ڈاکٹر نے کونا وائرس کی تصدیق کے بعد بھائی کو گھر میں ہی آئسولیٹ’’
ہونے کی تجویز دی ہے۔‘‘ عائلہ نے کہا۔ پڑھیے قرنطین پر ایک دل چسپ تحریر

موبائل فون کی گھنٹی ٹنٹنائی۔
’’نومی! عائلہ! کہاں ہو تم لوگ؟ دیکھو! ذرا کس کا فون ہے۔‘‘ فوزیہ نے آواز لگائی تو نے موبائل فون پکڑایا اور نہ ہی اس کی ٹنٹناہٹ بند ہوئی۔
’’پتا نہیں کہاں سوگئے اور یہ منحوس مارا موبائل بھی وقت بے وقت بجتا ہی رہتا ہے۔ جب سے شامت اعمال کورونا نامی بلا لوگوں کو چمٹی ہے، لوگ گھروں میں بند ہیں اور موبائل کو کُھلا چھوڑ رکھا ہے… اُف میرے گھٹنے… ہاے…‘‘ کہتی ہوئی خود ہی اُٹھ کر موبائل فون ڈھونڈا۔
٭…٭
پورا دن موبائل میں کھپتا کیوں کہ کورونا کی وجہ سے دونوں بہنیں چھٹیوں پر تھیں۔ نندیں، دیورانیاں جٹھانیاں یہاں تک کہ فوزیہ کی بیاسی سالہ والدہ بھی ہر دو منٹ کے بعد رابطے کے لیے تین انگلی جتنے آلے کا سہارا لے رہی تھیں۔
ایک کی کال آتی کہ ہمارے یہاں کورونا کے چار مریض ہیں۔ پورے علاقے کو بند کر دیا ہے تو دوسرا فون آتا کہ ہم نے تو فی سبیل اللہ راشن کی تقسیم کا کام وسیع پیمانے پر شروع کر دیا ہے۔ ایک تھیلے کی دو سے تین ہزار روپے کی لاگت آتی ہے۔
اگلا فون آتا ہے: ’’اے فوزیہ کورونا کا علاج دریافت ہوگیا۔ کچا پیاز نمک لگا کے کھائو۔‘‘
کال سن کے اُٹھ بھی نہ پائی تھی کہ پھر سے آواز سنائی دی: ’’فوزی! میری مانو عائلہ اور نومی کو گھر سے باہر نہیں نکلنے دینا۔‘‘
فون کالز سن سن کے فوزیہ کے کانوں سے دھواں نکلنا اور طبیعت بیزار ہونا شروع ہوگئی تھی۔ نمازیں الگ متاثر ہوئیں۔ ایک کام دو منٹ کا کہہ کر شروع کرتی مگر دن ڈھل جاتا کام مکمل نہیں ہوتا۔ سارا دن لمبی لمبی کالوں نے جیسے توانائی نچوڑ کر رکھ دی ہو۔ تنگ آکر موبائل عائلہ اور نومی کے حوالے کر دیا اور کہا: ’’تم دونوں اسے اپنے پاس ہی رکھو۔ خالہ وغیرہ سے خود ہی حال احوال دریافت کرلیا کرو۔ اگر کوئی بہت ضروری کال ہو تو مجھ سے بات کروا دینا۔‘‘
٭…٭
’’خدا کی پناہ… رمضان میں بس کچھ ہی دن رہ گئے ہیں اور کوئی تیاری نہیں ہوئی ہے۔ سارا دن کورونا کی تسبیح کرتے گزر جاتا ہے۔‘‘ فوزیہ نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا۔
دو دن تک بے حد سکون رہا کیوں کہ موبائل فون بچوں کے پاس تھا اور وہ گھر کے کام کاج کے ساتھ نماز روزے کا بھی بھرپور اہتمام کرتی رہیں۔
