ٹرن …. ٹرن…. نن….ن ن
ٹیلی فون کی گھنٹی جب مسلسل بجنی شروع ہوئی تو لحاف اوڑھے مائیکل کو بالآخر ہاتھ نکال کر ریسیو ر اٹھانا پڑا۔
” یس مائیکل اسپیکنگ !“ مائیکل نے حتی الامکان لہجے میں نیند کی آمیزش محسوس نہ ہونے دی۔
”سر میں نیلسن بول رہا ہوں، ایک بری خبر ہے۔“
دوسری جانب سے نیلسن نے کہا تو مائیکل چونک کر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
” کیسی بری خبر؟“
” سر آج رات کو کنگ ایڈورڈ کالج میں ایک طالبعلم کو قتل کر دیا گیا ہے۔“
”کیا؟“ یہ خبر مائیکل کے لیے کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔ کیونکہ کل ہی اس کالج کے حوالے سے ایک فائل اس کے زیر مطالعہ تھی جس میں صرف بیس سال پہلے ایک قتل ہوا تھا جس کے بارے میں بعد میں پتا چلا کہ وہ ایک خودکشی کا واقعہ تھا۔ نیلسن نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
” سر ! وہ کوئی چور تھا جو چوری کرنے آیا تھا، پیٹرسن نے اسے دیکھ لیا…. وہ۔“ مائیکل نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
” یہ پیٹرسن کون ہے؟“
”سر وہ طالب علم ، جو قتل ہوا۔“ نیلسن نے جواب دیا۔
” سر اس نے شور مچانے کی کوشش کی تو چور نے خنجر مار کر اسے شدید زخمی کر دیا اور اتنی دیر میں اس کے روم میٹ جونز کی آنکھ کھلی تو چور فرار ہو چکا تھا۔ پیٹرسن کو فوراً ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ چکا تھا۔“
نیلسن نے تفصیل بتائی۔
”تم نے تفتیش کے لیے کوئی عملہ روانہ کیا ہے۔“
” یس سر! عملہ روانہ کر دیا ہے۔ آپ کو اطلاع دینے کے لیے میں رک گیا تھا۔“
”اچھا …. تم ایسا کرو کہ کالج جا¶…. میں بھی آدھے گھنٹے میں آتا ہوں۔“ مائیکل نے وقت کا حساب لگا کر کہا۔
”ٹھیک ہے سر!“ دوسری جانب سے نیلسن نے جواب دیا تو مائیکل نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
مائیکل ایک پولیس انسپکٹر تھا۔ دو ماہ قبل اس کا نیویارک کے اس چھوٹے سے قصبے ہیٹی میں تبادلہ ہوا تھا۔ یہاں اگرچہ چوری کی چھوٹی موٹی وارداتیں ہوا کرتی تھیں مگر قتل شاذو نادر ہی ہوا کرتے تھے اور اب تو ایک ایسے کالج میں قتل ہوا جہاں 20سال پہلے ایک طالب علم نے خودکشی کی تھی، تو اس پر میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ مائیکل نے سوچا کہ مجھے قاتل کو فوراً گرفتار کرنا ہوگا۔ اس سے پہلے کہ میڈیا کو اس واقعے کی بھنک بھی پڑے….
٭….٭
کالج پہنچ کر مائیکل نے اس کمرے کا جائزہ لیا جہاں پیٹرسن کو چور نے خنجر مار کر اسے ہلاک کر دیا تھا۔ ‘ اس کمرے میں باہر کی جانب ایک کھڑکی کھلتی ہے اور کسی بھی چور کے لیے مشکل وقت میں وہاں سے چھلانگ لگا کر فرار ہو جانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔“ نیلسن نے مائیکل کو بتایا۔ مائیکل نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
پیٹرسن کا روم میٹ ”جونز“ اس واقعہ پر کافی پریشان تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے دوست کی موت سے بہت ڈرا ہوا ہے۔
” کیا تم نے چور کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے؟ کیا اس کا حلیہ تمہےں یاد ہے۔“ مائیکل نے جونز سے پوچھا۔
” نہیں مجھے اس کا چہرہ یاد نہیں ہے کیوں کہ میں صرف اس کی پیٹھ ہی دیکھ سکا تھا۔ اس وقت پیٹرسن کی حالت کافی خراب تھی ۔خنجر اس کے پیٹ میں بری طرح دھنس چکا تھا اور وہ بری طرح تڑپ رہا تھا ۔میری ساری توجہ اس کی جانب تھی۔
جونز نے مزید بتایا کہ ”چور نے شاید چہرہ چھپانے کے لیے یہ کپڑا منہ پر باندھ رکھا تھا۔ جو پیٹرسن سے مزاحمت کے دوران کمرے میں گر گیا تھا۔“
مائیکل نے دستانے پہن کر کپڑے کو دیکھا وہ واقعی چہرے پر لپیٹنے والا رومال تھا۔
نیلسن نے کپڑا دیکھ کر کہا۔ ” اب ہمارا کام کافی آسان ہوجائے گا۔ جاسوسی کتوں سے کام لینے کا وقت آگیا ہے۔“
ویسے بھی ہیٹی قصبہ کوئی اتنا بڑا بھی نہیں تھا کہ جاسوسی کتوں کو کوئی پریشانی پیش آتی۔ اگر قاتل چور قصبہ میں ہے تو وہ ضرور پکڑا جاتا….
