اگرچہ انسان نے اپنی تاریخ میں ”اہرام مصر“ اور ”مینار بابل“ جیسی بلند قامت عمارتیں تعمیر کی ہیں لیکن وہ عمارتیں پتھر اور اینٹ سے بنائی گئی تھیں۔ ان عمارتوں کا سارا بوجھ بنیادوں پر ہی پڑتا جاتا تھا، اس لیے بنیادیں بہت بڑی اور وسیع بنانا پڑتیں تاکہ وہ بوجھ برداشت کرسکیں۔ یوں عمارت کے اندر جگہ بہت تنگ ہوجاتی۔
۰۰۸۱ءکی دہائی میں یہ سب کچھ تبدیل ہونے لگا، جب متعدد عوامل نے کئی منزلہ عمارتوں کو بھی ممکن بنا دیا۔ اس دور میں آبادی نیویارک، بوسٹن اور لندن جیسی بندرگاہوں پر منتقل ہونے لگی تھی اور ”صنعتی انقلاب“ روز گار کے نئے مواقع پیدا کررہا تھا لیکن تجارتی اور رہائشی مقاصد کے لیے شہروں میں گنجائش محدود تھی۔ اب تعمیر صرف اوپر کی طرف ہی کرنا ممکن تھا۔ جس سے تعمیرات میں دیگی لوہے کے استعمال کا رجحان ایک دم بڑھ گیا کیوں کہ یہ کم قیمت اور وزن میں اینٹ اور پتھر والا نفیس تاثر دینے کے قابل تھا۔ نیز لوہے کی مدد سے عمارت کا ڈھانچہ یا پنجرہ بھی بنایا جاسکتا تھا، جس کی وجہ سے بوجھ تقسیم ہوجاتا۔فلک بوس عمارتیں
اگرچہ انسان نے اپنی تاریخ میں ”اہرام مصر“ اور ”مینار بابل“ جیسی بلند قامت عمارتیں تعمیر کی ہیں لیکن وہ عمارتیں پتھر اور اینٹ سے بنائی گئی تھیں۔ ان عمارتوں کا سارا بوجھ بنیادوں پر ہی پڑتا جاتا تھا، اس لیے بنیادیں بہت بڑی اور وسیع بنانا پڑتیں تاکہ وہ بوجھ برداشت کرسکیں۔ یوں عمارت کے اندر جگہ بہت تنگ ہوجاتی۔
۰۰۸۱ءکی دہائی میں یہ سب کچھ تبدیل ہونے لگا، جب متعدد عوامل نے کئی منزلہ عمارتوں کو بھی ممکن بنا دیا۔ اس دور میں آبادی نیویارک، بوسٹن اور لندن جیسی بندرگاہوں پر منتقل ہونے لگی تھی اور ”صنعتی انقلاب“ روز گار کے نئے مواقع پیدا کررہا تھا لیکن تجارتی اور رہائشی مقاصد کے لیے شہروں میں گنجائش محدود تھی۔ اب تعمیر صرف اوپر کی طرف ہی کرنا ممکن تھا۔ جس سے تعمیرات میں دیگی لوہے کے استعمال کا رجحان ایک دم بڑھ گیا کیوں کہ یہ کم قیمت اور وزن میں اینٹ اور پتھر والا نفیس تاثر دینے کے قابل تھا۔ نیز لوہے کی مدد سے عمارت کا ڈھانچہ یا پنجرہ بھی بنایا جاسکتا تھا، جس کی وجہ سے بوجھ تقسیم ہوجاتا۔
۱۷۸۱ءمیں ایک بہت بڑی آتش زدگی نے ڈاﺅن ٹاﺅن شکاگو کا وسیع حصہ جلا کر خاک کردیا۔ تعمیر نو کے عمل نے شکاگو کو اسکائی اسکریپر یا فلک بوس عمارت کی جائے پیدائش بنا دیا اور پہلی فلک بوس عمارت ”ہوم انشورنس بلڈنگ“ کو قرار دیا گیا۔ اس دس منزلہ بلڈنگ کا ڈھانچہ لوہے کا تھا اور اسے ”ولیم لیبیرن جینی“ نامی عمارت ساز نے ڈیزائن کیا۔ یہ عمارت ۱۳۹۱ءمیں مسمار کر دی گئی۔
امریکا کے شہر نیویارک اور شکاگو میں ہی بلند اور کئی منزلہ عمارتیں بننا شروع ہوئیں۔ کرائزلر کارپوریشن کے مالک ’والٹر پَیرسی کرائزلر‘ نے ۳۱۹۱ءمیں ولیم ایلن نامی عمارت ساز کے ساتھ مل کر اپنے نام سے دنیا کی بلند ترین عمارت یعنی ۵۲۹ فٹ اونچی عمارت بنانے کا منصوبہ بنایا مگر تکمیل کے بعد اس کی کُل اونچائی ۶۴۰۱ءفٹ ماپی گئی۔
دنیا کی بلند ترین عمارت بنانے پر والٹر کا غرور زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہا کیوں کہ ۹۲۹۱ءمیں کچھ عمارتوں پر کام شروع ہوا، جنھیں اب بھی دنیا کی مشہور ترین عمارت ہونے کا شرف حاصل ہے۔
ایک ’ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ‘ کا منصوبہ ۰۲۹۱ءبھی شامل ہے۔ منصوبے کے مطابق عمارت کی ۲۰۱ منزلیں (۰۵۲۱ فٹ) تھیں۔ اس پر کام بڑی تیزی سے شروع ہوا اور ۱۳۹۱ءمیں مکمل ہوگیا۔ یہ ’ورلڈ ٹریڈ سینٹر‘ (۰۵۳۱ فٹ) سے پہلے (۰۷۹۱ئ) تک دنیا کی بلند ترین عمارت تھی۔
