”علی نے موقع دیکھ کر موبائل اٹھایا اور گوگل کی طرف اُنگلی بڑھائی…. مگر یہ کیا….وہ غائب تھا۔“پڑھیے ایک دل چسپ تحریر

 

ڈاکٹر زیڈ اے خان نے مسکرا تے ہوئے اپنے معاون کو دیکھا اور کہا: ”بالآخر ہم کامیاب ہوگئے ہیں…. تم دیکھنا میری یہ کارگزاری ملک میں انقلاب برپا کردے گی۔“

وہ خوشی سے کمپیوٹر کی اسکرین کو دیکھ رہے تھے۔

”میرا خیال ہے اس سے فائدے کے بجاے نقصان ہی ہوگا۔ پورے ملک میںایک تہلکہ مچ جائے گا۔“ معاون امجد نے بے زاری سے جواب دیا۔

”تہلکہ تو واقعی مچے گا….“ ڈاکٹر زیڈ اے خان نے امجد کو دیکھا جواُن کے منصوبہ کی کامیابی پر کچھ خاص خوش نہ تھا۔

امجد کے چہرے پر فکر مندی کے آثار تھے۔

٭….٭

علی نے ڈائری بستے سے نکالی تو اسے یاد آیا کہ آج ٹیچر نے تحقیقی نوعیت کا کام دیا تھا، جس کے لیے لائبریری جا کر کتب تلاش کرنی تھیں۔

”اب کون جا کر کتابوں میں سے ڈھونڈے۔ میں ’گوگل‘ ہی کر لیتا ہوں۔“ علی نے والدہ کے موبائل کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔

امی باورچی خانے میں برتن دھو رہی تھیں۔ موقع ساز گار دیکھ کر علی نے موبائل اٹھایا اور گوگل ایپ کی طرف انگلی بڑھائی۔

مگر یہ کیا….؟ موبائل میں سے گوگل غائب تھا! اس نے جلدی جلدی پورا موبائل چھان مارا۔ ری۔اسٹارٹ کرکے دیکھا مگر گوگل کہیں کھو چکا تھا….! ایک ایک کرکے آپی، ابو سب کے موبائل دیکھ لیے لیکن اُسے گوگل کہیں نہ ملا۔

”اُف اب لائبریری جانا پڑے گا۔“ علی زیرِ لب بڑبڑایا۔

٭….٭

آمنہ نے آج گھر پر نہاری کی دعوت رکھی تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ آمنہ کو نہاری پکانی نہیں آتی تھی۔ امی نے لاکھ سمجھایا کہ پہلے ایک بار مجھے پکاتا دیکھ لو پھر جب ٹھیک سے بنانی آجائے تو سہیلیوں کو بلا لینا۔

”امی میں گوگل سے سیکھ لوں گی ناں۔ ’یوٹیوب‘ پر بہت اچھی ترکیبیں سکھاتے ہیں۔“ آمنہ نے امی سے کہا۔

”لیکن بیٹا ذائقہ تو گھر گھر کا ہوتا ہے نا۔ جو بزرگ سکھا سکتے ہیں وہ یوٹیوب تھوڑی سکھا سکتا!“ امی نے محبت بھرے انداز میں سمجھایا۔

”رہنے دو دلہن آج کی نسل کو، پکانے دو کم از کم گیم چھوڑ کر ہنڈیا روٹی تو سیکھے گی۔ ایک ہمارا زمانہ تھا۔ ہم نے تو اپنی امی اور چاچی سے سیکھا۔ مسالے کوٹنا، چٹنی بنانا، روٹی ڈالنا، چاے اور کھانے بنانا۔ بہت پیار سے بتاتی تھیں۔ اگر پکاتے ہوئے غلطی ہوجاتی تو اس کی بھی ترکیبیں تھیں اُن کے پاس۔ نمک زیادہ ہوجائے تو تھوڑا آٹا ڈال دو۔ پانی زیادہ ہو جائے تو تیز آنچ پر رکھ دو یہ ساری چیزیں تجربہ سے آتی ہیں۔“

آمنہ کی دادی نے ان کی باتیں سن کر امی کو مخاطب کیا۔

”جی امی…. بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ۔“ امی نے پریشان پریشان لہجے میں جواب دیا۔

عین وقت پر آمنہ نے نہاری کی ترکیب گوگل کرنے کے لیے موبائل کھولا تو اس کے منھ سے بے اختیار چیخ نکلی:

”امی امی! گوگل ….!“

”کیا ہوا….؟“ امی نے فکر مندی سے پوچھا۔

”امی موبائل میں گوگل نہیں ہے۔“امی نے آکر دیکھا تو واقعی گوگل کہیں نہ ملا۔

”اب میں کیا کروں؟“ آمنہ نے روتے لہجے میں پوچھا۔

 ”دعوت منسوخ کردو میری مانو تو۔“ احمد زہریلی ہنسی ہنستے ہوئے آدھمکا۔

”نہیں….نہیں۔ امی مہربانی کرکے آپ پکا دیں ناں۔ اگلی مرتبہ پکا آپ سے سیکھوں گی اچھی بیٹی بن کر۔“ آمنہ نے مسکا لگا یا توامی نے سوچا چلو اِسی بہانے سیکھ تو لے گی ۔ اور ہامی بھر لی۔

