میں مٹھائی تو نہیں لیکن اس کی بدبو ضرور تقسیم ہو رہی ہے۔“ محمود صاحب نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”ارے کوئی خراب نہیں ہوئی مٹھائی۔ تھوڑی ہوا لگے گی تو ٹھیک ہوجائے گی۔“ سائرہ بیگم نے جلدی سے کہا۔
”دیکھ لو….! تمھاری امی اب بھی مٹھائی کی سڑاند سے مطمئن نہیں۔“ محمود صاحب چڑ کر تانیہ سے بولے۔
”وہ اصل میں…. میں فہرست بنا رہی تھی۔ شام کو تبریز اور تیمور آئیں گے، تو ان کے ہاتھ سلمیٰ، فائزہ اور باقی رشتے داروں کو بھجوا دوں گی۔ تانیہ تم بھی بارہ ڈبے مانگ رہی تھیں…. لے جانا کل۔“ سائرہ بیگم گھبرا کر بولیں۔
”خبردار…. اگر اپنی سہیلیوں کی موت نہیں چاہتی تو اس مٹھائی کو تو کیا؟ اس کے ذکر کو بھی نہ لے جانا اور حد ہوتی ہے بیگم! یہ مٹھائی اب زہر ہے زہر…. تمھیں یہ مٹھائی میری ہی بہن کے گھر بھیجنی ہے کیا؟ یہ ٹوکرا تو اب کچرا کنڈی میں بھی نہ پھینکنا۔ کوئی معصوم کچرا چننے والا یہ مٹھائی کھا لے گا تو جان سے جائے گا۔“ محمود صاحب غصے سے گرجے تو سائرہ بیگم سہم کر مٹھائی کے ٹوکرے کو دیکھنے لگیں۔ پھر زمین پر بیٹھ کر مٹھائی کا ایک ایک ڈبہ سونگھنے لگیں۔ انھیں اندازہ ہوا کہ واقعی ساری مٹھائی سڑچکی ہے کیوں کہ وہ دودھ کھوئے سے بنی ہوئی تھی اور پچھلے ایک ہفتے سے رکھی تھی، ٹوکرا بڑا تھا ورنہ فریج میں ٹھونس دیتیں۔
تبریز، تیمور گھر لوٹے تو ان کے والد گھر کے باہر گڑھا کھود کر اس میں زہریلی مٹھائی دفن کر رہے تھے۔
”ارے ابو یہ کیا….؟ کیا ہوا، وہ مٹھائی جو کسی کو کھانے نہیں دی جارہی تھی۔ آج دفن کی جا رہی ہے؟“ تبریز نے اُن کی طرف لپک کر کہا۔
”جی ہاں بیٹے، کیوں کہ اس کے اندر سڑاند پیدا ہوچکی ہے اور اب یہ کسی انسان کے نہیں، صرف زمین کا پیٹ بھرنے کے کام آسکتی ہے۔ تمھاری ماں تو اب بھی بانٹنے پر تلی تھی۔ میں نے پولیس کیس ہونے کا خوف دلا کر یہ ضد چھڑوائی ہے کہ اگر اسے کوئی کھا کر مرگیا تو قتل کا الزام مٹھائی دینے والے پر آئے گا۔“ محمود صاحب کہتے چلے گئے۔
تیمور اور تبریز نے اپنے ابو سے مٹھائی کے ڈبے لے کر خود دفن کر دیے اور ہر خالی ڈبے کو پھینکتے ہوئے تبریز کی نگاہوں میں وہ لوگ گھوم رہے تھے، جن کے گھر یہ مٹھائی جاسکتی تھی۔ اتنے میں کچرا چننے والا آکے حسرت بھری نظروں سے دیکھ کر کہنے لگا: ”صاحب! مجھے دے دو۔ میں نے دو سال سے مٹھائی نہیں کھائی۔“
تبریز کے دل کو کچھ ہوا۔ اس نے ہاتھوں سے مٹی جھاڑی اور کہا: ”آﺅ تمھیں دکان سے تازہ دلوا دیتا ہوں۔“
تبریز کچرا چننے والے کے ساتھ چلا گیا۔ گھر کے دروازے پر کھڑی تانیہ دور تک اُنھیں جاتا دیکھتی رہی۔
٭….٭
اس تحریر کے مشکل الفاظ
دالان: بالا خانہ کے دروازے کے باہر کا سائبا، برآمدہ
لجاجت: عاجزی، منت سماجت، خوشامد
کچھار : دریا کے قریب کی نشیبی زمین، ترائی جس میں اکثر شیر رہتا ہے
سڑاند: سڑی ہوئی چیز کی بدبو