نئے اور جدید عمارت سازوں نے گلاس باکس اسٹائل کو اپنایا جس کی وجہ سے کشادگی اور روشنی کا احساس پیدا ہوا۔ اسی انداز میں بنائی گئی ”یو این بلڈنگ“ ۳۵۹۱ءمیں مکمل ہوئی۔
تائی پے ۱۰۱ تائیوان کی ایک بلند ترین عمارت جسے ۴ جنوری ۰۱۰۲ءسے قبل دنیا کی بلند ترین عمارت ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔
۴ جنوری ۰۱۰۲ءمیں تعمیر ہونے والی دنیا کی بلند ترین عمارت کا نام ”برج خلیفہ“ ہے۔ یہ عمارت متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں واقع ہے۔ اس بلند ترین عمارت کی لمبائی ۸۲۸ میٹر یعنی ۲۲۷۲ فٹ بتائی جاتی ہے۔ یہ عمارت ایک سو ساٹھ منزلوں پر مشتمل ہے۔ برج خلیفہ کی تکمیل سے مشرق وسطی نے ایک مرتبہ پھر دنیا کی بلند ترین عمارت کا اعزاز حاصل کر لیا ہے، جو ۳ ہزار سال تک اہرام مصر کی صورت میں اس خطے کو حاصل تھا۔ گزشتہ سات سو سالوں سے مشرق وسطی اس اعزاز سے محروم تھا۔

۱۷۸۱ءمیں ایک بہت بڑی آتش زدگی نے ڈاﺅن ٹاﺅن شکاگو کا وسیع حصہ جلا کر خاک کردیا۔ تعمیر نو کے عمل نے شکاگو کو اسکائی اسکریپر یا فلک بوس عمارت کی جائے پیدائش بنا دیا اور پہلی فلک بوس عمارت ”ہوم انشورنس بلڈنگ“ کو قرار دیا گیا۔ اس دس منزلہ بلڈنگ کا ڈھانچہ لوہے کا تھا اور اسے ”ولیم لیبیرن جینی“ نامی عمارت ساز نے ڈیزائن کیا۔ یہ عمارت ۱۳۹۱ءمیں مسمار کر دی گئی۔
امریکا کے شہر نیویارک اور شکاگو میں ہی بلند اور کئی منزلہ عمارتیں بننا شروع ہوئیں۔ کرائزلر کارپوریشن کے مالک ’والٹر پَیرسی کرائزلر‘ نے ۳۱۹۱ءمیں ولیم ایلن نامی عمارت ساز کے ساتھ مل کر اپنے نام سے دنیا کی بلند ترین عمارت یعنی ۵۲۹ فٹ اونچی عمارت بنانے کا منصوبہ بنایا مگر تکمیل کے بعد اس کی کُل اونچائی ۶۴۰۱ءفٹ ماپی گئی۔
دنیا کی بلند ترین عمارت بنانے پر والٹر کا غرور زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہا کیوں کہ ۹۲۹۱ءمیں کچھ عمارتوں پر کام شروع ہوا، جنھیں اب بھی دنیا کی مشہور ترین عمارت ہونے کا شرف حاصل ہے۔
ایک ’ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ‘ کا منصوبہ ۰۲۹۱ءبھی شامل ہے۔ منصوبے کے مطابق عمارت کی ۲۰۱ منزلیں (۰۵۲۱ فٹ) تھیں۔ اس پر کام بڑی تیزی سے شروع ہوا اور ۱۳۹۱ءمیں مکمل ہوگیا۔ یہ ’ورلڈ ٹریڈ سینٹر‘ (۰۵۳۱ فٹ) سے پہلے (۰۷۹۱ئ) تک دنیا کی بلند ترین عمارت تھی۔
نئے اور جدید عمارت سازوں نے گلاس باکس اسٹائل کو اپنایا جس کی وجہ سے کشادگی اور روشنی کا احساس پیدا ہوا۔ اسی انداز میں بنائی گئی ”یو این بلڈنگ“ ۳۵۹۱ءمیں مکمل ہوئی۔
تائی پے ۱۰۱ تائیوان کی ایک بلند ترین عمارت جسے ۴ جنوری ۰۱۰۲ءسے قبل دنیا کی بلند ترین عمارت ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔
۴ جنوری ۰۱۰۲ءمیں تعمیر ہونے والی دنیا کی بلند ترین عمارت کا نام ”برج خلیفہ“ ہے۔ یہ عمارت متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں واقع ہے۔ اس بلند ترین عمارت کی لمبائی ۸۲۸ میٹر یعنی ۲۲۷۲ فٹ بتائی جاتی ہے۔ یہ عمارت ایک سو ساٹھ منزلوں پر مشتمل ہے۔ برج خلیفہ کی تکمیل سے مشرق وسطی نے ایک مرتبہ پھر دنیا کی بلند ترین عمارت کا اعزاز حاصل کر لیا ہے، جو ۳ ہزار سال تک اہرام مصر کی صورت میں اس خطے کو حاصل تھا۔ گزشتہ سات سو سالوں سے مشرق وسطی اس اعزاز سے محروم تھا۔