وہ تو عین دعوت کے وقت دادی نے امی سے یہ پوچھ کر بھانڈا پھوڑ دیا کہ ’دلہن‘ پانی کتنا ڈالا تھا شوربے میں…. بہت اچھا پکایا ہے ۔“

بس یہ سن کر ساری سہیلیوں نے آمنہ کو دیکھا جو اب تک جوش و خروش سے سب کو یہی بتا رہی تھی کہ اُسی نے نہاری بنائی ہے اورپھر ہنسی کا ایک فوارہ پھوٹا۔

٭….٭

آہستہ آہستہ گوگل کی گم شدگی کا احساس پورے ملک میں پھیل رہا تھا۔

”آخر گوگل کہاں ہے ؟“ یہ سوال پورے ملک کے لوگوں کے ذہن میں گزشتہ ایک مہینے سے تھا۔ لوگوں کو تمام کام اپنے بل بوتے پر کرنے پڑرہے تھے۔

اچانک ٹی وی میں تمام خبروں کے چینلز پر ایک ہی تقریر نشر ہونا شروع ہوگئی۔

”السلام علیکم دوستو! میرا نام ڈاکٹر زیڈ اے خان ہے اور میں نے ہی گوگل کو غائب کیا ہے۔“

یہ دیکھ کر سبھی لوگ متوجہ ہوگئے۔

”میں کافی عرصے سے محسوس کر رہا تھا کہ گوگل ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو کھا رہا تھا، لوگوں کو راستے تک یاد نہیں ہورہے اور وہ ’گوگل میپ‘ کے بغیر رشتہ داروں کے ہاں تک نہیں جاپارہے تھے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ کتابوں سے دُور ہوچکے تھے اور ہر وقت فضول ویڈیوز اور گیمز میں اپنا قیمتی وقت ضائع کررہے تھے۔

لوگوں کے پاس دوستوں، رشتے داروں اور پڑوسیوں کے لیے وقت ہی نہیں بچ رہا تھا۔ اسی قسم کی دوسری برائیوں کی وجہ سے ہماری قوم تباہ و برباد ہورہی تھی تو میں نے فیصلہ کیا کہ گوگل ہی غائب کردوں۔“

ڈاکٹر خان سانس لینے کے لیے رُکے۔

”میں نے ان کو منع بھی کیا تھا ایسا کرنے سے۔“ اسکرین پر معاون امجد کی بے چارگی بھری شکل اُبھری:

”میری بیگم بھی گوگل ہی سے دیکھ کر ’میک اپ‘ کرتی تھیں۔“

”تم چپ رہو امجد….“ ڈاکٹر خان نے اسے خاموش کروایا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے گویا ہوئے: ”ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میں نے گوگل کیوں غائب کیا اور ہاں….! واقعی اس ایک مہینے میں بہت بہتری آئی ہے۔ بہت سے لوگوں نے عید کے علاوہ بھی رشتے داروں کی خبر گیری کی ہے اور تو اور پچھلے ہفتے ہونے والے امتحانات میں ۹۹فیصد بچے اچھے نمبروں سے پاس ہوئے ہیں جو کہ حیران کن بات ہے۔“

یہ سن کر سبھی سوچنے لگے کہ واقعی بہتری تو آئی ہے۔ ڈاکٹر خان نے بات جاری رکھی:

” لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اب میری چاہت ہے کہ گوگل واپس لے آﺅں۔“

”آخر کیوں؟“ کئی لوگوں کے منھ سے نکلا جن میں سے ایک علی کی امی بھی تھیں۔

”اس لیے کہ میں چاہتا ہوں آپ لوگ گوگل کا درست استعمال کریں۔ کیوں کہ کچھ حد تک یہ ایجاد فائدہ مند بھی ہے۔ مجھے بھی سائنس دانوں کی ای میلز ایک ماہ سے موصول نہیںہورہی ہیں۔“ ڈاکٹر خان مسکرائے۔

”پیارے ساتھیو! جہاں ایجادات کے فوائد ہوتے ہیں وہیں اُن کے نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ چیزوں کا درست استعمال کریں اور اپنی ذات، ارد گرد، کائنات پر غور کرنا چاہیے۔ لیجیے اب گوگل بحال کردیا ہے۔“ڈاکٹر خان نے اپنی بات کا اختتام کیا اور دھیرے سے ایک آنکھ دباتے ہوئے گویا ہوئے۔ ”آپ سب بھی میرا چینل سبسکرائب کیجیے اور ہاں…. بیل آئیکن دبانا مت بھولیے گا۔“

٭….٭