اب جب فون کی گھنٹی بجی تو اپنے تئیں یہی سمجھتی رہیں کہ ابھی دونوں بچوں میں سے کوئی آکر کال اُٹھائے گا۔ مگر کافی دیر تک کوئی نہیں آیا تو چار و ناچار انھیں خود ہی اُٹھنا پڑا۔ اس سے پہلے کہ وہ موبائل اپنے ہاتھ میں اُٹھاتی گھنٹی کی آواز بند ہوگئی اور وہ نومی اور عائلہ کی تلاش میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ وہ دونوں ہی غائب تھے۔ فوزیہ نے دونوں کمروں میں جھانکا تو کمرے بھی خالی تھے، دروازے اور لائٹس بند جب کہ لائونج میں بھی بالکل سنّاٹا تھا۔
’’یا الٰہی! یہ دونوں کدھر چلے گئے؟‘‘ فوزیہ کو تشویش لاحق ہوئی تو انھوں نے ایک بار پھر باآواز بلند پکارا: ’’نومی… عائلہ! کہاں ہو تم لوگ…؟‘‘
لیکن نومی اور عائلہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔
گھر کی بیرون جانب مہمان خانے میں انھوں نے سرسری سا جھانکا تو ایک دم ساکت رہ گئیں۔ عائلہ دروازے کے پاس اسٹول پر بیٹھی تھی، جب کہ نومی صوفے پر لیٹا مشکل سے سانس لے رہا تھا۔
کھانسی کی آواز نے ان کے پائوں پکڑ لیے۔ کچھ دنوں سے نومی کو نزلہ زکام ہو رہا تھا اور جسم بھی تھکاوٹ کا شکار تھا۔ اُٹھتے بیٹھتے بس یہی کہتا: ’’امی سینے میں درد ہے… امی گلا پکا ہوا ہے۔‘‘
فکر مندی کی کوئی بات نہیں تھی کیوں کہ وہ پہلے بھی نزلہ، زکام اور کئی مرتبہ نمونیے جیسی مہلک بیماری کا شکار بھی ہوا تھا، لیکن اللہ کے فضل سے شفا یاب ہوا، مگر جب سے کورونا نے دنیا کو اپنے پنجوں میں جکڑا ہے۔ تب سے نزلہ کھانسی تو واقعی تشویش کی بات ہے۔
وہ فکر مندی سے اس کا بخار چیک کرنے کے لیے آگے بڑھیں تو عائلہ وحشت ناک انداز میں چِلّائی: ’’خدا کے لیے امی بھائی کے پاس نہیں جائیں۔‘‘
اس کی آواز میں وحشت کے ساتھ خوف اور پریشانی بھی نمایاں تھی۔
موٹے موٹے آنسو خدا جانے ایک ہی پل میں کہاں سے جمع ہو کر عائلہ کے رُخساروں پر بہنے لگے۔
فوزیہ کا دل دہل گیا۔ وہ کہنے لگیں: ’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو…؟ میں اپنے نومی کو ہاتھ کیوں نہ لگائوں…؟‘‘
’’امی بھائی کو کورونا ہوگیا ہے۔‘‘ عائلہ دونوں ہاتھوں میں منھ چھپا کے روتے ہوئے کہنے لگی۔
فوزیہ کو ایسا لگا جیسا کسی نے اس کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی ہو۔ وہ خوف سے چِلّائی: ’’کیا بکواس کر رہی ہو تم…؟‘‘
’’جی امی میں سچ کہہ رہی ہوں۔ وہ بھائی کا معمولی نزلہ زکام اندر ہی اندر بگڑ گیا اور دو چار چھینکوں سے گلا پک گیا۔ بھائی کل صبح سے مجھے متلی اور سر چکرانے کا بھی کہہ رہے تھے… اور تو اور رات کو ان کی طبیعت مزید خراب ہوگئی تھی۔ آج بھائی نے اپنے دوست کے ابو جو ڈاکٹر ہیں، اُنھیں بھی کال کی وہ حالیہ دنوں میں کورونا کے مریضوں کو دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے بھائی سے کُرید کُرید کر سوال پوچھنے کے بعد ان میں کورونا وائرس کی تصدیق کی ہے اور گھر میں ہی آئسولیٹ ہونے کی تجویز دی ہے اور سختی سے کہا ہے کہ لوگوں سے بالکل بھی میل جول نہیں رکھنا۔ بار بار بھاپ لیتے رہنا… گرم پانی کے غرّارے کرتے رہنا۔ ساتھ ہی بخار کی دوا کھاتے رہنا… بس دو ہفتے ان ہدایات پر عمل کرو گے تو بالکل ٹھیک ہوجائو گے۔ انھوں نے مزید یہ بھی کہا ہے کہ…‘‘ عائلہ نے ایک لمبی سانس لی اور پھر کہا: ’’اگر تمھیں اپنا مردہ خراب کروانا ہے۔ بہن اور ماں کو میڈیا پر تماشا بنوانا ہے… اپنا پورا علاقہ سِیل کروانا ہے تو بیشک کورونا فری نمبر پر کال کرلو۔‘‘
فوزیہ نے آنے والے وقت کا تصور کر کے جھرجھری لیتے ہوئے کہا: ’’اللہ نہ کرے ایسا ہو۔ ورنہ سارا سوشل میڈیا شکاری کتوں کی طرح سونگھتا ہوا یہاں پہنچ جائے گا۔‘‘
انھوں نے بہتے آنسوؤں کو پونچھ کر سسکیاں لیتے ہوئے عائلہ کو سینے سے لگایا۔
دروازے پر کھڑے کھڑے ایک دو نہیں بلکہ پوری چالیس ہدایات نومی کو دیتے ہوئے کہا: ’’دیکھو بیٹے! یہ مشکل دن ہیں۔ تم پریشان بالکل مت ہونا… عائلہ تمھارے لیے ڈرائنگ روم کے دروازے پر ہی بستر لگا دے گی۔‘‘
پھر اچانک اُنھیں بخار چیک کرنے کا خیال آیا۔ وہ تھرمامیٹر لینے ہی گئی تھیں کہ عائلہ نے کہا: ’’امی! یہ دیکھیں تھرمامیٹر بھائی کے پاس ہی رکھا ہے۔‘‘
فوزیہ نے دستانے پہن کے تھرمامیٹر منھ سے لگا کے دو منٹ بعد نکالا اور حیرت سے کہا: ’’اُف میرے خدایا! ایک سو تین بخار… عائلہ تم بھائی کو جوشاندہ بنا کے دو۔ میں صدقہ دے کر آتی ہوں۔‘‘
وہ تیزی سے اندرونی حصہ کی طرف بھاگیں۔
’’اُف… عائلہ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ نومی کی طبیعت اتنی زیادہ خراب ہے۔‘‘ امی نے واپس آکر پریشانی میں کہا۔
عائلہ دھیمے لہجہ میں بولی: ’’امی جان! آپ کو بتا دیتی تو آپ فوراً ڈاکٹر افضل سے رابطہ کرتی اور پھر معاملہ بگڑ جاتا… آپ کو یاد نہیں دو تین ہفتہ قبل آپ نے ہمیں دانیہ آنٹی کی ایک آڈیو سنائی تھی۔ جن کی بیٹی برطانیہ سے کورونا کی مریض بن کر آئی تھی تو اسے بھی آئسولیشن سینٹر لے گئے تھے اور وہاں اسے کتنے دن بھوکا رکھا تھا۔‘‘
’’بھائی گھر میں ہی ٹھیک ہوجائے گا۔ شفا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ پلیز بھول کے بھی کسی سے اس کا ذکر نہیں کیجیے گا، ورنہ ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی والی بات ہوجائے گی۔ سارے ملک کا میڈیا اور رینجرز اِدھر پہنچ جائیں گے۔ پھر ہم دونوں کے بھی ٹیسٹ کروائے جائیں گے۔ وہ تو اچھا ہوا کام والی ماسی اور ڈرائیور انکل نے چھٹی لے لی ورنہ معلوم نہیں کیا ہوتا۔ بس اللہ جو کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہے۔‘‘ سولہ سالہ عائلہ نے دادی نانی کی طرح ہاتھ اٹھا کے اللہ کا شکر ادا کیا۔