مائیکل نے نیلسن کو کپڑا پکڑاتے ہوئے فوری کاروائی شروع کرنے کا حکم دیا۔
٭….٭
تقریباً دو گھنٹے بعد مائیکل پولیس اسٹیشن میں اپنے آفس میں بیٹھا ناشتے میں مصروف تھا کہ نیلسن چہرے پر ایک پرجوش مسکراہٹ کے ساتھ اندر داخل ہوا۔
” سر کامیابی مبارک ہو، قاتل چور پکڑا گیا۔“
”کم از کم مجھے ناشتہ تو کر لینے دیتے، کہاں ہے قاتل چور۔“
مائیکل کا چہرہ سپاٹ تھا۔
ابھی مائیکل کی بات زبان پر تھی کہ چار سپاہیوں کی حراست میں ایک درمیانے قد، منحنی(جھکا ہوا) سا جسم اور چھوٹی آنکھوں والا شخص لڑکھڑاتے ہوئے داخل ہوا۔
”سر کھڑکی سے چھلانگ لگاتے ہوئے اس کی بائیں ٹانگ بھی زخمی ہو گئی تھی۔ یہ مقامی کلب میں ملازم ہے اور اس قسم کی یہ وارداتیں کر چکا ہے۔ کافی پھسڈی ثابت ہوا…. میں نے ہاتھ جما کر کیا لگائے…. فر فر بولنا شروع کر دیا۔“
نیلسن نے اپنا کارنامہ بیان کرتے ہوئے کہا…. لیکن مائیکل کے چہرے پر ہلکی سی بے چینی ابھی بھی محسوس کی جا رہی تھی۔
٭….٭
اس واقعے کے چار دن بعد مائیکل آفس میں بیٹھا ایک سائنسی میگزین کی ورق گردانی کررہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک رپورٹ پر پڑی۔ خبر پڑھ کر مائیکل اتنی زور سے اچھلا۔ جتنا وہ اچھل سکتا تھا۔ پاس بیٹھے نیلسن نے بھی چونک کر اپنے باس کی جانب نظر ڈالی۔
” کیا ہوا سر؟“
” یہ خبر پڑھو….“ مائیکل نے میگزین اس کی جانب کھسکاتے ہوئے کہا۔ اب اچھلنے کی باری نیلسن کی تھی ۔ وہ دونوں میز پر کوئی لمحہ ضائع کیے تیر کی مانند پولیس اسٹیشن سے نکلے….