٭…٭
فوزیہ ڈرائنگ روم سے باہر تو آگئی مگر سارا دن رہ رہ کے اُدھر ہی دیکھتی رہی۔ ڈرائنگ روم میں کبھی گرم سوپ بھجوایا تو کبھی شہد ملا گرم پانی… جب بھی ڈرائنگ روم سے عجیب و غریب کھانسنے کی آواز آتی تو اُس کادل بے قابو ہو جاتا… یہ بھی شکر تھا کہ ڈرائنگ روم… لمبا برآمدہ اور صحن عبور کرکے دروازے کے ساتھ تھا ورنہ تو وہ بھی بوریا بستر اس کے دروازے پر ہی ڈال لیتی۔
سارا دن وہ کبھی تسبیح میں مشغول ہو جاتی تو کبھی نوافل کی نیت باندھ لیتی۔ خدا خدا کرکے جب رات گئے بخار کا زور کم ہوا اور کھانسی کی شدت میں بھی کمی واقع ہوئی تو وہ سونے کے لیے بستر پر چلی گئی۔
٭…٭
اگلی صبح امی بہت اُداس تھیں۔ نماز پڑھنے اور قرآن کی تلاوت کے بعد جب وہ کچن میں آئیں تو عائلہ چاے بنارہی تھی۔
’’امی آپ اُٹھ گئیں۔‘‘ عائلہ نے امی کو کچن میں دیکھ کر کہا۔
’’بھائی سویا ہوا ہے۔ ان کا بخار بھی کم ہوگیا ہے۔ ان شاء اللہ وہ جلد ہی ٹھیک ہوجائے گا۔ آپ کمرے میں جائیں۔ میں آپ کے لیے ناشتہ لے آتی ہوں۔‘‘ عائلہ ماں کا دُکھی چہرہ دیکھ کر اُنھیں کندھوں سے پکڑ کے اندر کمرے میں بٹھا کر چلی گئی۔
عائلہ چند ہی منٹوں میں ناشتے کے ساتھ گرما گرم بھاپ اُڑاتی چاے کا کپ بھی لے آئی۔
فوزیہ نے نظر اُٹھا کے بیٹی کی طرف دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں کہا: ’’بیٹیاں… واقعی رحمت ہوتی ہیں۔ اگر عائلہ نہ ہوتی تو یہ مشکل وقت مزید مشکل ہوجاتا۔ اللہ تیرا شکر ہے تو نے مجھے بیٹی عطا کی۔‘‘
ناشتے کے بعد وہ دوبارہ لیٹ گئیں اور کچھ ہی دیر میں ان کی ملاقات نیند سے ہوگئی۔ کافی دیر کے بعد جب ان کی آنکھ کھلی تو اُنھوں نے سامنے دیوار پر لگی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا: ’’اُف بارہ بج کر دس منٹ۔ میں اتنا کیسے سو گئی…؟‘‘
فوزیہ نے اُٹھ کے باہر کی طرف دیکھا تو عائلہ پورے گھر کی صفائی کر چکی تھی اور اب باورچی خانے میں کھٹرپٹر کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ماں کو کمرے کے دروازے پر کھڑا دیکھ کے وہ رُومال سے ہاتھ پونچھتی ہوئی ماں کی طرف آئی اور کہنے لگی: ’’امی جان! آنٹی عابدہ کا فون آیا تھا۔ آپ کو سلام کہا اور پیغام دیا ہے کہ انھیں آپ سے ضروری کام ہے۔ عدّت میں ہونے کی وجہ سے وہ خود نہیں آسکتی۔ انھوں نے آپ کو ملنے بلایا ہے۔‘‘
’’اوہ… ہاں! وہ صدقہ کی رقم اُسی کو دے آئوں گی۔ بیچاری کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ میاں بھی ڈیڑھ ماہ پہلے چل بسا۔‘‘ امی کو پرانے محلہ کی پڑوسن یاد آگئی۔
اُنھوں نے صدقہ کی رقم نکالی اور چادر اُوڑھتے ہوئے عائلہ کو بھائی کا خیال رکھنے کی نصیحت کی اور جاتے جاتے ڈرائنگ روم میں دیکھا تو نومی ماسک پہنے ہوئے گہری نیند میں تھا۔
فوزیہ آیت الکرسی اور آیاتِ شفا کا دم کر کے گھر سے باہر چلی گئی۔ عابدہ کا گھر ساتھ والی گلی میں ہی تھا۔ جونہی گلی ختم ہوئی اور وہ دوسری گلی میں داخل ہونے لگیں تو اچانک انھیں یاد آیا کہ کل جو گوبھی گوشت کا سالن اور بریانی بنائی تھی، وہ بھی ساتھ لے چلتی ہوں کیوں کہ کھانسی اور بخار میں گوبھی اور چاول تو منع ہیں۔ اچھا ہے… دُعا ہی دے گی۔
وہ اُلٹے پائوں واپس آئیں۔
گیٹ ابھی عائلہ نے بند نہیں کیا تھا۔ وہ دبے پائوں اندر داخل ہوئیں کہ کہیں نومی کی آنکھ نہ کھل جائے۔ جونہی انھوں نے گھر کے اندر دوسرا قدم رکھا تو اُنھیں نومی کی زور دار قہقہہ سنائی دیا۔ وہ دوڑ کر ڈرائنگ روم میں پہنچی۔
کہاں کا ماسک اور کہاں کے دستانے… دونوں مزے سے لیز اور کولڈ ڈرنک انجوائے کر رہے تھے۔
پھٹی پھٹی نگاہوں سے وہ دونوں کو دیکھ رہی تھیں۔ جیسے ہی نومی کی نظر امی پر پڑی تو کولڈرنگ اس کے گلے میں اٹک گئی اور وہ ہکلاتے ہوئے بولا: ’’امی… وہ… میں…‘‘
عائلہ فوراً اُٹھ کر امی کے غصہ ہونے سے پہلے بول اُٹھی: ’’سوری امی رانگ نمبر…‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ فوزیہ کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
’’امی پلیز… ہمیں غلط مت سمجھنا۔ ہم نے عید کے بعد اسکول میں ہونے والی فئیر ویل پارٹی کے لیے ایک ڈراما لکھا تھا اور ہم اسی کی مشق کر رہے تھے۔‘‘ عائلہ نے کہا۔
نومی، امی کے پاس آکے ملتجیانہ انداز میں کہنے لگا: ’’امی سوری… ہم نے سوچا اتنے دن ہوگئے، آپ کے ہاتھ کے بنے گرما گرم کھانے اور سوپ سے لطف اُٹھائے اور کچھ کھاتے پیتے ہم دونوں آرام سے ترکش ڈرامے ارطغرل کا پانچواں سیزن بھی دیکھ لیں گے اور… اور…‘‘
نومی نے امی کو چپل اُٹھاتے دیکھ کر بیان بدلا: ’’اور اپنی پیاری سی امی سے اپنے لیے ڈھیروں دعائیں بھی کروائیں گے۔ جو وہ کورونا کی وجہ سے سارا دن فون کالز کی وجہ سے کرنا بھول گئی تھیں۔‘‘
فوزیہ کا غصہ ابھی بھی کم نہیں ہو پا رہا تھا۔
’’بدتمیزو…! اتنا سنگین مزاق۔ اگر کچھ ہوجاتا تو؟‘‘ امی تیز لہجہ میں بولیں۔
عائلہ زور سے ہنستے ہوئے بولی: ’’ایسے ہی ہوجاتا۔ بھائی نے پیاز بغل میں رکھ کر جو بخار چڑھایا تھا۔ وہ اتنا خطرناک تھوڑی تھا۔ بس تھرمامیٹر کو ہم گرم پانی کے کپ میں ایک سیکنڈ کے لیے ڈالتے تھے۔ آج ہم نے نارمل پانی میں ڈال کے بخار بھی اُتار لینا تھا۔‘‘