پولیس اسٹیشن میں بیٹھے دوسرے ساتھیوں نے ان کی پھرتی پر حیرت کا اظہار کیا…. لیکن اس وقت تک وہ گاڑی میں بیٹھے کالج روانہ ہو چکے تھے۔ کالج کے پرنسپل نے ایک بار پھر جب کالج کی دہلیز پر پولیس کو دیکھا تو ان کے چہرے پر ناخوشگوار تاثرات ابھر آئے۔
” آپ لوگوں نے تو قاتل پکڑ لیا ہے پھر کیسے آنا ہوا؟“ پرنسپل نے حتی الامکان چہرے پر مسکراہٹ برقرار رکھتے ہوئے پوچھا۔
” جناب پرنسپل صاحب ! کیا یہ کالج میڈیکل کی تعلیم دیتا ہے؟“ مائیکل نے الٹا سوال کیا۔
” جی…. یہ کالج میڈکل کے طلبہ کا ہے۔“ پرنسپل نے اطمینان بھرے لہجے میں کہا۔
آپ کا کہنا ٹھیک ہے کہ قاتل پکڑا جا چکا ہے لیکن مارنے والے چور کے علاوہ ایک قاتل اور بھی ہے۔“
” کیا؟“ پرنسپل حیرت سے چیخ پڑا۔
” جی ہاں! اور وہ قاتل آپ کے کالج میں ہے۔“
” جی…. کیا مطلب…. پرنسپل کے چہرے پر خوف کے تاثرات ابھر آئے۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ اس سے کالج کی مزید بدنامی ہوجائے گی۔
” مطلب یہ کہ مسٹر پیٹریسن کے روم میٹ دوست مسٹر جونز ان کے قاتل ہیں۔“
” یہ نہیں ہو سکتا…. ضرور اس میں کوئی سازش چھپی ہے۔“ پرنسپل حواس باختہ ہو گیا۔
” آپ نے جو کچھ بھی کہنا ہے عدالت میں آکر کہیں۔“ اس بار نیلسن نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
٭….٭
عدالتی کاروائی جاری تھی۔ حکومتی وکیل کے دلائل کافی تھے۔ پوری عدالت ان کو بغور سن رہی تھی۔
” اس رات جب چور کو معلوم ہوا کہ وہ بری طرح پھنس جائے گا تو اس نے پیٹرسن کو خنجر مار کر زخمی کر دیا۔ اس وقت مسٹر جونز کی آنکھ کھلی ، عدالت یہ نوٹ کرے کہ اس رات مسٹر پیٹرسن اور مسٹر جونز کا جھگڑا ہوا تھا۔ دوران تفتیش مسٹر جونز نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے امتحانات میں پاس ہونے کے لےے پیپر کو غیر قانونی طریقے سے چوری کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ جس پر پیٹرسن نے اسے منع کیا اورباز نہ آنے پر پرنسپل کو سب کچھ سچ سچ بتانے کا ارادہ کیا۔ جس کی وجہ سے دونوں روم میٹ دوستوں کا جھگڑا ہو گیا لیکن رات کا وقت ہونے کی وجہ سے پرنسپل کو صبح ہی شکایت لگائی جا سکتی تھی۔
لیکن …. رات کو آنے والے چور نے جب خنجر پیٹرسن کے پیٹ میں اتارا تو اس وقت جونز کے اٹھنے پر وہ خنجر نکالے بغیر فرار ہو گیا لیکن رومال گر جانے کی وجہ سے وہ پکڑا گیا۔ “ وکیل نے گہرا سانس خارج کیا۔ سب مبہوت ہو کر سنسنی خیز کہانی سن رہے تھے۔
” اصل کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے، خنجر پیٹرسن کے پھیپھڑوں میں اتر چکا تھااور میڈیکل کا طالب علم یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ پھپھڑے میں لگا خنجر نکال لینا خنجر نہ نکالنے سے زیادہ خطرناک اور مہلک ہے۔ میڈیکل کی رو سے ایسی حالت میں خنجر نکال لیا جائے تو زخمی فوراً مر جاتا ہے لیکن اگر خنجر کو آپریشن کے ذریعے نکالا جائے تو زخمی کے بچنے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔“
عدالت اور مسٹر جونز کے ہمدردوںکو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ زخمی پیٹرسن سے خنجر کو نکالنے کی غلطی مسٹر جونز نے جان بوجھ کر کی تھی۔ مسٹر جونز نہےں چاہتا تھا کہ وہ اس بہترین موقع کو گنوائے…. صبح پرنسپل کو چوری کے علم ہوجانے کے ڈر سے مسٹر جونز اس گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے۔“
عدالت میں آئے ہوئے ڈاکٹروں نے بھی اس صورتحال میں مسٹر جونز کو قاتل ٹھہرایا جس نے محض ذرا سی رنجش کے بدلے اپنے دوست کو اذیت ناک موت کے حوالے کر دیا۔
عدالت میں مکمل طور پر سناٹا چھایا ہوا تھ۔ عدالت نے قاتل چور اور مسٹر جونز کو عمر قید کی سزا سنائی۔ انسپکٹر مائیکل، اپنے اسسٹنٹ نیلسن کو دیکھ کر مسکرا دیا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ اگر وہ میگزین میں وہ رپورٹ نہ پڑھتا کہ جس میں لکھا تھا کہ پھیپھڑوں میں خنجر لگنے کے بعد اسے فوراً نہےں نکالنا چاہیے، اگر ایسا کیا گیا تو زخمی فوراً مر جائے گا ، تو شاید آج مسٹر جونز قاتل ہونے کے باوجود کوئی سزا نہیں پاتا۔
اس لیے کہتے ہیں کہ جرم کبھی نہیں چھپتا ، چاہے وہ سات پردوں کے پیچھے چھپ کر کیوں نہ کیا جائے۔
٭….٭