امی سر پکڑ کے بیٹھتے ہوئی کہنے لگی: ’’اور وہ کھانسی؟‘‘
اب کی بار نومی ہنستے ہوئے بولا: ’’پیاری امی جان! وہ تو چائنا کے کورونا کے مریضوں کی کھانسی کی وڈیو تھی۔ جو ہم ہر دو گھنٹے بعد موبائل کے اسپیکر پر آپ کو سناتے تھے۔‘‘
’’اچھا…!‘‘ امی نے اچھا ذرا کھینچ کر کہا۔
’’ہماری اس شرارت کے لیے سوری امی جان…‘‘ نومی اور عائلہ نے یک زبان ہوکر کہا۔
’’اب تو بس ایک ہی شرط پر معافی ملے گی۔‘‘ امی نے کہا تو ہماری مسکراہٹ یک دم غائب ہوگئی۔
’’وہ کیا امی…؟‘‘ عائلہ اور نومی اکھٹے بولے۔
’’وہ یہ کہ تم دونوں کو پورے مہینے وقت پر نماز ادا کرنی ہوگی اور گھر کے سارے کام بھی کرنے ہوں گے اور یہ کہ…‘‘ وہ پُراسرار سا ہنسیں۔
عائلہ اور نومی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا: ’’اور کیا… آپ بتائیں ناں…‘‘
’’بتاتی ہوں… بتاتی ہوں… تمھیں، تمھاری اس شاندار اداکاری کی سزا تو ملنی ہی چاہیے ناں…‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگیں۔
’’اور وہ یہ کہ… تم دونوں سال بھر سے شمالی علاقہ جات جانے کے لیے جو رقم میرے پاس جمع کروا رہے تھے وہ تو اب نومی کے صدقہ میں نکل چکی ہے… اور اس مرتبہ تم دونوں کی عیدی بھی تمھاری جیبوں کے بجاے کورونا راشن فنڈ میں جائے گئی… اور تم دونوں ایک ایک پیسے کے لیے ترسو گے۔ پھر اپنی اداکاری یاد کر لیا کرنا۔‘‘ امی نے سزا سنائی تو نومی چِلّایا: ’’نہیں امی…‘‘
’’چوں کرو یا چاں… اب یہ تو ہوگا۔ ہاں…! اگلی عید پر سوچا جاسکتا ہے۔ فی الحال تو جمع شدہ رقم اور متوقع عیدی کورونا راشن فنڈ میں منتقل ہونے پر اپنے تاثرات پر مبنی نیا ڈراما لکھو… پھر پتا چلے گا۔‘‘ امی نے تنبیہ کی اور ڈرائنگ روم سے باہر چلی گئیں مگر یہ سنتے ہی وہ دونوں بے سدھ صوفے پر گر پڑے۔

٭…٭

اس تحریر کے نئے الفاظ
قرنطین: وہ زمانہ اور جگہ جب مسافروں یا ایسے جہازوں کو جن پر کوئی وبا پھیل گئی ہو یا پھیلنے کا اندیشہ ہو یا بیماروں کو جبراً سب سے علیحدہ رکھا جائے تاکہ وبا پھیلنے نہ پائے، قرنطینہ زیادہ مستعمل ہے
جٹھانی: جیٹھ کی بیوی (جیٹھ: خاوند کا بڑا بھائی)
آئسولیٹ: الگ کرنا، جُدا کرنا
آئسولیشن سینٹر: وہ جگہ جہاں کسی وبا کے شکار مریض کو رکھا جاتا ہے
ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی: منھ سے بات نکلتے ہی مشہور ہو جاتی ہے، بات کہتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے ورنہ فوراً پھیل جاتی ہے